یہوواہ کی خدمت میں اپنی خوشی برقرار رکھیں
یہوواہ کی خدمت میں اپنی خوشی برقرار رکھیں
”خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔“—فلپیوں ۴:۴۔
۱، ۲. ایک بھائی اور اس کا خاندان ہر چیز کھو دینے کے باوجود، اپنی خوشی برقرار رکھنے کے قابل کیسے ہوا تھا؟
سیرالیون کے ایک ستر سالہ مسیحی شخص جیمز نے اپنی ساری زندگی سخت محنت کی تھی۔ اس کی خوشی کا ذرا تصور کریں جب اُس نے چار کمروں کا ایک سادہ سا گھر خریدنے کے لئے کافی پیسے جمع کر لئے تھے! تاہم، جیمز کے اپنے خاندان کے ساتھ اُس میں منتقل ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد اس مُلک میں خانہجنگی شروع ہو گئی اور اُن کا گھر جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ وہ اپنے گھر سے تو محروم ہو گئے لیکن اپنی خوشی سے محروم نہیں ہوئے تھے۔ کیوں نہیں؟
۲ جیمز اور اُسکے خاندان نے تباہ ہو جانے والی چیزوں کی بجائے اُن چیزوں پر توجہ مُرتکز رکھی جو ابھی تک اُنکے پاس تھیں۔ جیمز وضاحت کرتا ہے: ”دہشت کے وقت میں بھی، ہم نے اجلاس منعقد کئے، بائبل پڑھائی کی، ملکر دُعا کی اور جو تھوڑی بہت اشیا ہمارے پاس رہ گئی تھیں اُن میں دوسروں کو بھی شریک کِیا۔ ہم یہوواہ کیساتھ اپنے شاندار رشتہ پر توجہ مُرتکز رکھنے کی وجہ سے اپنی خوشی برقرار رکھنے کے قابل ہوئے تھے۔“ یہ وفادار مسیحی اپنی برکات پر غور کرنے کی ۲-کرنتھیوں ۱۳:۱۱) بیشک، اُن کیلئے تکلیفدہ حالات برداشت کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے یہوواہ میں خوش رہنا نہیں چھوڑا تھا۔
بدولت ”خوش رہنے“ کے لائق تھے جن میں سب سے بڑی برکت یہوواہ کیساتھ قریبی رشتہ ہے۔ (۳. پہلی صدی کے بعض مسیحیوں نے اپنی خوشی کس طرح برقرار رکھی؟
۳ ابتدائی مسیحیوں نے بھی جیمز اور اس کے خاندان جیسی آزمائشوں کا تجربہ کِیا تھا۔ پھربھی، پولس رسول نے عبرانی مسیحیوں کو یہ لکھا: ”تم نے . . . اپنے مال کا لٹ جانا بھی خوشی سے منظور کِیا۔“ پولس نے پھر سے اُنکی خوشی کے ماخذ کی وضاحت کی: ”یہ جان کر کہ تمہارے پاس ایک بہتر اور دائمی ملکیت ہے۔“ (عبرانیوں ۱۰:۳۴) جیہاں، پہلی صدی کے مسیحی زبردست اُمید رکھتے تھے۔ وہ پورے اعتماد کیساتھ ایسی چیز—خدا کی آسمانی بادشاہت میں نہ مُرجھانے والے ”زندگی کے تاج“—کے منتظر تھے جسے چھینا نہیں جا سکتا تھا۔ (مکاشفہ ۲:۱۰) آجکل، ہماری مسیحی اُمید خواہ آسمانی ہو یا زمینی، مصیبتوں کا سامنا کرتے وقت بھی اپنی خوشی برقرار رکھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔
”اُمید میں خوش . . . رہو“
۴، ۵. (ا) ”اُمید میں خوش“ رہنے کی بابت پولس کی نصیحت روم کے مسیحیوں کیلئے بروقت کیوں تھی؟ (ب) کس وجہ سے ایک مسیحی کی توجہ اس کی اُمید سے ہٹ سکتی ہے؟
