بچوں میں موٹاپا—اِس کا حل کیا ہے؟
بچوں میں موٹاپا—اِس کا حل کیا ہے؟
بہت سے ممالک میں بچوں میں موٹاپا وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارہِصحت کے مطابق دُنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے ۲ کروڑ ۲۰ لاکھ بچوں کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے۔
ایک جائزے کے مطابق سپین میں تین بچوں میں سے ایک یا تو شدید موٹاپے کا شکار ہے یا پھر اِس کا وزن مقررہ حد سے کچھ زیادہ ہے۔ ملک آسٹریلیا میں ۱۹۸۵ سے لے کر ۱۹۹۵ تک بچوں میں موٹاپے کی شرح تین گُنا بڑھ گئی تھی۔ اور امریکا میں پچھلے ۳۰ سال کے دوران ۶-۱۱ سال کی عمر کے بچوں میں موٹاپے کی شرح ۳ گُنا بڑھ گئی۔
ترقیپذیر ممالک میں بھی بچے موٹاپے کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہِصحت کے ساتھ کام کرنے والے ایک ادارے نے کہا کہ افریقہ کے کچھ علاقوں میں بچے خوراک کی کمی کی نسبت موٹاپے سے زیادہ متاثر ہیں۔ سن ۲۰۰۷ میں دُنیا کے ممالک میں سے امریکا میں ایسے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جو شدید موٹاپے کا شکار تھے جبکہ میکسیکو اِس لحاظ سے دوسرے درجے پر تھا۔ میکسیکو کے دارلحکومت میں ۷۰ فیصد بچوں اور نوجوانوں کا وزن یا تو مقررہ حد سے زیادہ ہے یاپھر وہ شدید موٹاپے کا شکار ہیں۔ بچوں کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ”موجودہ نسل وہ پہلی نسل ہے جو موٹاپے سے لگنے والی بیماریوں کی وجہ سے اپنے والدین سے پہلے مر جانے کے خطرے میں ہے۔“
موٹاپے سے طرح طرح کی بیماریاں لگ سکتی ہیں جن میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔ یہ ایسی بیماریاں ہیں جو عام طور پر بالغ لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ البتہ امریکا کے ایک ادارے کے مطابق سن ۲۰۰۰ میں امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کی کُل تعداد میں سے ۳۰ فیصد لڑکوں اور ۴۰ فیصد لڑکیوں کو ذیابیطس ٹائپ ٹو (قسم دوم) لگنے کا خطرہ لاحق ہے۔
جس قدر لوگ موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں اُسی قدر لوگ ہائی بلڈ پریشر کے مریض بن رہے ہیں۔ امریکا کی ایک ڈاکٹر نے کہا: ”اگر ہائی بلڈ پریشر کی بڑھتی شرح کو جلد کم نہ کِیا جائے تو نوجوانوں اور بالغوں میں دل کی بیماریاں وبا کی طرح پھیلنے لگیں گی۔“
موٹاپا وبا کی طرح کیوں پھیل رہا ہے؟
دُنیابھر میں اتنے زیادہ بچے موٹاپے کا شکار کیوں ہیں؟ یہ سچ ہے کہ کچھ بچوں میں پیدائشی طور پر موٹاپے کا رجحان پایا جاتا ہے جو اُن کے جسم میں موجود جینز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے ۲۰ تا ۳۰ سال کے دوران دُنیا کی کُل آبادی میں موٹاپا اِس حد تک پھیل گیا ہے کہ یہ محض لوگوں کے جسم میں موجود جینز کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے کہا: ”موٹاپے کی شرح اِس قدر بڑھ رہی ہے کہ یہ ہمارے جینز کی وجہ سے نہیں ہو سکتا ہے۔ تیس سال کے اندر اندر دُنیا کی آبادی کے جینز میں اتنی تبدیلیاں نہیں آ سکتی ہیں۔“
امریکا کے مایو کلینک کے مطابق ”کبھی کبھار بچے اپنے جینز یا ہارمونز کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہتر بچے اِس لئے موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ حد سے زیادہ کھاتے اور بہت کم ورزش کرتے ہیں۔“ آئیں آب ہم دیکھیں کہ لوگوں کے کھانے پینے کی عادات میں فرق کیوں آ رہا ہے۔
آجکل ماںباپ دونوں کو ملازمت کرنی پڑتی ہے اِس لئے اُن کے پاس کھانا پکانے کا وقت نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ریسٹورنٹ سے تیار شُدہ کھانا خریدنا مقبول ہو گیا ہے۔ دُنیابھر میں ایسے ریسٹورنٹ کُھل رہے ہیں
