مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کے خلاف لڑنے والے غالب نہ آئینگے!‏

خدا کے خلاف لڑنے والے غالب نہ آئینگے!‏

خدا کے خلاف لڑنے والے غالب نہ آئینگے!‏

‏”‏وہ تجھ سے لڑینگے لیکن تجھ پر غالب نہ آئینگے۔‏“‏—‏یرمیاہ ۱:‏۱۹‏۔‏

۱.‏ یرمیاہ کی تفویض کیا تھی اور اس کا کام کب تک جاری رہا؟‏

یہوواہ نے نوجوان یرمیاہ کو قوموں کیلئے ایک نبی مقرر کِیا تھا۔‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۵‏)‏ یہ بات یہوداہ کے نیک‌سیرت بادشاہ یوسیاہ کے دورِحکومت میں واقع ہوئی تھی۔‏ یرمیاہ کی نبوّتی خدمتگزاری بابل کے ہاتھوں یروشلیم کی فتح اور خدا کے لوگوں کے اسیری میں جانے سے پہلے کے ہنگامہ‌خیز دَور میں جاری رہی۔‏—‏یرمیاہ ۱:‏۱-‏۳‏۔‏

۲.‏ یہوواہ نے یرمیاہ کو کیسے مستحکم کِیا اور اس نبی کے خلاف لڑنے کا مطلب کیا تھا؟‏

۲ یرمیاہ کی معرفت الہٰی عدالتی پیغامات کے اعلان نے یقینی طور پر مخالفت کا باعث بننا تھا۔‏ اس کے پیشِ‌نظر،‏ خدا نے یرمیاہ کو آنے والے وقت کے لئے مستحکم کِیا۔‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۸-‏۱۰‏)‏ مثال کے طور پر،‏ نبی کے جذبے کو ان الفاظ سے تقویت ملی تھی:‏ ”‏وہ تجھ سے لڑینگے لیکن تجھ پر غالب نہ آئینگے کیونکہ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۱۹‏)‏ یرمیاہ کے خلاف لڑنے کا مطلب یہوواہ کے خلاف لڑنا ہوگا۔‏ آجکل،‏ یہوواہ نبی کی طرح خدمت کرنے والوں کا ایک گروہ رکھتا ہے جنکا کام یرمیاہ جیسا ہے۔‏ اس کی مانند،‏ وہ دلیری سے خدا کے نبوّتی کلام کا پرچار کرتے ہیں۔‏ یہ پیغام تمام لوگوں اور قوموں پر اچھا یا بُرا اثر ڈالتا ہے جسکا انحصار اُنکے ردِعمل پر ہے۔‏ یرمیاہ کے زمانے کی طرح،‏ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس کے سرگرم خادموں اور اُنکی خدائی تفویضات کی مخالفت کرنے سے خدا کے خلاف لڑتے ہیں۔‏

یہوواہ کے خادم حملے کا نشانہ

۳.‏ یہوواہ کے خادم حملے کا نشانہ کیوں ہیں؟‏

۳ یہوواہ کے لوگ ۲۰ویں صدی کے اوائل سے حملے کا نشانہ رہے ہیں۔‏ بہتیرے ممالک میں بُری نیت رکھنے والے لوگوں نے خدا کی بادشاہت کی بابت خوشخبری کے اعلان کو روکنے—‏جی‌ہاں،‏ خاموش کرانے—‏کی کوشش کی ہے۔‏ انہوں نے ہمارے سب سے بڑے دشمن ابلیس کی اکساہٹ پر ایسا کِیا ہے جو ”‏شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ خدا نے ۱۹۱۴ میں ”‏غیرقوموں کی میعاد“‏ کے ختم ہو جانے کے بعد،‏ اپنے بیٹے کو زمین کا نیا بادشاہ مقرر کِیا اور اُسے حکم دیا:‏ ”‏اپنے دشمنوں میں حکمرانی کر۔‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۲۴؛‏ زبور ۱۱۰:‏۲‏)‏ اپنے بادشاہتی اختیار کو عمل میں لاتے ہوئے مسیح نے ابلیس کو آسمان سے نیچے گرا دیا اور اسے زمین کے گردونواح تک محدود کر دیا۔‏ ابلیس یہ جانتے ہوئے کہ اُسکا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے،‏ ممسوح اشخاص اور انکے ساتھیوں کے خلاف قہرآلودہ ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۷‏)‏ خدا کے خلاف لڑنے والوں کی طرف سے بار بار کئے جانے والے حملوں کا نتیجہ کیا رہا ہے؟‏

