ہم اپنے ایمان کی آزمائش میں تنہا نہیں تھے
ہم اپنے ایمان کی آزمائش میں تنہا نہیں تھے
وِکی ایک پیاری، صحتمند، خوبصورت اور چاکوچوبند بچی تھی۔ جب وہ ۱۹۹۳ کے موسمِبہار میں پیدا ہوئی تو ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ ہم جنوبی سویڈن میں ایک چھوٹے سے قصبے میں ہنسیخوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔
جب وِکی کی عمر ڈیڑھ برس ہوئی تو ہماری دُنیا چکناچُور ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ کچھ عرصے سے اُسکی طبیعت ناساز تھی لہٰذا ہم اُسے ہسپتال لے گئے۔ ہم اُس لمحے کو کبھی نہیں بھول سکتے جب ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ ہماری بیٹی کو ایک قسم کا لوکیمیا ہو گیا ہے جو بچپن میں ہونے والے کینسر کی ایک قسم ہے اور سفید خلیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔
یہ بات سمجھنا اور قبول کرنا مشکل تھا کہ ہماری پیاری بیٹی کو ایسا ہولناک مرض لاحق ہے۔ ابھی تو اُس نے اپنے اردگرد کی دُنیا کو دیکھنا شروع ہی کِیا تھا کہ اب وہ مرنے والی تھی۔ ہمیں تسلی دیتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا کہ کیموتھراپی سے کسی حد تک اس بیماری کا علاج ممکن ہے جس میں کئی مرتبہ خون بھی دینا پڑیگا۔ یہ ایک اَور دھچکا تھا۔
ہمارے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے
ہمیں یقیناً اپنی بیٹی سے محبت تھی اور ہم اُس کے لئے بہترین علاجمعالجہ چاہتے تھے۔ لیکن انتقالِخون کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم خدا کے کلام بائبل پر پُختہ یقین رکھتے ہیں جو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ مسیحیوں کو ’خون سے پرہیز‘ کرنا چاہئے۔ (اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) ہم یہ بھی جانتے تھے کہ انتقالِخون بذاتِخود خطرناک ہے۔ نیز، ہزاروں اشخاص انتقالِخون سے لگنے والی بیماریوں کی وجہ سے مر گئے تھے۔ اس کا متبادل علاج بہت مہنگا تھا جس میں انتقالِخون کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لحاظ سے، اپنے ایمان کیلئے ہماری دفاعی جدوجہد شروع ہو گئی۔
* فوراً پورے یورپ کے مختلف ہسپتالوں میں فیکس ارسال کئے گئے تاکہ ہمیں کوئی ایسا ہسپتال اور ڈاکٹر مل سکے جو انتقالِخون کے بغیر کیموتھراپی سے علاج کرنے کے لئے تیار ہو۔ ہماری مدد کے لئے ہمارے مسیحی بھائیوں کی پُرمحبت اور پُرجوش کوششیں واقعی تقویتبخش تھیں۔ ایمان کی اس لڑائی میں ہمیں تنہا نہیں چھوڑا گیا تھا۔
ہم کیا کر سکتے تھے؟ ہم نے یہوواہ کے گواہوں کے سویڈن برانچ دفتر میں ہاسپٹل انفارمیشن سروسز سے مدد کیلئے رابطہ کِیا۔تھوڑی ہی دیر میں، ایک ہسپتال اور ایک ڈاکٹر کو ہومبرگ/سار جرمنی میں تلاش کر لیا گیا۔ اگلے ہی روز وِکی کے معائنے کے لئے ہمیں بذریعہ ہوائیجہاز وہاں پہنچانے کے انتظامات کر دئے گئے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہومبرگ میں یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا سے ہمارے مسیحی بھائی اور کچھ رشتےدار ہمیں لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، مقامی ہسپتال رابطہ کمیٹی کے ایک نمائندے نے ہمارا پُرتپاک خیرمقدم کِیا۔ وہ ہمارے ساتھ ہسپتال گیا اور ہماری ہر ممکن مدد کی۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت تسلی ہوئی کہ غیرمُلک میں بھی ہمارے روحانی بھائی ہماری مدد کر رہے ہیں۔
جب ہم ہسپتال میں ڈاکٹر گراف سے ملے تو ہمیں بہت تسلی ہوئی۔ وہ بہت ہی فہیم تھا اور اس نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ وِکی کا علاج انتقالِخون کے بغیر کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ وہ ہیموگلوبین کی مقدار ۵ گرام/ڈیسیلیٹر تک گِر جانے کے باوجود انتقالِخون کے بغیر علاج جاری رکھنے کو تیار تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ مرض کی جلد تشخیص اور وِکی کو فوراً یہاں لے آنے کی وجہ سے اُس کے لئے کامیابی سے علاج کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ اُس نے تسلیم کِیا کہ وہ وِکی جیسے مشکل معاملے میں انتقالِخون کے بغیر کیموتھراپی سے پہلی مرتبہ علاج کر رہا ہے۔ ہماری مدد کرنے کے لئے ڈاکٹر گراف کا حوصلہ اور عزمِمُصمم قابلِ ستائش تھا جس کے ہم بہت احسانمند بھی تھے۔
