مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏مسیحیت“‏ کی بدلتی ہوئی صورت—‏کیا اسے خدائی مقبولیت حاصل ہے؟‏

‏”‏مسیحیت“‏ کی بدلتی ہوئی صورت—‏کیا اسے خدائی مقبولیت حاصل ہے؟‏

‏”‏مسیحیت“‏ کی بدلتی ہوئی صورت‏—‏کیا اسے خدائی مقبولیت حاصل ہے؟‏

فرض کریں کہ آپ کسی مُصوّر سے اپنی تصویر بنواتے ہیں۔‏ جب تصویر مکمل ہوکر آپ کے سامنے آتی ہے تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کیونکہ یہ ہوبہو آپ جیسی ہے۔‏ آپ سوچتے ہیں کہ آپکے بچے اور اُنکی آئندہ نسلیں بڑے فخروناز سے اس تصویر کو دیکھا کرینگی۔‏

تاہم،‏ چند پُشتوں بعد،‏ آپ کی اولاد میں سے کوئی محسوس کرتا ہے کہ تصویر میں بال ذرا مِٹ گئے ہیں لہٰذا وہ کچھ بال بنا دیتا ہے۔‏ کسی دوسرے کو اسکی ناک پسند نہیں آتی اسلئے وہ اسے بدل دیتا ہے۔‏ آئندہ نسلوں میں کچھ اَور ”‏تبدیلیاں“‏ کر دی جاتی ہیں اور بالآخر آپ سے تصویر کی مشابہت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔‏ اگر آپکو معلوم ہوتا کہ آپکی تصویر کا یہ حشر ہوگا تو آپ کیسا محسوس کرتے؟‏ آپ بِلاشُبہ برہم ہوتے۔‏

افسوس کی بات ہے کہ اس تصویر کی کہانی دراصل،‏ نام‌نہاد مسیحی کلیسیا کی عکاسی کرتی ہے۔‏ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بائبل پیشینگوئی کے مطابق،‏ مسیح کے رسولوں کی موت کے تھوڑی دیر بعد،‏ باضابطہ ”‏مسیحیت“‏ میں تبدیلیاں رُونما ہونے لگیں۔‏​—‏⁠متی ۱۳:‏۲۴-‏۳۰،‏ ۳۷-‏۴۳؛‏ اعمال ۲۰:‏۳۰‏۔‏ *

مختلف ثقافتوں اور ادوار پر بائبل اصولوں کا اطلاق کرنا تو ٹھیک ہے۔‏ مگر بائبل تعلیمات کو مقبولِ‌عام رُجحان کے مطابق ڈھالنے کیلئے بدل دینا ایک فرق معاملہ ہے۔‏ تاہم،‏ ایسا ہی ہؤا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کئی ایک اہم معاملات میں واقع ہونے والی تبدیلیوں پر ذرا غور کریں۔‏

چرچ اور حکومت کا ملاپ

یسوع نے تعلیم دی کہ اس کی حکمرانی یا بادشاہت آسمانی ہے جو اپنے وقتِ‌مقررہ پر تمام انسانی سلطنتوں کو تباہ کرکے ساری زمین پر حکومت کریگی۔‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴؛‏ متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ یہ انسانی سیاسی نظاموں کے ذریعے حکومت نہیں کرے گی۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۶؛‏ ۱۸:‏۳۶‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع کے شاگرد قانون کی اطاعت کرنے کے باوجود سیاست سے دُور رہے۔‏

تاہم،‏ بہتیرے اقبالی مسیحی چوتھی صدی میں رومی شہنشاہ قسطنطین کے زمانے تک،‏ مسیح کی واپسی اور خدا کی بادشاہت کے قیام کے انتظار میں بےصبرے ہو چکے تھے۔‏ رفتہ‌رفتہ سیاست کی بابت اُنکا نقطۂ‌نظر بدل گیا۔‏ کتاب یورپ​—‏⁠اے ہسٹری کے مطابق،‏ ”‏قسطنطین سے پہلے،‏ مسیحی اپنے مقاصدوعقائد کو فروغ دینے کیلئے [‏سیاسی]‏ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔‏ قسطنطین کے بعد،‏ مسیحیت اور اعلیٰ سیاست کا آپس میں چولی‌دامن کا ساتھ ہو گیا۔‏“‏ یہ تبدیل‌شُدہ مسیحیت رومی سلطنت کا سرکاری ”‏عالمگیر“‏ یا ”‏کیتھولک“‏ مذہب بن گئی۔‏

