مصیبت کے وقت یتیموں اور بیواؤں کی خبر لیں
مصیبت کے وقت یتیموں اور بیواؤں کی خبر لیں
اس بات کو سمجھنا قطعاً مشکل نہیں کہ ہم محبت سے عاری دُنیا میں رہتے ہیں۔ پولس رسول نے ”اخیر زمانہ“ کے لوگوں کے خصائل کا ذکر کرتے ہوئے یوں تحریر کِیا: ”بُرے دن آئینگے۔ کیونکہ آدمی خودغرض۔ . . . طبعی محبت سے خالی . . . ہونگے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۳) یہ بات کسقدر سچ ہے!
ہمارے زمانے کے اخلاقی ماحول کے باعث بہتیروں کے دل سے جذبۂہمدردی ختم ہو گیا ہے۔ لوگ نہ صرف بیگانوں بلکہ بعض معاملات میں تو اپنے اہلِخانہ کی فلاحوبہبود میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
اس رُجحان نے ایسے بہت سے لوگوں پر بُرے اثرات مرتب کئے ہیں جو مختلف حالات کے باعث انتہائی غربت کا شکار ہو گئے ہیں۔ جنگوں، قدرتی آفتوں اور لوگوں کے پناہ کی تلاش میں دربدر بھٹکنے کی وجہ سے بیواؤں اور یتیموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ (واعظ ۳:۱۹) اقوامِمتحدہ کے ادارۂامدادِبچگان کی رپورٹ کے مطابق، ”جنگ کے نتیجے میں ۱ ملین سے زائد [بچے] یتیم یا اپنے خاندانوں سے جدا ہو گئے ہیں۔“ آپ یقیناً ایسی بہت سی تنہا خواتین کی بابت بھی جانتے ہونگے جنہیں اُن کے شوہروں نے چھوڑ دیا ہے یا اُنہیں طلاق دے دی ہے جس سے اُن کے لئے تنہا گزربسر اور اپنے خاندانوں کی دیکھبھال کرنا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔ بعض ممالک میں سنگین معاشی بحران کی وجہ سے ان کے بیشتر باشندے شدید مفلسی میں زندگی بسر کرتے ہیں جس سے یہ صورتحال اَور بھی بدتر ہو گئی ہے۔
اس حقیقت کے پیشِنظر، کیا مصیبتزدہ لوگوں کیلئے کوئی اُمید ہے؟ بیواؤں اور یتیموں کی تکلیف کو کیسے کم کِیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ مسئلہ کبھی ختم ہوگا؟
بائبل وقتوں میں مشفقانہ دیکھبھال
بیواؤں اور یتیموں کی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کرنا ہمیشہ ہی سے خدا کی پرستش کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اسرائیلیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ کٹائی کے موسم میں اگر کچھ پھل یا اناج کھیت میں باقی رہ جائے تو استثنا ۲۴:۱۹-۲۱) موسوی شریعت نے واضح کِیا: ”تم کسی بیوہ یا یتیم لڑکے کو دُکھ نہ دینا۔“ (خروج ۲۲:۲۲، ۲۳) بائبل میں بیانکردہ بیوائیں اور یتیم بچے موزوں طور پر غریب لوگوں کی نمائندگی کرتے تھے کیونکہ شوہر اور باپ یا ماںباپ دونوں کی موت کے بعد خاندان کے باقی افراد بےسہارا اور محتاج ہو سکتے تھے۔ آبائی بزرگ ایوب نے بیان کِیا: ”مَیں غریب کو جب وہ فریاد کرتا چھڑاتا تھا اور یتیم کو بھی جس کا کوئی مددگار نہ تھا۔“—ایوب ۲۹:۱۲۔
اُسے چننے کے لئے واپس نہ جائیں۔ انہیں ”پردیسی اور یتیم اور بیوہ کے لئے“ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ (مسیحی کلیسیا کے ابتدائی دَور میں، والدین یا شوہر کی موت کے باعث مصیبتزدہ اور ضرورتمند لوگوں کی دیکھبھال کرنا سچی پرستش کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ ایسے لوگوں کی فلاحوبہبود میں گہری دلچسپی رکھتے ہوئے شاگرد یعقوب نے تحریر کِیا: ”ہمارے خدا اور باپ کے نزدیک خالص اور بےعیب دینداری یہ ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت انکی خبر لیں اور اپنےآپ کو دُنیا سے بیداغ رکھیں۔“—یعقوب ۱:۲۷۔
