اپنی جوانی ہی سے اپنے خالق کو یاد رکھنا
میری کہانی میری زبانی
اپنی جوانی ہی سے اپنے خالق کو یاد رکھنا
از ڈیوڈ زیڈ۔ ہبشمان
”اب اگر میری زندگی کا آخر بھی ہو جائے تو مجھے پُختہ یقین ہے کہ مَیں یہوواہ کی وفادار رہی ہوں۔ میری اُس سے درخواست ہے کہ وہ میرے ڈیوڈ کا خیال رکھے۔ اَے یہوواہ مَیں ڈیوڈ اور اپنی شاندار خوشحال شادی کیلئے آپکی شکرگزار ہوں!“
جبمَیں نے مارچ ۱۹۹۲ میں، اپنی بیوی کو دفن کرنے کے بعد اُس کی ڈائری کی اس آخری عبارت کو پڑھا تو ذرا میرے جذبات کا اندازہ کریں۔ صرف پانچ مہینے پہلے ہم نے کُلوقتی خدمتگزاری میں ہیلن کے ۶۰ سال مکمل ہونے کی یادگار تقریب منائی تھی۔
مجھے آج بھی ۱۹۳۱ کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب مَیں اور ہیلن کولمبس، اوہائیو، یو.ایس.اے. میں ایک کنونشن پر اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس وقت ہیلن ابھی ۱۴ برس کی بھی نہیں تھی لیکن وہ مجھ سے زیادہ اُس موقع کی اہمیت کو سمجھتی تھی۔ جلد ہی خدمتگزاری کے لئے ہیلن کا جوشوجذبہ عیاں ہو گیا جب وہ اور اُس کی بیوہ ماں پائنیر بن گئیں، یہوواہ کے گواہوں کے کُلوقتی مبشروں کو پائنیر کہتے ہیں۔ جنوبی ریاستہائےمتحدہ کے دیہی علاقوں میں مُنادی کرنے کے لئے اُنہوں نے اپنے پُرآسائش گھر کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
میرا مسیحی ورثہ
میرے والدین اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ ۱۹۱۰ میں مشرقی پینسلوانیہ سے ریاست کے مغربی حصے، گروو سٹی میں منتقل ہو گئے۔ وہاں اُنہوں نے ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا اور ریفورمڈ چرچ کے سرگرم رُکن بن گئے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد، ولیم ایونز، ایک بائبل سٹوڈنٹ، جیسے کہ یہوواہ کے گواہ اُس وقت کہلاتے تھے، اُن کے گھر آیا۔ میرے والد اُس وقت ۲۰ کے دہے میں تھے اور میری والدہ اُن سے پانچ سال چھوٹی تھیں، اُنہوں نے ویلز کے رہنے والے اس خوشطبع شخص کی بات سنی اور اُسے
کھانے پر مدعو کِیا۔ اُنہوں نے جلد ہی اُن بائبل سچائیوں کو قبول کر لیا جنہیں وہ سیکھ رہے تھے۔کلیسیا کے قریب رہنے کی خاطر، میرے والد خاندان کو لیکر تقریباً ۴۰ کلومیٹر دُور شارون کے قصبے میں منتقل ہو گئے۔ چند مہینے بعد، ۱۹۱۱ یا ۱۹۱۲ میں میرے والد اور والدہ نے بپتسمہ لے لیا۔ واچ ٹاور سوسائٹی کے پہلے صدر، چارلس ٹیز رسل نے بپتسمے کی تقریر دی۔ مَیں دسمبر ۴، ۱۹۱۶ میں اپنے چار بہن بھائیوں کے بعد پیدا ہوا۔ میری پیدائش کے وقت یہ اعلان کِیا گیا: ”پیار کے قابل ایک اَور بھائی۔“ پس میرا نام ڈیوڈ رکھا گیا جسکا مطلب ہے ”پیارا۔“
جب مَیں چار ہفتوں کا تھا تو مجھے میرے پہلے کنونشن پر لیجایا گیا۔ اُن ابتدائی دنوں میں، میرے والد اور بڑے بھائی کلیسیائی اجلاسوں کیلئے کئی میل پیدل چل کر جاتے تھے جبکہ میری والدہ مجھے اور میری بہن کو ٹرام پر لیکر جاتی تھی۔ اجلاس صبح اور شام کے اوقات میں منعقد ہوتے تھے۔ گھر میں ہماری گفتگو کا مرکز اکثر دی واچٹاور اور دی گولڈن ایج، موجودہ اویک! کے مضامین ہوا کرتے تھے۔
عمدہ نمونوں سے استفادہ کرنا
