نازی ظلموستم کے سامنے وفادار اور دلیر
نازی ظلموستم کے سامنے وفادار اور دلیر
جون ۱۷، ۱۹۴۶ کو نیدرلینڈز کی ملکہ وِلہلمینا نے ایمسٹرڈیم میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک خاندان کو پیغامِتعزیت بھیجا۔ اس کا مقصد اُن کے بیٹے، جیکب وان بنکوم کو خراجِتحسین پیش کرنا تھا جسے نازیوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ اس سے چند سال قبل، نیدرلینڈز کے مشرقی حصے میں واقع ایک قصبے، دُوتیکم کی بلدیہ نے جنگ کے دوران موت کی سزا پانے والے ایک اَور یہوواہ کے گواہ، برنارڈ پولمین کے نام پر ایک گلی کا نام رکھنے کا فیصلہ کِیا۔
نازی دوسری عالمی جنگ کے دوران نیدرلینڈز میں جیکب، برنارڈ اور دیگر یہوواہ کے گواہوں کے مخالف کیوں ہو گئے تھے؟ علاوہازیں کس چیز نے ان گواہوں کو برسوں تک سفاکانہ اذیت کے باوجود وفادار رہنے اور بالآخر اپنے ہموطنوں اور ملکہ کی طرف سے عزت اور خراجِتحسین حاصل کرنے کے قابل بنایا تھا؟ یہ جاننے کیلئے آئیے یہوواہ کے گواہوں کے چھوٹے سے گروہ اور نازیوں کی دیوہیکل سیاسی اور عسکری تنظیم کے مابین داؤد اور جولیت جیسی مسابقہآرائی کا باعث بننے والے بعض واقعات کا جائزہ لیں۔
پابندی کے تحت پہلے سے زیادہ سرگرم
مئی ۱۰، ۱۹۴۰ کو نازی فوج نے اچانک نیدرلینڈز پر حملہ کر دیا۔ یہوواہ کے گواہوں کے لٹریچر نے نازیوں کے پول کھول کر رکھ دئے تھے اور خدا کی بادشاہت ہی کی حمایت کی تھی جسکی وجہ سے نازیوں نے بِلاتاخیر گواہوں کی کارگزاریوں کو روکنے کی کوشش کی۔ نیدرلینڈز پر نازیوں کو قابض ہوئے ابھی تین ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ اُنہوں نے خفیتہً یہوواہ کے گواہوں پر پابندی کا فرمان جاری کر دیا۔ مارچ ۱۰، ۱۹۴۱ کو ایک پریس رپورٹ نے گواہوں پر ”حکومت اور چرچ کے
تمام اداروں کے خلاف“ مہم چلانے کا الزام لگاتے ہوئے اس پابندی کا ڈھنڈورا پیٹ دیا۔ نتیجتاً، گواہوں کی تلاش شروع ہو گئی۔دلچسپی کی بات ہے کہ اگرچہ تمام چرچ بدنام خفیہ پولیس، گسٹاپو کے زیرِنگرانی رہے مگر سخت اذیت کا نشانہ اُنہوں نے صرف ایک ہی مسیحی تنظیم کو بنایا۔ ڈچ مؤرخ ڈاکٹر لو دے ژاں بیان کرتا ہے کہ ”صرف ایک ہی مذہبی گروہ—یہوواہ کے گواہوں—کو موت کی حد تک اذیت پہنچائی جاتی تھی۔“—ہیٹ کوننکریک دیر نیدرلینڈن اِن دے ٹویدے ویریلڈوورلگ (دوسری عالمی جنگ کے دوران نیدرلینڈز کی حکومت)۔
گواہوں کو تلاش اور گرفتار کرنے کیلئے گسٹاپو کو ڈچ پولیس کا تعاون حاصل تھا۔ اس کے علاوہ، ایک سفری نگہبان خوفزدہ ہوکر برگشتہ ہو گیا اور اپنے سابقہ ہمایمانوں کے بارے میں ساری معلومات نازیوں کو دے دیں۔ اپریل ۱۹۴۱ کے اختتام تک، ۱۱۳ گواہ زیرِحراست تھے۔ کیا اس شدید حملے سے منادی کی کارگزاریوں میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی؟
