سرِورق کا موضوع
اپنے بچوں کو خودغرضی کی وبا سے بچائیں
یوں تو انسان کے پاس دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ آجکل بہت سے لوگ دوسروں کی بجائے بس اپنے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ لوگ بڑی بےشرمی سے دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں، بڑی لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہیں، بات بات پر گالیاں دیتے ہیں اور معمولی سی بات پر بھی بھڑک اُٹھتے ہیں۔
خودغرضی کا رُجحان بہت سے خاندانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ صرف اِس وجہ سے طلاق لے لیتے ہیں کیونکہ اُن کو لگتا ہے کہ اُن کا جیونساتھی اُن کے قابل نہیں ہے۔ بعض والدین اپنے بچوں کی اصلاح کرنے سے کتراتے ہیں اور اُن کی ہر ضد پوری کرتے ہیں اور یوں انجانے میں اپنے بچوں کے دل میں خودغرضی کے بیج بوتے ہیں۔
البتہ بہت سے والدین اپنے بچوں میں خودغرضی کے بیج بونے کی بجائے اُنہیں دوسروں کا خیال رکھنا سکھاتے ہیں۔ اِس کا اُن کے بچوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اُن کے بہت سے دوست ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔ وہ خودغرض بچوں کی نسبت زیادہ مطمئن بھی رہتے ہیں۔ پاک کلام میں اِس کی وجہ یوں بتائی گئی ہے: ”لینے والے کی نسبت دینے والے کو زیادہ خوشی ملتی ہے۔“—اعمال ۲۰:۳۵، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
یقیناً آپ بھی چاہتے ہیں کہ آج کا خودپرست ماحول آپ کے بچوں پر اثر نہ کرے اور آپ کے بچے دوسروں کا خیال رکھنا سیکھیں۔ لیکن بچوں کے دل میں خودپرستی کا رُجحان جڑ کیسے پکڑتا ہے؟ آئیں، اِس سلسلے میں تین وجوہات پر غور کریں اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے بچے خودغرض نہ بنیں۔
۱. والدین بِلاوجہ تعریف کرتے ہیں
مسئلہ: حال ہی میں تحقیقدانوں نے دیکھا ہے کہ بہت سے جوان لوگ غلط توقعات کے ساتھ ملازمت شروع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ توقع کرتے ہیں کہ وہ جلد کامیابی حاصل کر لیں گے، چاہے وہ محنت کریں یا نہ کریں۔ بعض سوچتے ہیں کہ اُنہیں جلد ترقی ملے گی حالانکہ اُن کے پاس کام کا تجربہ نہیں ہوتا۔ کچھ جوان لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بہت خاص ہیں۔ اِس لئے وہ توقع کرتے ہیں کہ دوسرے اُن کو سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھیں۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں۔
مسئلے کی جڑ: بعض لوگ اپنے آپ کو اِس لئے حد سے زیادہ اہم خیال کرتے ہیں کیونکہ اُن کو بچپن سے یہ احساس دِلایا گیا کہ وہ بہت خاص ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ عرصے کے لئے ماہرِنفسیات نے اِس نظریے کو فروغ دیا کہ کامیابی کا راز خوداعتمادی ہے۔ اِس لئے والدین کو یہ مشورے دئے گئے کہ وہ اپنے بچوں کی زیادہ سے زیادہ تعریف کریں تاکہ اُن میں زیادہ سے زیادہ خوداعتمادی پیدا ہو؛ بچوں پر کسی طرح کی روکٹوک نہ کریں تاکہ وہ بےحوصلہ نہ ہوں؛ بچوں کو کبھی بھی اُن کی غلطیوں کا احساس نہ دِلائیں۔ یہ نظریہ بہت مقبول ہو گیا تھا یہاں تک کہ لوگوں کا خیال تھا کہ جو والدین اِس پر عمل نہیں کرتے، وہ اچھے والدین نہیں ہیں۔
