تشدد کی راہ کو چھوڑنے کے لئے میری جدوجہد
تشدد کی راہ کو چھوڑنے کے لئے میری جدوجہد
خوسے انٹونیو نبریرا کی زبانی
ایک شخص تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر کیوں اُتر آتا ہے؟ اِس سوال کا جواب آپ کو میری آپبیتی پڑھنے سے ملے گا۔ بچپن ہی سے میرا تشدد سے پالا پڑا ہے۔ میرے والد پولیس کے ایک ایسے دستے میں کام کرتے تھے جہاں سپاہیوں کی بڑی سخت تربیت کی جاتی تھی۔ اُن کے اپنے والد اُنہیں بچپن میں کوڑوں سے پیٹتے تھے اور میرے والد نے بھی میرے ساتھ ایسا ہی کِیا۔ وہ مجھے اکثر اپنی موٹی بیلٹ سے بُری طرح مارتے تھے۔ سب سے زیادہ کوفت تو مجھے اِس بات سے ہوتی تھی کہ وہ مجھے اکثر بےوقوف کہتے تھے جبکہ میری چھوٹی بہن اُن کی بہت لاڈلی تھی۔ میری والدہ میرے والد سے بہت ڈرتی تھیں۔ وہ مجھ پر ہونے والے ظلم کے خلاف کچھ نہیں کرتی تھیں اور مجھے اپنی ممتا کے آنچل سے دُور رکھتی تھیں۔
جب مَیں سکول میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتا تھا تو مَیں ایک خیالی دُنیا میں رہتا تھا جس میں کوئی دُکھ اور درد نہیں تھا۔ مَیں ہنستا کھیلتا بچہ نظر آتا تھا لیکن میرا دل خوف اور غصے سے بھرا ہوتا تھا۔ سکول سے واپس جاتے ہوئے مَیں یہی سوچتا رہتا کہ ”جب مَیں گھر پہنچوں گا تو کِیا ہوگا؟ کیا مجھے پھر سے ڈانٹ پڑے گی؟ کیا پھر سے میری پٹائی ہوگی؟“
اِس ماحول سے بچنے کے لئے مَیں ۱۳ سال کی عمر میں ایک ایسے بورڈنگ سکول میں داخل ہو گیا جسے کیتھولک پادری چلاتے تھے۔ شروع میں میرا ارادہ تھا کہ مَیں خود بھی پادری بنوں۔ لیکن اِس سکول میں آکر بھی مجھے سکون نہ ملا۔ ہمیں ہر صبح پانچ بجے اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑتا۔ پھر باقی دن مطالعہ کرنے، دُعائیں پڑھنے اور چرچ میں جا کر عبادت کرنے میں گزر جاتا۔ ہمیں آرام کرنے کے لئے بہت ہی کم وقت ملتا۔
ہم ایسی ہستیوں کے بارے میں تو پڑھتے تھے جنہیں کیتھولک چرچ مُقدس سمجھتا ہے لیکن ہم بائبل نہیں پڑھتے تھے۔ پورے سکول میں ایک ہی بائبل تھی جسے شیشے کے بکس میں رکھا گیا تھا۔ اِسے پڑھنے کے لئے ہمیں خاص اجازت لینی پڑتی تھی۔
جب بورڈنگ سکول میں میرا تیسرا سال شروع ہوا تو ہمارے روزانہ کے معمول میں یہ بھی شامل کر دیا گیا کہ ہم خود کو کوڑے ماریں۔ پادریوں کا کہنا تھا کہ یہ ہماری عبادت کا حصہ ہے۔ اِس سے بچنے کے لئے مَیں بہت زیادہ کھانا کھا لیتا تاکہ مجھے اُلٹیاں آئیں۔ لیکن یہ ترکیب میرے کام نہ آئی۔ آخرکار میری برداشت کی حد ہو گئی اور مَیں بورڈنگ سکول سے بھاگ کر گھر آ گیا۔ اُس وقت مَیں ۱۶ سال کا تھا۔
میری فوجی زندگی کا آغاز
تھوڑے عرصے بعد مَیں باکسنگ اور کشُتی کی باقاعدہ تربیت لینے لگا۔ اِس سے مَیں زیادہ خوداعتماد تو ہو گیا لیکن اِس کے ساتھ ہی ساتھ مَیں اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے تشدد کا سہارا بھی لینے لگا۔ مَیں بالکل اپنے باپ جیسا بن گیا تھا۔
جب مَیں ۱۹ سال کا تھا تو میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جس کا نام اِنکرنیتا تھا۔ اُس سے ملنے کے بعد میرے دل میں تھوڑی سی مٹھاس پیدا ہوئی۔ نو مہینے کے بعد ہم نے شادی کر لی۔ اِنکرنیتا کی نظر میں مَیں ایک نرممزاج اور باادب انسان تھا لیکن اُسے یہ گمان بھی نہیں تھا کہ میرے دل میں کتنی کڑواہٹ تھی۔ ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہونے کے کچھ ہی دیر بعد مجھے فوج میں بھرتی کے لئے بلایا گیا۔ فوج میں میری پُرتشدد شخصیت سامنے آنے لگی۔
مَیں عام فوج میں اِس لئے بھرتی نہیں ہونا چاہتا تھا کیونکہ مجھے بالوں کا فوجی کٹ سٹائل پسند نہیں تھا۔ اِس لئے مَیں سوچےسمجھے بغیر ایک ایسے فوجی دستے میں بھرتی ہو گیا جو بیرونِملک میں خاص فوجی آپریشن کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ سنسنیخیز اور خطرناک آپریشنوں میں حصہ لے کر مجھے اطمینان ملے گا۔ اور مَیں سوچ رہا تھا کہ اِس طرح مجھے گھریلو ذمہداریوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ فوج نے مجھے تشدد کے راستے پر ڈال دیا۔