جن میں برگر، چپس وغیرہ جیسے کھانے بیچے جاتے ہیں۔ یہ کھانے بچوں اور نوجوانوں میں بڑے مقبول ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکا میں ۴-۱۹ سال کے بچوں کی کُل تعداد کا ایک تہائی حصہ ہر روز ایسا تیارشُدہ کھانا کھاتا ہے۔ اکثر ایسے کھانوں میں بہت زیادہ شکر اور چکنائی پائی جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ ایسے ریسٹورنٹوں میں کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ کھانا خریدنے پر اُکسایا جاتا ہے۔آجکل لوگ دودھ اور پانی کی بجائے ایسی مشروبات پینا پسند کرتے ہیں جن میں بہت زیادہ شکر پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میکسیکو کے لوگ ہر سال بنیادی خوراک کے دس ضروری اشیاء کی نسبت میٹھی مشروبات پر زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے پر لکھی گئی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایک شخص ہر روز ۶۰۰ ملیلیٹر [۲۰ اونس] میٹھی مشروبات پیتا ہے تو ایک سال میں اُس کا وزن ۱۱ کلوگرام [۲۵ پونڈ] بڑھ سکتا ہے۔
گلاسگو میں ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ۳ سال کے بچے دن میں صرف ۲۰ منٹ چلتے پھرتے یا کھیل کود کرتے ہیں۔ اِس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکا کی ایک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کہتے ہیں: ”صرف برطانیہ ہی کے بچے کم چلتے پھرتے نہیں بلکہ دُنیا کے بہت سے ممالک کے بچوں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔“
اِس مسئلے کا حل
مختلف کھانوں پر پابندی لگانے سے بچوں کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اِس لئے ماہرینِغذائیت والدین کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی کھانے پر پابندی نہ لگائیں بلکہ بچوں کو اِسے صحیح مقدار میں کھانے کی اجازت دیں۔ مایو کلینک کے مطابق: ”بچوں میں موٹاپے کو کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُنہیں اچھی خوراک دی جائے اور اُنہیں ورزش کرنے کی حوصلہافزائی کی جائے۔“—ساتھ میں دئے گئے بکس کو دیکھیں۔
خاندان کے طور پر غذائیتبخش خوراک کھانے اور ورزش کرنے کا معمول بنائیں۔ ایسا کرنے سے آپ کے بچے بڑے ہو کر بھی اِس معمول کو جاری رکھیں گے۔
[صفحہ ۳۰ پر بکس/تصویر]
والدین کیا کر سکتے ہیں؟
۱ اپنے بچوں کو تیار شُدہ کھانوں کی نسبت زیادہ پھل اور سبزیاں کھلائیں۔
۲ بچوں کو میٹھی مشروبات اور ایسے سنیکس سے گریز کرنا سکھائیں جن میں بہت زیادہ شکر اور چکنائی شامل ہو۔ اِس کی بجائے اُن کو پانی، دودھ اور ایسے سنیکس کھانے کے لئے دیں جو اُن کی صحت کے لئے اچھے ہوں۔
۳ کھانا پکاتے وقت خوراک کو تلنے کی بجائے اِسے دم دے کر، بھون کر یا بھاپ دے کر پکائیں۔
۴ ہر ایک کو اتنا ہی کھانا نکال کر دیں جتنا کہ اُس کے لئے مفید ہو۔
۵ بچوں کو کھانے کا لالچ دے کر اُن سے کام نہ کروائیں۔
۶ بچوں کو ناشتہ ضرور کروائیں ورنہ بھوک لگنے پر وہ بعد میں شاید حد سے زیادہ کھا لیں۔
۷ کھانا میز پر ہی بیٹھ کر کھائیں کیونکہ ٹیوی یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کھانے سے اِس بات کا اندازہ نہیں رہتا کہ آپ نے کتنا کھا لیا ہے۔
۸ اپنے بچوں کو سائیکل چلانے، گیند کے ساتھ کھیلنے اور رسی ٹاپنے وغیرہ کا مشورہ دیں۔
۹ آپ کے بچے ٹیوی دیکھنے، کمپیوٹر استعمال کرنے اور ویڈیو گیمز کھیلنے کے لئے جو وقت صرف کرتے ہیں اِسے محدود کریں۔
۱۰ خاندان کے ساتھ گھومنے پھرنے کے لئے جائیں۔ مثال کے طور پر چڑیا گھر دیکھنے کے لئے، تیرنے کے لئے یا کسی پارک میں کھیلنے کے لئے جائیں۔
۱۱ بچوں کو گھر میں چھوٹے موٹے کام دیں۔
۱۲ صحتبخش خوراک کھانے اور ورزش کرنے کی اچھی مثال قائم کریں۔
[تصویر کا حوالہ]
یہ معلومات مایو کلینک اور مختلف ممالک کے قومی ادارہِصحت سے لی گئی ہیں۔