مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کنونشن—‏ہماری برادری کے خوش‌کُن ثبوت

کنونشن—‏ہماری برادری کے خوش‌کُن ثبوت

کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ قائم رہیں

کنونشن—‏ہماری برادری کے خوش‌کُن ثبوت

پچاس سالہ جوزف ایف.‏ رتھرفورڈ ایک سال کی غیرمنصفانہ قید کے بعد خراب صحت کے باوجود،‏ خوشی سے ہوٹل کے بیرے کی طرح خدمت کر رہا ہے۔‏ وہ گرمجوشی سے ساتھی مسیحیوں کا سامان ہوٹل کے کمرے تک پہنچانے میں اُنکی مدد کر رہا ہے۔‏ اسکے ساتھ قید کاٹنے والے دو ساتھی بائبل طالبعلم رہائش کا انتظار کرنے والے لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کو اُنکے کمرے تفویض کر رہے ہیں۔‏ آدھی رات تک یہ مصروفیات جاری رہتی ہیں۔‏ وہ سب خوشی کے جذبے سے معمور ہیں۔‏ یہ موقع کونسا ہے؟‏

یہ ۱۹۱۹ کا سال ہے اور بائبل طالبعلم (‏زمانۂ‌جدید میں یہوواہ کے گواہ)‏ ہولناک اذیت کے دَور سے گزرنے کے بعد بحالی کی طرف گامزن ہیں۔‏ وہ اپنی برادری کو ازسرِنو تقویت دینے کیلئے ستمبر ۱ تا ۸،‏ ۱۹۱۹ میں سیدر پوائنٹ اوہائیو،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں ایک کنونشن منعقد کر رہے ہیں۔‏ کنونشن کے آخری دن پر ۰۰۰،‏۷ سامعین بھائی رتھرفورڈ کی ولولہ‌انگیز تقریر میں محو ہیں جس میں اُنہوں نے سب کی اِن الفاظ کے ساتھ حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏آپ بادشاہوں کے بادشاہ اور خداوندوں کے خداوند کے ایلچی ہیں جو لوگوں کو .‏ .‏ .‏ ہمارے خداوند کی جلالی بادشاہت کا پیغام سناتے ہیں۔‏“‏

یہوواہ کے لوگ قدیم اسرائیل کے زمانہ سے کنونشنیں منعقد کرتے آئے ہیں۔‏ (‏خروج ۲۳:‏۱۴-‏۱۷؛‏ لوقا ۲:‏۴۱-‏۴۳‏)‏ ایسے اجتماعات حاضرین کی توجہ خدا کے کلام پر مُرتکز کرنے والے خوش‌کُن مواقع ہوتے تھے۔‏ اسی طرح،‏ زمانۂ‌جدید میں یہوواہ کے گواہوں کے کنونشن روحانی مفادات پر مُرکوز ہوتے ہیں۔‏ خلوصدل مشاہدین کیلئے ایسے پُرمسرت اجتماعات اس بات کا ناقابلِ‌تردید ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ گواہ مسیحی برادری کے مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔‏

حاضر ہونے کی کوششیں

زمانۂ‌جدید کے مسیحی جانتے ہیں کہ اُنکے کنونشن روحانی تازگی اور خدا کے کلام سے ہدایت پانے کے مواقع ہوتے ہیں۔‏ وہ اِن بڑے اجتماعات کو ”‏کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم“‏ رہنے میں مدد فراہم کرنے کا لازمی ذریعہ خیال کرتے ہیں۔‏ (‏کلسیوں ۴:‏۱۲‏)‏ پس گواہ پورے دل سے ان اجتماعات پر حاضر ہونے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے ان کی حمایت کرتے ہیں۔‏

بعض اشخاص کے لئے ایسے کنونشنوں پر حاضر ہونا ایمان ظاہر کرنے اور پہاڑنما رکاوٹوں پر قابو پانے کا تقاضا کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ آسٹریا کی ایک عمررسیدہ گواہ پر غور کریں۔‏ اگرچہ اُسے ذیابیطس کی وجہ سے روزانہ انسولین کے ٹیکے لگتے تھے توبھی وہ اپنے ملک میں منعقد ہونے والے ڈسٹرکٹ کنونشن کے تمام دنوں پر حاضر ہوئی۔‏ انڈیا میں گواہوں کے ایک بڑے خاندان کیلئے شدید غربت کی وجہ سے کنونشن پر حاضر ہونا بہت مشکل تھا۔‏ خاندان کی ایک فرد نے اس سلسلے میں مدد پیش کی۔‏ وہ بیان کرتی ہے،‏ ”‏مَیں اس موقع سے غیرحاضر نہیں ہونا چاہتی تھی،‏ لہٰذا اسکے اخراجات پورے کرنے کیلئے مَیں نے اپنی سونے کی بالیاں بیچ دیں۔‏ یہ قربانی رائیگاں نہ گئی کیونکہ مسیحی رفاقت اور تجربات نے ہمارے ایمان کو بڑی تقویت بخشی۔‏“‏

