ابلیس محض خیالی ہستی نہیں ہے
ابلیس محض خیالی ہستی نہیں ہے
”نیا عہدنامہ ہر جگہ خدائی اور نیکی کی قوتوں اور اس کی دوسری جانب بُرائی کی شیطانی قوتوں کے مابین بڑی کشمکش دیکھتا ہے۔ یہ کسی ایک مصنف کا خیال نہیں ہے بلکہ ایک مشترکہ بنیاد ہے۔ . . . توپھر نئے عہدنامے کی شہادت بالکل واضح ہے۔ شیطان ایک ایسی گھناؤنی حقیقت ہے جو خدا اور اُس کے بندوں کا ہمیشہ مخالف رہا ہے۔“—”دی نیو بائبل ڈکشنری۔“
توپھر کیوں مسیحیت کا اقرار کرنے اور بائبل پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بہتیرے لوگ اس نظریے کو رد کرتے ہیں کہ شیطان ایک حقیقی ہستی ہے؟ درحقیقت، وہ بائبل کو خدا کا کلام تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ (یرمیاہ ۸:۹) اُنکے بقول بائبل مصنّفین نے اپنے اردگرد کی قوموں کی فیلسوفیوں کو منعکس کِیا ہے اور خدا کی طرف سے سچائی کو درست طور پر پیش نہیں کِیا۔ مثال کے طور پر، کیتھولک عالمِدین ہنز کنگ لکھتا ہے: ”شیطانی لشکر سمیت ابلیس کی بابت اساطیری نظریات . . . بابلی اساطیر سے ابتدائی یہودیت میں اور پھر وہاں سے نئے عہدنامہ میں سرایت کر گئے۔“—آن بیئنگ اے کرسچین۔
تاہم بائبل محض آدمیوں کا کلام نہیں ہے؛ یہ درحقیقت خدا کا الہامی کلام ہے۔ لہٰذا، یہ شیطان کی بابت جو کچھ بیان کرتی ہے ہم اُس پر سنجیدگی کے ساتھ دھیان دینے سے دانشمند ثابت ہوں گے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۴-۱۷؛ ۲-پطرس ۱:۲۰، ۲۱۔
یسوع کا نظریہ کیا تھا؟
یسوع مسیح کا ایمان تھا کہ شیطان حقیقی ہستی ہے۔ یسوع کی آزمائش اس کے اندر چھپی کسی بدی سے نہیں ہوئی تھی۔ اس پر ایک حقیقی ہستی نے حملہ کِیا تھا جسے بعدازاں یسوع نے ”دُنیا کا سردار“ کہا۔ (یوحنا ۱۴:۳۰؛ متی ۴:۱-۱۱) اس کا یہ بھی ایمان تھا کہ دیگر روحانی مخلوق نے بھی شیطان کے بُرے منصوبوں میں اُسکی حمایت کی تھی۔ اس نے ’بدرُوح گرفتہ‘ لوگوں کو شفا دی۔ (متی ۱۲:۲۲-۲۸) ایک مُلحدانہ کتاب اے راشنلسٹ انسائیکلوپیڈیا یہ کہتے ہوئے اس کی اہمیت بیان کرتی ہے: ”یہ علمائےدین کے لئے ہمیشہ سے ٹھوکر کی بات رہی ہے کہ کیسے اناجیل کے یسوع نے شیاطین پر اعتقاد کا اقرار کِیا۔“ جب یسوع نے شیطان اور اُسکے شیاطین کا ذکر کِیا تو وہ محض اُن توہمات کو نہیں دہرا رہا تھا جو بابلی اساطیر سے چلتی آ رہی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ وہ واقعی وجود رکھتے ہیں۔
جب ہم اُن الفاظ پر غور کرتے ہیں جو یسوع نے اپنے زمانے کے مذہبی اُستادوں سے کہے تو اس سے ہم شیطان کی بابت بہت کچھ سیکھتے ہیں: ”تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔“—یوحنا ۸:۴۴۔
اس کے مطابق، ابلیس جسکے نام کا مطلب ہے ”تہمتی“ ہے وہ ”جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔“ وہ خدا کی بابت جھوٹ بولنے والی پہلی مخلوق تھا اور اس نے یہ باغِعدن میں کِیا۔ یہوواہ نے کہا تھا کہ اگر ہمارے پہلے والدین نیکوبد کی پہچان کے درخت میں سے کھائینگے تو وہ ضرور ”مر“ جائینگے۔ شیطان نے سانپ کے ذریعے کہا کہ یہ بات سچ نہیں ہے۔ (پیدایش ۲:۱۷؛ ۳:۴) اِسلئے اُسے موزوں طور پر، ”پُرانا سانپ“ کہا گیا ہے ”جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے۔“—مکاشفہ ۱۲:۹۔