۴ پولس رسول نے روم میں اپنے ہمایمانوں کی حوصلہافزائی کی کہ وہ ہمیشہ کی زندگی کی ”اُمید میں خوش“ رہیں۔ (رومیوں ۱۲:۱۲) یہ روم کے مسیحیوں کے لئے بروقت نصیحت تھی۔ پولس کے یہ بات لکھنے کے دس سال کے اندر اندر ان پر سخت اذیت آئی اور بعض کو شہنشاہ نیرو کے حکم پر اذیتناک موت دے دی گئی۔ ان کے اس ایمان نے یقیناً انہیں مصیبت میں سنبھالے رکھا کہ خدا انہیں موعودہ زندگی کا تاج ضرور عطا کرے گا۔ آجکل ہماری بابت کیا ہے؟
۵ مسیحیوں کے طور پر، ہم بھی ستائے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲) مزیدبرآں، ہم جانتے ہیں کہ ہم سب پر ”وقت اور حادثہ“ آ سکتا ہے۔ (واعظ ۹:۱۱) کسی حادثے میں ہمارے کسی عزیز کی جان جا سکتی ہے۔ کوئی مُہلک بیماری والدین یا قریبی دوست کو ہلاک کر سکتی ہے۔ اگر ہم اپنی بادشاہتی اُمید پر توجہ مرکوز نہیں رکھتے تو ایسی آزمائشوں کے وقت ہم روحانی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ پس، ہم خود سے پوچھ کر اچھا کرتے ہیں کہ ’کیا مَیں ”اُمید میں خوش“ ہوں؟ مَیں کتنی مرتبہ وقت نکال کر اس پر غوروخوض کرتا ہوں؟ کیا آنے والا فردوس میرے لئے حقیقی ہے؟ کیا مَیں خود کو وہاں دیکھتا ہوں؟ کیا مَیں آج بھی موجودہ نظامالعمل کے خاتمے کا اتنا ہی منتظر ہوں جتنا مَیں شروع میں سچائی سیکھنے کے وقت تھا؟‘ یہ آخری سوال سنجیدہ غوروفکر کا مستحق ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر ہم تندرست ہیں اور ہماری گزربسر اچھی ہو رہی ہے اور ہم دُنیا کے کسی ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جو کسی حد تک جنگ، خوراک کی قلّت یا قدرتی آفات سے زیادہ متاثر نہیں ہے تو ہم شاید اُس وقت خدا کی نئی دُنیا کی آمد کو غیرضروری خیال کر سکتے ہیں۔
۶. (ا) مصیبت کا تجربہ کرتے وقت پولس اور سیلاس کی توجہ کس چیز پر مُرتکز تھی؟ (ب) پولس اور سیلاس کا نمونہ آجکل ہماری حوصلہافزائی کیسے کرتا ہے؟
۶ پولس نے رومیوں کو ”مصیبت میں صابر“ رہنے کی بھی نصیحت کی۔ (رومیوں ۱۲:۱۲) پولس کیلئے مصیبت کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایک مرتبہ اس نے رویا میں ایک آدمی کو دیکھا جس نے اُسے ”مکدؔنیہ میں آ“ کر وہاں کے لوگوں کی یہوواہ کی بابت سیکھنے میں مدد کرنے کی دعوت دی تھی۔ (اعمال ۱۶:۹) اس پر پولس، لوقا، سیلاس اور تیمتھیس کے ساتھ یورپ کے لئے روانہ ہو گیا۔ کیا چیز ان سرگرم مُنادوں کی منتظر تھی؟ مصیبت! مکدنیہ کے شہر فلپی میں منادی کرنے کی وجہ سے پولس اور سیلاس کو بینت لگا کر قیدخانے میں ڈال دیا گیا۔ واضح طور پر، فلپی کے بعض شہریوں نے نہ صرف بادشاہتی پیغام کے لئے لاپروائی دکھائی بلکہ شدید مخالفت بھی کی۔ کیا ایسے واقعات سے سرگرم مُنادوں کی خوشی ماند پڑ گئی تھی؟ ہرگز نہیں۔ جب انہیں مارپیٹ کر قیدخانے میں ڈال دیا گیا تو ”آدھی رات کے قریب پولسؔ اور سیلاؔس دُعا کر رہے اور خدا کی حمد کے گیت گا رہے تھے۔“ (اعمال ۱۶:۲۵، ۲۶) بِلاشُبہ، مارپیٹ کی درد سے پولس اور سیلاس کو کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی لیکن ان دو مُنادوں کی توجہ اس چیز پر مرکوز نہیں تھی۔ اُن کی توجہ یہوواہ اور اُس کی برکت پر مُرتکز تھی۔ خوشی سے ’مصیبتوں کی برداشت‘ کرنے سے، پولس اور سیلاس نے فلپی اور دوسری جگہوں پر اپنے بھائیوں کے لئے عمدہ نمونہ قائم کِیا۔