اِس وجہ سے بہت سے والدین اپنے بچوں کو ہر وقت داد دینے لگے۔ وہ اپنے بچوں کی ہر کامیابی، حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا بھی جشن منانے لگے اور اُن کی ہر غلطی، حتیٰ کہ بڑی بڑی غلطیوں کو بھی نظرانداز کرنے لگے۔ اِن والدین کا خیال تھا کہ بچوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُن کی غلطیوں اور خامیوں کو نظرانداز کِیا جائے اور بات بات پر اُن کو سراہا جائے۔ لیکن اُنہوں نے بچوں کو ذمہداری اُٹھانا نہیں سکھایا جس سے اُن میں خوداعتمادی کی صحیح بنیاد پڑتی۔
پاک کلام کی ہدایت: پاک کلام کے مطابق ایک شخص کی تعریف کرنا اچھا ہوتا ہے بشرطیکہ اُس نے کوئی قابلِتعریف کام کِیا ہو۔ (متی ۲۵:۱۹-۲۱) لیکن اگر بچوں کی بِلاوجہ تعریف کی جائے تو وہ اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔“ (گلتیوں ۶:۳) اِس لئے پاک کلام میں والدین کو یہ ہدایت دی گئی ہے: ”لڑکے کی تربیت [یعنی اصلاح] سے کوتاہی نہ کر۔“ *—امثال ۲۳:۱۳، نیو اُردو بائبل ورشن۔
مسئلے کا حل: جب آپ کا بچہ کوئی غلط کام کرتا ہے تو اُس کی اصلاح کریں اور جب وہ کوئی قابلِتعریف کام کرتا ہے تو اُس کو داد دیں۔ بِلاوجہ اُس کی تعریف نہ کریں کیونکہ اِس سے بچے میں غرور پیدا ہوتا ہے۔ کتاب خودپرست نسل میں بتایا گیا ہے کہ ”بِلاشُبہ دوسروں سے تعریفیں سُن سُن کر اعتماد پیدا ہوتا ہے لیکن بہتر ہے کہ ایک شخص اپنی صلاحیتوں میں نکھار لائے اور نئے نئے ہنر سیکھے اور یوں اُس میں خوداعتمادی پیدا ہو۔“ (یہ کتاب انگریزی میں دستیاب ہے۔)
”جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے۔“
—رومیوں ۱۲:۳۔
۲. والدین بچوں کو غلطیوں کے انجام سے بچاتے ہیں
مسئلہ: بہت سے نوجوان مشکلات سے نمٹنا نہیں سیکھتے اور جب وہ ملازمت شروع کرتے ہیں تو یہ اُن کے لئے مسئلہ بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ نوجوان معمولی سی تنقید بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ بعض نوجوان صرف وہی ملازمت قبول کرتے ہیں جو اُن کی مرضی کے مطابق ہو۔ کتاب نوجوانوں کو ذمہدار بننا سکھائیں (انگریزی میں دستیاب) میں ڈاکٹر جوزف ایلن نے اِس کی ایک مثال دی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب اُنہوں نے ملازمت کے سلسلے میں ایک لڑکے کا انٹرویو لیا تو اُس نے کہا: ”لگتا ہے کہ مجھے اِس ملازمت میں کچھ بور کام بھی کرنے پڑیں گے اور مَیں ایسے کام نہیں کر سکتا۔“ ڈاکٹر جوزف ایلن نے اِس لڑکے کے بارے میں لکھا: ”حیرت کی بات ہے کہ یہ لڑکا ۲۳ سال کا ہو کر بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ ہر ملازمت میں کچھ بور کام ہوتے ہیں۔“
مسئلے کی جڑ: بہت سے والدین کی کوشش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہر طرح کی مشکل اور پریشانی سے بچائے رکھیں۔ مثال کے طور پر اگر بیٹی امتحان میں فیل ہو گئی تو وہ ٹیچر پر دباؤ ڈال کر اُسے پاس کروا دیتے ہیں؛ اگر بیٹے کا چالان ہو گیا تو وہ اُس کا چالان بھر دیتے ہیں؛ اگر بیٹے کی دوستی ٹوٹ گئی تو وہ سارا الزام دوست پر ڈال دیتے ہیں۔
