آمادہ دل کیساتھ یہوواہ کے طالب ہونا
آمادہ دل کیساتھ یہوواہ کے طالب ہونا
اسرائیلی کاہن عزرا ایک ممتاز محقق، عالم، فقیہ اور شریعت کا مُعلم تھا۔ آجکل مسیحیوں کیلئے وہ پورے دلوجان سے خدمت کرنے کا عمدہ نمونہ بھی ہے۔ کیسے؟ اُس نے جھوٹے دیوتاؤں اور شیاطینی پرستش سے پُر شہر بابل میں بھی اپنی خدائی عقیدت کو برقرار رکھا۔
عزرا میں خدائی عقیدت خودبخود پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اُس نے اس کیلئے محنت کی تھی۔ وہ تو ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ”آمادہ ہو گیا تھا کہ [یہوواہ] کی شریعت کا طالب ہو اور اُس پر عمل کرے۔“—عزرا ۷:۱۰۔
عزرا کی طرح، آجکل یہوواہ کے لوگ سچی پرستش کی دشمن دُنیا میں رہنے کے باوجود یہوواہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ پس آئیے ہم ایسے طریقوں کا جائزہ لیں جن کے ذریعے ہم بھی اپنے دل یعنی باطنی شخص کو—اپنے خیالات، رُجحانات، خواہشات اور محرکات سمیت، ”[یہوواہ] کی شریعت کا طالب“ ہونے اور ”اُس پر عمل“ کرنے کیلئے آمادہ کریں۔
اپنے دل کو آمادہ کرنا
”آمادہ“ سے مُراد ”کسی مقصد کیلئے پہلے سے تیار رہنا: کسی خاص کام، اطلاق یا مزاج کیلئے موزوں حالت میں آنا“ ہے۔ بِلاشُبہ، اگر آپ نے خدا کے کلام کا صحیح علم حاصل کر لیا ہے اور یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کر لی ہے تو آپکا دل واقعی آمادہ ہے اور اُس کا ”اچھی زمین“ سے موازنہ کِیا جا سکتا ہے جسکا یسوع نے اپنی بیج بونے والے کی تمثیل میں ذکر کِیا تھا۔—متی ۱۳:۱۸-۲۳۔
تاہم، ہمارے دل کو مستقل توجہ اور آلائشوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں؟ اِسکی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ کسی باغ میں اُگنے والی کانٹےدار جھاڑیوں کی طرح نقصاندہ میلان اِس ”اخیر زمانہ“ میں بالخصوص بڑی آسانی کیساتھ جڑ پکڑ سکتے ہیں کیونکہ شیطان کے نظام کی ”ہوا“ پہلے کی نسبت جسمانی سوچ کے مُضر زردانوں سے کہیں زیادہ بھری پڑی ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵؛ افسیوں ۲:۲) دوسری وجہ کا تعلق خود زمین کیساتھ ہے۔ اگر زمین کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ بہت جلد خشک، سخت اور بنجر ہو سکتی ہے۔ یا شاید بہت زیادہ لوگوں کے باغ میں لاپرواہی سے چہلقدمی کرنے سے بھی زمین سخت ہو جاتی ہے۔ ہمارے دل کی علامتی زمین کا بھی یہی حال ہے۔ اگر اس سے غفلت برتی جاتی ہے یا ہماری روحانی فلاحوبہبود میں دلچسپی نہ لینے والے اشخاص اسے روند ڈالتے ہیں تو یہ بےثمر ہو سکتی ہے۔
پس ہم سب کے لئے بائبل کی اس مشورت کا اطلاق کرنا نہایت ضروری ہے: ”اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔“—امثال ۴:۲۳۔
ہمارے دل کی ”زمین“ کو زرخیز بنانے والے عناصر
آئیے اپنے دل کی ”زمین“ کو زرخیز بنانے والے چند عناصر یا صفات پر غور کریں تاکہ یہ زیادہ پیداوار میں معاون ہو۔ یوں تو بہت سی چیزیں ہمارے دل کی حالت کو بہتر بنا سکتی ہیں مگر ہم یہاں چھ کا جائزہ لینگے: اپنی روحانی ضرورت سے آگہی، فروتنی، دیانتداری، خدائی خوف، ایمان اور محبت۔