اسکا جواب اپریل ۱۹۴۱ میں جرمن ذیکرہیتسپولتزی (سیکیورٹی پولیس) کی تیارکردہ کلاسیفائیڈ دستاویز میلڈنجن آس ڈین نیدرلینڈن (نیدرلینڈز سے رپورٹیں) سے ملتا ہے۔ رپورٹ یہوواہ کے گواہوں کی بابت بیان کرتی ہے: ”پورے ملک میں اس ممنوع فرقے کا کام بڑے زوروشور سے چل رہا ہے، یہ غیرقانونی اجلاس منعقد کرنے اور ایسے اشتہارات چسپاں کرنے سے باز نہیں آتے جن پر یہ نعرے لکھے ہوتے ہیں کہ ’خدا کے گواہوں کو ستانا جُرم ہے‘ اور ’یہوواہ اذیترسانوں کو ابدی ہلاکت کی سزا دیگا۔‘ ” دو ہفتے بعد اسی رپورٹ نے بیان کِیا کہ ”سیکیورٹی پولیس کی طرف سے بائبل سٹوڈنٹس کی کارگزاریوں کے خلاف سخت اقدام کے باوجود اُنکا کام دنبدن فروغ پا رہا ہے۔“ گرفتاری کے خطرے کے باوجود، گواہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور صرف ۱۹۴۱ میں ہی عوام میں ۰۰۰،۵۰،۳ سے زائد مطبوعات تقسیم کیں!
کس چیز نے محض چند سو گواہوں پر مشتمل اس چھوٹے مگر روزبروز بڑھنے والے گروہ کو اپنے ہولناک دشمنوں کا دلیری سے سامنا کرنے کے قابل بنایا؟ قدیم زمانے کے وفادار نبی یسعیاہ کی طرح، گواہ انسانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ڈرتے ہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ اُنہوں نے یسعیاہ کی معرفت یہوواہ کے اِن تسلیبخش الفاظ کو ذہننشین رکھا تھا: ”تم کو تسلی دینے والا مَیں ہی ہوں۔ تو کون ہے جو فانی انسان سے . . . ڈرتا ہے۔“—یسعیاہ ۵۱:۱۲۔
دلیری عزت کا تقاصا کرتی ہے
گرفتار ہونے والے گواہوں کی تعداد ۱۹۴۱ کے اختتام تک ۲۴۱ ہو گئی تھی۔ تاہم، کچھ گواہ انسان کے خوف سے مغلوب ہو گئے۔ جرمن خفیہ پولیس کے ایک بدنام رُکن، وِلی لاگس
کے بیان کا حوالہ یوں پیش کِیا گیا ہے کہ ”۹۰فیصد یہوواہ کے گواہوں نے کوئی بھی بات بتانے سے انکار کر دیا جبکہ دیگر مذہبی گروہوں میں بہت کم ایسے لوگ تھے جن میں چپ رہنے کا حوصلہ تھا۔“ ایک ڈچ پادری جوہانس جے. بسکس کا مشاہدہ لاگس کے اِس بیان کی تصدیق کرتا ہے جو گواہوں کیساتھ قید تھا۔ بسکس نے ۱۹۵۱ میں لکھا:”اُنکی ایمانی قوت اور خدا پر توکل کی وجہ سے میرے دل میں اُن کیلئے بہت عزت پیدا ہو گئی تھی۔ مجھے وہ ۱۹ سال سے کم عمر کا نوجوان کبھی نہیں بھولے گا جو ہٹلر اور تھرڈ رائیش کے زوال کی پیشگوئی کرنے والے پمفلٹ تقسیم کِیا کرتا تھا۔ . . . اگر وہ اپنا یہ کام چھوڑ دینے کا وعدہ کر لیتا تو نصف سال میں ہی رِہا ہو سکتا تھا۔ لیکن اس نے اس سے صریحاً انکار کر دیا جس کی وجہ سے اُسے غیرمُعیّنہ مدت تک جرمنی میں بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ اسکا کیا مطلب ہے۔ اگلی صبح جب اُسے لے جا رہے تھے اور ہم اُسے آخری مرتبہ ملے تو مَیں نے اُس سے کہا کہ ہم اُسے اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں گے۔ اُسکا جواب صرف اتنا تھا: ’میری فکر نہ کرو۔ خدا کی بادشاہت ضرور آئیگی۔‘ آپ کے پاس یہوواہ کے گواہوں کی تعلیمات پر اعتراض کرنے کا ہر ممکن جواز ہونے کے باوجود آپ ایسی بات کبھی نہیں بھول سکتے۔“