میرے سارجنٹ کو نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں پر ظلم کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اُس نے مجھے بھی اپنا نشانہ بنایا۔ لیکن ناانصافی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ مَیں اپنے حق کے لئے لڑنے کو تیار تھا۔ ایک صبح جب حاضری لگائی جا رہی تھی تو مَیں نے کوئی مذاق کِیا جو سارجنٹ کو بُرا لگا۔ اُس نے مجھے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ لیکن مَیں نے اُس کا بازو مروڑ کر اُسے زمین پر گِرا دیا۔ مَیں نے اُس کا بازو پکڑ کر رکھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اگر مَیں نے اُس کا بازو چھوڑا تو وہ اپنی پستول نکال کر مجھے گولی مار دے گا۔
اِس کے نتیجے میں مجھے تین مہینے کے لئے ایک ایسی پلٹن میں بھیج دیا گیا جو فوجیوں کو سزا دینے کے لئے بنائی گئی تھی۔ مَیں ۳۰ آدمیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔ اِن تین مہینوں کے دوران مَیں کپڑے بھی نہیں بدل سکا۔ اِس پلٹن کے سارجنٹ کو فوجیوں پر کوڑے برسانے میں بہت مزہ آتا تھا۔ لیکن ایک موقعے پر مَیں نے اُسے دھمکی دی کہ اگر اُس نے مجھے ہاتھ لگایا تو مَیں اُسے جان سے مار دوں گا۔ اِس پر اُس نے میری سزا کم کر دی اور مجھے ۳۰ کوڑوں کی بجائے صرف تین کوڑے لگائے۔ فوج نے مجھے اُس سارجنٹ جیسا ظالم بنا دیا تھا۔
خفیہ مشن
فوجی تربیت پا کر میرے دل میں ایک کمانڈو یونٹ میں بھرتی ہونے کا شوق بڑھ گیا۔ اِس لئے مَیں نے بِناسوچے اِس یونٹ میں بھرتی ہونے کی درخواست دی۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اِس کا مجھ پر کیا اثر ہوگا۔ مجھے ہر طرح کے ہتھیار اور دھماکاخیز مواد استعمال کرنے کی تربیت دی گئی۔ مجھے امریکہ بھی بھیجا گیا جہاں مَیں نے امریکی خفیہ ادارے سیآئیاے سے مزید تربیت حاصل کی۔
پھر مَیں ایک خفیہ کمانڈو گروپ میں شامل ہو گیا۔ مَیں نے ۱۹۶۰ء کے دہے میں بہت سے خفیہ آپریشنوں میں حصہ لیا۔ اِن میں ایسے آپریشن شامل تھے جن میں ہم نے وسطی اور جنوبی امریکہ میں منشیات اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کی روکتھام کی۔ ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ ہم سمگلروں کو دیکھتے ہی جان سے مار دیں۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ مَیں نے بھی لوگوں کی جان لی۔ ہم کسی بھی سمگلر کو زندہ نہیں چھوڑتے تھے، سوائے اُس کے جس سے ہم مزید معلومات اُگلوا سکتے تھے۔
اِس کے بعد مجھے فوج کے سربراہوں کی جاسوسی کرنے کو کہا گیا۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مَیں اُن فوجی سربراہوں کو بےنقاب کروں جو جنرل فرانکو کی حکومت کی حمایت میں نہیں تھے۔ فرانکو کی حکومت کے بہت سے مخالفین فرانس میں بھی رہتے تھے۔ ہم نے وہاں جا کر اُن کی جاسوسی کی تاکہ اُن کے سرغنوں کو اغوا کرکے سپین لایا جا سکے۔ میرا خیال ہے کہ اُنہیں سپین لا کر ہلاک کر دیا گیا۔
میرا آخری مشن بہت خطرناک ثابت ہوا۔ ہمیں افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کا حکم دیا گیا تھا۔ لہٰذا مَیں نے کرائے کے فوجیوں کی ایک ٹیم بنائی۔ ہمارا منصوبہ یہ تھا کہ ہم آدھی رات کو اُس ملک کے دارالحکومت میں گھس کر فوجی چھاؤنی پر حملہ کریں اور پھر صدارتی محل پر قبضہ کر لیں۔ اِس منصوبے پر عمل کرکے ہم نے چار ہی گھنٹوں میں اپنا مشن پورا کر لیا۔ اِس میں میرے تین ساتھی مارے گئے جبکہ دُشمن فوج کے بہت سے سپاہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میرے ہاتھوں سے بھی کئی سپاہی قتل ہوئے۔
اِس ہولناک واقعے نے میرے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ میری نیند حرام ہو گئی۔ مجھے ڈراؤنے خواب آنے لگے جن میں مَیں دُشمنوں سے دستبدست لڑ کر اُنہیں قتل کر دیتا۔ اُن کی خوف سے بھری ہوئی آنکھیں مجھے ستاتی رہتیں۔