ابلیس نے نیکوبد کی پہچان کے درخت کی بابت جھوٹ بولا۔ اُس نے اعتراض کِیا کہ اس درخت میں سے کھانے کی ممانعت کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے؛ یہ اختیار کا سراسر ناجائز استعمال ہے۔ اُس نے آدم اور حوا سے کہا کہ وہ اپنے لئے اچھے اور بُرے کا فیصلہ کرنے کے سلسلے میں ”خدا کی مانند“ بن سکتے ہیں۔ شیطان نے دلالت کی کہ آزاد مرضی کے مالک ہوتے ہوئے انہیں مکمل خودمختاری حاصل ہونی چاہئے۔ (پیدایش ۳:۱-۵) خدا کے حکمرانی کرنے کے حق پر اس حملے نے تشویشناک مسائل کھڑے کر دئے۔ پس یہوواہ نے ان مسائل کو طے کرنے کیلئے وقت دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شیطان کو کچھ عرصہ تک زندہ رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا محدود وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۲) تاہم، وہ اپنی تعلیمات کی ترویج کیلئے یسوع کے زمانے کے فقیہوں اور فریسیوں کی طرح کے لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے دروغگوئی اور مکروفریب سے نسلِانسانی کو خدا سے دُور کر رہا ہے۔—متی ۲۳:۱۳، ۱۵۔
یسوع نے یہ بھی کہا کہ ابلیس ”شروع ہی سے خونی“ تھا اور یہ کہ وہ ”سچائی پر قائم نہیں رہا۔“ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہوواہ نے ابلیس کو ایک ”خونی“ کے طور پر خلق کِیا تھا۔ نہ ہی اسے ایک ایسے عفریت کے طور پر خلق کِیا گیا تھا جو کہ کسی آتشکدہ کی نگرانی کرنے اور خدا کے تمام مخالفین کو اذیت دینے پر مامور تھا۔ درحقیقت ”دوزخ“ شیطان کی سکونتگاہ نہیں ہے۔ یہ محض نوعِانسان کی قبر ہے۔—اعمال ۲:۲۵-۲۷؛ مکاشفہ ۲۰:۱۳، ۱۴۔
ابلیس شروع میں ”سچائی پر قائم“ تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ خدا کے کامل روحانی بیٹے کے طور پر یہوواہ کے آسمانی خاندان کا حصہ تھا۔ لیکن وہ ”سچائی پر قائم نہیں رہا۔“ اُس نے اپنے طورطریقوں اور جھوٹے اصولوں کو ترجیح دی۔ ”شروع ہی سے“ کا مطلب یہ نہیں کہ جب اسے خدا کے ملکوتی بیٹے کے طور پر خلق کیا گیا بلکہ جب اُس نے یہوواہ کے خلاف بغاوت کی اور آدم اور حوا سے جھوٹ بولا۔ ابلیس اُن لوگوں کی مانند ہے جنہوں نے موسیٰ کے زمانے میں یہوواہ کے خلاف بغاوت کی۔ ان کی بابت ہم پڑھتے ہیں: ”یہ لوگ اُسکے ساتھ بُری طرح سے پیش آئے۔ یہ اُسکے فرزند نہیں۔ یہ اُنکا عیب ہے۔“ (استثنا ۳۲:۵) شیطان کی بابت بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ جب اُس نے بغاوت کی اور آدموحوا، درحقیقت سارے انسانی خاندان کی موت کا ذمہدار بن گیا تو اُس وقت وہ ”خونی“ بن گیا۔—رومیوں ۵:۱۲۔
نافرمان فرشتے
شیطان کی بغاوت میں دیگر فرشتے بھی اس کے ساتھ مل گئے۔ (لوقا ۱۱:۱۴، ۱۵) ان فرشتوں نے نوح کے زمانے میں انسانی جسم اختیار کرکے ”آدمی کی بیٹیوں“ کے ساتھ جنسی تعلقات سے لطف اُٹھانے کی خاطر ”اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا۔“ (یہوداہ ۶؛ پیدایش ۶:۱-۴؛ ۱-پطرس ۳:۱۹، ۲۰) ”آسمان کے تہائی [ستاروں]“ یا محدود روحانی خلائق نے یہ روش اختیار کر لی تھی۔—مکاشفہ ۱۲:۴۔
مکاشفہ کی انتہائی علامتی کتاب ابلیس کی تصویرکشی ”ایک [بڑے] لال اژدہا“ کے طور پر کرتی ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۳) کیوں؟ اس وجہ سے نہیں کہ وہ واقعی ایک عجیبوغریب اور غلیظ مخلوق ہے۔ درحقیقت ہم نہیں جانتے کہ روحانی مخلوق کس طرح کا بدن رکھتی ہے لیکن اس لحاظ سے شیطان دیگر ملکوتی روحانی مخلوق سے کچھ فرق نہیں ہے۔ تاہم، ”ایک بڑا لال اژدہا“ شیطان کی غارتگر، ہیبتناک، طاقتور اور تباہکُن فطرت کی موزوں تصویرکشی ہے۔
