احساسِتنہائی کی وجوہات
احساسِتنہائی کی وجوہات
ضروری نہیں کہ جو شخص اکیلا ہے، وہ احساسِتنہائی کا شکار ہو۔ دراصل جو شخص احساسِتنہائی کا شکار ہوتا ہے، وہ لوگوں کی بِھیڑ میں بھی خود کو بےیارومددگار سمجھتا ہے۔ اُسے لگتا ہے کہ کسی کو اُس کی فکر نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے دوست کے لئے ترستا ہے جس کے ساتھ وہ دُکھسُکھ بانٹ سکے۔ اِس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو تنہائی کو پسند کرتے ہیں۔
یسوع مسیح کی طرح کئی لوگ دُعا اور سوچبچار کرنے کے لئے تنہا ہونا پسند کرتے ہیں۔ (متی ۱۴:۱۳؛ لوقا ۴:۴۲؛ ۵:۱۶؛ ۶:۱۲) لیکن جو لوگ احساسِتنہائی کا شکار ہوتے ہیں، وہ بڑی تکلیف اُٹھاتے ہیں۔ یہ احساس اُن کے لئے ایک عذاب کی طرح ہوتا ہے۔ مگر لوگ کن وجوہات کی بِنا پر احساسِتنہائی کا شکار ہوتے ہیں؟
● شہروں کی مصروف زندگی
بڑےبڑے شہروں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ رہتے ہیں۔ ہر دن لوگوں کا بہت سے دوسرے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی اُن لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو احساسِتنہائی کا شکار ہیں۔ شہروں میں زندگی اتنی مصروف ہوتی ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کا پڑوسی کون ہے۔ لہٰذا لوگ اکثر ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ مصروفیت کی وجہ سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنا فارغ وقت صرف اپنے لئے استعمال کریں نہ کہ دوسروں کے لئے۔
● ملازمین پر شدید دباؤ
آجکل بہت سی کمپنیوں اور کارخانوں میں ملازمین سے اِس طرح کام کروایا جا
رہا ہے کہ اُن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ احساسِکمتری اور احساسِتنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔بڑیبڑی کمپنیوں میں ملازمین کا ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں تبادلہ ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید پریشانی اور احساسِتنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک اخبار میں بتایا گیا کہ فرانس کی کئی کمپنیوں کے ملازمین میں خودکُشی کرنے کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اِس اخبار کے مطابق ”فرانسیسی ملازمین شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ آجکل کمپنی چلانے کا انداز بدل رہا ہے اور ملازمین سے بہت سی توقعات کی جاتی ہیں۔“—انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبون۔
● ٹیکنالوجی کا اثر
جاپان کے پروفیسر سائٹو کہتے ہیں: ”موبائل فون اور کمپیوٹر کا استعمال لوگوں کے درمیان ایک دیوار سی کھڑی کر رہا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے روبرو تبادلۂخیال کرنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔“ آسٹریلیا کے ایک اخبار میں یوں لکھا گیا: ”ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو دوسروں کے جذبات کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی بجائے ایمیل یا ایسایمایس بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔“—دی سنڈے ٹیلیگراف۔
فرانس میں رہنے والی ۲۱ سالہ راشیل کہتی ہیں: ”میرے بہت سے جاننے والے مجھ سے ملنے کے لئے وقت نہیں نکالتے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ ایسایمایس کرنا، ایمیل بھیجنا اور انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرنا ہی کافی ہے۔ لیکن اِس سب کے باوجود مَیں خود کو بہت ہی تنہا محسوس کرتی ہوں۔“
● اپنوں سے دُوری
معاشی بحران کی وجہ سے بہت سے لوگ ملازمت کے سلسلے میں دوسرے علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ لوگ کہیں اَور منتقل ہونے کی وجہ سے اپنے پڑوسیوں، رشتہداروں، دوستوں اور ہمجماعتوں سے جُدا ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسے درخت کی طرح ہوتے ہیں جسے اُکھاڑ کر کہیں اَور لگا دیا گیا ہو لیکن اُس کی جڑیں وہیں کی وہیں رہ گئی ہوں۔
