بھورےپن کے ساتھ زندگی گزارنا
بھورےپن کے ساتھ زندگی گزارنا
بینن سے جاگو! کا نامہنگار
جان جس کا تعلق مغربی افریقہ سے ہے بینن اور نائیجریا کے سرحدی علاقے میں رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”جب کبھی مَیں کوئی فارم پُر کرنے لگتا ہوں اور مجھے اپنے خاندان کے بارے میں معلومات دینی ہوتی ہیں تو مَیں ہمیشہ لکھتا ہوں، ’سیاہفام‘ لیکن درحقیقت مَیں ’سفیدفام‘ لوگوں سے بھی زیادہ سفید ہوں۔“ دراصل، جان ایک ایسی جِلدی بیماری میں مبتلا ہے جس میں کسی شخص کی جِلد کا رنگ گلابی مائل سفید، آنکھیں گلابی اور بال سفید ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ مرض صرف آنکھوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے جس میں جِلد کو رنگ دینے والا قدرتی مادہ یعنی پگمنٹ نہیں بنتا۔ اِسے انگریزی میں البینیزم کہتے ہیں اور ہمارے ہاں اِسے بھوراپن، برصیت، سفیدیت یا مہق کا نام دیا جاتا ہے۔ آئیں دیکھیں کہ یہ بیماری کتنی عام ہے؟ یہ کسی شخص کی روزمرّہ زندگی کو کیسے متاثر کرتی ہے؟ اور کیا چیز اِس بیماری میں مبتلا لوگوں کی مدد کر سکتی ہے؟ *
بھورےپن کی بیماری دوسری نسلوں کے مقابلے میں سیاہفام نسلوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہر بیس ہزار میں سے ایک شخص اِس بیماری میں مبتلا ہے۔
بھورےپن کی بیماری سے متاثرہ جینز بغیر کسی طرح کی علامات کے نسلدرنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم، ایک وقت آتا ہے کہ اُس نسل کے کسی شخص میں اِس بیماری کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں جیساکہ جان کے معاملے میں ہوا۔ جان کے رشتےداروں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ آیا اُس کے باپدادا میں سے کسی کو یہ بیماری تھی یا نہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ ”البینیزم“ کو سترھویں صدی میں پُرتگالیوں نے متعارف کرایا۔ مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں کا سفر کرتے ہوئے اُنہوں نے وہاں سیاہفام اور سفیدفام لوگوں کو دیکھا۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ دو مختلف نسلوں کے لوگ ہیں اُنہوں نے سیاہفام لوگوں کو نیگرو اور سفیدفام لوگوں کو البینو کا نام دیا۔ کیونکہ پرتگالی زبان میں نیگرو کا مطلب ”سیاہ“ اور البینو کا مطلب ”سفید“ ہے۔
جِلد اور آنکھوں پر بھورےپن کے اثرات
عام طور پر، جب گوری رنگت والے لوگ سورج کی روشنی میں بیٹھتے ہیں تو اُن کی جِلد قدرے سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی جسم میں سیاہی مائل مادے میلانن کو بننے میں مدد دیتی ہے جس کا کام جِلد کی حفاظت کرنا ہے۔ تاہم، جان جو کہ بھورےپن کے مرض میں مبتلا ہے اُس کی جِلد، آنکھوں اور بالوں میں میلانن موجود نہیں ہے۔ * بھورےپن کی اِس قسم کو بصری اور جِلدی بھوراپن کہتے ہیں۔ یہ قسم بہت عام ہے۔ لیکن میلانن کی کمی جان کی جِلد کو کیسے متاثر کرتی ہے؟ میلانن کی کمی کے باعث اِس مرض میں مبتلا شخص کی جِلد سورج کی تپش سے جھلس جاتی ہے جوکہ بہت تکلیفدہ ہوتا ہے۔ ایسے اشخاص اگر اپنی جِلد کی مناسب حفاظت نہ کریں تو اُنہیں جِلد کا کینسر بھی ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر، شدید گرم علاقوں میں رہنے والے بھورےپن کے مریض اِس سے متاثر ہوتے ہیں۔
