خدا کو خوش کرنے والی موسیقی
خدا کو خوش کرنے والی موسیقی
موسیقی کو ”فنونِلطیفہ کی قدیمترین اور انتہائی فطرتی“ صنف خیال کِیا جاتا ہے۔ زبان کی طرح، یہ بھی ایک شاندار بخشش ہے جو انسانوں کو حیوانوں سے افضل ٹھہراتی ہے۔ موسیقی جذبات کو اُبھارتی ہے۔ یہ کانوں میں رس گھولتی ہوئی دل کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے اور سب سے بڑھکر خدا کو خوش کرتی ہے۔
بائبل ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی موسیقی کے دلدادہ لوگ تھے۔ انگرز بائبل ڈکشنری بیان کرتی ہے کہ موسیقی ”بائبل کے زمانے میں ایک مقبولِعام فن“ تھی۔ موسیقی نہ صرف روزمرّہ زندگی کا اہم حصہ تھی بلکہ اُنکی پرستش میں بھی اسے سازوآواز کی صورت میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ تاہم، انسانی آواز کو دیگر آوازوں کی نسبت زیادہ نمایاں طریقے سے استعمال کِیا جاتا تھا۔
داؤد بادشاہ نے اپنے بیٹے سلیمان کی تعمیرکردہ ہیکل کی تقدیس سے پہلے، لاویوں میں سے بعض کو خیمۂاجتماع میں ”گانے کے کام“ پر مقرر کِیا تھا۔ (۱-تواریخ ۶:۳۱، ۳۲) یہوواہ کی نمائندگی کرنے والا عہد کا صندوق جب یروشلیم پہنچا تو داؤد نے بعض لاویوں کو مقرر کِیا کہ ”[یہوواہ] . . . کا ذکر اور شکر اور اُس کی حمد کریں۔“ انہوں نے ”ستار اور بربط . . . اور . . . جھانجھوں“ کے ساتھ اپنی سُریلی آواز میں حمدوستائش کی۔ یہ آدمی ”نامبنام مذکور ہوئے تھے تاکہ [یہوواہ] کا شکر کریں کیونکہ اُسکی شفقت ابدی ہے۔“—۱-تواریخ ۱۶:۴-۶، ۴۱؛ ۲۵:۱۔
موسیقی سے انتہائی وابستہ بائبل کی کتاب زبور میں ”[یہوواہ] کی شفقت ابدی ہے“ کا مصرع کئی مرتبہ آتا ہے۔ مثال کے طور پر، زبور ۱۳۶ کی کُل ۲۶ آیات میں ہر آیت کے دوسرے حصے میں یہی مصرع آتا ہے۔ ایک بائبل عالم کی رائے میں، ”یہ اسقدر مختصر ہے کہ لوگ بآسانی اسے ازبر کر لیتے تھے۔ یہ تمام سامعین کے ذہنوں میں نقش ہو جاتا تھا۔“
مزامیر کی بالانویسی سازوں کے وسیع استعمال کو ظاہر کرتی ہیں۔ زبور ۱۵۰ نرسنگے، بربط، ستار، دف، بانسلی اور تاردار سازوں کے علاوہ جھانجھ کا بھی ذکر کرتا ہے۔ تاہم انسانی آواز استعمال کرنے کی خاص طور پر استدعا کی گئی ہے۔ آیت ۶ تاکید کرتی ہے: ”ہر مُتنفّس [یاہ] کی حمد کرے۔ [یاہ] کی حمد کرو۔“
موسیقی ہمارے جذبات کو ظاہر کرتی ہے اسلئے بائبل وقتوں میں سوگ یا غم کی حالت میں نوحہ یا مرثیہ گایا جاتا تھا۔ تاہم، اس قسم کے گیت عام اسرائیلی طرزِموسیقی میں نمایاں نہیں تھے۔ بائبل انسائیکلوپیڈیا انسائٹ آن دی سکرپچرز * کے مطابق، ”نوحہ یا مرثیے میں مختلف سُروں اور الفاظ کی بجائے ترجیحاً ایک ہی سُر اور لَے کو استعمال کِیا جاتا تھا۔“
یسوع اور اس کے وفادار رسولوں نے یسوع کی موت سے پہلے کی رات یہوواہ کی حمد کے لئے، بِلاشُبہ ہلَل مزامیر کی شاعری پر مشتمل گیت گائے تھے۔ (زبور ۱۱۳–۱۱۸) اس سے یسوع کے شاگردوں کو اپنے مالک کی جُدائی کا سامنا کرنے کیلئے کسقدر تقویت حاصل ہوئی ہوگی! علاوہازیں جب اُنہوں نے پانچ بار یہ مصرع گایا ہوگا کہ ”اُسکی شفقت ابدی ہے“ تو کائنات کے حاکمِاعلیٰ، یہوواہ کی وفاداری سے خدمت کرتے رہنے کیلئے اُن کا عزم اَور بھی پُختہ ہو گیا ہوگا۔—زبور ۱۱۸:۱-۴، ۲۹۔
افسس اور کُلسّے کے ابتدائی مسیحی ”خدا کیلئے مزامیر اور گیت“ گاتے تھے۔ اسکے علاوہ وہ ”روحانی غزلیں“ بھی گنگناتے تھے۔ (افسیوں ۵:۱۹؛ کلسیوں ۳:۱۶) یقیناً انہوں نے گیت اور کلام کی صورت میں اپنے ہونٹوں سے موزوں طور پر اُسکی حمدوتعریف کی تھی۔ کیا یسوع نے یہ نہیں کہا تھا کہ ”جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے“؟—متی ۱۲:۳۴۔