کئی پلگرمز (زائرین) جیسےکہ اُس وقت سفری مقررین کو کہا جاتا تھا، ہماری کلیسیا کا دورہ کِیا کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ عموماً ایک یا دو دن گزارتے تھے۔ ایک مقرر جو مجھے آج تک یاد ہے وہ والٹر جے. تھارن تھا جس نے ’اپنی جوانی کے دنوں‘ سے اپنے عظیم خالق کو یاد رکھا تھا۔ (واعظ ۱۲:۱) مَیں لڑکپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ چار حصوں پر مشتمل انسانی تاریخ کی ریکارڈشُدہ پیشکش، ”فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن“ دکھانے کیلئے جایا کرتا تھا۔
اگرچہ بھائی ایونز اور اُس کی اہلیہ مریم کی کوئی اولاد نہیں تھی تو بھی وہ ہمارے خاندان کے روحانی والدین اور اسلاف بن گئے۔ ولیم میرے والد کو ہمیشہ ”بیٹا“ کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور اُس نے اور مریم نے ہمارے خاندان کے اندر بشارتی جذبہ پیدا کِیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں، بھائی ایونز نے سوانسی کے گردونواح میں بائبل سچائی متعارف کروانے کیلئے ویلز کے کافی چکر لگائے۔ وہاں پر وہ امریکی مُناد کے طور پر مشہور تھا۔
بھائی ایونز نے ۱۹۲۸ میں ملازمت چھوڑ کر مغربی ورجینیا کے کوہستانی علاقے میں مُنادی شروع کر دی۔ میرے دو بڑے بھائی، ۲۱سالہ کلارنس اور ۱۹سالہ کارل اُس کیساتھ چلے گئے۔ ہم چاروں لڑکوں نے کافی سال تک کُلوقتی خدمت انجام دی۔ درحقیقت، ہم سب نے اپنی جوانی میں یہوواہ کے گواہوں کے سفری نگہبانوں کے طور پر خدمت انجام دی۔ چند دن ہوئے میری سب سے چھوٹی خالہ، میری نے جوکہ اب ۹۰ کے دہے میں ہے، مجھے لکھا: ”ہم سب کتنے شکرگزار ہیں کہ بھائی ایونز خدمتگزاری کا جذبہ رکھتا تھا اور وہ گروو سٹی میں بھی آیا!“ خالہ میری کا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جوانی میں اپنے خالق کو یاد رکھا ہے۔
کنونشنوں پر حاضر ہونا
صرف میرے والد اور کلارنس ہی ۱۹۲۲ میں سیدر پوائنٹ اوہائیو میں منعقد ہونے والے تاریخساز کنونشن پر حاضر ہونے کے قابل ہوئے۔ تاہم ۱۹۲۴ میں، ہم نے ایک گاڑی خرید لی اور ہمارا سارا خاندان کولمبس، اوہائیو میں منعقد ہونے والے کنونشن کیلئے گیا۔ ہم بچوں سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ آٹھ روزہ کنونشن کے دوران کھانے کے پیسے اپنے جیب خرچ سے ادا کریں۔ میرے والدین کے خیال میں، خاندان کے ہر فرد کو خودکفیل ہونے کے قابل ہونا چاہئے۔ پس، ہم مرغیاں اور خرگوش اور شہد کی مکھیاں پالتے تھے، اس کے علاوہ ہم لڑکے کچھ آمدنی کیلئے گھر گھر اخبار تقسیم کرنے کا کام بھی کِیا کرتے تھے۔
جب ۱۹۲۷ میں ٹرانٹو، کینیڈا میں کنونشن منعقد ہونے کا وقت آیا تو ہمارا ایک اَور چھوٹا بھائی پال چھ ماہ کا تھا۔ جب میرے والدین دوسرے بچوں سمیت ٹرانٹو کنونشن کیلئے گئے تو مجھے یہ کام سونپا گیا کہ مَیں اور میری شادیشُدہ خالہ ملکر گھر
