سرل اور میتھوڈئیس—حروفِتہجی کے موجد بائبل مترجمین
سرل اور میتھوڈئیس—حروفِتہجی کے موجد بائبل مترجمین
”ہماری قوم تو بپتسمہیافتہ ہے لیکن ہمارا کوئی اُستاد نہیں ہے۔ ہم یونانی اور لاطینی بالکل نہیں سمجھتے۔ . . . ہمیں حرفوں کی پہچان نہیں ہے اور ہم انکا مفہوم بھی نہیں سمجھتے؛ اسلئے ہمارے پاس ایسے اُستاد بھیجیں جو ہمیں صحائف کی باتیں اور انکا مطلب سمجھا سکیں۔“—راستیسلاوَ، پرنس آف موراویہ ۸۶۲ س.ع.
آجکل، سلاوی زبانیں بولنے والے ۴۳۵ ملین لوگوں کیلئے اُنکی اپنی مقامی زبانوں میں بائبل ترجمے دستیاب ہیں۔ * ان میں سے ۳۶۰ ملین سرلک حروفِتہجی استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، ۱۲ صدیاں پیشتر انکے آباؤاجداد کی اپنی کوئی تحریری زبان اور کوئی حروفِتہجی نہیں تھے۔ اس مشکل کو حل کرنے میں مدد دینے والے آدمی، دو سگے بھائی سرل اور میتھوڈئیس تھے۔ خدا کے کلام سے محبت رکھنے والے لوگ اس بات کی قدر کرینگے کہ ان دونوں بھائیوں کی دلیرانہ اور اختراعی کوششیں بائبل کی حفظوصیانت اور ترقیوترویج کی تاریخ میں شاندار باب رقم کرتی ہیں۔ یہ آدمی کون تھے اور انہوں نے کن مشکلات کا سامنا کِیا؟
”فلاسفر“ اور گورنر
سرل (۸۲۷-۸۶۹ س.ع. اصل نام قسطنطین) اور میتھوڈئیس (۸۲۵-۸۸۵ س.ع.) تھسلنیکے، یونان کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اُس وقت تھسلنیکے کے شہر میں دو زبانیں بولی جاتی تھیں؛ اس کے باشندے یونانی اور سلاوی طرز کی زبان بولتے تھے۔ شاید سرل اور میتھوڈئیس کو سلاوی زبان بولنے والے بیشمار لوگوں اور اپنے شہریوں کے درمیان قریبی رابطے اور قربوجوار میں رہنے والی سلاوی زبان بولنے والی آبادیوں نے شمالی سلاوی باشندوں کی زبان کا گہرا علم حاصل کرنے کا موقع دیا۔ نیز میتھوڈئیس کا ایک سوانحنگار تو یہانتک تذکرہ کرتا ہے کہ انکی ماں سلاوی نژاد تھی۔
اپنے باپ کی موت کے بعد، سرل نے بزنطینی سلطنت کے درالحکومت، قسطنطنیہ میں نقلمکانی کر لی۔ وہاں اُس نے ایک عالیشان یونیورسٹی میں علم حاصل کِیا اور ممتاز مُعلمین کے ساتھ رہا۔ وہ مشرقی خطے میں عالیشان چرچ کی عمارت، آیائے صوفیہ کی لائبریری کا منتظم اور بعدازاں فلسفے کا پروفیسر بن گیا۔ درحقیقت، اپنی تعلیمی کامرانیوں کے باعث سرل کا نام فلاسفر پڑ گیا۔
اسی اثنا میں، میتھوڈئیس نے اپنے باپ کے سیاسی منتظم کے پیشہ کو اختیار کِیا۔ اس نے فرنٹیر بزنطینی ضلع میں آرکون (گورنر) کے عہدے تک ترقی کی جہاں بہت سارے سلاوی باشندے رہتے تھے۔ تاہم، وہ
وہاں سے نکلکر ایشیائےکوچک میں، بتونیہ کی ایک راہبوں کی رہائشگاہ میں گیا۔ وہاں سرل ۸۵۵ س.ع. میں اس کیساتھ مل گیا۔قسطنطنیہ کے آبائی بزرگوں نے ۸۶۰ س.ع. میں، دونوں بھائیوں کو غیرملکی سفر پر بھیجا۔ انہیں بحیرۂاسود کے شمالمشرق میں سکونتپذیر قوم، خیزار کی طرف روانہ کِیا گیا جو ابھی تک اسلام، یہودیت اور مسیحیت اختیار کرنے کے سلسلے میں متذبذب تھی۔ سرل نے راستے میں کچھ وقت کیلئے کرائمی، کرسونسی میں قیام کِیا۔ بعض عالموں کے مطابق، اُس نے وہاں عبرانی اور سامری زبانیں سیکھنے کے بعد عبرانی گرامر کا خیزار کی زبان میں ترجمہ کِیا ہے۔
موراویہ سے پیغام