ظالمانہ اذیت کے باوجود، گواہوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ دوسری عالمی جنگ سے کچھ عرصہ پہلے صرف ۳۰۰ گواہ تھے لیکن ۱۹۴۳ میں تعداد ۳۷۹،۱ تک بڑھ چکی تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ اسی سال زیرِحراست ۳۵۰ گواہوں میں سے ۵۴ سے زائد گواہ مختلف مراکزِاسیران میں مارے گئے۔ جہاں تک ۱۹۴۴ کا تعلق ہے تو نیدرلینڈز سے ۱۴۱ یہوواہ کے گواہ ابھی تک مختلف مراکزِاسیران میں قید تھے۔
نازی اذیت کا آخری سال
جون ۶، ۱۹۴۴، ڈی ڈے کے بعد، گواہوں کی اذیت کا آخری سال شروع ہوا۔ نازی اور اُنکے الحاقی اب پیٹھ دکھا چکے تھے۔ ایسی صورتحال میں ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ اب نازی معصوم مسیحیوں کا پیچھا چھوڑ دینگے۔ مگر اس سال کے دوران، ۴۸ اَور گواہوں کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا گواہوں میں سے مزید ۶۸ ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے ایک جیکب وان بنکوم تھا جسکا پہلے ذکر کِیا گیا ہے۔
اٹھارہ سالہ جیکب ۱۹۴۱ میں یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ پانے والے ۵۸۰ لوگوں میں سے تھا۔ اسکے فوراً ہی بعد اُس نے اچھیخاصی تنخواہ والی ملازمت چھوڑ دی کیونکہ اس میں اُسکی مسیحی غیرجانبداری کو خطرہ لاحق تھا۔ اُس نے ڈاکیے کی ملازمت کیساتھ ساتھ کُلوقتی خادم کے طور پر مسیحی پیغام سنانے کا کام شروع کر دیا۔ بائبل لٹریچر کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے دوران اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ اگست ۱۹۴۴ میں ۲۱سالہ جیکب نے روٹرڈیم کے شہر میں قیدخانے سے اپنے خاندان کو خط لکھا:
”مَیں بالکل خیریت سے اور مزے میں ہوں۔ . . . اب تک مجھ سے چار مرتبہ پوچھگچھ ہو چکی ہے۔ پہلی دو مرتبہ تو اُنہوں نے بہت سختی کی اور مجھے بُری طرح پیٹا مگر خداوند کے فضلوکرم سے مَیں نے ابھی تک کوئی راز نہیں اُگلا۔ . . . مَیں یہاں چھ تقریریں پیش کرنے کے قابل بھی ہوا ہوں، جنہیں ۱۰۲ لوگوں نے سنا۔ ان میں سے بعض نے اچھی دلچسپی دکھائی ہے اور قید سے بری ہونے کے بعد بھی ایسی دلچسپی قائم رکھنے کا وعدہ کِیا ہے۔“
جیکب کو ستمبر ۱۴، ۱۹۴۴ کو ڈچ شہر ایمرسفورٹ کے مرکزِاسیران میں لے جایا گیا۔ وہ وہاں بھی منادی کرتا رہا۔ کیسے؟ اُس کے ساتھی قیدی کو ابھی تک یاد ہے کہ ”سپاہی بائبل کے صفحوں کو سگریٹ پیپر کے طور پر استعمال کرتے تھے اور استعمال کے بعد سگریٹ کے ٹکڑے پھینک دیتے تھے جنہیں قیدی جمع کر لیتے تھے۔ بعضاوقات جیکب سگریٹ پیپر کے طور پر استعمال ہونے والے بائبل کے صفحے سے چند الفاظ پڑھنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ پڑھنے کے فوراً بعد وہ انہی الفاظ کو بنیاد بنا کر ہمیں منادی کرتا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں ہم نے اُس کا نام جیکب ’دی بائبل مین‘ رکھ دیا تھا۔“
