کیا دُعا کرنے کا کوئی فائدہ ہے؟
کیا دُعا کرنے کا کوئی فائدہ ہے؟
تقریباً سب ہی کبھیکبھار دُعا کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ دراصل، تمام مذہبی فرقوں کے لوگ خلوصدلی سے دُعا مانگتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک بدھسٹ دن میں ہزاروں مرتبہ یہ وِرد کرتا ہے، ”میرا ایمان آمیدا بدھا پر ہے۔“
پوری دُنیا میں مسائل کے باعث یہ پوچھنا معقول ہے: لوگ دُعا سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ان تمام دُعاؤں سے کوئی فائدہ ہوتا ہے؟
لوگ کیوں دُعا کرتے ہیں؟
بہتیرے ایشیائی اپنے آباؤاجداد اور شنتو یا تاؤ مذہب کے معبودوں سے دُعا کرتے ہیں۔ وہ امتحانات میں کامیابی، اچھی فصلوں کے حصول یا بیماریوں سے تحفظ کی اُمید میں دُعائیں مانگتے ہیں۔ بدھسٹ اپنی کوششوں سے بصیرت حاصل کرنے کی اُمید کرتے ہیں۔ ہندو علم، دولت اور تحفظ کیلئے اپنے پسندیدہ دیویدیوتاؤں سے نہایت عقیدتمندی کیساتھ دُعا کرتے ہیں۔
بعض کیتھولک نوعِانسان کو فائدہ پہنچانے کی اُمید میں راہب اور راہباؤں کے طور پر اپنی ساری زندگی مسلسل دُعائیں مانگتے ہوئے خانقاہوں کی چاردیواری میں گزار دیتے ہیں۔ لاکھوں کیتھولک غالباً روزری کی مدد سے رٹی ہوئی دُعائیں پڑھنے سے مریم کی کرمفرمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرقی ممالک میں، بہتیرے لوگ ایک پہیے پر مشتمل عبادتی آلات (ان آلات کیساتھ ایک تحریری دُعا منسلک ہوتی ہے اور اس پہیے کا ہر چکر دُعا کی ایک قرات ہوتا ہے) استعمال کرتے ہیں۔ پروٹسٹنٹ دُعائےخداوندی کا وِرد کرنے کے علاوہ خدا کے حضور
اپنے احساسات کا بےساختہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ بہتیرے یہودی ہیکل کی بحالی اور امنوخوشحالی کے ایک نئے دَور کے آغاز کی اُمید میں طویل سفر کر کے یروشلیم کی مغربی دیوار کے پاس جا کر دُعا کرتے ہیں۔لاکھوں لوگوں کی مخلصانہ دُعاؤں کے باوجود، انسانی معاشرے کے گرد غربت، نشےبازی، شکستہ خاندانوں، جرم اور جنگ کے مسائل کا گھیرا بتدریج تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ اِن سب لوگوں کا دُعا کرنے کا طریقہ غلط ہے؟ جہاں تک دُعاؤں کا تعلق ہے تو کیا کوئی واقعی دُعائیں سنتا ہے؟
کیا کوئی دُعائیں سنتا ہے؟
اگر دُعاؤں کی شنوائی نہ ہو تو انکا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہر شخص اس ایمان کیساتھ دُعا کرتا ہے کہ روحانی عالم میں کوئی ہستی اُسکی دُعا کو ضرور سن رہی ہے۔ تاہم، صرف بلند آواز سے کی جانے والی دُعاؤں کی شنوائی نہیں ہوتی۔ بہتیرے لوگ کسی ایسی ہستی کے وجود کے معتقد ہیں جو دُعا مانگنے والے شخص کے خیالات کو بھی پڑھ سکتی ہے۔ یہ ہستی کون ہے؟
ہمارے قشردماغ کو تشکیل دینے والے اربوں نیورانز میں خیالات کا ترتیب پانا محققین کیلئے ایک سربستہراز ہے۔ تاہم، دماغ کے موجد کا ان خیالات کو پڑھ لینا معقول امر ہے۔ وہ ہمارے خالق، یہوواہ خدا کے سوا کوئی اَور نہیں ہے۔ (زبور ۸۳:۱۸؛ مکاشفہ ۴:۱۱) دُعائیں صرف اُسی سے کی جانی چاہئیں۔ تاہم، کیا یہوواہ ایسی تمام دُعائیں سنتا ہے؟