۴.‏ پہلی عالمی جنگ کے دوران،‏ یہوواہ کے لوگوں نے کن آزمائشوں کا سامنا کِیا لیکن ۱۹۱۹ اور ۱۹۲۲ میں کیا واقع ہؤا؟‏

۴ پہلی عالمی جنگ کے دوران،‏ یہوواہ کے ممسوح خادموں نے ایمان کی بہتیری آزمائشوں کا سامنا کِیا تھا۔‏ انکا تمسخر اُڑایا گیا اور تہمت لگائی گئی،‏ لوگوں نے اُنکا پیچھا کِیا اور اُنہیں مارا پیٹا گیا۔‏ واقعی یہ سب کچھ یسوع کی اس پیشینگوئی کے مطابق ہوا کہ ”‏سب قومیں [‏ان]‏ سے عداوت رکھینگی۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۹‏)‏ جنگی جنون کی وجہ سے خدا کی بادشاہت کے مخالفوں نے وہی ہتھکنڈہ استعمال کِیا جو یسوع مسیح کے خلاف استعمال کِیا گیا تھا۔‏ انہوں نے یہوواہ کے لوگوں پر تخریب‌کاری کا جھوٹا الزام لگایا اور خدا کی دیدنی تنظیم کی اساس پر کاری ضرب لگائی۔‏ مئی ۱۹۱۸ میں،‏ سوسائٹی کے صدر جے.‏ ایف.‏ رتھرفورڈ اور اُسکے سات قریبی ساتھیوں کو گرفتار کرنے کیلئے فیڈرل وارنٹس جاری کئے گئے۔‏ ان آٹھ آدمیوں کو سخت سزائیں سنائی گئیں اور انہیں اٹلانٹا،‏ جارجیا یو.‏ایس.‏اے.‏ کے وفاقی قیدخانہ میں بھیج دیا گیا۔‏ تاہم نو ماہ بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔‏ مئی ۱۹۱۹ میں سرکٹ کورٹ آف اپیل نے فیصلہ سنایا کہ مدعاعلیہ کے خلاف کوئی غیرجانبدار مقدمہ نہیں چلایا گیا جسکی وجہ سے فیصلہ اُنہی کے حق میں ہوا۔‏ یہ معاملہ ایک نئے مقدمے کیلئے چھوٹی عدالت میں بھیج دیا گیا لیکن بعد میں حکومت نے بھائی رتھرفورڈ اور اسکے ساتھیوں کو تخریب‌کاری کے جھوٹے الزامات سے مکمل طور پر بری قرار دیتے ہوئے استغاثہ کی کارروائی واپس لے لی۔‏ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا ازسرِنو آغاز کِیا اور ۱۹۱۹ اور ۱۹۲۲ میں سیدر پوائنٹ اوہائیو میں منعقد ہونے والے کنونشنوں نے بادشاہتی کام کو نئی تحریک بخشی۔‏