خدا کو ناخوش کرنے والی موسیقی
بائبل میں متذکرہ تمام قسم کی موسیقی نے خدا کو خوش نہیں کِیا تھا۔ کوہِسینا پر رُونما ہونے والے واقعہ پر غور کریں جہاں موسیٰ کو احکامِعشرہ سمیت شریعت دی جا رہی تھی۔ جب موسیٰ پہاڑ سے نیچے اُترا تو اس نے کیا سنا؟ ”آواز نہ تو فتحمندوں کا نعرہ“ تھی ”نہ مغلوبوں کی فریاد بلکہ . . . گانے والوں کی آواز“ تھی۔ اس موسیقی کا تعلق بُتپرستی سے تھا جس سے خدا سخت ناراض ہوا جس کے نتیجے میں تقریباً ۰۰۰،۳ گانے بجانے والے ہلاک ہوگئے۔—خروج ۳۲:۱۸، ۲۵-۲۸۔
انسان ہر طرح کی موسیقی ترتیب دیکر اس سے سازوآواز کی صورت میں محظوظ ہو سکتا ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ خدا بھی اس سے خوش ہوتا ہے۔ کیوں نہیں؟ مسیحی رسول پولس وضاحت کرتا ہے: ”سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔“ (رومیوں ۳:۲۳) اکثراوقات باروری کی بُتپرستانہ رسومات، انسانی جان کے غیرفانی ہونے کا عقیدہ اور ”خدا کی ماں“ کے طور پر مریم کی تعظیم گیتوں کے نمایاں موضوع ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ اعتقادات اور کام خدائےبرحق کے کلام، بائبل کے اصولوں کے برعکس ہونے کی وجہ سے اُس کی بےحرمتی کرتے ہیں۔—استثنا ۱۸:۱۰-۱۲؛ حزقیایل ۱۸:۴؛ لوقا ۱:۳۵، ۳۸۔
موسیقی کا دانشمندانہ انتخاب
آجکل موسیقی کی اسقدر بھرمار ہے کہ انتخاب کرنا مشکل ہے۔ کومپیکٹ ڈسکس کے کور گاہکوں کو لبھانے کیلئے تیار کئے جاتے ہیں تاکہ وہ ہر قسم کی موسیقی کی ریکارڈنگز خرید لیں۔ لیکن اگر خدا کا ایک پرستار اسے خوش کرنا چاہتا ہے توپھر وہ جھوٹے مذہبی اعتقادات یا بداخلاقی اور شیاطینپرستی پر توجہ دلانے والی موسیقی سے بڑی احتیاط کیساتھ گریز کرتے ہوئے دانشمندانہ انتخاب کریگا۔
افریقہ میں ایک مرتبہ مسیحی مشنری کے طور پر خدمت کرنے والا البرٹ تسلیم کرتا ہے کہ اُسے وہاں پیانو بجانے کا زیادہ موقع نہیں ملتا تھا۔ تاہم، اُسکے پاس کچھ ریکارڈنگز تھیں جنہیں وہ باربار سنتا تھا۔ اب اپنے آبائی وطن میں، البرٹ سفری نگہبان کے طور پر مسیحی کلیسیاؤں کا دَورہ کرتا ہے۔ اُس کے پاس موسیقی سننے کیلئے بہت ہی کم وقت بچتا ہے۔ ”میرا پسندیدہ موسیقار بیتھووَن ہے،“ وہ بیان کرتا ہے۔ ”سالوں کے دوران، مَیں نے اسکی سیمفونیز، کانسرٹوز، سوناٹاز اور کوارٹٹس کی ریکارڈنگز جمع کر لی ہیں۔“ انہیں سننے سے اسے بہت زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ بیشک، موسیقی میں ہر شخص کا اپنا ذوق ہوتا ہے، لیکن مسیحیوں کے طور پر ہم پولس کی یہ نصیحت یاد رکھتے ہیں: ”پس تم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔“—۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱۔
موسیقی اور مخصوصیت
سُوزی کا پہلا پیار موسیقی تھا۔ وہ بیان کرتی ہے کہ ”مَیں نے ۶ سال کی عمر میں پیانو، ۱۰ سال کی عمر میں وائلن اور پھر ۱۲ سال کی عمر میں بربط بجانا شروع