انسائیکلوپیڈیا گریٹ ایجز آف مین بیان کرتا ہے کہ چرچ اور ریاست کے اس تعلق کی وجہ سے ”‏مسیحیوں کے خلاف اذیت کی آخری مہم کے تقریباً ۸۰ سال بعد ۳۸۵ عیسوی میں چرچ نے خود بدعتیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور اس کے راہب شہنشاہ کے برابر اختیار کے حامل تھے۔‏“‏ یوں ایک ایسے دَور کا آغاز ہؤا جس میں استدلال کی بجائے،‏ تلوار کے زور سے لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کِیا جانے لگا اور پہلی صدی کے فروتن مُنادوں کی جگہ بڑےبڑے القاب والے بااختیار پادری منظرِعام پر آ گئے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ مؤرخ ایچ.‏ جی.‏ ویلز نے چوتھی صدی کی مسیحیت اور ”‏یسوع ناصری کی تعلیم کے درمیان نمایاں اختلافات“‏ کو تحریر کِیا۔‏ ان ”‏نمایاں اختلافات“‏ نے خدا اور مسیح کی بابت بنیادی تعلیمات کو بھی متاثر کِیا۔‏

ذاتِ‌الہٰی کو بدلنا

مسیح اور اُسکے شاگردوں نے تعلیم دی کہ صرف ”‏ایک ہی خدا ہے یعنی باپ،‏“‏ جو بائبل کے ابتدائی مسودوں میں تقریباً ۰۰۰،‏۷ مرتبہ استعمال ہونے والے اپنے ذاتی نام،‏ یہوواہ کے باعث لاثانی حیثیت کا مالک ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۸:‏۶؛‏ زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ یسوع کو خدا نے خلق کِیا تھا؛‏ کیتھولک اُردو بائبل کلسیوں ۱:‏۱۵ میں بیان کرتی ہے کہ وہ ”‏تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے۔‏“‏ لہٰذا،‏ مخلوق کے طور پر،‏ یسوع نے صاف‌گوئی سے بیان کِیا:‏ ”‏باپ مجھ سے بڑا ہے۔‏“‏​—‏⁠یوحنا ۱۴:‏۲۸‏۔‏

تاہم،‏ تیسری صدی میں،‏ بُت‌پرست یونانی فیلسوف افلاطون کی تثلیثی تعلیم کے گرویدہ بارُسوخ پادریوں نے خدا کو تثلیثی فارمولے کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا۔‏ آئندہ صدیوں میں،‏ اس عقیدے نے غیرصحیفائی طور پر یسوع کو یہوواہ کا ہم‌رُتبہ اور خدا کی رُوح‌اُلقدس یا سرگرم قوت کو ایک شخص بنا دیا۔‏

بُت‌پرستانہ تثلیثی عقیدے کو چرچ میں قبول کرنے کی بابت نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏چوتھی صدی کے اختتام سے قبل ’‏ایک خدا میں تین اشخاص‘‏ کے نظریے کی کوئی پُختہ بنیاد نہ ہونے کے باعث یہ مسیحی طرزِزندگی اور ایمان کے علانیہ اقرار کا حصہ نہیں تھا۔‏ لیکن یہی وہ نظریہ ہے جسے پھر عقیدۂتثلیث کا نام دے دیا گیا۔‏ رسولی آبائےکلیسیا کے وہم‌وگمان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں تھی۔‏“‏

اسی طرح،‏ دی انسائیکلوپیڈیا امریکانا بیان کرتا ہے:‏ ”‏چوتھی صدی کی تثلیث‌پرستی ذاتِ‌الہٰی کی بابت ابتدائی مسیحی تعلیم کی پابندی کی بجائے اس سے انحراف کے باعث وجود میں آئی تھی۔‏“‏ دی آکسفورڈ کمپینین ٹو دی بائبل تثلیث کو ”‏مابعدی عقائدی اختراعات“‏ میں شامل کرتی ہے۔‏ تاہم،‏ چرچ نے صرف بُت‌پرستانہ تثلیثی عقیدے کو ہی اپنے اندر ضم نہیں کِیا تھا۔‏