یہ فطری بات ہے کہ والدین اپنے بچوں کو مشکلات سے بچانا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کا بچہ غلطی کرتا ہے اور آپ اُس کو غلطی کے انجام سے بچاتے ہیں تو بچہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور خود میں بہتری لانا نہیں سیکھے گا۔ کتاب نوجوانوں کی اصلاحوتربیت (انگریزی میں دستیاب) میں لکھا ہے: ”جو بچے اپنی غلطیوں کے نتائج سے نمٹنا نہیں سیکھتے، وہ نہایت خودغرض ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی زندگی کا مقصد صرف اُن کے ناز نخرے اُٹھانا ہے۔“
پاک کلام کی ہدایت: مشکلات زندگی کا حصہ ہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”ہر ایک کے ساتھ بُری چیزیں ہوتی ہیں!“ (واعظ ۹:۱۱، اِیزی ٹو رِیڈ ورشن) اِس کا مطلب ہے کہ مشکلات اچھے لوگوں پر بھی آتی ہیں۔ اِس سلسلے میں پولس کی زندگی پر غور کریں جو خدا کے وفادار خادم تھے۔ اُن پر طرحطرح کی مشکلات آئیں اور اُنہوں نے اِن مشکلات کا مقابلہ کِیا۔ اِس سے اُن کو فائدہ ہوا۔ اُنہوں نے لکھا: ”چاہے مَیں سیروآسودہ ہوں، چاہے فاقہ کرتا ہوں، چاہے میرے پاس ضرورت سے زیادہ ہو، مَیں نے ہر وقت اور ہر حال میں خوش رہنا سیکھا ہے۔“—فلپیوں ۴:۱۱، ۱۲، نیو اُردو بائبل ورشن۔
مسئلے کا حل: اپنے بچے کی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے پاک کلام کے اِس اصول پر عمل کریں: ”ہر شخص اپنا ہی بوجھ اُٹھائے گا۔“ (گلتیوں ۶:۵) مثال کے طور پر اگر بیٹے کا چالان ہو گیا ہے تو اُسے اپنے جیبخرچ سے چالان بھرنے دیں؛ اگر بیٹی اِمتحان میں فیل ہو گئی ہے تو اُسے سمجھائیں کہ وہ دل لگا کر پڑھائی کرے تاکہ اگلی بار پاس ہو جائے؛ اگر بیٹے کی دوستی ٹوٹ گئی ہے تو اُسے تسلی ضرور دیں لیکن اُسے یہ بھی کہیں کہ وہ خود سے پوچھے کہ ”مَیں اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتا ہوں؟ کیا مجھے خود میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ مَیں دوستی کا رشتہ نبھا سکوں؟“ جب بچے اپنے مسئلوں کو خود حل کرنا سیکھتے ہیں تو اُن میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
”ہر شخص اپنے ہی کردار کا امتحان لے!“—گلتیوں ۶:۴، نیو اُردو بائبل ورشن۔
۳. والدین مالودولت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں
مسئلہ: جب کچھ نوجوانوں سے پوچھا گیا کہ وہ کس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو اُن میں سے ۸۱ فیصد نے کہا: ”دولتمند بننے کو۔“ اُن کے نزدیک دوسروں کی مدد کرنا اِتنا اہم نہیں تھا۔ لیکن دولت کے پیچھے بھاگنے سے انسان کو حقیقی خوشی نہیں ملتی۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن لوگوں کا دھیان مالودولت حاصل کرنے پر رہتا ہے، وہ اکثر افسردگی کا شکار رہتے ہیں۔ اور دوسرے لوگوں کی نسبت وہ بیماریوں اور نفسیاتی مسائل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