۷. ہماری دُعاؤں میں شکرگزاری کیوں شامل ہونی چاہئے؟
۷ پولس نے لکھا: ”دُعا کرنے میں مشغول رہو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۲) کیا آپ پریشانی کے عالم میں دُعا کرتے ہیں؟ آپ کس چیز کی بابت دُعا کرتے ہیں؟ غالباً آپ اپنے مخصوص مسائل کا ذکر کرتے ہوئے یہوواہ سے مدد مانگتے ہیں۔ لیکن آپ جن برکات کا تجربہ کرتے ہیں ان کیلئے شکرگزاری کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ جب مسائل اُٹھ کھڑے ہوں تو یہوواہ کی بھلائی پر غور کرنے سے ”اُمید میں خوش“ رہنے میں ہماری مدد ہوتی ہے۔ اگرچہ داؤد کی زندگی مشکلات سے پُر تھی توبھی اُس نے لکھا: ”اَے [یہوواہ] میرے خدا! جو عجیب کام تُو نے کئے اور تیرے خیال جو ہماری طرف ہیں وہ بہت سے ہیں۔ مَیں اُنکو تیرے حضور ترتیب نہیں دے سکتا۔ اگر مَیں اُنکا ذکر اور بیان کرنا چاہوں۔ تو وہ شمار سے باہر ہیں۔“ (زبور ۴۰:۵) اگر ہم داؤد کی مانند باقاعدگی سے یہوواہ کی طرف سے حاصل ہونے والی برکات پر غور کرتے ہیں تو ہم یقیناً خوش ہونگے۔
مثبت رُجحان برقرار رکھیں
۸. کونسی بات اذیت کے وقت میں بھی اپنی خوشی برقرار رکھنے کے لئے ایک مسیحی کی مدد کرتی ہے؟
۸ یسوع اپنے پیروکاروں کی مختلف آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت مثبت رُجحان برقرار رکھنے کیلئے حوصلہافزائی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”جب میرے سبب سے لوگ تمکو لعنطعن کرینگے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تم مبارک ہو گے۔“ (متی ۵:۱۱) ایسے حالات کے تحت ہمارے پاس خوشی کی کیا وجہ ہے؟ مخالفت کا سامنا کرنے کی ہماری صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہوواہ کی روح ہم پر ہے۔ پطرس رسول نے اپنے زمانے کے ساتھی مسیحیوں سے کہا: ”اگر مسیح کے نام کے سبب سے تمہیں ملامت کی جاتی ہے تو تم مبارک ہو کیونکہ جلال کا روح یعنی خدا کا روح تم پر سایہ کرتا ہے۔“ (۱-پطرس ۴:۱۳، ۱۴) اپنی روح کے وسیلے، یہوواہ برداشت کرنے میں ہماری مدد کریگا جس کے نتیجے میں ہماری خوشی برقرار رہیگی۔
۹. کس چیز نے اپنے ایمان کی خاطر قید میں ڈالے جانے والے بعض بھائیوں کی خوشی برقرار رکھنے میں مدد کی؟
۹ نہایت خراب حالات میں بھی ہمارے پاس خوش رہنے کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایڈولف نامی ایک مسیحی کو ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔ وہ ایک ایسے مُلک میں رہتا تھا جہاں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر کافی سالوں سے پابندی تھی۔ ایڈولف اور اسکے کئی ساتھیوں کو بائبل پر مبنی اپنے اعتقادات کو ترک نہ کرنے کی وجہ سے گرفتار کرکے لمبی قید کی سزا سنائی گئی۔ قیدخانے کی زندگی سخت تھی لیکن پولس اور سیلاس کی طرح ایڈولف اور اس کے ساتھیوں یعقوب ۱:۱۷؛ اعمال ۲۰:۳۵۔