میں پال کی دیکھ بھال کریں۔ انعام کے طور پر، مجھے دس ڈالر دیئے گئے جن سے مَیں نے اپنے لئے ایک نیا سوٹ خرید لیا۔ ہمیں ہمیشہ یہ تربیت دی گئی تھی کہ اجلاسوں پر اچھی طرح تیار ہو کر جائیں اور اپنے کپڑوں کا خیال رکھیں۔کولمبس اوہائیو میں ۱۹۳۱ کے یادگار کنونشن کے وقت تک، کلارنس اور کارل کی شادی ہو گئی تھی اور وہ اپنی بیویوں کیساتھ پائنیر خدمت کر رہے تھے۔ وہ دونوں اپنے ہی تیارکردہ موبائل گھروں میں رہتے تھے۔ کارل نے مغربی ورجینیا، ویلنگ، کی رہنے والی کلیر ہوسٹن سے شادی کی تھی اور اسی لئے مَیں کولمبس کی کنونشن میں کلیر کی چھوٹی بہن، ہیلن کیساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
کُلوقتی خدمتگزاری
مَیں ۱۹۳۲ میں، ۱۵ سال کی عمر میں ہائی سکول سے فارعالتحصیل ہوا اور اس سے اگلے سال اپنے بھائی کلارنس کے پاس ایک استعمالشُدہ گاڑی چھوڑ کر آیا جو مغربی کیرولینا میں پائنیر خدمت کر رہا تھا۔ مَیں نے بھی پائنیر خدمت کیلئے درخواست دے دی اور کلارنس اور اُسکی بیوی کیساتھ کام شروع کر دیا۔ اُس وقت ہیلن ہوپکنزوِل، کینٹکی میں پائینر خدمت کر رہی تھی اور مَیں نے پہلی مرتبہ اُسے خط لکھا۔ جواب میں اُس نے پوچھا: ”کیا آپ پائنیر ہیں؟“
اپنے اس خط میں جسے ہیلن نے ۶۰ سال بعد تقریباً اپنی وفات تک سنبھالے رکھا مَیں نے جواب میں لکھا: ”مَیں پائنیر ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ مَیں ہمیشہ رہونگا۔“ اُس خط میں مَیں نے ہیلن کو بتایا کہ مَیں نے مُنادی کے دوران کتابچہ دی کنگڈم، دی ہوپ آف دی ورلڈ پادریوں اور عدالتی اہلکاروں میں تقسیم کِیا ہے۔
میرے والد نے ۱۹۳۳ میں ایک آٹھ فٹ لمبا اور ساڑھے چھ فٹ چوڑا پہیوں والا خیمہ—ایک ٹریلر تیار کِیا جسکی دیواریں کینوس کی بنی ہوئی تھیں جوکہ عمودی سلنڈروں کے گرد لپٹا ہوا تھا اور اگلی اور پچھلی سمت میں کھڑکیاں تھیں۔ پائنیر خدمت کے اگلے چار سالوں کے دوران یہی میرا ادنیٰ سا چھوٹا گھر تھا۔
مارچ ۱۹۳۴ میں، کلارنس اور کارل اور اُن کی بیویاں، ہیلن اور اُس کی والدہ، کلارنز کی سالی اور مَیں—ہم آٹھ لوگ—لاساینجلز، کیلیفورنیا میں منعقد ہونے والے کنونشن کے لئے مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض نے میرے ٹریلر ہی میں سفر اور آرام کِیا۔ مَیں کار میں ہی سوتا تھا جبکہ دوسروں نے کرائے پر کمرہ لے لیا تھا۔ ہماری کار میں کچھ خرابی ہو جانے کی وجہ سے ہم چھ روزہ کنونشن کے دوسرے دن لاساینجلز پہنچے۔ بالآخر، ۲۶ مارچ کو وہاں مَیں اور ہیلن پانی میں بپتسمے کے ذریعے یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کا اظہار کرنے کے قابل ہوئے۔
کنونشن پر جوزف ایف. رتھرفورڈ، اُس وقت واچ ٹاور سوسائٹی کے صدر نے ذاتی طور پر تمام پائنیروں سے ملاقات کی۔ اُس نے یہ کہتے ہوئے ہماری حوصلہافزائی کی کہ ہم بائبل سچائی کے بہادر سپاہی ہیں۔ اُس وقت یہ فیصلہ کِیا گیا کہ پائنیروں کی کچھ مالی امداد کی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنی خدمتگزاری کو جاری رکھ سکیں۔
زندگی کیلئے تعلیم
جب ہم لاساینجلز میں کنونشن سے واپس آئے تو ہم سب نے جنوبی کیرولینا، ورجینیا، مغربی ورجینیا اور کینٹکی کے پورے علاقے کے لوگوں تک بادشاہتی پیغام پہنچایا۔ کئی سال بعد ہیلن نے اُس وقت کی بابت یوں لکھا: ”وہاں مدد کیلئے نہ تو کوئی کلیسیا تھی نہ ہی کوئی دوست تھا کیونکہ ہم اُس مُلک میں بالکل اجنبی تھے۔ لیکن اب مَیں جانتی ہوں کہ مَیں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ مَیں روحانی طور پر دولتمند بن رہی تھی۔“