مسئلے کی جڑ: بعض بچے ایسے گھروں میں پرورش پاتے ہیں جہاں مالودولت کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ کتاب نفسپرستی کی وبا (انگریزی میں دستیاب) کے مطابق: ”والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے خوش رہیں اور بچے چاہتے ہیں کہ اُنہیں اپنی پسند کی چیزیں ملیں۔ اِس لئے والدین اپنے بچوں کے لئے یہ چیزیں خریدتے ہیں اور بچے خوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن جلد ہی اُن کا دل بھر جاتا ہے اور وہ نئی چیزوں کی فرمائش کرنے لگتے ہیں۔“
اشتہار بنانے والی کمپنیاں لوگوں کے اِس رُجحان کا فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ اُن کے اشتہاروں میں اکثر یہ پیغام ہوتا ہے کہ ”نمبر ون لوگوں کے لئے نمبر ون چیز!“ یا ”خوبصورتی حق ہے آپ کا!“ ایسے پیغام بہت سے جوان لوگوں کو لبھاتے ہیں اور وہ اِن چیزوں کو خرید لیتے ہیں۔ اِس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ قرضے میں ڈوب جاتے ہیں۔
پاک کلام کی ہدایت: پاک کلام میں اِس بات کو تسلیم کِیا گیا ہے کہ انسان کو پیسے کی ضرورت ہے۔ (واعظ ۷:۱۲) لیکن اِس میں یہ آگاہی بھی دی گئی ہے کہ ”زردوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے۔“ اِس میں آگے بتایا گیا ہے کہ ”بعض لوگوں نے دولت کے لالچ میں آ کر . . . طرحطرح کے غموں سے اپنے آپ کو چھلنی کر لیا۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۱۰، نیو اُردو بائبل ورشن) پاک کلام میں ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ مالودولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر راضی رہیں۔—۱-تیمتھیس ۶:۷، ۸۔
”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ . . . آزمایش اور پھندے اور بہت سی بےہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں۔“ —۱-تیمتھیس ۶:۹۔
مسئلے کا حل: اِس بات پر غور کریں کہ آپ خود مالودولت کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ پیسے کو حد سے زیادہ اہمیت نہ دیں اور اپنے بچوں میں بھی یہی سوچ پیدا کریں۔ کتاب نفسپرستی کی وبا میں یہ مشورہ دیا گیا ہے: ”والدین اور بچے مل کر اِن سوالوں پر باتچیت کر سکتے ہیں: کیا ہمیں ایک چیز کو محض اِس لئے خریدنا چاہئے کیونکہ وہ سیل پر لگی ہے؟ بینک کا قرض چُکانے میں کیا کچھ شامل ہوتا ہے؟ کیا ہم نے کبھی کسی کی باتوں میں آکر ایک چیز خریدی ہے حالانکہ ہمیں اِس کی ضرورت نہیں تھی؟“
یاد رکھیں کہ گھر کے مسائل نئینئی چیزیں خریدنے سے نہیں بلکہ باتچیت کرنے سے حل ہوتے ہیں۔ اِس سلسلے میں کتاب دولتمند ہونے کا خسارہ (انگریزی میں دستیاب) میں لکھا ہے: ”لوگ چیزیں خرید خرید کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اِس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مسائل تو سمجھداری سے کام لینے اور ایک دوسرے کا لحاظ کرنے سے حل ہوتے ہیں نہ کہ جُوتے اور کپڑے خریدنے سے۔“
^ پیراگراف 11 پاک کلام میں یہ نہیں کہا گیا کہ بچوں کی اصلاحوتربیت تشدد، گالیوں یا طنز سے کی جائے۔ (افسیوں ۴:۲۹، ۳۱؛ ۶:۴) بچوں کی اصلاح کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اُن پر غصہ نکالا جائے بلکہ یہ ہے کہ اُن کو صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سکھایا جائے۔