یعقوب نے یتیموں اور بیواؤں کا ذکر کرنے کے علاوہ غریبوں اور محتاجوں کیلئے بھی گہری فکرمندی کا اظہار کِیا۔ (یعقوب ۲:۵، ۶، ۱۵، ۱۶) پولس رسول نے بھی ایسی ہی فکرمندی ظاہر کی۔ جب پولس اور برنباس کو منادی کی تفویض ملی تو اُنہیں ’غریبوں کو یاد رکھنے‘ کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔ لہٰذا، پولس صاف ضمیر کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ ”مَیں خود ہی اسی کام کی کوشش میں تھا۔“ (گلتیوں ۲:۹، ۱۰) مسیحی کلیسیا کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کی کارگزاریوں کی تفصیل کے مطابق: ”اُن میں کوئی بھی محتاج نہ تھا۔ . . . ہر ایک کو اُسکی ضرورت کے موافق بانٹ دیا جاتا تھا۔“ (اعمال ۴:۳۴، ۳۵) جیہاں، یتیموں، بیواؤں اور محتاجوں کی دیکھبھال کے لئے قدیم اسرائیل میں شروع کئے گئے انتظام کو مسیحی کلیسیا میں بھی جاری رکھا گیا تھا۔
۱-تیمتھیس ۵:۳-۱۶ میں پولس کی ہدایات سے یہ بات بالکل واضح تھی۔ اس اقتباس میں ہم پڑھتے ہیں کہ اگر کسی حاجتمند شخص کے رشتےدار اُس کی مدد کرنے کے قابل ہیں تو اُنہیں یہ ذمہداری اُٹھانی پڑتی تھی۔ ضرورتمند بیواؤں کو امداد حاصل کرنے کے لائق ٹھہرنے کے لئے کچھ تقاضوں پر پورا اُترنا پڑتا تھا۔ یہ سب کچھ حاجتمندوں کی دیکھبھال کے سلسلے میں یہوواہ کے پُرحکمت بندوبست کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، اس سے توازن برقرار رکھنے کی ضرورت بھی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ کوئی بھی شخص اس مہربانی سے ناجائز فائدہ اُٹھانے نہ پائے۔—۲-تھسلنیکیوں ۳:۱۰-۱۲۔
یہ بات قابلِفہم ہے کہ انفرادی کلیسیاؤں کے وسائل کے مطابق معقول حد تک مدد فراہم کی جاتی تھی۔ پیسہ بالکل بھی ضائع نہیں کِیا جاتا تھا بلکہ صرف ضرورتمند لوگوں کی مدد کی جاتی تھی۔ کسی مسیحی کو اس بندوبست سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھانے دیا جاتا تھا تاکہ کلیسیا پر کسی قسم کا غیرضروری بوجھ نہ پڑے۔آجکل یتیموں اور بیواؤں کی دیکھبھال کرنا
ماضی میں خدا کے خادم مصیبتزدہ لوگوں کے لئے فکرمندی ظاہر کرنے اور انکی مدد کرنے کے سلسلے میں جن اُصولوں پر عمل کرتے تھے اُنکا اطلاق آج بھی یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں ہوتا ہے۔ یسوع نے برادرانہ محبت کو ایک امتیازی خصوصیت کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا: ”اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۵) اگر بعض اشخاص کسی قسم کی تکلیف، قدرتی آفت، جنگ یا علاقائی فسادات کے اثرات کی لپیٹ میں ہیں تو باقی عالمگیر برادری بڑی گرمجوشی کیساتھ مختلف طریقوں سے روحانی اور مادی مدد فراہم کرتی ہے۔ آئیے زمانۂجدید کے کچھ ایسے تجربات پر غور کریں جو ظاہر کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں کیا کچھ انجام دیا جا رہا ہے۔