وہ پوچھتی ہے: ”اپنے دوستوں اور گھر کے ماحول سے دُور ایک جواں سال لڑکی کا وقت بھلا کیسے گزرتا ہوگا؟ درحقیقت اتنا بُرا نہیں تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ مَیں کبھی بور ہوئی تھی۔ مَیں نے بہت زیادہ مطالعہ کِیا۔ ہم نے بائبل مطبوعات کی پڑھائی اور مطالعے میں کبھی کوتاہی نہیں برتی تھی۔ مَیں ہمیشہ اپنی والدہ کیساتھ رہتی تھی اور جو رقم ہمارے پاس تھی اُسے سنبھال کر رکھنا، خریدوفروحت کرنا،
گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنا، کھانا پکانا، سلائی کرنا اور مُنادی کرنا سیکھ رہی تھی۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں اور مَیں بخوشی دوبارہ بھی ایسا کرنے کیلئے تیار ہوں۔“اُن سالوں کے دوران ہیلن اور اُسکی والدہ ایک چھوٹے سے ٹریلر میں رہنے پر قانع تھیں اگرچہ اُسکی والدہ کا ایک خوبصورت گھر تھا۔ سن ۱۹۳۷ میں کولمبس اوہائیو میں کنونشن کے بعد، ہیلن کی والدہ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور اُسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ اُس نے مغربی ورجینیا، فلپی میں اپنی تفویض کی جگہ پر نومبر ۱۹۳۷ میں وفات پائی۔
شادی اور مسلسل خدمت
جون ۱۰، ۱۹۳۸ کو مغربی ورجینیا میں، ویلنگ کے قریب الم گروو میں اُسی گھر میں جہاں ہیلن پیدا ہوئی تھی، ایک چھوٹی سی تقریب میں میری اور اُسکی شادی ہو گئی۔ شادی کی تقریر ہمارے عزیز بھائی ایونز نے دی، جنہوں نے میری پیدائش سے کئی سال پہلے ہمارے خاندان کو سچائی سے متعارف کروایا تھا۔ شادی کے بعد، ہیلن اور مَیں نے مشرقی کینٹکی میں پائنیر خدمت انجام دینے کا منصوبہ بنایا مگر جب ہمیں زون کا کام کرنے کی دعوت دی گئی تو ہمیں بہت زیادہ حیرت ہوئی۔ اس کام میں مغربی کینٹکی اور ٹنیسی کے علاقے میں موجود یہوواہ کے گواہوں کے گروپوں سے ملاقات کرنا اور اُنہیں خدمتگزاری کے سلسلے میں مدد دینا شامل تھا۔ اُس وقت ہم نے جن علاقوں کا دورہ کِیا وہاں تقریباً ۷۵ بادشاہتی مُناد تھے۔
اُس وقت سب پر قومپرستی کا جنون سوار تھا اور مجھے توقع تھی کہ میری مسیحی غیرجانبداری کی وجہ سے جلد ہی مجھے قید میں ڈال دیا جائیگا۔ (یسعیاہ ۲:۴) تاہم، مُنادی کی کارگزاری کے میرے ریکارڈ کی بدولت، لازمی فوجی خدمت کیلئے انتخاب کرنے والے لوگوں نے اس طرح سے میری درجہبندی کی کہ میرے لئے کُلوقتی خدمت کو جاری رکھنا ممکن ہو گیا۔
جب ہم نے سفری خدمتگزاری کا آغاز کِیا تو تقریباً ہر شخص ہماری جوانی پر رشک کرتا تھا۔ ہوپکنزوِل، کینٹکی میں ایک مسیحی بہن بڑے خلوص کیساتھ ہیلن سے گلے ملی اور پوچھا: ”کیا آپ مجھے پہچانتی ہیں؟“ سن ۱۹۳۳ میں ہیلن نے اُسے ایک دیہی سٹور میں گواہی دی تھی جسے اُسکا شوہر چلا رہا تھا۔ وہ سنڈے سکول ٹیچر تھی مگر اُس کتاب کو پڑھنے کے بعد جو ہیلن نے اُسے دی تھی اُس نے اپنی کلاس کے سامنے کھڑے ہوکر اُن سے معافی مانگی کہ وہ اب تک اُنہیں ایسی باتیں سکھاتی رہی تھی جو بائبل سے نہیں ہیں۔ چرچ سے استعفیٰ دینے کے بعد اُس نے اپنے ہی علاقے میں بائبل سچائیوں کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ ہیلن اور مَیں نے تین سال تک مغربی کینٹکی میں خدمت کی اور اس دوران اُس بہن اور اُسکے شوہر نے اپنا گھر ہمیشہ ہمارے لئے کھلا رکھا۔