۸۶۲ س.ع. میں، راستیسلاوَ، پرنس آف موراویہ (موجودہ مشرقی چیک، مغربی سلواکیہ اور مغربی ہنگری) نے بزنطینی شہنشاہ مائیکل سوم کو تمہیدی پیراگراف میں ظاہر ہونے والی درخواست ارسال کی کہ وہ صحائف کے اُستادوں کو بھیجے۔ موراویہ کے سلاوی زبان بولنے والے شہریوں کو سلطنتمشرقی فرانکش (موجودہ جرمنی اور آسٹریا) کے مشنریوں نے چرچ کی تعلیمات سے پہلے ہی روشناس کرا دیا تھا۔ تاہم، راستیسلاوَ جرمنی کے قبائل کے سیاسی اور راہبانہ اثر کی بابت فکرمند تھا۔ اُسے اُمید تھی کہ قسطنطنیہ کیساتھ مذہبی روابط اس کے مُلک کو سیاسی اور مذہبی طور پر خودمختار رہنے میں مدد دینگے۔
شہنشاہ نے میتھوڈئیس اور سرل کو موراویہ بھیجنے کا فیصلہ کِیا۔ تعلیم اور زباندانی کے لحاظ سے یہ دونوں بھائی ایسے مشن کیلئے بالکل تیار تھے۔ نویں صدی کے ایک سوانحنگار کے مطابق انہیں موراویہ بھیجنے کی تاکید کرتے ہوئے شہنشاہ نے کہا: ”آپ دونوں تھسلنیکے کے باشندے ہیں اور تھسلنیکے کے تمام باشندے خالص سلاوی زبان بولتے ہیں۔“
حروفِتہجی اور ایک بائبل ترجمے کا آغاز
اپنی روانگی سے مہینوں پہلے، سرل نے سلاوی باشندوں کے لئے تحریری رسمالخط ترتیب دینے کا بیڑا اُٹھانے کے لئے تیاری کر لی تھی۔ عام رائے کے مطابق وہ زبان کی گفتاری آوازوں پر بڑا دھیان دیا کرتا تھا۔ لہٰذا، یونانی اور عبرانی حروف کو استعمال کرنے سے اُس نے سلاوی زبان میں ہر آواز کے لئے ایک حرف فراہم کرنے کی کوشش کی۔ * بعض محققین کی رائے میں وہ ایسے حروفِتہجی کی بنیاد ڈالنے میں کافی سال پہلے ہی صرف کر چکا تھا۔ تاہم، سرل کے ایجادکردہ حروفِتہجی کی صحیح شکل کی بابت ابھی تک غیریقینی پائی جاتی ہے۔—بکس ”سرلک یا گلےگولٹک؟“ کا مطالعہ کریں۔
اسی دوران، سرل نے بائبل ترجمے کے کام کو تیزی سے شروع کر دیا۔ ایک روایت کے مطابق، اس نے ایجادکردہ نئے حروفِتہجی استعمال کرتے ہوئے، یوحنا کی انجیل کے پہلے جملے کا یونانی سے سلاوی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کِیا: ”ابتدا میں کلام تھا . . .“ سرل نے چار اناجیل، پولس کے خطوط اور زبور کی کتاب کا ترجمہ کِیا۔
کیا اُس نے تنہا کام کِیا؟ غالباً میتھوڈئیس نے اس کام میں اُسکی مدد کی۔ مزیدبرآں، کتاب دی کیمبرج میڈیوَل ہسٹری بیان کرتی ہے: ”ایسا لگتا ہے کہ [سرل] کی دوسرے لوگوں نے بھی مدد کی ہوگی جو یونانی زبان کا علم رکھنے والے مقامی سلاوی اصل سے تھے۔ اگر ہم پُرانے ترجموں کا جائزہ لیں . . . تو ہمارے پاس انتہائی جامع سلاوی زبان کے مفہوم کو سمجھنے کا بہترین ثبوت ہے، جسے معاونین سے منسوب کِیا جانا چاہئے جو خود سلاوی اصل سے تھے۔“ بعدازاں میتھوڈئیس نے باقی بائبل کو مکمل کِیا جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔
”باز کا کوا گہار میں پھنسنا“
سن ۸۶۳ میں، سرل اور میتھوڈئیس نے موراویہ سے اپنے مشن کا آغاز کِیا جہاں انکا پُرتپاک خیرمقدم کِیا گیا۔ اُنکے کام میں بائبل اور عبادتی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ، مقامی لوگوں کے ایک گروپ کو نیا ایجادکردہ سلاوی رسمالخط سکھانا بھی شامل تھا۔