جان کے مفہوم کو بدلنا

آجکل یہ عقیدہ بھی بہت عام ہے کہ انسانوں میں ایک غیرفانی جان ہوتی ہے جو بدن کی موت سے بچ جاتی ہے۔‏ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ چرچ کی یہ تعلیم بھی مابعدی اضافہ ہے؟‏ یسوع نے بائبل کی اس سچائی کی تصدیق کی کہ مُردے ”‏کچھ بھی نہیں جانتے،‏“‏ گویا وہ سوئے ہوئے ہیں۔‏ (‏واعظ ۹:‏۵؛‏ یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ قیامت​—‏⁠موت کی نیند سے ’‏اُٹھ کھڑے‘‏ ہونے کے عمل​—‏⁠سے زندگی بحال کی جائیگی۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ اگر غیرفانی جان کا کوئی وجود ہے توپھر قیامت کی ضرورت نہیں کیونکہ غیرفانیت موت کو خارج‌ازامکان کر دیتی ہے۔‏

یسوع نے لوگوں کو مُردوں میں سے زندہ کرکے قیامت کی بابت بائبل کی تعلیم کا مظاہرہ کِیا۔‏ لعزر کی مثال پر غور کریں جسے مرے ہوئے چار دن ہو گئے تھے۔‏ جب یسوع نے لعزر کو زندہ کِیا تو وہ ایک زندہ،‏ مُتنفّس انسان کے طور پر قبر سے نکل آیا۔‏ جب لعزر مُردوں میں سے جی اُٹھا تو کوئی غیرفانی جان آسمانی مقام سے دوبارہ آکر اس کے جسم میں داخل نہیں ہوئی تھی۔‏ اگر ایسا ہوتا تو یسوع نے اُسے زندہ کرکے اُس پر کوئی احسان نہ کِیا ہوتا!‏​—‏⁠یوحنا ۱۱:‏۳۹،‏ ۴۳،‏ ۴۴‏۔‏

پس،‏ غیرفانی جان کے نظریے کا ماخذ کیا ہے؟‏ دی ویسٹ‌منِسٹر ڈکشنری آف کرسچن تھیالوجی کے مطابق،‏ اس نظریے کا ”‏مصدر بائبل کی تعلیم نہیں بلکہ یونانی فیلسوفی ہے۔‏“‏ دی جیوئش انسائیکلوپیڈیا وضاحت کرتا ہے:‏ ”‏جسم کی موت کے بعد جان کے زندہ رہنے کا عقیدہ خالص ایمان کی بجائے فلسفیاتی یا دینیاتی قیاس ہے جسکا پاک صحائف میں کہیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔‏“‏

اکثراوقات،‏ ایک جھوٹ سے دوسرا جھوٹ جنم لیتا ہے اور غیرفانی جان کی تعلیم کی بابت یہ بات سچ ہے۔‏ اس نے آتشی دوزخ میں ابدی عذاب کے بُت‌پرستانہ عقیدے کیلئے راہ ہموار کی۔‏ * تاہم،‏ بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ ”‏گُناہ کی مزدوری موت ہے“‏​—‏⁠ابدی عذاب نہیں۔‏ (‏رومیوں ۶:‏۲۳‏)‏ لہٰذا،‏ قیامت کو بیان کرتے ہوئے،‏ کنگ جیمز ورشن بیان کرتی ہے:‏ ”‏سمندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا؛‏ اور موت اور دوزخ نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا۔‏“‏ اسی طرح کیتھولک اُردو بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏سمندر .‏ .‏ .‏ اور موت اور عالمِ‌اسفل [‏دوزخ]‏ نے اپنے اندر کے اُن مُردوں کو حاضر کِیا جو اُن میں تھے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ سادہ سی بات ہے کہ دوزخ میں صرف مُردے ہیں جو یسوع کے بیان کے مطابق ’‏سوئے ہوئے‘‏ ہیں۔‏​—‏⁠مکاشفہ ۲۰:‏۱۳‏۔‏

