بنگلہدیش کی ایک دلچسپ سواری
بنگلہدیش کی ایک دلچسپ سواری
بنگلہدیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں آنے والا ہر شخص لاتعداد سائیکل رکشوں کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا! اِس شہر کے ہر گلیکوچہ میں نہ صرف لوگوں کی بِھیڑبھاڑ بلکہ اِس سواری کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔ لوگ سائیکل رکشہ میں سفر کرنے کے علاوہ اِسے سامان کو ایک سے دوسری جگہ لیجانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
آج بھی ڈھاکا میں سائیکل رکشہ نقلوحمل کا ایک بڑا اہم ذریعہ ہے۔ اگرچہ رجسٹرڈ رکشوں کی تعداد تقریباً ۸ ہزار ہے توبھی عام خیال یہ ہے کہ ہر روز سڑک پر چلنے والے رکشوں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ اِسی وجہ سے ڈھاکا دُنیابھر میں رکشوں کے شہر کے طور پر مشہور ہے!
سائیکل رکشہ کا آغاز
فرانس کے چودھویں شہنشاہ لوئیس (۱۶۳۸-۱۷۱۵) کے دورِحکومت میں سفر کرنے کے لئے پالکی اور ہتھگاڑی استعمال کی جاتی تھی۔ تاہم، سن ۱۸۷۰ کے دہے میں جاپان میں ایک امریکی مشنری جوناتھن گیبل نے دو پہیوں پر مشتمل ایک چھوٹی گاڑی ایجاد کی جسے ایک آدمی کھینچا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اُس نے نئی طرز کی یہ گاڑی اپنی بیوی کے لئے بنائی جوکہ بیمار تھی۔ جاپانی زبان میں اِس گاڑی کو جنریکیشا کہا گیا جس کا مطلب ہے ایک ایسی گاڑی جسے آدمی کھینچتا ہے۔ بعدازاں، انگریزی زبان میں اِسے ”رکشہ“ کہا جانے لگا۔ رکشے کے ایک سستی سواری ہونے کی وجہ سے ایشیا میں مختلف طرز کے رکشے تیار کئے جانے لگے۔ چارلس ٹیز رسل (تصویر میں دائیں جانب) جوکہ بڑی سرگرمی کے ساتھ بائبل طالبعلموں (جدید زمانے کے یہوواہ کے گواہوں) کے کام کی پیشوائی کر رہے تھے جب سن ۱۹۱۲ میں جاپان آئے تو اُنہوں نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے رکشوں میں سفر کِیا۔
ڈھاکا میں ۱۹۳۰ کے آخر میں تین پہیوں والے رکشے تیار کئے جانے لگے۔ اُن ہتھگاڑیوں کے برعکس جنہیں آدمی کھینچا کرتے تھے یہ رکشے تین پہیوں والی سائیکل کی طرح لگتے تھے۔ سائیکل رکشہ چلانے والا آگے بیٹھ کر بڑی تیزی کے ساتھ پیڈل مارتا تھا۔ اِس طرح وہ اپنی سواریوں یا سامان کو ٹریفک کی بِھیڑبھاڑ یا تنگ سڑکوں کے باوجود منزل تک پہچانے کے قابل ہوتا تھا۔
رکشوں کی سجاوٹ
ڈھاکا میں رکشوں کو سجانے کا رواج ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ رکشوں کو سجانے کا آغاز کہاں سے ہوا؟ جب ڈھاکا میں رکشے چلنا شروع ہوئے تو اُن کا مقابلہ ٹمٹم یعنی گھوڑا گاڑیوں سے تھا جنہیں سواریاں اور سامان لیجانے کے لئے استعمال کِیا جاتا تھا۔ شاید لوگوں کی توجہ اِس نئی سواری کی طرف راغب کرنے کے لئے رکشوں کے مالک اِنہیں خوب سجاتے تھے۔ بعدازاں، اِن پر مختلف نقشونگار، تصاویر اور اشتہارات بنانے کا رواج چل پڑا۔
سائیکل رکشوں پر بنے نقشونگار بہت دلکش لگتے ہیں۔ بنگلہدیش میں اِس فن پر تبصرہ کرتے ہوئے سید منظورالسلام نے کہا کہ ڈھاکہ میں رکشے”چلتی پھرتی آرٹ گیلری“ یعنی تصاویر کی نمائشگاہ ہیں۔ سائیکل رکشے کا کوناکونا رنگبرنگے ڈیزائنوں اور تصویروں سے آراستہ ہوتا ہے۔ اِس کے چاروں طرف خوبصورت اور چمکدار موتیوں کی لڑیاں لٹک رہی ہوتی ہیں۔
رکشوں کو سجانے والے ہر فنکار کا اپنا ایک انداز اور پسند ہوتی ہے۔ بعض رکشوں پر پُرانی اور نئی بنگلہدیشی اور انڈین فلموں کے مختلف مناظر کی تصاویر بنی ہوتی ہیں جس سے سائیکل رکشہ اشتہاری بورڈ نظر آتا ہے۔ بعضاوقات رکشوں پر دیہی اور شہری زندگی کے مناظر کے علاوہ معاشرتی اور سیاسی مسائل کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ عام طور پر، اِن پر جانوروں، پرندوں، شکاربازی اور سرسبز وادیوں کے خوبصورت مناظر بھی بنائے جاتے ہیں۔