۵.‏ نازی جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں پر کیا بیتی؟‏

۵ آمریتیں ۱۹۳۰ کے دہے میں منظرِعام پر آئیں اور جرمنی،‏ اٹلی اور جاپان نے متحد ہو کر محوری طاقتوں کو تشکیل دیا۔‏ اس دہے کے اوائل میں،‏ خاص طور پر نازی جرمنی میں خدا کے لوگوں کے خلاف وحشیانہ اذیت شروع ہو گئی۔‏ پابندیاں عائد کی گئیں۔‏ گھروں کی تلاشی لی گئی اور اُن میں رہنے والوں کو گرفتار کر لیا گیا۔‏ ہزاروں کو اپنے ایمان کے سلسلے میں مصالحت کرنے سے انکار کی وجہ سے مراکزِاسیران میں ڈال دیا گیا۔‏ خدا اور اس کے لوگوں کے خلاف لڑنے والوں کا نصب‌العین تھا کہ آمرانہ حکومت کے تحت یہوواہ کے گواہوں کو صفحۂ‌ہستی سے مٹا دیا جائے۔‏ * جب یہوواہ کے گواہوں نے جرمنی میں پہلی مرتبہ اپنے حقوق کی خاطر لڑنے کیلئے عدالتوں سے رجوع کِیا تو رائخ کی وزارتِ‌انصاف نے اُنکی ناکامی کو یقینی بنانے کیلئے طویل عدالتی بیان تیار کِیا۔‏ اس میں کہا گیا:‏ ”‏عدالتوں کو محض ظاہری قانونی ضابطوں کی بِنا پر فیصلہ سنانے میں ناکام نہیں ہونا چاہئے؛‏ بلکہ رسمی مشکلات کے باوجود،‏ اپنے زیادہ اہم فرائض کی انجام‌دہی کیلئے کوشاں اور اس کیلئے مختلف طریقے تلاش کرتے رہنا چاہئے۔‏“‏ اس کا مطلب یہ تھا کہ حقیقی انصاف حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔‏ نازیوں نے یہ مؤقف اختیار کِیا کہ یہوواہ کے گواہوں کی کارگزاریاں مُضر یا باغیانہ ہیں اور ’‏قومی اشتراکی ساخت کیلئے خطرہ ہیں۔‏‘‏

۶.‏ دوسری عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد ہمارے کام کو روکنے کیلئے کیا کوششیں کی گئی تھیں؟‏

۶ دوسری عالمی جنگ کے دوران،‏ خدا کے لوگوں پر آسٹریلیا،‏ کینیڈا اور برطانوی دولت‌مشترکہ کیساتھ الحاق رکھنے والے دیگر ممالک—‏افریقہ،‏ ایشیا اور کریبیئن اور بحرِالکاہل کے جزائر—‏میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔‏ ریاستہائے متحدہ میں،‏ اثرورسوخ رکھنے والے مخالفین اور غلط‌فہمی کے شکار لوگوں نے ’‏قانون کی آڑ میں بدی گھڑی۔‏‘‏ (‏زبور ۹۴:‏۲۰‏)‏ لیکن جھنڈے کی سلامی کے مسائل اور گھربہ‌گھر کی منادی سے منع کرنے والے کمیونٹی آرڈینس کے خلاف عدالتوں میں مقدمے لڑے گئے اور ریاستہائے متحدہ میں موافق عدالتی فیصلے پرستش کی آزادی کی حمایت میں مستحکم بنیاد ثابت ہوئے۔‏ یہوواہ کی بدولت،‏ دشمن کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔‏ یورپ میں جنگ ختم ہونے پر،‏ پابندیاں اُٹھا لی گئیں۔‏ مراکزِاسیران سے ہزاروں قیدی گواہوں کو آزاد کر دیا گیا لیکن لڑائی یہیں ختم نہیں ہوئی تھی۔‏ دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد سرد جنگ شروع ہو گئی۔‏ مشرقی یورپ کی اقوام نے یہوواہ کے لوگوں پر مزید دباؤ ڈالا۔‏ ہمارے گواہی دینے کے کام میں خلل ڈالنے اور اسے روکنے،‏ بائبل لٹریچر کی تقسیم کو بند کرنے،‏ عوامی اجتماعات کا سلسلہ ختم کرنے کیلئے سرکاری کارروائی کی گئی۔‏ بہتیروں کو جیلوں یا بیگار کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔‏

منادی کے کام میں رواں‌دواں!‏

۷.‏ حالیہ برسوں میں یہوواہ کے گواہوں کو پولینڈ،‏ روس اور دیگر ممالک میں کس بات کا تجربہ ہوا ہے؟‏