کیا آپ یہ مخلصانہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ دوزخ میں ابدی عذاب کی تعلیم لوگوں کو خدا کے قریب لاتی ہے؟‏ بمشکل۔‏ انصاف‌پسند اور پُرمحبت لوگوں کے نزدیک یہ ایک ناگوار خیال ہے!‏ اس کے برعکس،‏ بائبل تعلیم دیتی ہے کہ ”‏خدا محبت ہے“‏ اسلئے ظلم سے اُسے نفرت ہے خواہ جانوروں پر ہی کیوں نہ کِیا جائے۔‏​—‏⁠۱-‏یوحنا ۴:‏۸؛‏ امثال ۱۲:‏۱۰؛‏ یرمیاہ ۷:‏۳۱؛‏ یوناہ ۴:‏۱۱‏۔‏

موجودہ زمانے میں ”‏تصویر“‏ کو بگاڑنا

خدا اور مسیحیت کی صورت بگاڑنا تاحال جاری ہے۔‏ مذہب کے ایک پروفیسر نے حال ہی میں بیان کِیا کہ اُس کے پروٹسٹنٹ چرچ میں ”‏صحائف‌وعقائد کے اختیار اور غیرطبعی انسان‌پرستانہ نظریات کے اختیار کے مابین نیز مسیح کی سرداری کیلئے چرچ کی وفاداری اور مسیحیت کو زمانے کے مطابق ڈھالنے یا تبدیل کرنے کے مابین کشمکش چل رہی ہے۔‏ گمبھیر مسئلہ یہ ہے:‏ چرچ کے طرزِعمل کا تعیّن کون کرتا ہے .‏ .‏ .‏ پاک صحائف یا مروّجہ نظریہ؟‏“‏

افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک ”‏مروّجہ نظریہ“‏ ہی غالب رہا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بہتیرے چرچوں نے ترقی‌پسند اور وسیع‌النظر دکھائی دینے کیلئے مختلف معاملات کے سلسلے میں اپنا مؤقف تبدیل کر لیا ہے۔‏ پہلے مضمون کے مطابق،‏ بالخصوص اخلاقی معاملات میں چرچ کافی حد تک آزادخیال بن گئے ہیں۔‏ تاہم،‏ بائبل اس سلسلے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ حرامکاری،‏ زناکاری اور ہم‌جنس‌پسندی خدا کے نزدیک اس قدر سنگین گناہ ہیں کہ ان کے مُرتکب اشخاص ”‏خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے۔‏“‏​—‏⁠۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ متی ۵:‏۲۷-‏۳۲؛‏ رومیوں ۱:‏۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

جب پولس رسول نے متذکرہ‌بالا الفاظ قلمبند کئے تو اُس وقت یونانی اور رومی ملےجلے معاشرے میں ہر قسم کی بدکاری زوروں پر تھی۔‏ پولس یوں استدلال کر سکتا تھا:‏ ’‏ہاں،‏ خدا نے سنگین جنسی گناہوں کے باعث سدوم اور عمورہ کو نیست کر دیا لیکن یہ ۰۰۰،‏۲ سال پہلے کی بات ہے!‏ یقیناً موجودہ روشن‌خیال زمانے میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔‏‘‏ تاہم،‏ اس نے اس معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش نہ کرتے ہوئے بائبل کی سچائی کو بگاڑنے سے گریز کِیا۔‏​—‏⁠گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۳‏۔‏

‏”‏تصویر“‏ کا اصلی رُخ دیکھیں

اپنے زمانے کے مذہبی راہنماؤں سے بات کرتے ہوئے یسوع نے بیان کِیا کہ انکی پرستش ’‏بیفائدہ ہے کیونکہ وہ انسانی احکام کی بطور عقائد تعلیم دیتے ہیں۔‏‘‏ (‏متی ۱۵:‏۹‏)‏ ان مذہبی راہنماؤں نے موسیٰ کی معرفت یہوواہ کی شریعت کیساتھ وہی سلوک کِیا جو دُنیائےمسیحیت کے پادریوں نے مسیح کی تعلیم کیساتھ کِیا بلکہ ابھی تک کر رہے ہیں​—‏⁠اُنہوں نے الہٰی سچائی پر روایات کا ”‏رنگ“‏ چڑھا دیا ہے۔‏ لیکن یسوع نے خلوصدل لوگوں کے فائدے کیلئے ہر قسم کے جھوٹ کا نقاب اُتار پھینکا۔‏ (‏مرقس ۷:‏۷-‏۱۳‏)‏ یسوع نے ہمیشہ سچ بولا خواہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔‏ اس نے ہمیشہ خدا کے کلام کے اختیار سے بات کی۔‏​—‏⁠یوحنا ۱۷:‏۱۷‏۔‏