معاشی مشکلات
اب سوال یہ تھا کہ ہم وِکی کے علاج کے اخراجات کیسے ادا کرینگے؟ یہ سن کر ہمارے ہوش اُڑ گئے کہ دو سال کے علاج پر تقریباً ۰۰۰،۵۰،۱ ڈوئیش مارک خرچ ہونگے۔ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا جبکہ وِکی کا علاج فوراً شروع ہونا چاہئے تھا۔ علاج کی خاطر سویڈن سے جرمنی آ جانے کی وجہ سے ہمیں کسی قسم کی پبلک ہیلتھ انشورنش بھی حاصل نہیں تھی۔ پس ہماری بیمار بچی کا علاج کرنے کے لئے ماہرین تو تیار تھے لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔
ہسپتال نے ہماری مدد کرنے کے لئے کہا کہ اگر ہم ۰۰۰،۲۰ ڈوئیش مارک ادا کرکے بقایاجات کیلئے بطور ضمانت کاغذات پر دستخط کر دیتے ہیں تو علاج فوراً شروع ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی تھوڑی بہت جمعپونجی اور دوستوں اور رشتہداروں کی پُرمحبت مدد کیساتھ ۰۰۰،۲۰ ڈوئیش مارک ادا کرنے کے قابل ہو گئے لیکن باقی پیسے کہاں سے آئینگے؟
ایک مرتبہ پھر ہمیں یاد دلایا گیا کہ اپنے ایمان کی لڑائی میں ہم تنہا نہیں تھے۔ ایک روحانی بھائی جس سے ہم اُس وقت ناواقف تھے باقی رقم ادا کرنے کی حامی بھرنے کو تیار تھا۔ ہمیں اُس کی فیاضدلانہ پیشکش قبول کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہم کہیں اَور سے پیسوں کا بندوبست کر سکتے تھے۔
ڈاکٹر اپنے کام میں مشغول
کیموتھراپی شروع ہو گئی۔ دن ہفتوں میں بدلتے گئے۔ بعضاوقات تو ہمیں اور ہماری بچی کو یہ سب کچھ نہایت مشکل اور ناقابلِبرداشت معلوم ہوتا تھا۔ اس کے برعکس، ہم انتہائی خوش اور شکرگزار تھے کہ دنبدن اُس کی حالت بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ یہ کیموتھراپی آٹھ ماہ جاری رہی۔ وِکی میں ہیموگلوبین کی کمترین مقدار ۶ گرام/ڈیسیلیٹر رہی لیکن ڈاکٹر گراف اپنے وعدے پر قائم رہا۔
چھ سال گزر جانے کے بعد، اس کی ریڑھ کی ہڈی کے سیال مادے کے آخری معائنے سے لوکیمیا کے کوئی آثار دکھائی نہیں دئے۔ اس وقت وہ ہشاشبشاش لڑکی ہے جس میں بیماری کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جیہاں، وِکی
کا مکمل طور پر صحتیاب ہو جانا ایک معجزہ لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اِسی بیماری میں مبتلا بہتیرے بچے کیموتھراپی اور انتقالِخون حاصل کرنے کے باوجود مر جاتے ہیں۔ہم نے ایمان کی لڑائی جیت لی جو رشتےداروں، مسیحی بھائی بہنوں اور ڈاکٹروں کی مدد کے بغیر ناممکن تھا۔ ہاسپٹل انفارمیشن سروسز نے ۲۴ گھنٹے ہماری مدد کی۔ ڈاکٹر گراف اور اس کے ساتھیوں نے وِکی کو ٹھیک کرنے کیلئے اپنی مہارتیں استعمال کیں۔ ہم ان سب کے نہایت مشکور ہیں۔
ہمارا ایمان مضبوط ہوا ہے
تاہم، سب سے بڑھکر ہم اپنے خدا یہوواہ اور اسکی پُرمحبت فکرمندی اور اس کے کلام بائبل کے ذریعے حاصلکردہ طاقت کیلئے شکرگزار ہیں۔ جب ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنا کچھ سیکھا ہے اور ہماری زندگی کے اس تلخ تجربے نے ہمارے ایمان کو کتنا مضبوط کِیا ہے۔
اب ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے ساتھ اپنا بیشقیمت رشتہ قائم رکھیں اور اپنی بیٹی کو اسکے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی قدروقیمت سکھائیں۔ نیز ہم اُسے زمین پر آنے والے فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کی روحانی میراث دینا چاہتے ہیں۔—اشاعت کے لئے عنایتکردہ مضمون۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 7 ہاسپٹل انفارمیشن سروسز ہسپتال رابطہ کمیٹیوں کے بینالاقوامی نیٹورک کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ کمیٹیاں مسیحی رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں ڈاکٹروں اور گواہ مریضوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے لئے تربیت دی جاتی ہے۔ اس وقت ۴۰۰،۱ سے زائد ہسپتال رابطہ کمیٹیاں ۲۰۰ سے زائد ممالک میں مریضوں کی مدد کیلئے سرگرمِعمل ہیں۔