یسوع نے فرمایا کہ ”مبارک ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات کی فکر رکھتے ہیں۔“ (متی ۵:۳، اینڈبلیو) جس طرح جسمانی بھوک ہمیں کھانے کی ضرورت سے آگاہ کرتی ہے ویسے ہی اپنی روحانی ضرورت سے باخبر ہونا روحانی غذا کیلئے ہماری اشتہا کو بڑھاتا ہے۔ انسان فطرتاً ایسی خوراک کی آرزو رکھتے ہیں کیونکہ یہ اُنکی زندگی کو پُرمعنی اور بامقصد بناتی ہے۔ شیطان کے نظاماُلعمل کی طرف سے دباؤ یا مطالعے کے سلسلے میں حد سے زیادہ سُستی ہمیں اس ضرورت سے غافل کر سکتی ہے۔ اسی لئے یسوع نے کہا: ”آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔“—متی ۴:۴۔
حقیقت میں اگر ہم باقاعدگی سے متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک کھاتے ہیں تو ہماری صحت اچھی ہوتی ہے اور اس سے ہمارے جسم میں وقت پر اگلے کھانے کیلئے بھوک بھی پیدا ہوتی ہے۔ روحانی اعتبار سے بھی ایسا ہی ہے۔ ممکن ہے کہ آپ مطالعے کے شوقین نہ ہوں لیکن اگر آپ خدا کے کلام کی روزانہ پڑھائی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں اور باقاعدگی سے بائبل پر مبنی مطبوعات کا بھی مطالعہ کرتے ہیں تو آپ دیکھینگے کہ آپکی اشتہا بڑھنے لگے گی۔ دراصل، آپ مطالعے کے اوقات کے منتظر رہنے لگیں گے۔ پس، جلدی سے ہمت ہارنے کی بجائے صحتمندانہ روحانی اشتہا پیدا کرنے کیلئے جدوجہد کریں۔
فروتنی دل کو نرم کرتی ہے
فروتنی آمادہ دل کے حصول کا ایک اہم عنصر ہے کیونکہ یہ ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے اور مشورت اور اصلاح کو آسانی کیساتھ قبول کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ یوسیاہ بادشاہ کی عمدہ مثال پر غور کریں۔ اُسکے عہدِحکومت میں موسیٰ کی معرفت دی گئی خدا کی شریعت کی ایک دستاویز ملی۔ جب یوسیاہ نے شریعت کو سنا اور محسوس کِیا کہ اُسکے باپدادا سچی پرستش سے کسقدر منحرف ہو گئے تھے تو اُس نے اپنے کپڑے پھاڑے اور یہوواہ کے حضور بہت رویا۔ خدا کے کلام نے بادشاہ کے دل پر اتنا گہرا اثر کیوں کِیا تھا؟ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ اُسکا دل ”نرم“ تھا اسلئے اُس نے یہوواہ کی باتیں سننے کے بعد اُس کے آگے عاجزی کی۔ یہوواہ نے یوسیاہ کے فروتن، اثرپذیر دل کو جانچ لیا اور اُسے اُس کے مطابق برکت دی۔—۲-سلاطین ۲۲:۱۱، ۱۸-۲۰۔
فروتنی نے ہی یسوع کے ”اَنپڑھ اور ناواقف“ شاگردوں کو ایسی روحانی سچائیوں کو سمجھنے اور اُنکا اطلاق کرنے کے قابل بنایا جو ”جسم کے لحاظ“ سے ”داناؤں اور عقلمندوں“ کیلئے ناقابلِفہم تھیں۔ (اعمال ۴:۱۳؛ لوقا ۱۰:۲۱؛ ۱-کرنتھیوں ۱:۲۶) موخرالذکر لوگ یہوواہ کے کلام کو قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں تھے کیونکہ اُنکے دل تکبّر کی وجہ سے سخت ہو گئے تھے۔ پس یہوواہ کا تکبّر سے نفرت کرنا کوئی حیرانی کی بات ہے؟—امثال ۸:۱۳؛ دانیایل ۵:۲۰۔
دیانتداری اور خدائی خوف
