مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تاریخ کے ورقوں سے

کورشِ‌اعظم

کورشِ‌اعظم

پانچ اکتوبر ۵۳۹ قبل‌ازمسیح کی رات کو شہر بابل کے ساتھ کچھ ایسا ہوا جو کسی کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں تھا۔‏ اُس رات مادیوں اور فارسیوں کی فوج نے بابل پر حملہ کِیا اور اُس کو شکست دے دی۔‏ اِس فوج کے سپہ‌سالار فارس کے بادشاہ کورش تھے جن کو سائرس یا خورس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔‏ اُنہوں نے بابل پر فتح پانے کا جو طریقہ اپنایا،‏ وہ واقعی بےمثال ہے۔‏

کورش کی فتح

کتاب قدیم عالمی طاقتوں کے حکمران—‏کورشِ‌اعظم ‏(‏انگریزی میں دستیاب)‏ میں لکھا ہے:‏ ”‏جب کورش نے شہر بابل پر حملہ کرنے کا فیصلہ کِیا تو یہ شہر مشرقِ‌وسطیٰ اور شاید دُنیا میں سب سے شاندار شہر تھا۔‏“‏ شہر بابل دریائےفرات کے کنارے پر واقع تھا اور اِس کی چاروں طرف خندق کھدی ہوئی تھی جس میں دریا کا پانی بھرا رہتا تھا۔‏ اِس کے علاوہ شہر کی دیواریں بہت مضبوط اور اُونچی تھیں۔‏ اِس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ اِس شہر پر قبضہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‏

کورش کے آدمیوں نے دریائےفرات کا رُخ موڑ دیا جس کے نتیجے میں شہر میں دریا کا پانی اُتر گیا۔‏ یوں کورش کے فوجی دریا میں سے چل کر پھاٹک تک پہنچ گئے۔‏ بابل کے لوگوں نے پھاٹک کو کُھلا چھوڑا ہوا تھا۔‏ اِس لئے کورش کی فوج نے بڑی آسانی سے شہر بابل پر فتح پا لی۔‏ یونانی تاریخ‌دان ہیروڈوٹس اور زینوفن کے مطابق بابل کے باشندے خود کو اپنے شہر میں اِتنا محفوظ سمجھتے تھے کہ حملے کی رات بادشاہ سمیت بہت سے لوگ بڑی دھوم‌دھام سے جشن منا رہے تھے۔‏ (‏بکس  ‏”‏نوشتۂ‌دیوار“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ دلچسپی کی بات ہے کہ کئی صدیاں پہلے پاک کلام میں کورش کی فتح کے بارے میں پیشین‌گوئی کی گئی تھی۔‏

پاک کلام میں پیشین‌گوئی کی گئی تھی کہ کورش بادشاہ بابل پر فتح حاصل کریں گے۔‏

حیران‌کُن پیشین‌گوئیاں

یسعیاہ نبی کی پیشین‌گوئیاں خاص طور پر حیران‌کُن ہیں کیونکہ وہ بابل کی شکست سے تقریباً ۲۰۰ سال پہلے لکھی گئی تھیں۔‏ یہ پیشین‌گوئیاں کورش کی پیدائش سے بھی تقریباً ۱۵۰ سال پہلے کی گئی تھیں۔‏ ذرا کچھ پیشین‌گوئیوں پر غور کریں:‏

یہودیوں کی رِہائی

کورش کے حملے سے کئی سال پہلے،‏ ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں،‏ بابل کی فوج نے شہر یروشلیم کو تباہ کر دیا تھا اور اِس کے زیادہ‌تر باشندوں کو شہر بابل لے گئی تھی۔‏ پیشین‌گوئی کے مطابق اُن یہودیوں کو کتنے عرصے تک بابل میں رہنا تھا؟‏ خدا نے کہا تھا:‏ ”‏جب ستر برس پورے ہوں گے تو مَیں شاہِ‌بابلؔ کو اور اُس قوم کو .‏ .‏ .‏ سزا دوں گا اور مَیں اُسے ایسا اُجاڑوں گا کہ ہمیشہ تک ویران رہے۔‏“‏—‏یرمیاہ ۲۵:‏۱۲‏۔‏

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ کورش نے ۵۳۹ قبل‌ازمسیح میں شہر بابل پر قبضہ کر لیا تھا۔‏ اِس کے کچھ عرصے بعد اُنہوں نے یہودیوں کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دی۔‏ یہودی ۵۳۷ قبل‌ازمسیح میں اپنے وطن واپس پہنچ گئے،‏ یعنی یروشلیم کی بربادی کے ٹھیک ۷۰ سال بعد۔‏ (‏عزرا ۱:‏۱-‏۴‏)‏ پیشین‌گوئی کے عین مطابق شہر بابل اِس کے کچھ عرصے بعد بالکل ”‏ویران“‏ ہو گیا۔‏ واقعی،‏ پاک کلام میں درج پیشین‌گوئیاں ہمیشہ پوری ہوتی ہیں!‏

یہ معلومات آپ کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں؟‏

غور کریں کہ بائبل میں پیشین‌گوئی کی گئی تھی کہ (‏۱)‏ یہودی ۷۰ سال تک بابل میں اسیر ہوں گے؛‏ (‏۲)‏ کورش بادشاہ بابل پر فتح حاصل کریں گے اور وہ کس طریقے سے کامیاب ہوں گے اور (‏۳)‏ شہر بابل ہمیشہ تک ویران رہے گا۔‏ اِن باتوں کی پیشین‌گوئی کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔‏ لہٰذا اِس بات کا ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ ”‏نبوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روحُ‌القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۲۱‏)‏ بِلاشُبہ بائبل ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر شخص کو جائزہ لینا چاہئے۔‏

^ پیراگراف 36 یہ لفظ پیسے کی اِکائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ مزید معلومات کے لئے کتاب دانی‌ایل کی نبوّت پر دھیان دیں!‏ کے باب نمبر ۷ کو دیکھیں۔‏ (‏یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔‏)‏