کیا تمام دُعائیں سنی جاتی ہیں؟
قدیم اسرائیل کا بادشاہ داؤد ایک دُعاگو شخص تھا۔ مُلہَم زبورنویس کی حیثیت سے اُس نے اپنے گیت میں یوں کہا: ”اَے دُعا کے سننے والے! سب بشر تیرے پاس آئینگے۔“ (زبور ۶۵:۲) یہوواہ نوعِانسان کی ہزاروں زبانوں میں کی جانے والی دُعاؤں کو سمجھنے کے قابل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی دماغ بیکوقت اتنی زیادہ معلومات کو اپنے اندر سمو نہیں سکتا لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ خدا بھی قابلِقبول طریقے سے دُعا کرنے والوں پر دھیان نہیں دے سکتا۔
یسوع مسیح بھی ایک دُعاگو شخص تھا جس نے ظاہر کِیا کہ خدا تمام دُعاؤں سے خوش نہیں ہوتا۔ غور فرمائیں کہ یسوع نے اُس وقت رٹی ہوئی دُعاؤں کا وِرد کرنے کے عام دستور کی بابت کیا کہا تھا۔ یسوع نے فرمایا: ”دُعا کرتے وقت غیرقوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سنی جائیگی۔“ (متی ۶:۷) ہم یہوواہ سے ایسی دُعائیں سننے کی توقع نہیں کر سکتے جو ہمارے حقیقی جذبات کی آئینہدار نہ ہوں۔
خدا کی حضوری میں بعض ناپسندیدہ دُعاؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک بائبل مثل بیان کرتی ہے: ”جو کان پھیر لیتا ہے کہ شریعت کو نہ سنے اُس کی دُعا بھی نفرتانگیز ہے۔“ (امثال ۲۸:۹) ایک اَور مثل کچھ یوں ہے: ”[یہوواہ] شریروں سے دُور ہے پر وہ صادقوں کی دُعا سنتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۲۹) جب قدیم یہوداہ کے پیشواؤں سے سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں تو یہوواہ نے اُن سے کہا: ”جب تم اپنے ہاتھ پھیلاؤ گے تو مَیں تم سے آنکھ پھیر لونگا۔ ہاں جب تم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سنونگا۔ تمہارے ہاتھ تو خون آلودہ ہیں۔“—یسعیاہ ۱:۱، ۱۵۔
پطرس رسول نے ایک اَور بات کا ذکر کِیا جو دُعاؤں کو خدا کے حضور ناپسندیدہ بنا سکتی ہے۔ پطرس نے لکھا: ”اَے شوہرو! تم بھی [اپنی] بیویوں کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُسکی عزت کرو اور یوں سمجھو کہ ہم دونوں زندگی کی نعمت کے وارث ہیں تاکہ تمہاری دُعائیں رُک نہ جائیں۔“ (۱-پطرس ۳:۷) ایسی مشورت کو نظرانداز کرنے والے شخص کی دُعا شاید اُسکے گھر سے باہر نہیں جاتی!
لہٰذا، دُعا کی شنوائی کیلئے چند تقاضوں کی تکمیل لازمی ہے۔ تاہم، دُعائیں مانگنے والے بہتیرے لوگ خدا کے تقاضوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے نہایت پُرخلوص دُعاؤں کے باوجود بھی دُنیا کی حالت میں ابھی تک کوئی سدھار نہیں آیا۔
پس، دُعاؤں کی شنوائی کیلئے خدا کیا تقاضا کرتا ہے؟ اس کا جواب ہماری دُعا کے مقصد میں پنہاں ہے۔ درحقیقت، اگر ہم دُعا کا فائدہ جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں اسکے مقصد کو سمجھنا ہوگا۔ یہوواہ نے ہمیں اپنے ساتھ گفتگو کرنے کی یہ سہولت کیوں فراہم کی ہے؟
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
G.P.O., Jerusalem