مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏خداوند سچ‌مچ جی اُٹھا ہے۔‏“‏

‏”‏خداوند سچ‌مچ جی اُٹھا ہے۔‏“‏

‏”‏خداوند سچ‌مچ جی اُٹھا ہے۔‏“‏

تصور کریں کہ یسوع کے شاگرد اپنے خداوند کی ہلاکت کی وجہ سے کتنے غمزدہ تھے۔‏ اُنکی اُمید اُس لاش کی طرح بےجان نظر آتی تھی جسے اَرمتیاہ کے یوسف نے قبر میں رکھا تھا۔‏ یہودیوں کو رومی غلامی سے آزاد کرانے کی بابت یسوع سے وابستہ اُنکی تمام توقعات بھی دم توڑ گئیں۔‏

اگر معاملہ یہیں ختم ہو جاتا تو یسوع کے پیروکار بیشتر نام‌نہاد مسیحاؤں کے شاگردوں کی طرح رُوپوش ہو جاتے۔‏ لیکن یسوع زندہ ہو گیا تھا!‏ صحائف کے مطابق،‏ وہ اپنی موت کے فوراً بعد کئی مواقع پر اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا۔‏ لہٰذا،‏ ان میں سے بعض نے یہ کہنے کی تحریک پائی:‏ ”‏خداوند سچ‌مچ جی اُٹھا ہے۔‏“‏—‏لوقا ۲۴:‏۳۴‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

شاگردوں کو یسوع پر بطور مسیحا اپنے ایمان کا دفاع کرنا تھا۔‏ اس کیلئے اُنہوں نے اُسکی مسیحائیت کے ٹھوس ثبوت کے طور پر بالخصوص مُردوں میں سے اُسکی قیامت کی طرف توجہ دلائی تھی۔‏ واقعی،‏ ”‏رسول بڑی قدرت سے خداوند یسوؔع کے جی اُٹھنے کی گواہی دیتے رہے۔‏“‏—‏اعمال ۴:‏۳۳‏۔‏

اگر کوئی شخص کسی ایک شاگرد کو بھی یسوع کا بدن قبر میں پڑا ہوا دکھانے یا کسی اَور طریقے سے یہ تسلیم کرنے پر قائل کر لیتا کہ یہ قیامت محض دھوکا ہے تو مسیحیت ابتدا ہی میں ختم ہو جاتی۔‏ لیکن ایسا نہیں ہوا۔‏ یہ جانتے ہوئے کہ مسیح زندہ ہے،‏ یسوع کے پیروکار ہر جگہ اُس کے جی اُٹھنے کا پرچار کرنے لگے اور یوں بیشمار لوگ قیامت‌یافتہ مسیح پر ایمان لے آئے۔‏

آپ بھی یسوع کی قیامت پر کیوں ایمان رکھ سکتے ہیں؟‏ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ ایک حقیقی واقعہ ہے؟‏

شہادت پر کیوں غور کریں؟‏

چاروں اناجیل یسوع کی قیامت کا ذکر کرتی ہیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱-‏۱۰؛‏ مرقس ۱۶:‏۱-‏۸؛‏ لوقا ۲۴:‏۱-‏۱۲؛‏ یوحنا ۲۰:‏۱-‏۲۹‏)‏ * مسیحی یونانی صحائف کے دیگر حصے بھی پورے یقین کے ساتھ مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا ذکر کرتے ہیں۔‏

یسوع کے پیروکاروں کا اُسکی قیامت کا چرچا کرنا کوئی عجیب بات نہیں تھی!‏ اگر واقعی اُسے خدا نے زندہ کِیا تھا تو یہ دُنیا کی سب سے حیرت‌انگیز خبر ہے۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ خدا وجود رکھتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اِسکا یہ مطلب بھی ہے کہ یسوع اب زندہ ہے۔‏

یہ حقیقت ہم پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟‏ یسوع نے واجب طور پر دُعا کی تھی:‏ ”‏ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ‌واحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ بیشک،‏ ہم یسوع اور اُسکے باپ کی بابت زندگی‌بخش علم حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اس علم کا اطلاق کرنے سے ہم مر جانے کے باوجود یسوع کی طرح زندہ ہو جائینگے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ ہم خدا کی آسمانی بادشاہت میں اُسکے جلالی بیٹے اور بادشاہوں کے بادشاہ،‏ یسوع مسیح کی حکمرانی کے تحت فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏—‏یسعیاہ ۹:‏۶،‏ ۷؛‏ لوقا ۲۳:‏۴۳؛‏ مکاشفہ ۱۷:‏۱۴‏۔‏