یرمیاہ نبی نے لکھا کہ ”دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہباز اور لاعلاج ہے۔ اسکو کون دریافت کر سکتا ہے؟“ (یرمیاہ ۱۷:۹) یہ حیلہبازی مختلف طریقوں سے عیاں ہوتی ہے جیسےکہ جب کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو ہم فوراً عذر پیش کرتے ہیں۔ جب ہم سنگین شخصیتی نقائص کی پُرفریب توجیہ کرتے ہیں تو یہ اَور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ تاہم، دیانتداری اپنی بابت سچائی کا سامنا کرنے میں ہماری مدد کرتے ہوئے حیلہباز دل پر غالب آنے میں ہماری مدد کریگی تاکہ ہم ترقی کر سکیں۔ زبورنویس نے اپنی دُعا میں ایسی دیانتداری کا اظہار کیا: ”اَے [یہوواہ]! مجھے جانچ اور آزما۔ میرے دلودماغ کو پرکھ۔“ واقعی، زبورنویس نے اپنے دل کو اس بات کیلئے آمادہ کر لیا تھا کہ یہوواہ اُسے آزمائے اور پرکھے حالانکہ یہ غلیظ خصائل کی موجودگی کا اعتراف کرنے پر منتج ہو سکتا تھا تاکہ اُن پر غلبہ پایا جا سکے۔—زبور ۱۷:۳؛ ۲۶:۲۔
خدائی خوف میں ”بدی سے عداوت“ رکھنا شامل ہے اور یہ اصلاحی عمل میں نہایت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ (امثال ۸:۱۳) یہوواہ کی شفقت اور بھلائی کی قدر کرنے کے علاوہ، واقعی یہوواہ کا خوف ماننے والا شخص اس حقیقت کو ہمیشہ ذہن میں رکھتا ہے کہ یہوواہ نافرمانوں کو سزا، حتیٰکہ موت دینے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ یہوواہ نے اسرائیل کی بابت یہ بات کہتے ہوئے ظاہر کِیا کہ جو اُسکا خوف مانتے ہیں وہ اُسکی فرمانبرداری بھی کرتے ہیں: ”کاش اُن میں ایسا ہی دل ہو تاکہ وہ میرا خوف مانکر ہمیشہ میرے سب حکموں پر عمل کرتے تاکہ سدا اُنکا اور اُنکی اولاد کا بھلا ہوتا!“—استثنا ۵:۲۹۔
بدیہی طور پر، خدائی خوف کا مقصد ہمیں دہشتزدہ اطاعت میں رکھنے کی بجائے اپنے شفیق باپ کی فرمانبرداری کرنے کی تحریک دینا ہے جو ہماری بھلائی کا خواہاں ہے۔ دراصل، ایسا خدائی خوف حوصلہافزا اور مسرتبخش ہوتا ہے جسکا خود یسوع مسیح نے بھی کافی حد تک مظاہرہ کِیا تھا۔—یسعیاہ ۱۱:۳؛ لوقا ۱۲:۵۔
آمادہ دل ایمان سے معمور ہوتا ہے
ایمان میں مضبوط دل جانتا ہے کہ یہوواہ کے کلام کی ہر بات یا ہدایت درست اور ہماری بھلائی کیلئے ہوتی ہے۔ (یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸) ایسا دل رکھنے والا شخص امثال ۳:۵، ۶ کی نصیحت پر عمل کرنے سے گہرا اطمینان اور تسکین حاصل کرتا ہے جو بیان کرتی ہیں: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔“ تاہم، بےایمان دل یہوواہ پر توکل کرنے کی طرف مائل نہیں ہوگا، بالخصوص اگر اِس میں قربانیاں پیش کرنے کا معاملہ ہو، جیسے کہ بادشاہتی مفادات پر توجہ مُرتکز کرنے کیلئے اپنی زندگی کو سادہ بنانے کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ (متی ۶:۳۳) لہٰذا، یہوواہ معقول طور پر بےایمان دل کو ”بُرا“ خیال کرتا ہے۔—عبرانیوں ۳:۱۲۔