اکتوبر ۱۹۴۴ میں، جیکب کو قیدیوں کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ ٹینک گِرانے کے لئے خندقیں کھودنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جیکب نے اس سے انکار کر دیا کیونکہ اُس کا ضمیر اُسے جنگ میں معاون ثابت ہونے والا کوئی بھی کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ سپاہیوں کی مسلسل دھمکیوں کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہا۔ اکتوبر ۱۳ کو ایک افسر اُسے کال کوٹھڑی سے نکال کر کام کی جگہ پر لے گیا۔ جیکب ثابتقدم رہا۔ بالآخر، جیکب کو اپنی قبر کھودنے کا حکم دیا گیا جسکے بعد اُسے گولی مار دی گئی۔
گواہوں کی گرفتاریاں جاری رہتی ہیں
جیکب اور دیگر گواہوں کے دلیرانہ مؤقف سے نازی اَور بھی طیش میں آ گئے اور ایک بار پھر گواہوں کو پکڑنے کے درپے ہو گئے۔ اُن کا ایک شکار ۱۸سالہ ایورٹ کیٹلارا تھا۔ کچھ دیر تو ایورٹ چھپتا رہا مگر بعدازاں گرفتار ہو گیا اور اُسے نہایت زدوکوب کرکے دیگر گواہوں کی بابت بتانے پر مجبور کِیا گیا۔ اُس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جسکی وجہ سے اُسے جرمنی میں بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
اکتوبر ۱۹۴۴ کے اسی مہینے میں پولیس ہاتھ دھو کر ایورٹ کے بہنوئی برنارڈ لومس کے پیچھے پڑ گئی۔ جب وہ اُنکے ہاتھ لگا تو اُس وقت وہ دو دوسرے گواہوں—اینٹونی رامائیر اور البرٹس بوز—کے ساتھ رہ رہا تھا۔ البرٹس تو پہلے ہی ایک مرکزِاسیران میں ۱۴ ماہ گزار چکا تھا۔ تاہم، رِہائی پانے کے بعد اُس نے پھر گرمجوشی کیساتھ منادی کا کام شروع کر دیا تھا۔ پہلے تو نازیوں نے ان تینوں کو بڑی بےدردی سے مارا اور پھر گولی سے اُڑا دیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اُن کی لاشیں ملیں اور دفن کی گئیں۔ جنگ کے تھوڑی ہی دیر بعد کئی مقامی اخبارات میں اس بہیمانہ قتل کی بابت خبریں شائع ہوئیں۔ ایک اخبار نے لکھا کہ یہ تینوں گواہ اس بات پر مُصر رہے کہ وہ نازیوں کے لئے خدا کے قانون کے منافی کوئی کام نہیں کریں گے اور پھر اسی اخبار نے مزید کہا کہ ”اس کا ہرجانہ اُنہیں اپنی جان دے کر ادا کرنا پڑا۔“
اسی اثنا میں، نومبر ۱۰، ۱۹۴۴ کو مسبوقالذکر برنارڈ پولمین کو گرفتار کر کے کسی فوجی کام پر بھیج دیا گیا۔ بیگاریوں کے درمیان صرف وہی ایک گواہ تھا اور اُسی نے یہ کام کرنے سے انکار کِیا۔ سپاہیوں نے اُسے مصالحت کرنے کے لئے کئی ترکیبیں آزمائیں۔ اُسے بھوکا رکھا جاتا تھا۔ اُسے لاٹھیوں، بیلچے اور رائفل کے بٹ سے بڑی بےرحمی کے ساتھ پیٹا جاتا تھا۔ علاوہازیں، اُسے گھٹنوں تک گہرے یخٹھنڈے پانی میں چلنے پر مجبور کِیا جاتا تھا اور پھر اُسے گیلے تہہخانے میں بند کر دیا جاتا تھا جہاں وہ گیلے کپڑوں میں ساری رات پڑا رہتا۔ اس کے باوجود، برنارڈ نے ہمت نہ ہاری۔