لہٰذا،‏ یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا معاملہ واقعی اہمیت کا حامل ہے۔‏ یہ ہماری اب اور آئندہ کی زندگی کے امکانات پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔‏ اسلئے ہم آپ کو یسوع کی موت اور جی اُٹھنے کے سلسلے میں چار شہادتوں پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔‏

یسوع واقعی سولی پر مرا تھا

بعض مُتشکِک لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع کو مصلوب تو کِیا گیا تھا مگر سولی پر اُسکی موت واقعی نہیں ہوئی تھی۔‏ اُنکا خیال ہے کہ وہ قریب‌المرگ تھا لیکن قبر کی ٹھنڈک سے وہ پھر تازہ‌دم ہو گیا تھا۔‏ تاہم،‏ ہر دستیاب شہادت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع کے مردہ جسم کو ہی قبر میں رکھا گیا تھا۔‏

یسوع کو سرِعام مصلوب کِیا گیا تھا اسلئے اسکے سولی پر مرنے کے چشم‌دید گواہ بھی موجود تھے۔‏ یسوع کو جس صوبہ‌دار کی نگرانی میں مصلوب کِیا گیا تھا اُس نے بھی اُسکی موت کی تصدیق کی تھی۔‏ وہ فوجی افسر اپنے کام میں ماہر تھا جسکی ذمہ‌داری میں موت واقع ہونے کا تعیّن کرنا شامل تھا۔‏ اسکے علاوہ،‏ رومی گورنر پُنطیُس پیلاطُس نے یسوع کی موت کا یقین کر لینے کے بعد ہی اَرمتیاہ کے یوسف کو یسوع کے مردہ جسم کو دفنانے کی اجازت دی تھی۔‏—‏مرقس ۱۵:‏۳۹-‏۴۶‏۔‏

قبر خالی ملی

خالی قبر شاگردوں کے لئے یسوع کی قیامت کا پہلا ثبوت تھا اور یہ شہادت ناقابلِ‌تردید تھی۔‏ یسوع کو ایک نئی قبر میں دفنایا گیا تھا جو کبھی استعمال نہیں ہوئی تھی۔‏ یہ اس جگہ کے قریب تھی جہاں یسوع کو مصلوب کِیا گیا تھا اور اُس وقت اسے بآسانی تلاش بھی کِیا جا سکتا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۴۱،‏ ۴۲‏)‏ تمام انجیلی بیانات اس بات پر متفق ہیں کہ جب یسوع کے دوست اُسکی موت کے بعد دوسری صبح قبر پر پہنچے تو اُسکا جسم وہاں نہیں تھا۔‏—‏متی ۲۸:‏۱-‏۷؛‏ مرقس ۱۶:‏۱-‏۷؛‏ یوحنا ۲۰:‏۱-‏۱۰‏۔‏

یسوع کی خالی قبر نے اُسکے دوستوں کے علاوہ اُسکے دُشمنوں کو بھی حیرت‌زدہ کر دیا تھا۔‏ اُسکے مخالف کافی عرصے سے اُسے ہلاک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد،‏ اُنہوں نے قبر کو بند کر کے اُس پر پہرہ لگانے کے سلسلے میں بھی احتیاطی تدابیر سے کام لیا تھا۔‏ اسکے باوجود،‏ ہفتے کے پہلے دن کی صبح قبر خالی ملی۔‏

کیا یسوع کے دوستوں نے اُس کے جسم کو قبر میں سے نکال لیا تھا؟‏ ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ اناجیل ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اُسکی موت کے بعد بیحد غمگین تھے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اُسکے شاگردوں نے کسی فریب کی خاطر کبھی بھی اذیت اور موت برداشت نہ کی ہوتی۔‏

پس،‏ قبر کس نے خالی کی تھی؟‏ یسوع کے دُشمنوں کا اُس کی لاش کو لیجانا تو بالکل ممکن نہیں تھا۔‏ اگر وہ لے بھی گئے ہوتے تو وہ بعدازاں یسوع کی قیامت اور زندہ ہونے کی بابت شاگردوں کے دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے یقیناً اُس کا جسم پیش کرتے۔‏ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا کیونکہ یہ خدا کا کام تھا۔‏