شیطان اور شیاطین پر آجکل سخت پابندی ہے۔ وہ اب پہلے کی طرح انسانی جسم اختیار نہیں کر سکتے ہیں۔ سن ۱۹۱۴ میں مسیح کے ہاتھوں خدا کی بادشاہت کے قیام کے تھوڑی دیر بعد انہیں زمین کے گردونواح میں پھینک دیا گیا ہے۔—مکاشفہ ۱۲:۷-۹۔
ابلیس ایک ہیبتناک دُشمن
اس سب کے باوجود، شیطان ہیبتناک دُشمن بنا ہوا ہے۔ وہ ”گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔“ (۱-پطرس ۵:۸) وہ ہمارے ناکامل بدن میں بسنے والا بدی کا کوئی مبہم تصور نہیں ہے۔ سچ ہے کہ ہمیں ہر روز اپنے گنہگارانہ رُجحانات کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ (رومیوں ۷:۱۸-۲۰) لیکن حقیقی لڑائی ”تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے [ہے] جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔“—افسیوں ۶:۱۲۔
۱-یوحنا ۵:۱۹) بیشک، ہم ابلیس کے وہم میں مبتلا رہنا یا توہمپرستانہ خوف کی وجہ سے مفلوج ہونا نہیں چاہتے۔ تاہم، ہمیں سچائی سے بےبہرہ رکھنے اور خدا کے لئے ہماری راستی کو توڑنے کی اس کی کوششوں سے خبردار رہ کر ہم دانشمندی کا ثبوت دیں گے۔—ایوب ۲:۳-۵؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۳، ۴۔
ابلیس کا اثرورُسوخ کتنا وسیع ہے؟ یوحنا رسول بیان کرتا ہے کہ ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ (ابلیس خدا کی مرضی پوری کرنے والوں پر حملہآور ہونے کے لئے ہمیشہ ظالمانہ طریقے استعمال نہیں کرتا۔ بعضاوقات، وہ خود کو ”نورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے۔“ پولس رسول نے مسیحیوں کو لکھتے وقت انہیں اس خطرے سے آگاہ کِیا: ”مَیں ڈرتا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح سانپ نے اپنی مکاری سے حوؔا کو بہکایا اُسی طرح تمہارے خیالات بھی اُس خلوص اور پاکدامنی سے ہٹ جائیں جو مسیح کیساتھ ہونی چاہئے۔“—۲-کرنتھیوں ۱۱:۳، ۱۴۔
پس ہمیں ’ہوشیاروبیدار رہنے، اُسکا مقابلہ کرنے اور ایمان میں مضبوط ہونے‘ کی ضرورت ہے۔ (۱-پطرس ۵:۸، ۹؛ ۲-کرنتھیوں ۲:۱۱) جادوٹونے سے واسطہ رکھنے والی کسی بھی چیز میں دل بہلانے سے شیطان کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچیں۔ (استثنا ۱۸:۱۰-۱۲) یہ بات یاد رکھتے ہوئے خدا کے کلام کے اچھے طالبعلم بنیں کہ یسوع مسیح نے ابلیس کے ہاتھوں آزمائے جانے کے وقت بارہا خدا کے کلام کا حوالہ دیا تھا۔ (متی ۴:۴، ۷، ۱۰) خدا کی روح کے لئے دُعا کریں۔ خدا کی روح کے پھل جسم کے کاموں سے بچنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں جنہیں شیطان مؤثر طریقے سے فروغ دیتا ہے۔ (گلتیوں ۵:۱۶-۲۴) نیز شیطان اور اس کے شیاطین کی طرف سے کسی بھی طریقے سے دباؤ محسوس کرنے کی صورت میں مستعدی کے ساتھ یہوواہ سے دُعا کریں۔—فلپیوں ۴:۶، ۷۔
ابلیس سے ڈرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ یہوواہ شیطان کے کاموں کے خلاف حقیقی تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ (زبور ۹۱:۱-۴؛ امثال ۱۸:۱۰؛ یعقوب ۴:۷، ۸) ”خداوند میں اور اُسکی قدرت کے زور میں مضبوط بنو،“ پولس رسول کہتا ہے۔ اسطرح آپ ”ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ“ سکیں گے۔—افسیوں ۶:۱۰، ۱۱۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
یسوع جانتا تھا کہ شیطان ایک حقیقی ہستی ہے
[صفحہ ۶ پر تصویر]
”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے“
[تصویر کا حوالہ]
NASA photo
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے اور باقاعدگی سے دُعا کرنے سے شیطان کا مقابلہ کریں