اُن دِنوں میں ہماری چھوٹی چھوٹی مقامی اسمبلیاں ہوا کرتی تھیں اور اے. ایچ. میکملن ان میں سے ایک پر حاضر ہوئے۔ اُس نے ہیلن کے والدین کے گھر اُس وقت قیام کِیا تھا جب ہیلن بہت چھوٹی تھی لہٰذا، اُس نے کنونشن کے دوران ہمارے ۱۶ فٹ لمبے موبائل گھر میں ہمارے ساتھ رہنے کا فیصلہ کِیا جس میں ہمارے پاس ایک اضافی بیڈ تھا۔ اُس نے بھی ۱۹۰۰ میں، ۲۳ برس کی عمر میں اپنی زندگی کو یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے سے اپنی جوانی کے دنوں سے اپنے عظیم خالق کو یاد رکھا تھا۔
نومبر ۱۹۴۱ میں سفری بھائیوں کا کام عارضی طور پر ختم کر دیا گیا اور مجھے ایک پائنیر کے طور پر ہیزرڈ، کینٹکی بھیج دیا گیا۔ ایک بار پھر ہمیں میرے بھائی کارل اور اُسکی بیوی کلیر کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں ہیلن کے بھتیجے جوزف ہوسٹن نے ہمارے ساتھ پائنیر خدمت شروع کر دی۔ اُس نے تقریباً ۵۰ سال تک کُلوقتی خدمت کو جاری رکھا اور ۱۹۹۲ میں، بروکلن نیو یارک میں یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈ کوارٹرز میں وفاداری کیساتھ خدمت انجام دیتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے اچانک وفات پا گیا۔
سن ۱۹۴۳ میں ہمیں راکوِل، کونیکٹیکٹ بھیج دیا گیا۔ ہیلن اور مَیں چونکہ جنوب میں مُنادی کرنے کے عادی تھے لہٰذا ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم کسی دوسری دُنیا میں آ گئے ہیں۔ راکوِل میں ہیلن ہر ہفتے باقاعدگی کیساتھ ۲۰ سے زیادہ بائبل مطالعے کراتی تھی۔ انجامکار، ہم نے کنگڈم ہال کیلئے ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے لیا اور یوں ایک چھوٹی سی کلیسیا نے کام کرنا شروع کر دیا۔
راکوِل میں خدمت کے دوران ہی ہمیں ساؤتھ لانسنگ، نیو یارک میں واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی پانچویں کلاس میں حاضر ہونے کی دعوت دی گئی۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ کینٹکی میں ہمارے پائنیر ساتھی، آوبرے اور برتھا بیونز ہمارے ہمجماعت ہونگے۔
سکول اور ہماری نئی تفویض
اگرچہ ہم دونوں ابھی جوان ہی تھے توبھی ہمارے بیشتر ہمجماعت ہم سے بھی جوان تھے۔ جیہاں، اُنہوں نے بھی اپنی جوانی میں اپنے عظیم خالق کو یاد
رکھا تھا۔ ہماری گریجویشن جولائی ۱۹۴۵ میں تھی، ٹھیک اُس وقت جب دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے قریب تھی۔ اپنی مشنری تفویض کے انتظار کے دوران ہم نے بروکلن نیو یارک میں فلیٹبش کلیسیا کیساتھ ملکر کام کِیا۔ بالآخر، اکتوبر ۲۱، ۱۹۴۶ کو بیونز سمیت، دیگر چھ ہمجماعتوں کے ساتھ ہم گواٹیمالا، کے شہر گواٹیمالا میں اپنے نئے گھر روانہ ہو گئے۔ اُس وقت وسطی امریکہ کے اس پورے ملک میں ۵۰ سے بھی کم یہوواہ کے گواہ تھے۔اپریل ۱۹۴۹ میں، ہم میں سے بعض مشنریوں کو رقبے اور اہمیت کے اعتبار سے ملک کے دوسرے بڑے شہر، کوئیٹزالٹینانگو روانہ کر دیا گیا۔ یہ شہر سطح سمندر سے ۵۰۰،۷ فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں کی پہاڑی ہوا تازگیبخش اور صافستھری ہے۔ ہیلن نے اپنی تحریر میں یہاں پر ہمارے کام کا خلاصہ کچھ اسطرح سے پیش کِیا: ”ہمیں بیشمار قصبوں اور دیہاتوں میں مُنادی کرنے کا شرف حاصل تھا۔ ہم صبح تقریباً چار بجے اُٹھ جاتے اور دُوردراز کے قصبے تک پہنچنے کیلئے بس (جس میں کھڑکیوں کی جگہ رول ہو جانے والا کینوس لگا ہوتا تھا) میں سوار ہو جاتے تھے۔ شام کو واپس آنے سے پہلے ہم وہاں تقریباً آٹھ گھنٹے مُنادی کرتے تھے۔“ کوئیٹزالٹینانگو کی چھ کلیسیاؤں سمیت آجکل وہاں بیشتر علاقوں میں کلیسیائیں قائم ہیں۔
جلد ہی مشنریوں کو کریبیئن ساحل پر واقع گواٹیمالا کے تیسرے بڑے شہر، پیورٹو باریوس میں خدمت انجام دینے کی دعوت دی گئی۔ اس نئی تفویض کیلئے بھیجے جانے والوں میں ہمارے عزیز بیونز بھی تھے جن کیساتھ ہم نے پانچ سال گواٹیمالا میں خدمت انجام دی تھی۔ یہ جدائی نہایت تکلیفدہ تھی اور اس نے ہماری زندگیوں میں ایک خلا پیدا کر دیا۔ مشنری ہوم میں چونکہ اب صرف ہیلن اور مَیں ہی رہ گئے تھے لہٰذا ہم ایک چھوٹے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے۔ سن ۱۹۵۵ میں، ہیلن اور مَیں نے زیادہ گرم مرطوب شہر مازاٹینانگو میں ایک نئی تفویض قبول کر لی۔ میرے چھوٹے بھائی پال اور اُسکی بیوی ڈولورس کو جنہوں نے ۱۹۵۳ میں گلئیڈ سے گریجویشن کی تھی ہمارے پہنچنے سے پہلے یہاں خدمت کرتے ہوئے کچھ عرصہ ہو چکا تھا۔
سن ۱۹۵۸ میں، گواٹیمالا میں ۷۰۰ سے زائد گواہ، ۲۰ کلیسیائیں اور تین سرکٹ تھے۔ ایک بار پھر مَیں نے اور ہیلن نے کوئیٹزالٹینانگو کی کلیسیا سمیت گواہوں کی دیگر مختلف کلیسیاؤں اور گروپوں میں سفری کام کا آغاز کِیا۔ اگست ۱۹۵۹ میں، ہمیں دوبارہ گواٹیمالا شہر واپس بلا لیا گیا جہاں ہماری رہائش برانچ آفس میں تھی۔ مجھے برانچ کا کام تفویض کِیا گیا جبکہ ہیلن نے اگلے ۱۶ برس تک مشنری خدمت کو جاری رکھا۔ بعدازاں اُس نے بھی برانچ دفتر میں کام کرنا شروع کر دیا۔
مزید برکات
سالوں پہلے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہوواہ کی خدمت کرنے والوں میں مَیں ہمیشہ سب سے جوان ہوں۔ اب مَیں اکثر سب سے عمررسیدہ ہوتا ہوں، جیسےکہ ۱۹۹۶ میں ہوا جب مَیں نیو یارک پیٹرسن میں برانچ سکول کیلئے حاضر ہوا تھا۔ جس طرح جوانی میں مجھے عمررسیدہ لوگوں کی طرف سے بہت زیادہ مدد ملی تھی اُسی طرح حالیہ دہوں کے دوران مجھے ایسے بہت سے نوجوان اشخاص کی مدد کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے جو اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔
یہاں گواٹیمالا میں بھی یہوواہ اپنے لوگوں پر برکات نازل کر رہا ہے۔ سن ۱۹۹۹ میں یہاں گواٹیمالا شہر میں ۶۰ سے زیادہ کلیسیائیں ہیں۔ اس کے علاوہ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں اس سے بھی زیادہ کلیسیائیں اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کا اعلان کرنے والے ہزاروں لوگ ہیں۔ جب ہم ۵۳ سال پہلے یہاں آئے تھے تو اُس وقت بادشاہتی مُنادوں کی تعداد ۵۰ سے بھی کم تھی جو بڑھ کر ۰۰۰،۱۹ سے زیادہ ہو گئی ہے!