یہوواہ پر ہمارا ایمان مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے جن میں اپنے گھر کے اندر گوشۂتنہائی میں کئے گئے کام بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، گلتیوں ۶:۷ کے اصول پر غور کیجئے: ”فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔“ اِس اصول کے سلسلے میں ہمارا ایمان جو فلمیں ہم دیکھتے ہیں، جو کتابیں ہم پڑھتے ہیں، جس قدر ہم بائبل مطالعہ کرتے ہیں اور دُعاؤں جیسی چیزوں سے بھی ظاہر ہوگا۔ واقعی، ”روح سے“ بونے کی تحریک دینے والا مضبوط ایمان یہوواہ کے کلام کو قبول کرنے اور اسے عمل میں لانے پر آمادہ دل رکھنے کا بنیادی عنصر ہے۔—گلتیوں ۶:۸۔
محبت—افضل خوبی
محبت تمام دوسری خوبیوں سے زیادہ ہمارے دل کی زمین کو یہوواہ کے کلام کیلئے زرخیز بناتی ہے۔ اسی لئے، ایمان اور اُمید کیساتھ اسکا موازنہ کرتے ہوئے، پولس رسول محبت کو ان خوبیوں میں سے ”افضل“ کہتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۳) خدا کی محبت سے معمور دل اُسکی فرمانبرداری سے بھرپور آسودگی اور خوشی حاصل کرتا ہے اور خدا کے تقاضوں پر کبھی بھی نہیں جھنجھلاتا۔ یوحنا رسول نے کہا: ”خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُسکے حکموں پر عمل کریں اور اُسکے حکم سخت نہیں۔“ (۱-یوحنا ۵:۳) یسوع نے بھی اسی طرح سے فرمایا: ”اگر کوئی مجھ سے محبت رکھے تو وہ میرے کلام پر عمل کریگا اور میرا باپ اُس سے محبت رکھیگا۔“ (یوحنا ۱۴:۲۳) غور کیجئے کہ ایسی محبت دوطرفہ کارروائی کا تقاضا کرتی ہے۔ جیہاں، یہوواہ اپنے محبت کرنے والوں سے گہری محبت رکھتا ہے۔
یہوواہ جانتا ہے کہ ہم ناکامل ہیں اور ہمیشہ اُسکے خلاف گناہ کرتے ہیں۔ پھربھی، وہ ہم سے دُور نہیں رہتا۔ یہوواہ اپنے خادموں میں ”پورے دل“ کی تلاش میں رہتا ہے جو ہمیں ”روح کی مستعدی“ سے خوشی سے اُسکی خدمت کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ (۱-تواریخ ۲۸:۹) بِلاشُبہ، یہوواہ یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے دل میں عمدہ خوبیاں اور پھر روح کے پھل پیدا کرنا وقت اور کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) پس، وہ ہمارے بارے میں تحمل کرتا ہے ”کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“ (زبور ۱۰۳:۱۴) ایسے رُجحان کی عکاسی کرتے ہوئے یسوع نے کبھی بھی اپنے شاگردوں کی غلطیوں پر سختی سے تنقید نہیں کی تھی بلکہ تحمل سے اُنکی مدد اور حوصلہافزا کی تھی۔ کیا یہوواہ اور یسوع کی ایسی محبت، رحم اور تحمل سے آپکو اُن کیلئے اَور بھی زیادہ محبت دکھانے کی تحریک نہیں ملتی؟—لوقا ۷:۴۷؛ ۲-پطرس ۳:۹۔
اگر کبھی آپ کو اُونٹکٹاروں جیسی پُختہ عادات کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا یا پھر مٹی کے سخت ڈھیلوں جیسے خصائل کی گرفت توڑنا مشکل دکھائی دے تو بےحوصلہ نہ ہوں۔ اِس کی بجائے، یہوواہ سے اُس کی روح کے لئے لگاتار التجا کے ساتھ ”دُعا کرنے میں مشغول“ رہتے ہوئے بہتری لانے کے لئے کوشاں رہیں۔ (رومیوں ۱۲:۱۲) وہ خوشی سے آپ کی مدد کرے گا جس سے آپ عزرا کی طرح ایسا دل رکھنے میں کامیاب ہونگے جو ”[یہوواہ] کی شریعت کا طالب“ ہونے اور ”اُس پر عمل“ کرنے کے لئے مکمل طور پر آمادہ ہوگا۔
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
عزرا نے بابل میں بھی اپنی خدائی عقیدت کو برقرار رکھا