کے پاس خدا کی شکرگزاری کرنے کی وجوہات تھیں۔ اُنہوں نے بیان کِیا کہ قیدخانے کے تجربے نے ان کے ایمان کو مضبوط کرنے کے علاوہ فیاضی، ہمدردی اور برادرانہ اُلفت جیسی قابلِقدر مسیحی صفات کو فروغ دینے میں انکی مدد کی۔ مثال کے طور پر، جب کسی ایک قیدی کے گھر سے کچھ چیزیں وصول ہوتیں تو وہ ان میں سے اپنے ہمایمانوں کو بھی دیتا جو انہیں ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام“ عطا کرنے والے یہوواہ کی طرف سے اضافی فراہمیاں خیال کرتے تھے۔ ایسے مہربانہ کام دینے اور لینے والے دونوں کیلئے خوشی پر منتج ہوئے۔ پس انہیں قید میں ڈالنے کا مقصد انکے ایمان کو توڑنا تھا مگر اسی نے انہیں روحانی طور پر مضبوط کر دیا!—۱۰، ۱۱. ایک بہن نے کڑی پوچھگچھ کے بعد طویل قید کی سزا کے باوجود کیسے رُجحان کا مظاہرہ کِیا؟
۱۰ ایلا بھی ایسے مُلک میں رہتی تھی جہاں بادشاہتی کام پر پابندی تھی۔ اُسے دوسروں کو اپنی مسیحی اُمید میں شریک کرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ آٹھ ماہ تک، اُس سے لگاتار پوچھگچھ کی گئی۔ آخرکار جب اس پر مقدمہ چلا تو اسے ایک ایسے قیدخانہ میں دس سال کی سزا سنائی گئی جہاں یہوواہ کا کوئی اَور پرستار نہیں تھا۔ ایلا کی عمر اس وقت صرف ۲۴ سال تھی۔
۱۱ بیشک، ایلا نے اپنی جوانی کا بیشتر حصہ قیدخانہ میں بسر کرنے کا کبھی نہیں سوچا تھا۔ لیکن اپنی صورتحال بدلنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے اس نے اپنا نقطۂنظر بدل لیا۔ اسی لئے اُس نے قیدخانہ کو گواہی دینے کا اپنا ذاتی علاقہ خیال کرنا شروع کر دیا۔ وہ بیان کرتی ہے کہ ”وہاں اتنی زیادہ منادی کرنے کی ضرورت تھی کہ سال بڑی تیزی سے گزر گئے۔“ پانچ سال سے زائد عرصہ کے بعد ایلا سے دوبارہ پوچھگچھ کی گئی۔ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ قید میں رہ کر بھی اُسکا ایمان کمزور نہیں ہوا، پوچھگچھ کرنے والوں نے اُس سے کہا: ”ہم تمہیں رِہا نہیں کر سکتے کیونکہ تم میں ابھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔“ ”لیکن مَیں واقعی بدل گئی ہوں!“ ایلا نے ثابتقدمی سے جواب دیا۔ ”میرا جذبہ اُس وقت کی نسبت بہتر ہو گیا ہے جب مَیں پہلے قیدخانہ میں آئی تھی اور میرا ایمان بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا ہے!“ اس نے مزید کہا: ”اگر آپ مجھے رِہا نہیں بھی کرتے تو مَیں اُس وقت تک یہاں رہونگی جبتک یہوواہ میری رِہائی کو موزوں نہیں سمجھتا۔“ ساڑھے پانچ سال کی قیدوبند کے بعد بھی ایلا کی خوشی ماند نہیں پڑی تھی! اس نے تمام حالات میں مطمئن رہنا سیکھا۔ کیا آپ اسکے نمونے سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟—عبرانیوں ۱۳:۵۔
۱۲. مشکل حالات میں ایک مسیحی کیلئے کیا چیز اطمینان کا باعث بن سکتی ہے؟