۷ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ،‏ منادی کا کام شروع ہو گیا۔‏ پولینڈ نے کیمونسٹ حکومت کے تحت ہونے کے باوجود ۱۹۸۲ میں ایک روزہ کنونشن منعقد کرنے کی اجازت دے دی۔‏ اس کے بعد ۱۹۸۵ میں بین‌الاقوامی کنونشن منعقد کئے گئے۔‏ روس اور یوکرائن سے حاضر ہونے والوں کی بڑی تعداد کیساتھ،‏ ۱۹۸۹ میں بڑے بین‌الاقوامی کنونشن منعقد کئے گئے۔‏ اسی سال ہنگری اور پولینڈ میں یہوواہ کے گواہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی۔‏ سن ۱۹۸۹ کے موسمِ‌خزاں میں،‏ دیوارِبرلن گِر گئی۔‏ اس کے چند ماہ بعد،‏ مشرقی جرمنی میں ہمیں قانونی حیثیت دے دی گئی اور اس کے تھوڑے عرصہ بعد برلن میں ایک بین‌الاقوامی کنونشن منعقد کِیا گیا۔‏ نیز ۲۰ویں صدی کے آخری دہے کے آغاز پر،‏ روس میں بھائیوں کے ساتھ ذاتی رابطہ رکھنے کی کوششیں کی گئیں۔‏ ماسکو میں بعض اہلکاروں تک رسائی حاصل کی گئی اور ۱۹۹۱ میں،‏ یہوواہ کے گواہوں کو قانونی رجسٹریشن عطا کی گئی۔‏ اس وقت سے لے کر روس میں اور ان جمہوری ممالک میں بھی کام حیران‌کُن حد تک بڑھ گیا ہے جو سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھے۔‏

۸.‏ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ۴۵ سالوں میں یہوواہ کے لوگوں کیساتھ کیا واقع ہؤا ہے؟‏

۸ بعض ممالک میں تو اذیت ختم ہو گئی مگر دیگر جگہوں پر اس نے شدت اختیار کر لی۔‏ دوسری عالمی جنگ کے ختم ہونے کے ۴۵ سال بعد،‏ بیشتر ممالک میں یہوواہ کے گواہوں کو قانونی حیثیت دینے سے انکار کر دیا گیا۔‏ اس کے علاوہ،‏ افریقہ کے ۲۳،‏ ایشیا کے ۹،‏ یورپ کے ۸،‏ لاطینی امریکہ کے ۳ ممالک میں اور ۴ مخصوص جزائری ممالک میں ہم پر یا ہماری کارگزاری پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔‏

۹.‏ ملاوی میں یہوواہ کے خادموں نے کس چیز کا تجربہ کِیا ہے؟‏

۹ ملاوی میں یہوواہ کے گواہوں نے ۱۹۶۷ سے وحشیانہ اذیت کا تجربہ کِیا۔‏ سچے مسیحیوں کے طور پر اپنے غیرجانبدارانہ مؤقف کی وجہ سے ہمارے ہم‌ایمان اس ملک میں سیاسی پارٹی کے کارڈ نہیں لیتے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۶‏)‏ سن ۱۹۷۲ میں ملاوی کانگریس پارٹی کے اجلاس کے بعد،‏ پھر سے ظلم کا دَور شروع ہو گیا۔‏ بھائیوں کو انکے گھروں سے نکال دیا گیا اور ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا۔‏ ہزاروں قتل ہونے سے بچنے کیلئے مُلک سے بھاگ گئے۔‏ لیکن کیا خدا اور اسکے لوگوں کے خلاف لڑنے والے غالب آئے؟‏ ہرگز نہیں!‏ حالات میں تبدیلی کے بعد ۱۹۹۹ میں،‏ ملاوی سے ۷۶۷،‏۴۳ انتہائی پبلشروں کی رپورٹ حاصل ہوئی اور وہاں ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر ۰۰۰،‏۲۰،‏۱ سے زائد لوگ حاضر ہوئے۔‏ اس کے دارالحکومت میں ایک نیا برانچ آفس تعمیر کِیا گیا ہے۔‏

وہ ایک بہانہ ڈھونڈتے ہیں

۱۰.‏ جیسا دانی‌ایل کے معاملے میں ہوا تھا،‏ زمانۂ‌جدید کے مخالفین نے خدا کے لوگوں کیساتھ کیا کِیا ہے؟‏