سن ۱۹۵۰ کے دہے میں رکشوں پر نقشونگار بنانے والے لوگ مٹھیبھر تھے۔ لیکن آجکل بنگلہدیش میں رکشوں پر منفرد نقشونگار بنانے والوں کی تعداد ۲۰۰ سے ۳۰۰ کے درمیان ہے۔ رکشے کے مختلف حصوں کو ایک خاص ورکشاپ میں تیار کِیا جاتا ہے۔ رکشوں کو بنانے کے لئے اکثر پُرانا سامان استعمال کِیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، پینٹر تیل کے خالی ڈبوں یا بڑےبڑے کنستروں کو کاٹ کر اُن کے ٹکڑوں پر بڑی خوبصورتی سے رنگبرنگے مناظر بناتا ہے۔ بنگلہدیش میں رکشوں پر نقشونگار بنانے کے کام نے نہ صرف اپنی ایک پہچان بنا لی ہے بلکہ بڑی شہرت بھی حاصل کر لی ہے۔
سائیکل رکشہ کا ڈرائیور
سائیکل رکشہ کے ڈرائیور کی زندگی بہت کٹھن ہوتی ہے۔ اُسے ہر روز لوگوں کو لانے لیجانے اور بھاری بوجھ ڈھونے کے لئے پوراپورا دن رکشہ چلانا پڑتا ہے۔ اُس کی سواریوں میں عورتیں، سکول جانے والے بچے، کاروباری حضرات اور ایسے دُکاندار شامل ہیں جنہوں نے بڑےبڑے تھیلے اُٹھائے ہوتے ہیں۔ اکثر ایک رکشے میں دو، تین یا اِس سے بھی زیادہ سواریاں بیٹھتی ہیں۔ اِس کے علاوہ، تاجر لوگ چاول، آلو، پیاز یا کھانےپینے کی دیگر اشیا کو بازار تک پہچانے کے لئے بھی رکشہ استعمال کرتے ہیں۔ کبھیکبھار تو سواریاں اپنا سامان سیٹوں پر رکھتی ہیں اور خود اُس کے اُوپر بیٹھ جاتی ہیں۔ دیکھنے والے کو شاید یہ لگے کہ سائیکل رکشے کے ڈرائیور کے لئے اتنا بوجھ کھینچنا ناممکن ہے۔ مگر چاہے گرمی ہو یا بارش سائیکل رکشے کا ڈرائیور بغیر کسی شکایت کے سخت محنت سے رکشہ چلاتا رہتا ہے۔
زیادہتر سائیکل رکشہ کے ڈرائیور دیہاتوں سے شہروں میں اِس لئے آتے ہیں کیونکہ کسانوں کے طور پر اُن کے لئے روزیروٹی کمانا مشکل ہوتا ہے۔ پس اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جب اُنہیں شہروں میں زیادہ تنخواہ والی ملازمتیں نہیں ملتیں تو وہ سائیکل رکشہ کے ڈرائیور بن جاتے ہیں۔ دنبھر سخت محنت کرنے اور اپنی تمامتر طاقتوتوانائی صرف کرنے کے بعد وہ بمشکل ہی کچھ پیسے کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔
ایک منفرد سواری
چونکہ ڈھاکا ایک میدانی علاقہ ہے اور یہاں بےشمار چھوٹیچھوٹی گلیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ اِس شہر میں سائیکل رکشہ کی سواری دیگر ذرائع آمدورفت سے زیادہ مقبول ہے۔ بہتیرے لوگوں کا خیال ہے کہ سائیکل رکشہ ایندھن اور آلودگی کے مسائل سے پاک ہے اِس لئے یہ سواری نہ صرف دلچسپ بلکہ فائدہمند بھی ہے۔
مگر ایشیا کے بہت سے شہروں میں اب سائیکل رکشے کی سواری اپنی ”مقبولیت کھو“ رہی ہے کیونکہ یہاں رہنے والے لوگ جدید طرزِزندگی کے ساتھ ساتھ بڑیبڑی گاڑیوں میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ اگرچہ لوگوں کی اکثریت آجکل سائیکل رکشے کو ایک پُرانی سواری خیال کرتی ہے تو بھی اِس کے ڈیزائن کو بہتر بنانے اور اِسے استعمال میں رکھنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ڈھاکا میں سفر کرنے کے لئے آپ بس، ٹیکسی، موٹر سائیکل، موٹر رکشہ یا پھر رنگبرنگے سائیکل رکشوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ لیکن اگر آپ ڈھاکا کی بِھیڑبھاڑ والی تنگ گلیوں میں سائیکل رکشہ کی دلچسپ سواری میں سفر کرتے ہیں تو یقیناً یہ آپ کا ایک یادگار سفر ہوگا!
[صفحہ ۲۳ پر صرف تصویر ہے]