۱۲ یہ نہ سمجھیں کہ ایلا کے پاس کوئی غیرمعمولی بخشش تھی جس نے اُسے ایسے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا۔ سزا پانے سے پہلے کئی مہینوں کی جس تفتیش سے وہ گزری اس کا حوالہ دیتے ہوئے ایلا تسلیم کرتی ہے: ”مجھے یاد ہے کہ خوف سے میرے دانت بجنے لگتے تھے اور مَیں خود کو ڈرپوک چڑیا کی مانند محسوس کرتی تھی۔“ تاہم، ایلا یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتی تھی۔ اس نے اُس پر توکل رکھنا سیکھ لیا تھا۔ (امثال ۳:۵-۷) نتیجتاً، خدا اس کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی بن گیا ہے۔ وہ واضح کرتی ہے: ”ہر مرتبہ تفتیشی کمرے میں داخل ہوتے وقت مَیں بہت اطمینان محسوس کرتی تھی۔ . . . صورتحال جتنی زیادہ خطرناک ہوتی جاتی تھی میرا اطمینان بھی اُتنا ہی بڑھتا جاتا تھا۔“ یہوواہ اس اطمینان کا ماخذ تھا۔ پولس رسول بیان کرتا ہے: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔“—فلپیوں ۴:۶، ۷۔
۱۳. کونسی بات ہمیں یقین دلاتی ہے کہ مصیبت آنے کی صورت میں ہمارے پاس اسے برداشت کرنے کی طاقت ہوگی؟
۱۳ ایلا اپنی رہائی کے بعد سے سختیوں کے باوجود اپنی خوشی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہ اپنی طاقت کی بجائے یہوواہ کی طاقت سے ایسا کرنے کے قابل ہوئی تھی۔ پولس رسول کی بابت بھی یہی بات سچ ہے جس نے لکھا: ”پس مَیں بڑی خوشی سے اپنی کمزوری پر فخر کرونگا تاکہ مسیح کی قدرت مجھ پر چھائی رہے۔ . . . کیونکہ جب مَیں کمزور ہوتا ہوں اُسی وقت زورآور ہوتا ہوں۔“—۲-کرنتھیوں ۱۲:۹، ۱۰۔
۱۴. وضاحت کریں کہ کیسے ایک مسیحی کسی صبرآزما صورتحال کی بابت مثبت نظریہ رکھ سکتا ہے اور اس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
۱۴ ممکن ہے کہ آجکل جو مسائل آپکو درپیش ہیں وہ اِن مسائل سے کسی حد تک فرق ہوں جنکا یہاں ذکر کِیا گیا ہے۔ تاہم، مسائل خواہ کیسے بھی ہوں ۱-پطرس ۲:۱۸) مزیدبرآں، آپ اَور زیادہ قابلِقدر اور لائق ملازم بن سکتے ہیں جس سے کسی روز زیادہ تسکینبخش ملازمت حاصل کرنے کے امکانات میں اضافہ ہو جائیگا۔ اب آئیے چند دیگر طریقوں پر باتچیت کرتے ہیں جن سے ہم یہوواہ کی خدمت میں اپنی خوشی برقرار رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً، آپ کا آجر آپ کے کام پر بہت تنقید کرنے والا ہو سکتا ہے۔ نیز وہ دیگر مذہبی اعتقادات رکھنے والے ملازمین کی نسبت آپ پر زیادہ تنقید کرتا ہے۔ شاید آپ کیلئے دوسری ملازمت تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ اپنی خوشی کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں؟ ایڈولف اور اسکے رفقاء کو یاد کریں جن کے قیدخانہ کے تجربے نے اُنہیں اہم خوبیوں کو فروغ دینا سکھایا تھا۔ اگر آپ اپنے آجر کو مطمئن کرنے کی مخلصانہ کوشش کرتے ہیں، خواہ وہ ”بدمزاج“ ہی کیوں نہ ہو تو آپ برداشت اور تحمل جیسی مسیحی خوبیوں کو فروغ دے رہے ہونگے۔ (سادہ زندگی خوشی پر منتج ہوتی ہے
۱۵-۱۷. ایک جوڑے نے پریشانی کو مکمل طور پر ختم نہ کر پانے کے باوجود، اسے کم کرنے کی بابت کیا سیکھا؟