۱۰ برگشتہ لوگ،‏ پادری اور دیگر اشخاص خدا کے کلام سے ہمارے پیغام کی برداشت نہیں کر سکتے۔‏ دُنیائے مسیحیت کے مخصوص مذہبی حلقوں کی طرف سے دباؤ کے تحت،‏ مخالفین نے دُنیا کی نظر میں یہوواہ کے گواہوں کے خلاف اپنی لڑائی کی توجیہ کرنے کیلئے ایک راستہ،‏ ایک نام‌نہاد قانونی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔‏ بعض اوقات کونسے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں؟‏ دانی‌ایل نبی کو حملے کا نشانہ بنانے کیلئے سازشیوں نے کیا کِیا تھا؟‏ دانی‌ایل ۶:‏۴،‏ ۵ میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏تب اُن وزیروں اور ناظموں نے چاہا کہ ملک‌داری میں دانیؔ‌ایل پر قصور ثابت کریں لیکن وہ کوئی موقع یا قصور نہ پا سکے کیونکہ وہ دیانتدار تھا اور اُس میں کوئی خطا یا تقصیر نہ تھی۔‏ تب اُنہوں نے کہا کہ ہم اِس دانیؔ‌ایل کو اُسکے خدا کی شریعت کے سوا کسی اَور بات میں قصوروار نہ پائینگے۔‏“‏ آجکل،‏ مخالفین اسی طرح کا کوئی حیلہ‌بہانہ تلاش کرتے ہیں۔‏ وہ ”‏خطرناک فرقوں“‏ کا نام لیکر شور مچاتے اور یہوواہ کے گواہوں پر یہ لیبل لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ غلط نمائندگی،‏ توہین‌آمیز اشاروں اور صریحاً جھوٹی باتوں کے ذریعے وہ ہماری پرستش اور خدائی اصولوں سے ہماری وابستگی پر حملہ کرتے ہیں۔‏

۱۱.‏ یہوواہ کے گواہوں کے بعض مخالفین نے کونسے جھوٹے دعوے کئے ہیں؟‏

۱۱ بعض ممالک میں،‏ مختلف مذہبی اور سیاسی عناصر یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ہم ”‏[‏اپنے]‏ خدا اور باپ کے نزدیک خالص اور بےعیب دینداری“‏ عمل میں لاتے ہیں۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۷‏)‏ ہماری مسیحی کارگزاریوں کے ۲۳۴ ممالک میں جاری رہنے کے باوجود مخالفین دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ”‏قانونی طور پر تسلیم‌شُدہ مذہب“‏ نہیں ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۹۹۸ میں ایک بین‌الاقوامی کنونشن سے کچھ دیر پہلے،‏ ایتھنز کے اخبار نے اس کے برعکس ہیومن رائٹس کی یورپین عدالت کے طےشُدہ ضابطے کے باوجود،‏ یونانی آرتھوڈکس پادری کے اس دعوے کا حوالہ دیا کہ ”‏[‏یہوواہ کے گواہ]‏ ’‏قانونی طور پر تسلیم‌شُدہ مذہب‘‏ نہیں ہیں۔‏“‏ چند دن بعد،‏ اسی شہر کے ایک اَور اخبار نے ایک چرچ نمائندے کے بیان کا یوں حوالہ دیا:‏ ”‏[‏یہوواہ کے گواہ]‏ ’‏ایک مسیحی کلیسیا‘‏ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ مسیح یسوع کی ذات کے سلسلے میں کوئی مشترکہ مسیحی ایمان نہیں رکھتے۔‏“‏ یہ حیران‌کُن بات ہے کیونکہ کوئی بھی دوسرا مذہبی گروہ یہوواہ کے گواہوں سے بڑھ کر مسیح کی نقل کرنے پر زور نہیں دیتا ہے۔‏

۱۲.‏ اپنی روحانی لڑائی لڑنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۲ ہم قانونی چارہ‌جوئی سے خوشخبری کا دفاع کرنا اور اسے قائم کرنا چاہتے ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۱:‏۷‏)‏ مزیدبرآں،‏ ہم راستبازی کے خدائی معیاروں اور خدائی اصولوں سے اپنی پُختہ وابستگی سے مصالحت یا اس کی اثرپذیری کو کم نہیں کریں گے۔‏ (‏ططس ۲:‏۱۰،‏ ۱۲‏)‏ یرمیاہ کی مانند،‏ خدا کے خلاف لڑنے والوں کی کسی بھی دہشت سے نڈر ہو کر ’‏ہم اپنی کمریں کس لیتے اور یہوواہ کے تمام احکام کا پرچار کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ یہوواہ کے پاک کلام نے ہمارے لئے درست روش کی واضح نشاندہی کر دی ہے۔‏ ہم کبھی بھی ”‏بشر“‏ کے نازک ”‏ہاتھ“‏ پر تکیہ کرنا یا ”‏مصر“‏ یعنی دُنیا،‏ ”‏کے سایہ میں پناہ“‏ لینا نہیں چاہتے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۲:‏۸؛‏ یسعیاہ ۳۰:‏۳؛‏ ۳۱:‏۱-‏۳‏)‏ روحانی لڑائی لڑنے میں،‏ ہمیں اپنے فہم پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے سارے دل سے یہوواہ پر توکل کرنا اور اپنے قدموں کے لئے اس سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔‏ (‏امثال ۳:‏۵-‏۷‏)‏ یہوواہ کی حمایت اور تحفظ کے بغیر ہماری ساری محنت ”‏عبث“‏ ہوگی۔‏—‏زبور ۱۲۷:‏۱‏۔‏