کر دیا تھا۔“ بعدازاں سُوزی نے لندن، انگلینڈ میں رائل کالج آف میوزک میں بربط بجانے کی مزید تربیت حاصل کی۔ پھر چار سال تک اُس نے ایک مایۂناز ہسپانوی بربطنواز سے تربیت حاصل کی اور پیرس کے ادارۂموسیقی میں ایک سال تک زیرِتربیت رہنے کے بعد موسیقی میں ایک اعزازی سند اور بربطنوازی اور پیانو سکھانے کے ڈپلومے بھی حاصل کئے۔سُوزی لندن میں یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا سے رفاقت رکھنے لگی۔ اس نے ساتھی گواہوں میں حقیقی دلچسپی اور محبت کا جذبہ دیکھا۔ رفتہرفتہ جب یہوواہ کیلئے اسکی محبت میں اضافہ ہوا تو اُس نے اپنے جوشوجذبے سے اُسکی خدمت کرنے کے مختلف طریقے تلاش کرنے کی تحریک پائی۔ یوں اُس نے مخصوصیت اور بپتسمے کا فیصلہ کِیا۔ سُوزی بیان کرتی ہے کہ ”موسیقی کو پیشہ بنانے کیلئے پوری زندگی اس کیلئے وقف کرنی پڑتی ہے اسلئے مخصوصیت میرے لئے کوئی عجیب بات نہیں تھی۔“ جب اس نے یسوع کی ہدایات کے مطابق خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کے لئے مسیحی خدمتگزاری میں حصہ لینا شروع کِیا تو کنسرٹس کیلئے اس کے پاس بہت کم وقت بچتا تھا۔—متی ۲۴:۱۴؛ مرقس ۱۳:۱۰۔
اب وہ موسیقی کو زیادہ وقت نہ دے پانے کی بابت کیسا محسوس کرتی ہے؟ وہ تسلیم کرتی ہے کہ ”بعضاوقات مشق کرنے کیلئے زیادہ وقت نہ ملنے کے باعث مایوس ہو جاتی ہوں مگر پھر بھی کبھیکبھار اپنے ساز بجانے سے محظوظ ہوتی ہوں۔ موسیقی خدا کی طرف سے ایک بخشش ہے۔ مَیں اپنی زندگی میں اُسکی خدمت کو مقدم رکھنے کا انتخاب کرنے سے زیادہ خوشی کا تجربہ کرتی ہوں۔“—متی ۶:۳۳۔
خدا کی حمد کرنے والی موسیقی
البرٹ اور سُوزی تقریباً چھ ملین دیگر یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ ملکر باقاعدگی سے موسیقی کیساتھ یہوواہ کی حمد کرتے ہیں۔ ۲۳۴ ممالک میں جہاں کہیں ممکن ہو وہ کنگڈم ہالوں میں منعقد ہونے والے مسیحی اجلاسوں کا آغاز اور اختتام یہوواہ کی حمد کے گیت گا کر کرتے ہیں۔ یہوواہ کی حمد کیلئے اونچےنیچے سُروں والی خوبصورت دُھنوں پر گائے جانے والے یہ گیت صحیفائی شاعری پر مبنی ہوتے ہیں۔
تمام حاضرین گرمجوشی سے باآوازِبلند گیت گا کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہوواہ پرواہ کرنے والا خدا ہے (گیت ۴۴)۔ وہ یہوواہ کی ستائش کے گیت گاتے ہیں (گیت ۱۹۰)۔ انکے گیت مسیحی برادری کی خوشیوں اور ذمہداریوں، مسیحی طرزِزندگی اور مسیحی خوبیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ ایشیا، آسٹریلیا، یورپ اور شمالی اور جنوبی امریکا کے گواہوں نے مختلف اقسام کی موسیقی سے ان گیتوں کی دُھنیں ترتیب دی ہیں۔ *
زبورنویس کے زمانے میں قلمبند کئے گئے ایک عظیم شاہی ترانے کے افتتاحی الفاظ بیان کرتے ہیں: ”[یہوواہ] کے حضور نیا گیت گاؤ۔ اَے سب اہلِزمین! [یہوواہ] کے حضور گاؤ۔ . . . اُسکے نام کو مبارک کہو۔ روزبروز اُس کی نجات کی بشارت دو۔ قوموں میں اُسکے جلال کا۔ سب لوگوں میں اُسکے عجائب کا بیان کرو۔“ (زبور ۹۶:۱-۳) یہوواہ کے گواہ آپ کے علاقے میں یہی کام کر رہے ہیں اور آپ کو بھی ایسے ہی حمدیہ گیت گانے میں اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ انکے کنگڈم ہالوں میں آپ کا خیرمقدم کِیا جائیگا جہاں آپ سیکھ سکتے ہیں کہ کیسے یہوواہ کو خوش کرنے والی موسیقی کیساتھ اُس کی حمد کی جا سکتی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 7 واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
^ پیراگراف 22 یہ گیت واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ کتاب یہوواہ کی حمد کے گیت گائیں میں پائے جاتے ہیں۔
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
یہوواہ کی حمد کے گیت گانا