کئی ہفتوں بعد،‏ یسوع کے دُشمنوں نے پطرس کی اِس گواہی پر کوئی اعتراض نہیں کِیا تھا:‏ ”‏اَے اسرائیلیو!‏ یہ باتیں سنو کہ یسوؔع ناصری ایک شخص تھا جسکا خدا کی طرف سے ہونا تم پر اُن معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اُسکی معرفت تم میں دکھائے۔‏ چنانچہ تم آپ ہی جانتے ہو۔‏ جب وہ خدا کے مقررہ انتظام اور علمِ‌سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بےشرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلوب کروا کر مار ڈالا۔‏ لیکن خدا نے موت کے بند کھول کر اُسے جلایا کیونکہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُسکے قبضہ میں رہتا۔‏ کیونکہ داؔؤد اُسکے حق میں کہتا ہے کہ مَیں [‏یہوواہ]‏ کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا رہا۔‏ کیونکہ وہ میری دہنی طرف ہے تاکہ مجھے جنبش نہ ہو۔‏ .‏ .‏ .‏ اسلئےکہ تُو میری جان کو عالمِ‌ارواح میں نہ چھوڑیگا اور نہ اپنے مُقدس کے سڑنے کی نوبت پہنچنے دیگا۔‏“‏—‏اعمال ۲:‏۲۲-‏۲۷‏۔‏

بہتیروں نے قیامت‌یافتہ یسوع کو دیکھا

اعمال کی کتاب میں انجیل‌نویس لوقا نے بیان کِیا:‏ ”‏اُس [‏یسوع]‏ نے دُکھ سہنے کے بعد بہت سے ثبوتوں سے اپنے آپ کو اُن [‏رسولوں]‏ پر زندہ ظاہر بھی کِیا۔‏ چنانچہ وہ چالیس دن تک اُنہیں نظر آتا اور خدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا۔‏“‏ (‏اعمال ۱:‏۲،‏ ۳‏)‏ کئی ایک شاگردوں نے مختلف مواقع پر—‏باغ میں،‏ سڑک پر،‏ کھانا کھاتے ہوئے،‏ تبریاس کی جھیل پر—‏قیامت‌یافتہ یسوع کو دیکھا تھا۔‏—‏متی ۲۸:‏۸-‏۱۰؛‏ لوقا ۲۴:‏۱۳-‏۴۳؛‏ یوحنا ۲۱:‏۱-‏۲۳‏۔‏

ناقدین ان ظہورات کی صداقت پر شُبہ کرتے ہیں۔‏ وہ یہ عُذر پیش کرتے ہیں کہ یہ بائبل‌نویسوں کے خودساختہ قصے ہیں یاپھر وہ ان میں مبیّنہ تضادات کا حوالہ دیتے ہیں۔‏ درحقیقت،‏ انجیلی بیانات کی تفصیلات میں معمولی فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ ان میں کسی قسم کا فریب شامل نہیں ہے۔‏ جب کوئی بائبل‌نویس مسیح کی زمینی زندگی کے بعض واقعات سے متعلق بیانات کے سلسلے میں مزید تفصیلات فراہم کرتا ہے تو یسوع کی بابت ہمارا علم وسیع ہو جاتا ہے۔‏

کیا بعدازقیامت یسوع کے ظہورات محض فریب‌نظر تھے؟‏ اس سلسلے میں کوئی بھی دلیل قابلِ‌اعتماد نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ بہت سے لوگوں کو دکھائی دیا تھا۔‏ ان میں ماہی‌گیر،‏ عورتیں،‏ سرکاری ملازم اور مُتشکِک تُوما رسول بھی شامل تھا جس نے ناقابلِ‌تردید ثبوت دیکھنے کے بعد ہی اِس بات پر یقین کِیا کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔‏ (‏یوحنا ۲۰:‏۲۴-‏۲۹‏)‏ یسوع کے پیروکاروں نے کئی مواقع پر اپنے قیامت‌یافتہ خداوند کو پہلی بار دیکھ کر نہیں پہچانا تھا۔‏ ایک بار ۵۰۰ سے زیادہ لوگوں نے اُسے دیکھا جن میں سے بہتیرے اُس وقت زندہ تھے جب پولس رسول نے اس موقع کو قیامت کے دفاع کیلئے ثبوت کے طور پر استعمال کِیا تھا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۶‏۔‏