اذیت کے باوجود مصالحت نہ کی

۱۳.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یسوع پر شیطانی حملہ ناکام ہو گیا تھا؟‏

۱۳ یہوواہ کے لئے غیرمصالحانہ عقیدت رکھنے کی سب سے بڑی مثال یسوع مسیح ہے جس پر تخریب‌کاری اور قائم‌کردہ نظم‌وضبط میں خلل ڈالنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔‏ معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد،‏ پیلاطُس یسوع کو چھوڑ دینے پر راضی تھا۔‏ لیکن مذہبی پیشواؤں کے بہکاوے میں آ جانے والی بِھیڑ یسوع کو مصلوب کرنے کیلئے چلّا اُٹھی،‏ حالانکہ وہ بےقصور تھا۔‏ اُنہوں نے یسوع کے بدلے میں،‏ برابا کی رہائی کا مطالبہ کِیا جو تخریب‌کاری اور قتل کرنے کی وجہ سے قید میں ڈالا گیا تھا!‏ پیلاطُس نے نامعقول مخالفین کو دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے بالآخر عوام کے شوروغل کے سامنے ہتھیار ڈال دئے۔‏ (‏لوقا ۲۳:‏۲،‏ ۵،‏ ۱۴،‏ ۱۸-‏۲۵‏)‏ یسوع کے سُولی پر مرنے کے باوجود،‏ خدا کے بیگناہ بیٹے پر نہایت ہی نفرت‌انگیز حملہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا کیونکہ یہوواہ نے یسوع کو زندہ کر کے اُسے اپنے دہنے ہاتھ بیٹھنے کا شرف بخشا۔‏ نیز ۳۳ س.‏ع.‏ پنتِکُست کے دن جلالی یسوع کے ذریعے،‏ رُوح‌القدس کے نزول سے مسیحی کلیسیا—‏”‏نیا مخلوق“‏—‏وجود میں آئی۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۷؛‏ اعمال ۲:‏۱-‏۴‏۔‏

۱۴.‏ یسوع کے پیروکاروں کے خلاف یہودی مذہبی عناصر کے کام کرنے کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۱۴ اس کے کچھ ہی دیر بعد،‏ مذہبی پیشواؤں نے رسولوں کو دھمکایا لیکن ابتدائی مسیحیوں نے جو باتیں دیکھی اور سنی تھیں ان کا چرچا کرنے سے باز نہ آئے۔‏ یسوع کے شاگردوں نے دُعا کی:‏ ”‏اے [‏یہوواہ!‏]‏ اُن کی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کے ساتھ سنائیں۔‏“‏ (‏اعمال ۴:‏۲۹‏)‏ یہوواہ نے انہیں اپنی رُوح‌القدس سے معمور کرنے اور نڈر ہو کر منادی جاری رکھنے کے لئے تقویت دینے سے ان کی دُعاؤں کا جواب دیا۔‏ جلد ہی رسولوں کو پھر منادی بند کرنے کا حکم دیا گیا لیکن پطرس اور دیگر رسولوں نے جواب دیا:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۵:‏۲۹‏)‏ دھمکیاں،‏ گرفتاریاں اور کوڑوں کی مار،‏ انہیں اپنی بادشاہتی کارگزاری کو وسیع کرنے سے روک نہ سکی۔‏

۱۵.‏ گملی‌ایل کون تھا اور اس نے یسوع کے پیروکاروں کے مذہبی مخالفین کو کیا مشورہ دیا؟‏