تاہم، یہ کام آسان نہیں تھا۔ موراویہ میں فرانکش پادری نے سلاوی زبان کے استعمال کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے تین زبانوں کے استعمال کی حمایت کو جاری رکھا، اُنکے نظریے کے مطابق پرستش میں صرف لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانوں کا استعمال قابلِقبول تھا۔ اپنی نئی تحریری زبان کیلئے پوپ کی حمایت حاصل کرنے کی اُمید میں ان بھائیوں نے ۸۶۷ س.ع. میں روم کا سفر کِیا۔
راستے میں سرل اور میتھوڈئیس کو وینس میں، لاطینی بولنے والے پادریوں کے ایک گروپ کی مخالفت کا سامنا ہوا جو صرف تین زبانوں کے استعمال کے حامی تھے۔ سرل کے متعلق قرونِوسطیٰ کا ایک سوانحنگار ہمیں بتاتا ہے کہ مقامی بشپوں، پادریوں اور راہبوں کی مخالفت اُس کیلئے گویا ”باز کا کوا گہار میں پھنسنا“ تھا۔ اس واقعے کے مطابق، سرل نے ۱-کرنتھیوں ۱۴:۸، ۹ کا حوالہ استعمال کِیا: ”اگر تُرہی کی آواز صاف نہ ہو تو کون لڑائی کے لئے تیاری کریگا؟ ایسے ہی تم بھی اگر زبان سے واضح بات نہ کہو تو جو کہا جاتا ہے کیونکر سمجھا جائیگا؟ تم ہوا سے باتیں کرنے والے ٹھہرو گے۔“
جب دونوں بھائی بالآخر روم پہنچے تو پوپ آڈرئین دوم نے انہیں سلاوی زبان کے استعمال کی پوری اجازت دیدی۔ روم میں کچھ ماہ رہنے کے بعد سرل شدید بیمار پڑ گیا۔ اِسکے دو ماہ بعد وہ ۴۲ سال کی عمر میں وفات پا گیا۔
پوپ آڈرئین دوم نے موراویہ اور نٹرا کے قریبی قصبے، موجودہ سلواکیہ میں اپنے کام کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے میتھوڈئیس کی حوصلہافزائی کی۔ اس علاقے میں اپنا اثرورُسوخ بڑھانے کی خواہش میں، پوپ نے سلاوی زبان کے استعمال کا اجازتنامہ دینے کیساتھ ساتھ اُسے آرچبشپ مقرر کر دیا۔ تاہم، ۸۷۰ س.ع. میں، فرانکش بشپ، ہرمانرک نے نٹرا کے پرنس سواتوپلوک کی مدد سے میتھوڈئیس کو گرفتار کر لیا۔ اُسے جنوب مشرق جرمنی کی ایک خانقاہ میں ڈھائی سال تک نظربند رکھا گیا تھا۔ آخرکار، آڈرئین دوم کے جانشین پوپ جان ہشتم نے میتھوڈئیس کی رہائی کا حکم دیا، اُسے اُس کے حلقے میں بحال کِیا اور پرستش میں سلاوی زبان کے استعمال کیلئے پاپائی حمایت کی یقیندہائی کرائی۔
لیکن فرانکش پادری طبقہ کی طرف سے مخالفت برقرار رہی۔ میتھوڈئیس نے اپنے خلاف بدعت کے الزامات کا کامیابی سے دفاع کِیا اور بالآخر پوپ جان ہشتم کی طرف سے چرچ میں سلاوی زبان کے استعمال کے لئے باضابطہ اجازتنامہ حاصل کر لیا۔ حالیہ پوپ، جان پال دوم کے مطابق، میتھوڈئیس کی زندگی ”سفر، محرومیت، تکالیف، دُشمنی اور اذیت، . . . حتیٰکہ ظالمانہ قید کے دَور سے گزری۔“ ستمظریفی تو یہ ہے کہ یہ سب اُن بشپوں اور شہزادوں کے ہاتھوں ہوا جو روم کے حمایتی تھے۔
پوری بائبل کا ترجمہ کِیا گیا
شدید مخالف کے باوجود، میتھوڈئیس نے کئی مختصر نویسوں کی مدد سے بائبل کے باقی حصہ کا سلاوی زبان میں ترجمہ مکمل کر لیا۔ ایک روایت کے مطابق، اُس نے اتنے بڑے کام کو صرف آٹھ ماہ میں انجام دیا۔ تاہم، اُس نے اپاکرفا کتابوں میں سے مکابیوں کی کتاب کا ترجمہ نہیں کِیا تھا۔
آور سلاویک بائبل بیان کرتی ہے کہ دو بھائیوں نے ”نئے الفاظ اور اصطلاحیں ایجاد کی تھیں۔ . . . تاہم انہوں نے یہ کام حیرانکُن حد تک جامع اور درست طریقے سے پایۂتکمیل تک پہنچایا ہے [اور] سلاوی زبان کو لاثانی ذخیرۂالفاظ عطا کِیا ہے۔“
