گھریلو زندگی کو خوشگوار بنائیں | ازدواجی زندگی
ساس سُسر کے ساتھ تعلقات
مسئلہ
”ایک مرتبہ جب ہمیں کسی مسئلے کا سامنا ہوا تو میری بیوی نے جا کر اپنے ماں باپ کو اِس کے بارے میں بتا دیا۔ پھر اُس کے ابو نے مجھے بلایا تاکہ وہ مجھے اِس سلسلے میں کوئی صلاح مشورہ دے سکیں۔ مجھے یہ بات بالکل اچھی نہیں لگی۔“—جیمز۔ *
”میری ساس مجھ سے اکثر یہ کہتی ہیں: ”مَیں اپنے بیٹے سے بہت اُداس ہو جاتی ہوں۔“ وہ جتاتی ہیں کہ وہ اور اُن کا بیٹا ایک دوسرے کے کتنے قریب تھے۔ یہ سُن کر مجھے لگتا ہے کہ جیسے اُن کی تکلیف کی وجہ مَیں ہوں اور مجھے اُن کے بیٹے سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔“—نتاشا۔
اگر میاں یا بیوی کو اپنے ساس سُسر سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ کیا کر سکتے ہیں تاکہ یہ مسئلہ اُن کے ازدواجی بندھن میں دراڑ نہ ڈالے؟
آپ کو کیا بات ذہن میں رکھنی چاہیے؟
شادی سے ایک نئے گھرانے کی بنیاد ڈلتی ہے۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ جب ایک آدمی کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے ”باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا۔“ یہی بات بیویوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جب ایک عورت کی شادی ہو جاتی ہے تو پاک کلام کے مطابق وہ اور اُس کا شوہر ”ایک جسم“ ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ ایک نئے گھرانے کی بنیاد ڈالتے ہیں۔—متی 19:5۔
پہلے ازدواجی زندگی پھر والدین۔ شادیشُدہ جوڑوں کی مدد کرنے والے ماہر جان گوٹمین نے لکھا: ”میاں بیوی کے لیے یہ سیکھنا بہت ضروری ہے وہ ہر بات میں اپنے جیون ساتھی کے احساسات کا خیال رکھیں اور اُس کے فائدے کا سوچیں۔ اپنے ازدواجی بندھن کو مضبوط رکھنے کے لیے شاید آپ کو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے تھوڑا فاصلہ رکھنا پڑے۔“ *
بعض والدین کو نئی صورتحال کے مطابق ڈھلنا مشکل لگ سکتا ہے۔ ایک جوان شوہر کہتا ہے: ”شادی سے پہلے میری بیوی اپنے ماں باپ کی خواہشوں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی تھی۔ پھر جب ہماری شادی ہوئی تو اُس کی ماں نے دیکھا کہ اب اُس کی بیٹی کی زندگی میں کسی اَور کو اہم مقام مل گیا ہے۔ میری ساس کے لیے یہ بات قبول کرنا بہت مشکل تھا۔“
کچھ نئے نویلے جوڑوں کو بھی نئی صورتحال کے مطابق ڈھلنا مشکل لگ سکتا ہے۔ جیمز جن کا اِس مضمون کے شروع میں ذکر ہوا تھا، کہتے ہیں: ”ہم دوستوں کو تو اپنی مرضی سے چن سکتے ہیں لیکن ساس سُسر کو نہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے کوئی آپ سے کہہ رہا ہو: ”بھلے تُم چاہو یا نہ چاہو، یہ تمہارے دو نئے دوست ہیں۔“ چاہے ساس سُسر کتنا ہی جینا دوبھر کیوں نہ کر دیں، آخر وہ ہیں تو آپ کے جیون ساتھی کے ماں باپ ہی۔“
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اگر آپ اور آپ کے جیون ساتھی میں اپنے ساس سُسر کو لے کر کسی بات پر اِختلاف ہے تو دونوں مل کر مسئلے کو حل کریں۔ پاک کلام کی اِس مشورت پر عمل کریں: ”صلح کا طالب ہو اور اُسی کی پیروی کر۔“—زبور 34:14۔
اِس سلسلے میں نیچی دی گئی کچھ مثالوں پر غور کریں۔ اگرچہ ہر مثال میں مسئلے کو میاں یا بیوی کے زاویے سے پیش کِیا گیا ہے لیکن اِن مسائل کا شوہر اور بیوی دونوں کو سامنا ہو سکتا ہے۔ اِن مثالوں میں درج اصولوں پر عمل کرنے سے آپ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ بہت سے ایسے مسئلوں کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں جو ساس سُسر کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہیں۔
آپ کی بیوی کہتی ہے: ”کاش آپ کے میری امی کے ساتھ تعلقات اَور اچھے ہوتے!“ لیکن آپ کی اپنی ساس سے بالکل نہیں بنتی۔
یہ کریں: اپنی بیوی کے ساتھ اِس مسئلے پر بات کریں اور اُس کی تجویز پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ آپ ایسا اِس لیے کریں گے کیونکہ آپ کو اپنی بیوی سے پیار ہے اور آپ نے عمر بھر اُس کا خیال رکھنے کا وعدہ کِیا ہے۔ آپس میں باتچیت کرتے وقت ایک یا دو ایسے طریقوں پر غور کریں جن کے ذریعے آپ کا اپنی ساس کے ساتھ رشتہ بہتر ہو سکتا ہے۔ پھر اِن طریقوں پر عمل کریں۔ جب آپ کی بیوی آپ کی کوششوں کو دیکھے گی تو یقیناً اُس کے دل میں آپ کے لیے عزت بڑھے گی۔—پاک کلام کا اصول: 1-کُرنتھیوں 10:24۔
آپ کا شوہر کہتا ہے: ”تمہیں میری خوشی سے زیادہ اپنے ماں باپ کی خوشی کی پرواہ ہے۔“
یہ کریں: اپنے شوہر کے ساتھ اِس مسئلے پر بات کریں اور مسئلے کو اپنے شوہر کے نقطۂنظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ بِلاشُبہ آپ کے شوہر کو اِس بات سے نہیں جلنا چاہیے کہ آپ اپنے والدین کی عزت کرتی ہیں۔ (امثال 23:22) مگر پھر بھی آپ کو اپنی باتوں اور کاموں سے اپنے شوہر کو یقین دِلانا چاہیے کہ آپ اُسے اپنے ماں باپ سے زیادہ اہم سمجھتی ہیں۔ جب آپ کے شوہر کو اِس بات کا یقین ہوگا تو وہ یہ نہیں سوچے گا کہ آپ کی توجہ پانے کے لیے اُسے آپ کے والدین سے مقابلہ کرنا ہوگا۔—پاک کلام کا اصول: اِفسیوں 5:33۔
آپ کی بیوی آپ سے مشورہ لینے کی بجائے اپنے والدین سے مشورہ لیتی ہے۔
یہ کریں: اپنی بیوی کے ساتھ طے کریں کہ کن مسئلوں کے بارے میں والدین سے مشورہ لینا مناسب ہوگا اور کن کے بارے میں نہیں۔ ایسا کرتے وقت سمجھداری سے کام لیں اور زیادہ سخت نہ بنیں۔ اگر آپ دونوں مل کر حدیں مقرر کریں گے تو آپ کے ازدواجی بندھن میں دراڑ پیدا نہیں ہوگی۔—پاک کلام کا اصول: فلپیوں 4:5۔
^ پیراگراف 4 اِس مضمون میں فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔
^ پیراگراف 9 کتاب ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں سات اصول (انگریزی میں دستیاب)۔