اِس لئے مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مَیں اب کسی بھی مشن میں حصہ نہیں لوں گا۔ مَیں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن تین مہینے بعد ہی مجھے دوبارہ جاسوسی کرنے کے لئے بلایا گیا۔ اِس لئے مَیں سوئٹزرلینڈ بھاگ گیا۔ چند مہینے بعد
میری بیوی اِنکرنیتا بھی وہاں آ گئیں اور ہم شہر بازل میں رہنے لگے۔ اِنکرنیتا کو اِس بات کی خبر نہیں تھی کہ مَیں خفیہ ایجنٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔بُری عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتیں
مَیں نے فوج میں تین سال تک کام کِیا تھا۔ اِس دوران اِنکرنیتا نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ پاک صحیفوں کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ اِنکرنیتا نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے خدا کے بارے میں بہت سی باتیں سیکھی ہیں۔ اُن کی باتوں کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔ سوئٹزرلینڈ میں ہم نے یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کِیا اور اُن کے ساتھ پاک صحیفوں کا مطالعہ شروع کِیا۔
جب مَیں نے یہ سیکھا کہ خدا مستقبل میں کیا کرے گا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ مَیں خدا کی مرضی پر تو چلنا چاہتا تھا لیکن ظلم اور تشدد والے رویے کو چھوڑنا میرے لئے بہت مشکل تھا۔ لیکن مَیں پاک صحیفوں سے جو باتیں سیکھ رہا تھا، وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔ کچھ مہینے کے بعد مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ گھرگھر کی مُنادی کے کام میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی۔
یہوواہ خدا کی مدد سے مَیں نے بالآخر اپنے رویے پر قابو پانا سیکھ لیا۔ مَیں اور اِنکرنیتا بپتسمہ لے کر یہوواہ کے گواہ بن گئے۔ کچھ سال بعد جب میری عمر ۲۹ سال ہوئی تو مجھے کلیسیا میں نگہبان کے طور پر مقرر کِیا گیا۔
سن ۱۹۷۵ میں ہم نے سپین واپس جانے کا فیصلہ کِیا۔ لیکن فوج نے میرا پیچھا ابھی بھی نہیں چھوڑا تھا۔ مجھے ایک اَور خاص مشن پر جانے کا حکم ملا۔ اِس لئے مَیں دوبارہ سوئٹزرلینڈ بھاگ گیا۔ ہم وہاں کئی سال تک رہے اور پھر ۱۹۹۶ء میں سپین واپس آ گئے۔
میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے اور وہ دونوں شادیشُدہ ہیں۔ میرے بیٹے کے دو بچے ہیں۔ وہ سب کے سب یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ جب سے مَیں یہوواہ کا گواہ بنا ہوں، مَیں نے بہت سے لوگوں کو پاک صحیفوں کی تعلیم دی ہے۔ اِن میں سے ۱۶ لوگ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے لگے ہیں۔ اِن میں ایک ایسا جوان آدمی بھی شامل ہے جو شمالی سپین میں ہونے والے دنگے فساد میں ملوث تھا۔ اِس جوان آدمی کی مدد کرکے مجھے بےحد خوشی ملی ہے۔
مَیں نے باربار یہوواہ خدا سے یہ دُعا کی کہ وہ تشدد کی راہ کو ترک کرنے میں میری مدد کرے اور مجھے ڈراؤنے خوابوں سے چھٹکارا دلائے۔ مَیں نے زبور ۳۷:۵ میں دی گئی نصیحت پر عمل کِیا ہے جہاں لکھا ہے: ”اپنی راہ [یہوواہ] پر چھوڑ دے اور اُس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔“ اور واقعی یہوواہ خدا نے مجھے تشدد کی راہ کو چھوڑنے کی طاقت دی ہے۔ اِس کے نتیجے میں میری اور میرے گھروالوں کی زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے۔
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
تیرہ سال کی عمر میں، جب مَیں کیتھولک بورڈنگ سکول میں داخل ہوا
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
سن ۱۹۶۸ میں، فوج سے استعفیٰ دینے کے بعد
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
میری اور میری بیوی اِنکرنیتا کی حالیہ تصویر