پاپوآ،‏ نیو گنی میں دلچسپی رکھنے والے غیربپتسمہ‌یافتہ اشخاص کا ایک گروہ اپنے ملک کے دارالحکومت میں ڈسٹرکٹ کنونشن پر حاضر ہونے کیلئے پُرعزم تھا۔‏ اُنکے گاؤں میں ایک شخص کے پاس گاڑی تھی لہٰذا اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ وہ اُنہیں کنونشن کی جگہ تک پہنچانے کا کتنا کرایہ لیگا۔‏ چونکہ انکے پاس کرائے کی رقم نہیں تھی اسلئے اُنہوں نے اسکے عوض اُس شخص کے باورچی‌خانے کو دوبارہ تعمیر کرنے کی پیشکش کی۔‏ یوں وہ ڈسٹرکٹ کنونشن کے پورے پروگرام پر حاضر ہو کر اس سے مستفید ہونے کے قابل ہوئے۔‏

کنونشنوں پر حاضر ہونے کا مضبوط ارادہ رکھنے والے یہوواہ کے گواہوں کیلئے فاصلہ ناقابلِ‌تسخیر مسئلہ نہیں ہے۔‏ سن ۱۹۷۸ میں لیل،‏ فرانس کی کنونشن پر حاضر ہونے کے لئے پولینڈ سے ایک نوجوان نمائندے نے اپنی سائیکل پر چھ دنوں میں ۲۰۰،‏۱ کلومیٹر کا سفر طے کِیا۔‏ سن ۱۹۹۷ کے موسمِ‌گرما کے دوران یورکوٹ‌سک،‏ روس میں ایک مسیحی اجتماع پر حاضر ہونے کے لئے منگولیا کے دو گواہوں نے ۲۰۰،‏۱ کلومیٹر سفر کِیا۔‏

حقیقی برادری سرگرمِ‌عمل

مخلص مشاہدین کنونشنوں پر گواہوں کے اتحاد اور بھائی‌چارے کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔‏ بہتیرے لوگ اس بات سے متاثر ہوتے ہیں کہ کنونشن پر موجود حاضرین میں کسی قسم کی جانبداری نہیں پائی جاتی اور پہلی بار ایک دوسرے سے ملنے والے لوگ بھی حقیقی محبت اور گرمجوشی کا اظہار کرتے ہیں۔‏

آسٹریلیا کے ایک حالیہ بین‌الاقوامی کنونشن پر،‏ ایک ہفتے کیلئے آنے والے کنونشن مندوبین کے ہمراہ ایک ٹور گائیڈ بھی تھا جو اُنکی رفاقت سے محظوظ ہونے کیلئے اُن کیساتھ مزید وقت گزارنا چاہتا تھا۔‏ وہ اُنکی محبت اور اتحاد سے بڑا متاثر ہوا اور اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے بیشتر لوگ ایک دوسرے کیلئے بالکل اجنبی ہونے کے باوجود اتفاق اور امن سے رہتے ہیں۔‏ جب اُسکے جانے کا وقت آیا تو اُس نے تمام لوگوں سے توجہ کی درخواست کی۔‏ انہیں ”‏بھائیوں اور بہنوں“‏ کے طور پر مخاطب کرتے ہوئے اُس نے انکا شکریہ ادا کِیا مگر جذبات سے معمور ہوکر رونے لگا اور اپنی بات پوری نہ کر سکا۔‏

سری‌لنکا میں،‏ ۱۹۹۷ میں پہلی بار ایک بڑے سٹیڈیم میں سہ‌لسانی ڈسٹرکٹ کنونشن منعقد ہوا۔‏ پورا پروگرام انگریزی،‏ سنہالی اور تامل زبانوں میں ایک ساتھ پیش کِیا گیا۔‏ نسلیاتی کشیدگی سے بھری اِس دُنیا میں تین مختلف زبانیں بولنے والے گروہوں کے ایسے اجتماع کو نظرانداز نہ کِیا گیا۔‏ ایک پولیس والے نے ایک بھائی سے پوچھا:‏ ”‏یہ کنونشن کون منعقد کر رہے ہیں—‏سنہالی،‏ تامل یا انگریز؟‏“‏ بھائی نے جواب دیا:‏ ”‏ان میں سے کوئی بھی گروہ اس کنونشن کو منعقد نہیں کر رہا ہے۔‏ ہم سب نے ملکر اِسکا اہتمام کِیا ہے۔‏“‏ پولیس والے کو اِس بات کا یقین نہ آیا۔‏ جب سہ‌لسانی گروہوں نے اختتامی دُعا کے بعد ایک ساتھ مل کر ”‏آمین“‏ کہا تو پورے سٹیڈیم میں یہ آواز گونج اُٹھی اور حاضرین بےساختہ تالیاں بجانے لگے۔‏ سامعین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھیں پُرنم نہ ہوں۔‏ جی‌ہاں،‏ کنونشن واقعی ہماری برادری کے خوش‌کُن ثبوت ہیں۔‏—‏زبور ۱۳۳:‏۱‏۔‏ *

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 14 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ جیہوواز وِٹنسز—‏پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈم،‏ صفحہ ۶۶-‏۷۷،‏ ۲۵۴-‏۲۸۲ کو دیکھیں۔‏