ایسے مریضوں کو اپنی جِلد کی حفاظت کرنے کے لئے مناسب لباس پہننے کی ضرورت ہے۔ جان ایک کسان ہے۔ جب وہ کھیت میں کام کرتا ہے تو وہ ایک بڑا سا ہیٹ اور لمبی آستین والی قمیض پہنتا ہے۔ مگر اِس کے باوجود وہ بیان کرتا ہے: ”بعضاوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے پورے جسم میں آگ سی لگی ہوئی ہے اور ایسے میں جب مَیں اپنے بازوؤں پر خارش کرتا ہوں تو کبھیکبھی میری کھال ہی اُترنے لگتی ہے۔“
اِس کے علاوہ، جِلد کی حفاظت کے لئے سورج کی شعاعوں سے محفوظ رکھنے والا لوشن (سن سکرین لوشن) بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے۔ وہ لوشن جس پر ایسپیایف ۱۵لکھا ہو بہترین ہے۔ اِسے سورج کی روشنی میں جانے سے آدھا گھنٹہ پہلے اچھی طرح لگا لیں اور ہر دو گھنٹے بعد دوبارہ استعمال کریں۔
بھورےپن کا مرض آنکھوں کو مختلف طرح سے متاثر کر سکتا ہے۔ دراصل آئرس (آنکھ کا رنگین پردہ) میں موجود پگمنٹ یعنی رنگدار مادہ سورج کی روشنی کو آنکھ میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ روشنی صرف آئرس کے وسطی حصے پیوپل (آنکھ کی پتلی) سے گزر کر آنکھ میں داخل ہوتی ہے۔ تاہم، بھورےپن میں مبتلا شخص کی آنکھ میں آئرس بےرنگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے روشنی آنکھ میں داخل ہو کر تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اِس سے بچنے کے لئے بھورےپن کے مرض میں مبتلا بہتیرے لوگ ٹوپی یا ایسا چشمہ پہنتے ہیں جس میں سے بنفشی شعاعیں نہیں گزر سکتیں۔ دیگر رنگین لینز لگاتے ہیں۔ جان کہتا ہے کہ اکثر اوقات وہ اِن کے بغیر بھی گزارا کر سکتا ہے۔ تاہم، رات کو گاڑیوں کی تیز روشنی اُس کے لئے تکلیفدہ ہوتی ہے۔
عام طور پر یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ بھورےپن کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی آنکھیں سُرخ یا گلابی ہوتی ہیں لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔ جن لوگوں کو یہ مرض ہوتا ہے اُن میں سے بیشتر کی آنکھوں میں آئرس کا رنگ سیاہی مائل سفید، بھورا یا نیلا ہوتا ہے۔ توپھر، اُن کی آنکھیں سُرخ یا گلابی کیوں لگتی ہے؟ کتاب فیکٹس آباؤٹ البینیزم (بھورےپن کی بابت حقائق) بیان کرتی ہے: ”چونکہ آئرس میں رنگدار مادہ بہت کم ہوتا ہے اس لئے یہ مختلف طرح کی روشنی پڑنے پر سُرخی مائل یا بنفشی رنگ کو منعکس کرتا ہے۔ یہ عکس ریٹینا (آنکھ کی اندرونی تہ) پر بنتا ہے۔“ آپ اِسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم تصویر کھینچتے وقت فلش کا استعمال کرتے ہیں تو کبھیکبھی تصویر میں آنکھ کے اندر سُرخی دکھائی دیتی ہے۔ درحقیقت آنکھ میں کوئی سرخی نہیں ہوتی صرف کیمرہ یہ سُرخی منعکس کرتا ہے۔
بھورےپن کے مرض میں مبتلا لوگوں کی آنکھوں میں عموماً بہت سے نقص ہوتے ہیں۔ ایک نقص یہ ہوتا ہے کہ ریٹینا سے دماغ کو جانے والی نسیں صحیح طور پر جڑی نہیں ہوتیں۔ اِس کی وجہ سے دونوں آنکھیں ایک ہی چیز پر مرکوز نہیں ہو پاتیں جس کے باعث کسی شخص کو یہ اندازہ لگانے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کوئی چیز کتنی دُور ہے۔ عام زبان میں اس حالت کو بھینگاپن کہتے ہیں۔ اِس بیماری کا علاج عینک کا استعمال یا آپریشن ہے۔