پیڈرو اپنی ماں کی بابت کچھ زیادہ نہیں جانتا کیونکہ جب وہ ڈیڑھ سال کا تھا تو وہ وفات پا گئی تھی۔ جب پیڈرو پانچ سال کا ہوا تو اسکا باپ بھی فوت ہو گیا۔ لہٰذا پیڈرو اور اُسکے بھائی بےسہارا ہو گئے۔ یہوواہ کے گواہ چونکہ اُنکے باپ سے ملنے کیلئے آیا کرتے تھے اسلئے پیڈرو اور اُسکے بڑے بھائیوں کیساتھ گھریلو بائبل مطالعہ شروع ہو گیا۔
پیڈرو بیان کرتا ہے: ”اگلے ہی ہفتے ہم اجلاسوں پر حاضر ہونے لگے۔ بھائیوں کی رفاقت سے ہمیں محبت اور اپنائیت کا احساس ہوا۔ کلیسیا میرے لئے ایک پناہگاہ ثابت ہوئی کیونکہ بھائیبہن میرے ساتھ اسطرح محبت اور مہربانی سے پیش آتے تھے جیسے وہ میرے والدین ہیں۔“ پیڈرو کو یاد ہے کہ جب ایک مسیحی بزرگ نے اُسے اپنے گھر مدعو کِیا تھا تو وہ اُس کے خاندان کے ساتھ گفتگو اور تفریح سے بہت محظوظ ہوا تھا۔ پیڈرو بیان کرتا ہے کہ ”میرے لئے وہ یادیں بیشقیمت ہیں۔“ پیڈرو نے ۱۱ سال کی عمر میں اپنے ایمان کی بابت منادی شروع کی اور ۱۵ سال کی عمر میں بپتسمہ لے لیا۔ کلیسیائی مدد سے اُس کے بڑے بھائیوں نے بھی بڑی حد تک روحانی ترقی کی۔
ڈیوڈ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اپنے والدین کی علیٰحدگی کے بعد وہ اور اُس کی جڑواں بہن بےسہارا ہو گئے تھے۔ اُن کے دادا دادی اور خالہ نے اُن کی پرورش کی۔ ”جب ہم بڑے ہوکر اپنی حالت سمجھنے کے قابل ہوئے تو ہمیں عدمِتحفظ اور افسردگی کا احساس ہونے لگا۔ ہمیں کسی سہارے کی ضرورت تھی۔ ہماری خالہ یہوواہ کی گواہ بن گئی اور یوں ہمیں بائبل سچائی سیکھنے کا موقع ملا۔ بہنبھائیوں نے ہماری طرف محبت اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ وہ ہمیں بہت پسند کرتے تھے اور اپنے نشانے حاصل کرنے اور یہوواہ کی خدمت جاری رکھنے کے لئے ہماری حوصلہافزائی کرتے تھے۔ جب مَیں تقریباً دس سال کا تھا تو ایک خادم مجھے اپنے ساتھ میدانی خدمت
میں لیجایا کرتا تھا۔ ایک اَور بھائی کنونشنوں پر میرے اخراجات پورے کِیا کرتا تھا۔ ایک بھائی نے تو کنگڈم ہال میں عطیات ڈالنے کے لئے بھی میری مدد کی۔“ڈیوڈ نے ۱۷ سال کی عمر میں بپتسمہ لیا اور بعدازاں میکسیکو میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس میں خدمت کا آغاز کِیا۔ وہ آج بھی تسلیم کرتا ہے: ”کئی بزرگ میری تعلیم کے علاوہ مجھے عملی مشورت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح مَیں عدمِتحفظ اور تنہائی کے احساس کا مقابلہ کر رہا ہوں۔“
میکسیکو کی ایک کلیسیا میں مدد کی حاجتمند کئی بیوائیں ہیں۔ لہٰذا اس کلیسیا کا ایک بزرگ ایبل بیان کرتا ہے: ”مجھے پورا یقین ہے کہ بیواؤں کو سب سے زیادہ جذباتی مدد کی ضرورت ہے۔ بعضاوقات وہ افسردگی کا شکار ہو جاتی ہیں اور تنہا محسوس کرتی ہیں۔ لہٰذا انہیں سہارا دینا اور انکی بات سننا بہت ضروری ہے۔ ہم [کلیسیائی بزرگ] اکثر ان سے ملنے جاتے ہیں۔ اُنکے مسائل پر توجہ دینے کیلئے وقت نکالنا ضروری ہے۔ اس سے انہیں روحانی تسلی ملتی ہے۔“ تاہم، بعضاوقات معاشی مدد کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ایبل نے کچھ عرصہ پہلے بیان کِیا کہ ”اب ہم ایک بیوہ بہن کیلئے گھر تعمیر کر رہے ہیں۔ ہم ہفتے کے روز اور شام کے اوقات میں اسکے گھر پر کام کرتے ہیں۔“