۱۵ آپ کے پاس شاید اپنی ملازمت یا جائےملازمت کے سلسلے میں انتخاب کی زیادہ گنجائش تو نہ ہو مگر اپنی زندگی کے دیگر حلقوں پر آپکا اختیار ضرور ہوگا۔ درجذیل تجربے پر غور کریں۔
۱۶ ایک مسیحی جوڑے نے ایک بزرگ کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کِیا۔ شام کے وقت بھائی اور اسکی بیوی نے رازداری میں بیان کِیا کہ وہ حال ہی میں اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ وہ دونوں نہایت محنتطلب اور وقتطلب ملازمتیں کر رہے تھے اسلئے وہ کوئی دوسرا کام تلاش نہیں کر سکتے تھے۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ انہیں اَور کتنی دیر تک ایسی صورتحال سے نپٹنا پڑیگا۔
۱۷ جب انہوں نے مشورہ مانگا تو بزرگ نے جواب دیا، ”اپنی زندگی کو سادہ بنائیں۔“ کیسے؟ شوہر اور بیوی دونوں کام سے آنےجانے میں تقریباً ہر روز تین گھنٹے صرف کر رہے تھے۔ بزرگ اس جوڑے کو اچھی طرح جانتا تھا لہٰذا اُس نے انہیں اپنی جائےملازمت کے قریب منتقل ہو جانے کا مشورہ دیا جس سے وہ کام کیلئے ہر روز آنےجانے میں صرف ہونے والا وقت کم کر سکیں گے۔ اس طرح بچا ہوا وقت دیگر اہم معاملات یا کچھ آرام کیلئے صرف کِیا جا سکتا تھا۔ اگر زندگی کے مسائل کسی حد تک آپکی خوشی چھین رہے ہیں تو کیوں نہ آپ بھی اپنی زندگی میں ممکنہ تبدیلیاں لانے سے کچھ آرام حاصل کرنے کی کوشش کریں؟
۱۸. فیصلے کرنے سے پہلے احتیاط سے غور کرنا کیوں اہم ہے؟
۱۸ دباؤ کو کم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ فیصلے کرنے سے پہلے احتیاط سے سوچبچار کریں۔ مثال کے طور پر، ایک مسیحی ایک گھر تعمیر کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگرچہ اُس نے پہلے کبھی گھر نہیں بنایا تھا توبھی وہ نہایت پیچیدہ ڈیزائن کا انتخاب کرتا ہے۔ اب وہ محسوس کرتا ہے کہ اگر اس نے اپنے گھر کے ڈیزائن کا انتخاب کرنے سے پہلے ”اپنی روش“ پر غور کِیا ہوتا تو وہ غیرضروری مسائل سے بچ سکتا تھا۔ (امثال ۱۴:۱۵) ایک اَور مسیحی ساتھی ایماندار کے لئے قرضے کا ضامن ہونے کی حامی بھر لیتا ہے۔ معاہدے کے مطابق اگر قرض لینے والا قرض ادا نہیں کریگا تو ضامن کو قرضہ ادا کرنا ہوگا۔ پہلےپہل تو سب کچھ ٹھیک رہتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرض لینے والا اپنی ذمہداری پوری نہیں کرتا۔ قرض دینے والا فکرمند ہو کر ضامن سے سارے قرض کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ ضامن پر دباؤ ڈالتا ہے۔ اگر اس نے قرض اُتارنے کی ذمہداری اُٹھانے سے پہلے تمام پہلوؤں پر غور کِیا ہوتا تو کیا اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا؟—امثال ۱۷:۱۸۔
۱۹. زندگی کے تناؤ کو کم کرنے کے بعض طریقے کونسے ہیں؟