آجکل، سرل اور میتھوڈئیس کے ترجمہ کے معیار کی درستی کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ صرف چند مسودہجات کی نقول ابھی تک باقی ہیں جنکی تاریخ ابتدائی ترجمے کے قریب کی ہے۔ ان ابتدائی نادر نمونوں کا تجزیہ کرنے والے ماہرِلسانیات بیان کرتے ہیں کہ ترجمہ صحیح تھا اور اُس نے زباندانی کی خلافورزی نہیں کی۔ تحقیقی کتابایک دائمی ورثہ
سن ۸۸۵ س.ع. میں میتھوڈئیس کی وفات کے بعد، اسکے شاگردوں کو فرانکش مخالفین نے موراویہ سے نکال دیا۔ انہوں نے بوہیمیا، جنوبی پولینڈ اور بلغاریہ میں پناہ لی۔ تاہم سرل اور میتھوڈئیس کا کام جاریوساری رہا۔ دو بھائیوں نے جس سلاوی زبان کو تحریری اور دائمی شکل دی، اُس نے خوب ترقی اور فروغ حاصل کِیا اور بعدازاں گوناگوں اشکال اختیار کیں۔ آجکل، سلاوی زبان سے تعلق رکھنے والی زبانوں میں ۱۳ مختلف زبانیں اور بہتیری بولیاں شامل ہیں۔
مزیدبرآں، سرل اور میتھوڈئیس کی بائبل ترجمہ کرنے کی دلیرانہ کوششیں آجکل دستیاب صحائف کے مختلف سلاوی ترجموں کے سلسلے میں نتیجہخیز ثابت ہوئی ہیں۔ یہ زبانیں بولنے والے لاکھوں لوگ خدا کے کلام کو اپنی مقامی زبان میں حاصل کرکے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ شدید مخالفت کے باوجود، یہ الفاظ کتنے سچے ہیں: ’ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم رہیگا!‘—یسعیاہ ۴۰:۸۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 سلاوی زبانیں مشرقی اور وسطی یورپ میں بولی جاتی ہیں اور اس میں روسی، یوکرائنی، سربیائی، پُرتگالی، چیک، بلغاریائی اور اسی طرح کی دیگر زبانیں شامل ہیں۔
^ پیراگراف 13 ”سلاوی“ جیسے کہ اس مضمون میں استعمال کِیا گیا، سلاوی لہجے کو ظاہر کرتا ہے جسے سرل اور میتھوڈئیس نے اپنے مشن اور ادبی کام کے لئے استعمال کِیا۔ آجکل بعض ”پُرانی سلاوی“ یا ”چرچ کی پُرانی سلاوی“ جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔ ماہرِلسانیات اِس بات سے متفق ہیں کہ نویں صدی س.ع. میں سلاوی باشندے کوئی ایک مشترک زبان نہیں بولتے تھے۔
[صفحہ ۲۹ پر بکس]
سرلک یا گلےگولٹک؟
سرل کے ایجادکردہ حروفِتہجی اختلاف کی نظر ہو گئے ہیں کیونکہ ماہِرلسانیات کو یقین نہیں ہے کہ یہ کونسے حروفِتہجی تھے۔ سرلک کہلانے والے حروفِتہجی یونانی حروفِتہجی پر مبنی تھے جس میں کوئی درجنبھر ایسے اضافی حروف تھے جو یونانی زبان میں تو نہیں پائے جاتے تھے مگر سلاوی آواز کو ظاہر کرنے کیلئے انہیں ایجاد کِیا گیا تھا۔ تاہم، بعض ابتدائی سلاوی مسودے بہت ہی مختلف رسمالخط استعمال کرتے ہیں جسے گلےگولٹک کہا جاتا ہے اور یہ رسمالخط بہتیرے عالموں کے خیال میں سرل نے ایجاد کِیا تھا۔ چند گلےگولٹک حروف یونانی یا عبرانی خطِشکستہ سے ماخوذ نظر آتے ہیں۔ بعض حروف قرونِوسطیٰ کے اعراب سے مشتق ہیں لیکن زیادہتر اصلی اور پیچیدہ اختراعات ہیں۔ گلےگولٹک انتہائی فرق اور اصلی اختراع لگتی ہے۔ تاہم، یہ سرلک تھی جس نے اسے ۲۲ اضافی زبانوں کے علاوہ، موجودہ روسی، یوکرائنی، سربیائی، بلغاریائی اور مقدونی رسمالخط میں تبدیل کر دیا ہے، جن میں سے بعض سلاوی نہیں ہیں۔