۱۵ مذہبی پیشواؤں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ ”‏وہ یہ سنکر جل گئے اور [‏رسولوں کو]‏ قتل کرنا چاہا۔‏“‏ تاہم،‏ گملی‌ایل نامی شریعت کا مُعلم،‏ ایک فریسی،‏ وہاں موجود تھا اور سب لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔‏ اس نے رسولوں کو کچھ دیر کیلئے صدرعدالت سے باہر کر دینے کے بعد،‏ اُن مذہبی مخالفین کو مشورہ دیا:‏ ”‏اَے اسرائیلیو!‏ ان آدمیوں کے ساتھ جو کچھ کِیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا۔‏ .‏ .‏ .‏اب مَیں تم سے کہتا ہوں کہ ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھو۔‏ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائیگا۔‏ لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم اِن لوگوں کو مغلوب نہ کر سکو گے۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۳۳-‏۳۹‏۔‏

ہمارے خلاف بنایا جانے والا کوئی ہتھیار کام نہ آئیگا

۱۶.‏ آپ اپنے الفاظ میں اس یقین‌دہانی کو کیسے بیان کریں گے جو یہوواہ اپنے لوگوں کو دیتا ہے؟‏

۱۶ گملی‌ایل کی مشورت ٹھوس تھی اور جب کوئی ہمارے حق میں موافق بات کرتا ہے تو ہم اس بات کی قدر کرتے ہیں۔‏ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غیرجانبدار ججوں کے عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں پرستش کی آزادی کی حمایت ہوئی ہے۔‏ بیشک،‏ خدا کے کلام سے ہماری وابستگی دُنیائے مسیحیت کے پادری طبقے اور بڑے بابل،‏ جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کے دیگر لیڈروں کیلئے ناگوار ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۸:‏۱-‏۳‏)‏ اگرچہ وہ اپنے ہمنواؤں کیساتھ ملکر ہمیں حملوں کا نشانہ بناتے اور ہمارے خلاف لڑتے رہتے ہیں توبھی ہمیں یقین ہے:‏ ”‏کوئی ہتھیار جو تیرے خلاف بنایا جائے کام نہ آئے گا اور جو زبان عدالت میں تجھ پر چلے گی تُو اُسے مجرم ٹھہرائیگی۔‏ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے یہ میرے بندوں کی میراث ہے اور اُنکی راستبازی مجھ سے ہے۔‏“‏—‏یسعیاہ ۵۴:‏۱۷‏۔‏

۱۷.‏ اگرچہ مخالفین ہمارے خلاف لڑتے ہیں پھربھی ہم کیوں دلیر ہیں؟‏

۱۷ ہمارے مخالفین بِلاوجہ ہمارے خلاف لڑتے رہتے ہیں لیکن ہم ہمت نہیں ہارتے۔‏ (‏زبور ۱۰۹:‏۱-‏۳‏)‏ ہم کسی بھی طریقے سے سچائی اور بائبل پیغام سے نفرت کرنے والوں کو اجازت نہیں دیں گے کہ ایمان کے سلسلے میں مصالحت کرنے کیلئے ہمیں ڈرائیں۔‏ اپنی روحانی لڑائی میں شدت آنے کی توقع کرنے کے باوجود ہم انجام سے واقف ہیں۔‏ یرمیاہ کی طرح،‏ ہم ان نبوّتی الفاظ کی تکمیل کا تجربہ کریں گے:‏ ”‏وہ تجھ سے لڑینگے لیکن تجھ پر غالب نہ آئینگے کیونکہ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں معلوم ہے کہ خدا کے خلاف لڑنے والے غالب نہ آئیں گے!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 صفحہ ۲۴-‏۲۸ پر مضمون دیکھیں ”‏نازی ظلم‌وستم کے سامنے وفادار اور دلیر۔‏“‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• یہوواہ کے خادم حملے کا نشانہ کیوں رہے ہیں؟‏

‏• کن طریقوں سے مخالفین نے یہوواہ کے لوگوں کے خلاف لڑائی کی ہے؟‏

‏• ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا کے خلاف لڑنے والے غالب نہ آئیں گے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

یرمیاہ کو یقین تھا کہ یہوواہ اس کیساتھ ہے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

مرکزِاسیران سے بچنے والے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یہوواہ کے گواہوں کے خلاف متشدّد ہجوم

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

جے۔‏ایف۔‏ رتھرفورڈ اور ساتھی

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

یسوع کے معاملے میں خدا کے خلاف لڑنے والے غالب نہ آئے