ایک اَور کلیسیائی بزرگ یتیموں اور بیواؤں کی مدد کے سلسلے میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتا ہے: ”میری دانست میں بیواؤں کی نسبت یتیموں کو مسیحی محبت کی زیادہ ضرورت ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جن بچوں اور نوجوانوں کے والدین زندہ ہوتے ہیں اُنکی نسبت یتیم بچے احساسِمحرومیت میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اُن کیلئے زیادہ سے زیادہ برادرانہ محبت دکھائی جانی چاہئے۔ اجلاس کے بعد ان سے مل کر انکا حال دریافت کرنا اچھا ہوگا۔ ایک شادیشُدہ بھائی بچپن میں یتیم ہو گیا تھا۔ مَیں اجلاس پر ہمیشہ اُس سے گرمجوشی سے ملتا ہوں اور وہ مجھے دیکھتے ہی مجھ سے لپٹ جاتا ہے۔ اس سے حقیقی برادرانہ محبت کا بندھن مضبوط ہوتا ہے۔“
یہوواہ ’محتاج کو چھڑائیگا‘
یہوواہ پر توکل کرنا بیواؤں اور یتیموں کی حالت سے کامیابی کیساتھ نپٹنے کا بنیادی طریقہ ہے۔ اُسکی بابت یوں کہا گیا: ”[یہوواہ] پردیسیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ یتیم اور بیوہ کو سنبھالتا ہے۔“ (زبور ۱۴۶:۹) یہ مسائل صرف خدا کی بادشاہت میں ہی مکمل طور پر حل ہونگے جسکا بادشاہ یسوع مسیح ہے۔ مسیحا کی حکمرانی کو نبوّتی طور پر بیان کرتے ہوئے زبورنویس تحریر کرتا ہے: ”وہ محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جسکا کوئی مددگار نہیں چھڑائیگا۔ وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائیگا۔ اور محتاجوں کی جان کو بچائیگا۔“—زبور ۷۲:۱۲، ۱۳۔
جوںجوں اس نظاماُلعمل کا خاتمہ قریب آئیگا مسیحیوں پر دباؤ بھی بڑھتا جائیگا۔ (متی ۲۴:۹-۱۳) پس، مسیحیوں کو روزانہ ایک دوسرے کیلئے زیادہ فکرمندی دکھانے اور ”آپس میں بڑی محبت“ رکھنے کی ضرورت ہے۔ (۱-پطرس ۴:۷-۱۰) مسیحی بھائیوں، بالخصوص بزرگوں کو یتیموں کیلئے فکرمندی اور ہمدردی ظاہر کرنی چاہئے۔ کلیسیا کی پُختہ بہنیں بیواؤں کو سہارا اور تسلی دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ (ططس ۲:۳-۵) درحقیقت، مصیبت کا تجربہ کرنے والے لوگوں کیلئے دلی فکرمندی دکھانے سے ہم سب اپنااپنا حصہ ادا کر سکتے ہیں۔
سچے مسیحی اپنے ”بھائی کو محتاج دیکھ کر“ اُس پر ”رحم کرنے میں دریغ“ نہیں کرتے۔ وہ یوحنا رسول کی نصیحت پر بخوشی عمل کرتے ہیں: ”اَے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔“ (۱-یوحنا ۳:۱۷، ۱۸) پس ہمیں ”یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت اُنکی خبر“ لینی چاہئے۔—یعقوب ۱:۲۷۔
[صفحہ ۱۱ پر عبارت]
”ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔“ ۱-یوحنا ۳:۱۸
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
سچے مسیحی مادی، روحانی اور جذباتی طور پر یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتے ہیں