بہتیرے ممالک میں بھینگےپن کا علاج یا تو دستیاب ہی نہیں یا پھر بہت مہنگا ہے۔ جان بھینگےپن کے ساتھ کیسے زندگی گزارتا ہے؟ وہ بیان کرتا ہے: ”مجھے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ جب مجھے سڑک پار کرنی ہوتی ہے تو مَیں اپنی آنکھوں کے ساتھساتھ اپنے کانوں کا بھی استعمال کرتا ہوں۔ مَیں کسی گاڑی کو دیکھ تو لیتا ہوں لیکن جب تک اِس کی آواز میرے کانوں میں نہیں پہنچتی میرے لئے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ گاڑی کتنی قریب ہے اور مجھے سڑک پار کرنی چاہئے یا نہیں۔“
بھورےپن کا مرض آنکھ کے ڈھیلے کی غیرارادی حرکت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اِس کی وجہ سے کسی شخص کی دُور یا قریب کی نظر بہت کمزور ہو سکتی ہے۔ بعضاوقات عینک یا کانٹیکٹلینز لگانے سے اگرچہ بینائی قدرے بہتر ہو جاتی ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بھورےپن کے کچھ مریضوں نے آنکھ کے ڈھیلے کی غیرارادی حرکت پر قابو پانے کے لئے پڑھتے وقت سر کو جھکانے یاپھر آنکھ کے پاس انگلی رکھ لینے کو مفید پایا ہے۔
جان کو بھینگےپن یا آنکھ کے ڈھیلے کی غیرارادی حرکت کی وجہ سے اتنی پریشانی نہیں ہوتی جتنی کہ قریب کی نظر کمزور ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جان جوکہ یہوواہ کا گواہ ہے بیان کرتا ہے: ”مجھے کتاب یا رسالہ پڑھتے وقت اِسے اپنی آنکھوں کے بہت قریب رکھنا پڑتا ہے۔ لیکن ایک بار جب صحیح فاصلے کا تعیّن ہو جاتا ہے تو مَیں بڑی اچھی طرح پڑھ سکتا ہوں۔ روزانہ بائبل کی پڑھائی کرنے کے لئے یہ بہت ضروری مینارِنگہبانی کا بڑے حروف والا رسالہ میری اپنی زبان یوروبا میں دستیاب ہے۔“
ہے۔ تاہم، مسیحی اجلاسوں پر تقریریں پیش کرنے کے لئے مَیں اچھی طرح تیاری کرتا ہوں تاکہ مجھے باربار نوٹس نہ دیکھنے پڑیں۔ مَیں بہت خوش ہوں کہجن بچوں کی آنکھیں بصری بھورےپن سے متاثر ہوتی ہیں اُن کے لئے سکول جانا مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن جو والدین اِس سلسلے میں پہلے ہی اساتذہ اور سکول کی انتظامیہ سے بات کر لیتے ہیں وہ مختلف طرح کی مدد حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض سکولوں میں رنگین اور بڑے حروف میں لکھی ہوئی کتابیں اور آڈیو ٹیپس بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ لہٰذا، جب والدین، اساتذہ اور سکول کی انتظامیہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں تو بصری بھورےپن میں مبتلا بچے کے لئے سکول میں تعلیم حاصل کرنا آسان ہو جاتاہے۔
معاشرتی مشکلات
بھورےپن کی بیماری میں مبتلا بیشتر لوگ اِس مرض کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھ لیتے ہیں۔ تاہم، بہتیرے ایسے ہیں جو اپنی اِس حالت کی وجہ سے لوگوں کے تمسخر کو برداشت کرنا مشکل پاتے ہیں۔ خاص طور پر، بچوں کے لئے اِس صورتحال کا سامنا کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
مغربی افریقہ کے بعض علاقوں میں اِس بیماری میں مبتلا بچوں کو اُن کی سفید رنگت کی وجہ سے تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یوروبا بولنے والے بعض علاقوں میں اُنہیں ”آفن“ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ”خوفناک۔“ عام طور پر، بڑوں کی نسبت بچوں کا زیادہ مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ مغربی افریقہ میں لوگ اگرچہ اپنا زیادہتر وقت گھروں سے باہر گزارتے ہیں مگر بھورےپن کے مرض میں مبتلا بعض لوگ گھر ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے وہ اکثر احساسِکمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاک کلام کو سیکھنے سے پہلے جان بھی ایسا ہی محسوس کرتا تھا۔ تاہم، سن ۱۹۷۴ میں بپتسمہ لینے کے بعد زندگی کی بابت اُس کی سوچ بالکل بدل گئی۔ جان کا بھی زیادہ وقت گھر ہی میں گزرتا تھا مگر اب وہ سمجھ گیا ہے کہ دوسروں کو مُنادی کرنا اور اُنہیں اُس شاندار اُمید کی بابت بتانا جو اُسے حاصل ہے اُس کی ذمہداری ہے۔ اِس سلسلے میں وہ کہتا ہے: ”اُن کی روحانی حالت میری جسمانی حالت سے بھی بدتر ہے۔“ لیکن کیا کوئی مُنادی کے دوران اُس کا مذاق اُڑاتا ہے؟ جان بیان کرتا ہے: ”کبھیکبھار بائبل کے پیغام کی سخت مخالفت کرنے والے لوگ میری جسمانی حالت کو مذاق اُڑانے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ مگر مَیں بالکل پریشان نہیں ہوتا کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ اُن کے مذاق اُڑانے کی وجہ مَیں نہیں بلکہ میرا پیغام ہے۔“
بھورےپن کا مستقل حل
جہاں تک بھورےپن کے علاج کا تعلق ہے تو حالیہ برسوں میں اِس میں کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ میڈیکل سائنس بھی اب پہلے سے کہیں زیادہ مدد فراہم کرنے کے قابل ہے۔ اپنیمددآپ کے تحت مختلف تنظیمیں اِس بیماری سے متعلق تجربات پر باتچیت کرنے اور لوگوں کی سمجھ کو بہتر بنانے کیلئے اجتماعات منعقد کرتی رہتی ہیں۔ مگر اِس کا مستقل حل صرف خدا ہی کے پاس ہے۔
دیگر بیماریوں کی طرح بھوراپن بھی اُن بیماریوں میں سے ایک ہے جو انسانوں نے آدم کے گُناہ کی وجہ سے ورثے میں پائی ہیں۔ (پیدایش ۳:۱۷-۱۹؛ رومیوں ۵:۱۲) یہوواہ خدا بہت جلد یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر تمام وفادار انسانوں کو اچھی صحت سے نوازے گا۔ جیہاں، صرف خدا ہی ”تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔“ (زبور ۱۰۳:۳) اُس وقت بھورےپن کی بیماری کابھی نامونشان نہ ہوگا کیونکہ اِس میں مبتلا لوگ ایوب ۳۳:۲۵ کی تکمیل کا تجربہ کریں گے جہاں لکھا ہے: ”تب اُس کا جسم بچے کے جسم سے بھی تازہ ہوگا اور اُس کی جوانی کے دن لوٹ“ آئیں گے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 بھورےپن کی بیماری برص یا پُھلبہری سے مختلف ہے۔ برص کی بیماری میں کسی شخص کی جِلد پر جابجا سفید نشان پڑ جاتے ہیں جو شروع میں بہت چھوٹےچھوٹے ہوتے ہیں مگر رفتہرفتہ بڑھ جاتے ہیں۔
^ پیراگراف 8 بھورےپن کی بعض اقسام کے متعلق جاننے کے لئے اِس مضمون کے ساتھ دئے گئے بکس کو دیکھیں۔
[صفحہ ۲۱ پر عبارت]
”اُن کی روحانی حالت میری جسمانی حالت سے بھی بدتر ہے۔“—جان
[صفحہ ۲۰ پر بکس]
بھورےپن کی چند اقسام
ذیل میں بھورےپن کی بنیادی اقسام درج ہیں:
جِلدی اور بصری بھوراپن: بھورے پن کی اِس قسم میں جِلد، بالوں اور آنکھوں میں میلانن نامی مادہ نہیں بنتا۔ جِلدی اور بصری بھورےپن کی تقریباً ۲۰مختلف اقسام ہیں۔
بصری بھوراپن: بھورےپن کی یہ قسم صرف آنکھوں کو متاثر کرتی ہے جبکہ جِلد اور بالوں پر اِس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
بھورےپن کی اَور بھی بہت سی اقسام ہیں جو زیادہ عام نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، اِس کی ایک قسم کا تعلق ہرمنسکی-پڈُلک سنڈروم (ایچپیایس) سے ہے۔ ایچپیایس میں مبتلا لوگوں کی جِلد بہت حساس ہوتی ہے لہٰذا اِس پر آسانی سے زخم لگ جاتا یا خون رسنے لگتا ہے۔ پورٹوریکو میں رہنے والے لوگوں میں بھورےپن کی یہ قسم بہت عام ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں پر اٹھارہ سو میں سے ایک شخص اِس بیماری میں مبتلا ہے۔