فرانسس اُس دن کو یاد کرتے ہیں جب وہ اپنے ملک گھانا سے فرانس آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ”یہاں بہت زیادہ سردی تھی، مجھے یہاں کی زبان نہیں آتی تھی اور میرے کوئی دوست نہیں تھے۔ اِس وجہ سے مَیں شدید احساسِتنہائی کا شکار ہو گیا۔“
بہہجات اُس وقت کو یاد کرتی ہیں جب وہ انگلینڈ میں رہنے کے لئے آئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں: ”شروعشروع میں مجھے یہاں کے طورطریقے اپنانا بہت مشکل لگا۔ بہت سے لوگوں سے میری جانپہچان تو ہو گئی تھی لیکن میرے کوئی دوست یا رشتہدار نہیں تھے جن سے مَیں اپنے دل کی بات کہہ سکتی۔“
● جیونساتھی کی موت کا صدمہ
جب ایک شخص کا جیونساتھی فوت ہو جاتا ہے تو اُس کی زندگی میں ایک خلا سا پیدا ہو جاتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب اُس نے کافی عرصے تک اپنے جیونساتھی کی تیمارداری کی ہو۔ ایک ایسے شخص کو قدمقدم پر اپنے جیونساتھی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
پیرس میں رہنے والی ایک بیوہ خاتون، فیرنانڈ کہتی ہیں: ”میرے شوہر میرے سب سے اچھے دوست تھے۔ مجھے اِس بات کو تسلیم کرنا بہت مشکل لگتا ہے کہ اب مَیں اُن سے اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتی ہوں۔“ عینی نامی ایک بیوہ کہتی ہیں: ”میرے شوہر
مجھے بہت یاد آتے ہیں، خاص طور پر اُس وقت جب مجھے علاج یا کسی اَور معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔“● طلاق کے اثرات؛ جیونساتھی کی آرزو
اکثر جب کسی کی طلاق ہو جاتی ہے یا وہ اپنے جیونساتھی سے علیٰحدہ ہو جاتا ہے تو وہ احساسِتنہائی کا شکار ہو جاتا ہے اور اُسے لگتا ہے کہ وہ ناکام ہو گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب والدین میں طلاق یا علیٰحدگی ہوتی ہے تو بچوں کو سب سے زیادہ چوٹ لگتی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جب ایسے بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو اُن میں احساسِتنہائی کا شکار ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
بعض لوگ اِس لئے احساسِتنہائی میں مبتلا ہیں کیونکہ اُنہیں کوئی ایسا شریکِحیات نہیں ملا جو اُن کی توقعات پر پورا اُترتا ہو۔ کبھیکبھار لوگ بغیر سوچےسمجھے اُن سے کہتے ہیں: ”تُم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ اِس طرح تُم خوش رہو گے۔“ یہ سُن کر اُنہیں اپنی تنہائی کا اَور زیادہ احساس ہوتا ہے۔
ایسے ماں یا باپ جو اکیلے اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، وہ بھی احساسِتنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بچوں کی پرورش کرنے سے بڑی خوشیاں ملتی ہیں لیکن اِس کے ساتھساتھ مسئلے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جو ماں یا باپ اکیلے اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، اُنہیں ہر مشکل کا حل اکیلے ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
● بڑھاپا؛ نوجوانوں کی تفریح
بہت سے بوڑھے لوگ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ یہ اُس وقت بھی ہوتا ہے جب اُن کے رشتہدار اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ شاید اُن کے رشتہدار یا دوست وقتاًفوقتاً اُن سے ملنے کے لئے آئیں لیکن جس دن یا جس ہفتے اُن سے ملنے کے لئے کوئی نہیں آتا، وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔
دوسری طرف اکثر نوجوان بھی احساسِتنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت سے نوجوان اکیلے بیٹھ کر ٹیوی دیکھتے ہیں، ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں یا پھر کمپیوٹر کے سامنے بہت سا وقت صرف کرتے ہیں۔ ایسی تفریح کی وجہ سے اُن کا احساسِتنہائی بڑھ جاتا ہے۔
اِن تمام وجوہات کی بِنا پر اُن لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو احساسِتنہائی میں مبتلا ہیں۔ کیا اِس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ ایک شخص احساسِتنہائی کی قید سے آزادی پانے کے لئے کیا کر سکتا ہے؟
[صفحہ ۵ پر عبارت]
”یہاں بہت زیادہ سردی تھی، مجھے یہاں کی زبان نہیں آتی تھی اور میرے کوئی دوست نہیں تھے۔ اِس وجہ سے مَیں شدید احساسِتنہائی کا شکار ہو گیا۔“