زندہ یسوع لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے

یسوع کی قیامت محض تجسّس یا بحث کا معاملہ نہیں ہے۔‏ یسوع کے زندہ ہونے کی حقیقت نے ہر جگہ لوگوں پر مثبت اثر ڈالا ہے۔‏ پہلی صدی سے لیکر اب تک ایسے بیشمار لوگ ہو گزرے ہیں جو پہلے بےحسی سے مسیحیت کی مخالفت کرتے تھے مگر پھر وہ اسے سچا مذہب تسلیم کرنے لگے۔‏ کس چیز نے اُن میں یہ تبدیلی پیدا کی؟‏ صحائف کے مطالعے نے انہیں باور کرا دیا تھا کہ خدا نے یسوع کو ایک پُرجلال آسمانی مخلوق کے طور پر زندہ کِیا تھا۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۸-‏۱۱‏)‏ اُنہوں نے یسوع اور یہوواہ خدا کی نجات پر ایمان ظاہر کِیا جو وہ مسیح کے فدیہ کی قربانی کے ذریعہ فراہم کرتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۸‏)‏ ایسے اشخاص نے خدا کی مرضی بجا لانے اور یسوع کی تعلیمات کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے سے حقیقی خوشی حاصل کی ہے۔‏

غور کریں کہ پہلی صدی میں مسیحی بننے کا مطلب کیا تھا۔‏ عزت‌ووقار،‏ طاقت یا مال‌ودولت کے حصول کی بجائے بہتیرے ابتدائی مسیحیوں نے اپنے ایمان کے واسطے ”‏اپنے مال کا لٹ جانا بھی خوشی سے منظور کِیا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۴‏)‏ مسیحیت خودایثارانہ اور اذیت اُٹھانے والی زندگی کا تقاضا کرتی تھی جسکا انجام بیشتر معاملات میں موت تھا۔‏

مسیح کے پیروکار بننے سے پہلے بعض مال‌ودولت اور عزت‌ووقار کے لحاظ سے اچھے امکانات رکھتے تھے۔‏ ترسس کا ساؤل شریعت کے مشہور اُستاد گملی‌ایل سے تعلیم حاصل کر کے یہودیوں کے درمیان اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں مشغول تھا۔‏ (‏اعمال ۹:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲۲:‏۳؛‏ گلتیوں ۱:‏۱۴‏)‏ تاہم،‏ ساؤل پولس رسول بن گیا۔‏ اُس نے اور بہتیرے شاگردوں نے اِس دُنیا کے عزت‌ووقار اور مرتبے کو چھوڑ دیا۔‏ کیوں؟‏ اُنہوں نے خدا کے وعدوں پر مبنی حقیقی اُمید اور یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے پیغام کو پھیلانے کیلئے ایسا کِیا۔‏ (‏کلسیوں ۱:‏۲۸‏)‏ وہ خوشی سے اُس چیز کیلئے اذیت برداشت کرنے کو تیار تھے جسکی بابت وہ جانتے تھے کہ اُسکی بنیاد سچائی پر رکھی گئی ہے۔‏

آج بھی لاکھوں لوگ ایسا کرتے ہیں۔‏ آپ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں اُن سے مل سکتے ہیں۔‏ گواہ گرمجوشی سے آپ کو مسیح کی موت کی سالانہ یادگاری پر حاضر ہونے کی دعوت دیتے ہیں جو اتوار،‏ اپریل ۸،‏ ۲۰۰۱ کو غروبِ‌آفتاب کے بعد منعقد ہوگی۔‏ وہ اِس موقع پر اور اپنے کنگڈم ہالوں میں بائبل مطالعے کے تمام اجلاسوں پر آپکی موجودگی سے خوش ہونگے۔‏

یسوع کی موت اور قیامت کے علاوہ اُس کی زندگی اور تعلیمات کی بابت کیوں نہ مزید سیکھا جائے؟‏ وہ ہمیں اپنے پاس آنے کی دعوت دیتا ہے۔‏ (‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ ابھی سے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی بابت صحیح علم حاصل کرنا شروع کر دیں۔‏ اس سے آپکو خدا کی بادشاہت کے تحت اُسکے عزیز بیٹے سے ہمیشہ کی زندگی ملیگی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 اناجیل کی صحت‌وصداقت کے ثبوت کیلئے مئی ۱۵،‏ ۲۰۰۰ کے مینارِنگہبانی میں ”‏اناجیل—‏تاریخ یا افسانہ؟‏“‏ کے مضمون کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

لاکھوں لوگ یسوع مسیح کے شاگردوں کے طور پر حقیقی خوشی حاصل کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر کا حوالہ]‏

containing ‏,Self-Pronouncing Edition of the Holy Bible From the

the King James and the Revised versions