”لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسا اُٹھ چُکا ہے“
”لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسا اُٹھ چُکا ہے“
مغربی افریقہ میں ایک لڑکا ملیریا کی جعلی دوائی لینے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ اِس بارہ سالہ لڑکے کی ماں نے یہ دوائی ایک میڈیکل سٹور سے خریدی تھی کیونکہ اُس کا خیال تھا کہ وہاں سے اصلی دوائی ملے گی۔ ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ”اِس ملک میں تقریباً ۱۵ سال سے جعلی دوائیاں بک رہی ہیں۔“ *
ایشیا میں ایک ننھے بچے کے والدین بہت پریشان ہیں۔ اُنہوں نے شروع سے ہی اپنے بچے کو ڈبے کا دودھ پلایا تھا۔ لیکن پھر اُن کو پتہ چلا کہ اِس برانڈ کے دودھ میں زہریلا مادہ ملایا جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بچہ اِس آلودہ دودھ کی وجہ سے مر گیا۔
امریکہ میں ایک مُعزز سرمایہکار نے اپنے گاہکوں کے تقریباً ۵۰ ارب ڈالر ہڑپ کر لئے۔ جو پیسے ہزاروں گاہکوں نے اِس سرمایہکار کے ذریعے ایک فنڈ میں لگائے تھے، وہ غائب ہو گئے۔ اِس فریب کو ”صدی کا سب سے بڑا فراڈ“ کہا گیا۔
ہمارے زمانے میں تقریباً ہر شخص کا بھروسا کبھی نہ کبھی توڑا گیا ہے۔ فرانس کے ایک اخبار کے مطابق دُنیابھر میں معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ”لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسا اُٹھ چُکا ہے۔“—لےمونڈ۔
لیکن آجکل لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسا کیوں اُٹھ گیا ہے؟ کیا آپ کسی پر بھروسا کر سکتے ہیں؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 2 یہ خبر فرانس میں شائع ہونے والے اخبار لے فیگارو میں تھی۔