شکرگزار ہونے کیلئے بہت کچھ
کوئی بھی شخص ایسا نہیں جسے زندگی میں مسائل کا سامنا نہ رہا ہو مگر ہم ہمیشہ ”اپنا بوجھ [یہوواہ] پر“ ڈال سکتے ہیں۔ (زبور ۵۵:۲۲) وہ محبت کرنے والے ساتھیوں کے ذریعے ہمیشہ ہماری معاونت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اپنی وفات سے چند سال پہلے، ہیلن نے مجھے ایک فریم کی ہوئی عبارت پیش کی جس پر بائبل سے عبرانیوں ۶ کی ۱۰ آیت لکھی ہوئی تھی: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تم نے اُسکے نام کے واسطے اس طرح ظاہر کی کہ مُقدسوں کی خدمت کی اور کر رہے ہو۔“—ویماؤتھ
اپنی تمامتر محبت کے سِوا آپکو کچھ نہیں دے سکتی۔ . . . یہ آیت آپ کیلئے نہایت موزوں ہے اور مَیں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اسے اپنی میز پر رکھیں، اسلئے نہیں کہ مَیں نے آپکو دی ہے بلکہ اسلئے کہ اسکا تعلق کئی سالوں پر محیط آپکی خدمت کیساتھ ہے۔“ ابھی تک یہ عبارت گواٹیمالا برانچ میں میرے دفتر میں میز پر رکھی ہوئی ہے۔
اُس نے جو تحریر اسکے ساتھ چسپاں کی ہوئی تھی اُس کا کچھ حصہ اسطرح سے تھا: ”میرے عزیزومعزز، مَیںمَیں نے اپنی جوانی سے یہوواہ کی خدمت کی ہے اور اب اپنے بڑھاپے میں بھی مَیں اچھی صحت کیلئے یہوواہ کا شکرگزار ہوں جسکی بدولت مَیں اپنی تفویضکردہ ذمہداریوں کو پورا کرنے کے قابل ہوں۔ جب مَیں معمول کے مطابق بائبل پڑھائی کرتا ہوں تو اکثر ایسے صحائف میری نظر سے گزرتے ہیں جن کی بابت مَیں سوچتا ہوں کہ میری پیاری ہیلن نے اُنہیں اپنی بائبل میں ضرور خطکشیدہ کِیا ہوگا۔ یہ بات اُس وقت میرے ذہن میں آئی جب مَیں نے زبور ۴۸:۱۴ کو دوبارہ پڑھا: ”کیونکہ یہی خدا ابدالآباد ہمارا خدا ہے۔ یہی موت تک ہمارا ہادی رہیگا۔“
دوسروں کو اُمیدِقیامت کی بابت بتا کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب ماضی کی تمام مختلف قوموں کے لوگ مُردوں میں سے زندہ ہونے والے اپنے عزیزوں کو نئی دُنیا میں خوشآمدید کہینگے۔ کیا ہی شاندار امکان! اُس وقت خوشی کے آنسو بہہ نکلنے کا کیسا سماں ہوگا جبکہ ہم یہ یاد کرینگے کہ یہوواہ یقیناً ”عاجزوں کو تسلی بخشنے“ والا خدا ہے!—۲-کرنتھیوں ۷:۶۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
اُوپر سے بائیں سے دائیں: والدہ، والد، آنٹی ایوا اور بھائی کارل اور کلارنس، ۱۹۱۰
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
۱۹۴۷ اور ۱۹۹۲ میں ہیلن کے ساتھ