اس دوران، برنارڈ کی دو بہنیں جو یہوواہ کی گواہ نہیں تھیں اُس سے ملنے کیلئے آئیں۔ اُنہوں نے اُسکی سوچ بدلنے کی بہت کوشش کی مگر اُسے اس سے کوئی فرق نہ پڑا۔ جب اُنہوں نے برنارڈ سے پوچھا کہ ہم تمہارے لئے کیا کر سکتی ہیں تو اُس نے اُنہیں گھر جاکر بائبل مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اذیترسانوں نے پھر اُسکی حاملہ بیوی کو بھی اس اُمید پر اُس سے ملنے کی اجازت دی کہ شاید یہ اُسکے عزم کو توڑنے میں کامیاب ہو جائے۔ تاہم اُسکی موجودگی اور جرأتمندانہ باتوں نے خدا کا وفادار رہنے کیلئے برنارڈ کے حوصلے کو اَور زیادہ مضبوط کِیا۔ نومبر ۱۷، ۱۹۴۴ کو تمام بیگاریوں کی آنکھوں کے سامنے پانچ اذیترسانوں نے برنارڈ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ برنارڈ کے مر جانے کے بعد اُسکی لاش پر گولیاں برسائی گئیں، حتیٰکہ انچارج اسقدر غصے میں تھا کہ اُس نے اپنا ریوالور نکال کر برنارڈ کی دونوں آنکھوں میں گولیاں ماریں۔
دیگر گواہ اس بہیمانہ سلوک کی خبر سن کر دہل گئے مگر وفاداری اور دلیری کیساتھ اپنی مسیحی کارگزاری کو جاری رکھا۔ جس جگہ برنارڈ کو ہلاک کِیا گیا تھا اُسی کے قریب یہوواہ کے گواہوں کی چھوٹی سی کلیسیا نے اس سانحہ کے کچھ دیر بعد رپورٹ دی: ”طوفانی موسم اور شیطان کی لائی ہوئی دیگر مشکلات کے باوجود ہمارے کام نے بہت ترقی کی ہے۔ خدمت میں صرف کئے جانے والے گھنٹوں کی تعداد ۴۲۹ سے بڑھکر ۷۶۵ ہو گئی ہے۔ . . . منادی کے دوران ایک بھائی نے کسی آدمی کو اچھی گواہی دی۔ اُس آدمی نے پوچھا کہ آیا آپ کا بھی وہی ایمان ہے جو اُس شخص کا تھا جسے حال میں گولی ماری گئی ہے۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ مَیں بھی یہوواہ کا گواہ ہوں تو اُس آدمی نے خوشی سے کہا: ’کتنا عظیم شخص، کتنا عظیم ایمان! میرے نزدیک تو ایسا شخص ایمان کا ہیرو ہے!‘ ”
یہوواہ یاد رکھتا ہے
مئی ۱۹۴۵ میں، نازیوں کو شکست ہوئی اور نیدرلینڈز سے نکال دیا گیا۔ جنگ کے دوران سفاکانہ اذیت کے باوجود، یہوواہ کے گواہوں کی تعداد چند سو سے بڑھ کر ۲۰۰۰ تک پہنچ چکی تھی۔ جنگ کے زمانے کے ان گواہوں کا ذکر کرتے ہوئے، مؤرخ ڈاکٹر ڈی جونگ تسلیم کرتا ہے: ”خطرات اور اذیت کے باوجود اکثریت اپنے ایمان سے منکر نہ ہوئی۔“
لہٰذا، یہ معقول بات ہے کہ بعض دُنیاوی حکام نے نازی حکومت کے خلاف دلیرانہ مؤقف برقرار رکھنے کیلئے یہوواہ کے گواہوں کو سراہا ہے۔ تاہم، سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہوواہ اور یسوع جنگ کے زمانے کے ان گواہوں کے معیاری ریکارڈ کو یاد رکھیں گے۔ (عبرانیوں ۶:۱۰) یسوع مسیح کی آنے والی ہزارسالہ حکمرانی کے دوران، خدا کی خدمت میں اپنی زندگیاں قربان کر دینے والے وفادار اور دلیر گواہ فردوسی زمین پر ابدی زندگی کے امکانات کیساتھ قبروں سے نکل آئینگے!—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
جیکب وان بنکوم
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
یہوواہ کے گواہوں پر پابندی عائد کرنے والے حکمنامے کی بابت اخبار کا تراشا
[صفحہ ۲۷ پر تصویریں]
دائیں طرف: برنارڈ لومس؛ نیچے: البرٹس بوز (بائیں طرف) اور اینٹونی رامائیر؛ انتہائی نیچے: ہیمسٹڈ میں سوسائٹی کا دفتر