یسوع بیشتر اقبالی مسیحیوں سے کتنا فرق تھا!‏ بائبل نے یہ واقعی سچ کہا تھا:‏ ”‏لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کرینگے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے اُستاد بنا لینگے۔‏ اور اپنے کانوں کو حق کی طرف سے پھیر کر کہانیوں پر متوجہ ہونگے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ ان ”‏کہانیوں“‏ میں سے چند ایک پر ابھی ہم نے مختصراً گفتگو کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روحانی طور پر تباہ‌کُن ہیں جبکہ خدا کے کلام کی سچائی ترقی‌بخش اور ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ اسی سچائی کا جائزہ لینے کے لئے آپ کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏​—‏⁠یوحنا ۴:‏۲۴؛‏ ۸:‏۳۲؛‏ ۱۷:‏۳‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 یسوع نے گیہوں اور کڑوے دانوں اور کُشادہ اور سکڑے راستوں (‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ کی تمثیلوں میں واضح کِیا کہ اس تمام عرصے کے دوران چند لوگ سچی مسیحیت پر عمل کرتے رہینگے۔‏ تاہم،‏ سچی مسیحیت کا لبادہ اوڑھ کر اپنی تعلیمات اور مفادات کو فروغ دینے والے کثیر کڑوے دانے اُنہیں چھپا لینگے۔‏ ہمارا مضمون دراصل اسی قسم کی مسیحیت پر گفتگو کرتا ہے۔‏

^ پیراگراف 19 ‏”‏دوزخ،‏“‏ ‏(‏کنگ جیمز ورشن)‏ ‏”‏عالمِ‌ارواح،‏“‏ ‏(‏اُردو ریوائزڈ ورشن)‏ ‏”‏عالمِ‌اسفل“‏ ‏(‏کیتھولک اُردو بائبل)‏ عبرانی لفظ شیول اور یونانی لفظ ہادس کا ترجمہ ہیں جو محض ”‏قبر“‏ کا مفہوم دیتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ کنگ جیمز ورشن کے انگریز مترجمین نے شیول کا ترجمہ ۳۱ مرتبہ ”‏دوزخ“‏ کرنے کے علاوہ اسی لفظ کا ترجمہ ۳۱ مرتبہ ”‏قبر“‏ اور ۳ مرتبہ ”‏گڑھا“‏ کِیا ہے جبکہ اُردو ریوائزڈ ورشن میں عبرانی لفظ شیول کا ترجمہ ۵۵ مرتبہ ”‏پاتال“‏ ۹ مرتبہ ”‏قبر“‏ اور ایک مرتبہ ”‏گور“‏ کِیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اصطلاحوں کا مطلب بنیادی طور پر ایک ہی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر بکس/‏تصویر]‏

نام مسیحی کی ابتدا

یسوع کی موت کے تقریباً دس سال بعد،‏ اس کے پیروکار ایک مخصوص ”‏طریق“‏ سے تعلق رکھنے والوں کے طور پر مشہور ہو گئے۔‏ (‏اعمال ۹:‏۲؛‏ ۱۹:‏۹،‏ ۲۳؛‏ ۲۲:‏۴‏)‏ کیوں؟‏ اسلئے کہ یسوع مسیح پر ایمان اُنکی طرزِزندگی کا محور تھا جو ”‏راہ اور حق اور زندگی“‏ ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۶‏)‏ پھر ۴۴ س.‏ع.‏ کے کچھ دیر بعد،‏ یسوع کے شاگرد سوریہ کے انطاکیہ میں،‏ الہٰی فضل سے ”‏مسیحی کہلائے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۱:‏۲۶‏)‏ بہت جلد یہ نام عوامی اہلکاروں میں بھی مشہور ہو گیا۔‏ (‏اعمال ۲۶:‏۲۸‏)‏ اس نئے نام کی وجہ سے مسیحی طرزِزندگی میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ مسیح کے نمونے کی پیروی کے باعث اس میں مسلسل ترقی ہوتی رہی۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

یہوواہ کے گواہ اپنی عوامی خدمتگزاری سے خدا کے کلام،‏ بائبل پر لوگوں کی توجہ دِلاتے ہیں

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر کا حوالہ]‏

Third from left: United Nations/Photo by Saw Lwin