۱۹ جب ہم تھک جاتے ہیں تو ہمیں کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم ذاتی بائبل مطالعے، میدانی خدمتگزاری اور اجلاسوں پر حاضری کم کرنے سے اپنی مشکلات کو بھی کم کر لینگے اور اپنی خوشی کو دوبارہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ یہوواہ کی روحالقدس حاصل کرنے کے اہم طریقے ہیں جس کا ایک پھل خوشی ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲) مسیحی کارگزاریاں عموماً تھکا دینے والی نہیں بلکہ ہمیشہ تازگیبخش ہوتی ہیں۔ (متی ۱۱:۲۸-۳۰) غالباً روحانی کارگزاریوں کی بجائے دُنیاوی یا تفریحی کارگزاریاں ہماری تھکن میں اضافہ کرتی ہیں۔ رات کو جلدی سو جانا ہماری طاقت بحال کر سکتا ہے۔ تھوڑا سا اَور آرام بہت مفید ہو سکتا ہے۔ این. ایچ. نار جس نے اپنی موت تک گورننگ باڈی کے ایک رُکن کے طور پر خدمت انجام دی، وہ مشنریوں سے کہا کرتا تھا: ”جب آپ بےحوصلہ ہو جائیں تو سب سے پہلے آرام کریں۔ آپ یہ دیکھ کر حیران ہونگے کہ راتبھر کی میٹھی نیند کے بعد کسی بھی مسئلے کو حل کرنا کتنا آسان دکھائی دیتا ہے!“
۲۰. (ا) اُن چند طریقوں کی تلخیص کریں جن سے ہم اپنی خوشی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ (ب) خوش رہنے کے سلسلے میں آپ کے ذہن میں کونسی وجوہات آتی ہیں؟ (صفحہ ۱۷ پر بکس دیکھیں۔)
۲۰ مسیحیوں کو ”خدایِمبارک“ کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۱) ہم دیکھ چکے ہیں کہ سنگین مسائل کے باوجود ہم اپنی خوشی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ آئیے اپنی نظریں بادشاہتی اُمید پر جمائے رکھیں اور بوقتِضرورت اپنے نقطۂنظر میں تبدیلی لائیں اور اپنی زندگی کو سادہ رکھیں۔ تب، ہم تمام حالات میں پولس رسول کی اس بات پر عمل کرینگے: ”خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔“—فلپیوں ۴:۴۔
ان سوالات پر توجہ دیں:
• مسیحیوں کو بادشاہتی اُمید پر کیوں توجہ مُرتکز رکھنی چاہئے؟
• مشکل حالات میں اپنی خوشی برقرار رکھنے میں کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟
• ہمیں اپنی زندگیاں سادہ رکھنے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟
• بعض نے کن حلقوں میں اپنی زندگیوں کو سادہ بنایا ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۷ پر بکس/تصویریں]
خوش رہنے کی اضافی وجوہات
مسیحیوں کے طور پر، ہمارے پاس خوش ہونے کی بہتیری وجوہات ہیں۔ درجذیل پر غور کریں:
۱. ہم یہوواہ کو جانتے ہیں۔
۲. ہم نے خدا کے کلام کی سچائی سیکھ لی ہے۔
۳. یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان کی بدولت ہمارے گناہ بخشے جا سکتے ہیں۔
۴. خدا کی بادشاہت اس وقت حکمرانی کر رہی ہے لہٰذا نئی دُنیا جلد آنے والی ہے!
۵. ہم یہوواہ کی بدولت روحانی فردوس میں ہیں۔
۶. ہم خوشگوار مسیحی رفاقت سے لطفاندوز ہوتے ہیں۔
۷. ہمیں منادی کے کام میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہے۔
۸. ہم زندہ ہیں اور کسی حد تک صحتمند ہیں۔
آپ خوشی کی اَور کتنی وجوہات کا ذکر کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
پولس اور سیلاس قیدخانہ میں بھی خوش تھے
[صفحہ ۱۵ پر تصویریں]
کیا آپ کی نظریں خدا کی نئی دُنیا کے خوشآئند امکانات پر لگی ہیں؟