یہوواہ کی خدمت میں بااَجر زندگی
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ کی خدمت میں بااَجر زندگی
از رسل کرزن
مَیں پہلی عالمی جنگ چھڑنے کیساتھ ایک غیرمعمولی دَور کے آغاز سے سات سال پہلے ستمبر ۲۲، ۱۹۰۷ میں پیدا ہوا۔ ہمارا خاندان ایک خاص لحاظ سے دولتمند تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ماضی کی بابت کچھ تفصیلات سننے کے بعد آپ اس بات سے اتفاق کرینگے۔
میری دادی کرزن بچپن ہی سے خدا کی بابت سچائی کی تلاش میں تھی۔ جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے وہ سوئٹزرلینڈ میں اپنے خوبصورت آبائی شہر سپیٹز کے مختلف گرجاگھروں میں جا چکی تھی۔ ان کی شادی کے کچھ ہی سالوں بعد، ۱۸۸۷ میں کرزن خاندان بھی دیگر کئی لوگوں کیساتھ ریاستہائےمتحدہ نقلمکانی کر گیا۔
یہ خاندان اوہائیو میں آباد ہو گیا جہاں سن ۱۹۰۰ میں دادی کو وہ خزانہ مِل ہی گیا جس کی اُسے تلاش تھی۔ یہ خزانہ جرمن زبان میں چارلس ٹیز رسل کی کتاب دی ٹائم از ایٹ ہینڈ میں پنہاں تھا۔ وہ جلد ہی سمجھ گئی کہ اِس کتاب کی باتوں میں بائبل سچائی کا نور ہے۔ اگرچہ دادی انگریزی زبان مشکل سے پڑھ پاتی تھیں توبھی اُنہوں نے انگریزی کے مینارِنگہبانی رسالے کا سالانہ چندہ لگوا لیا۔ یوں اُنہوں نے مزید بائبل سچائیوں کے علاوہ انگریزی زبان بھی سیکھی۔ دادا نے کبھی اپنی بیوی کی طرح روحانی معاملات میں دلچسپی نہیں لی تھی۔
دادی کرزن کے ۱۱ بچوں میں سے دو لڑکوں، جان اور ایڈولف نے دادی کو ملنے والے روحانی خزانے کے لئے قدردانی ظاہر کی۔ جان میرا والد تھا جن کا بپتسمہ ۱۹۰۴ میں اُس وقت بائبل طالبعلم کہلانے والے یہوواہ کے گواہوں کے سینٹ لوئیز، میسوری کنونشن پر ہوا تھا۔ چونکہ بہتیرے بائبل طالبعلموں کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے اسلئے کنونشن کو سینٹ لوئیز
میں عالمی میلے کے وقت پر ہی منعقد کِیا گیا تاکہ ریل کے خاص رعایتی کرائے سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ بعدازاں، ۱۹۰۷ میں میرے چچا ایڈولف نے نیاگرا فالز، نیو یارک میں ایک کنونشن پر بپتسمہ لیا۔ میرے والد اور چچا نے گرمجوشی کیساتھ بائبل سے سیکھی ہوئی باتوں کی منادی کی اور آخرکار وہ دونوں کُلوقتی خادم (اب انہیں پائنیر کہا جاتا ہے) بن گئے۔لہٰذا، جب مَیں ۱۹۰۷ میں پیدا ہوا تو میرا خاندان پہلے ہی سے روحانی طور پر دولتمند تھا۔ (امثال ۱۰:۲۲) سن ۱۹۰۸ میں جب مَیں چھوٹا بچہ ہی تھا تو میرے والدین، جان اور ایڈا مجھے پٹ-اِن-بے، اوہائیو کے کنونشن ”آن ٹو وکٹری (فتح کی جانب گامزن)“ پر لے کر گئے۔ اُس وقت کا سفری نگہبان، جوزف ایف. رتھرفورڈ کنونشن چیئرمین تھا۔ کچھ ہفتے پہلے ہی وہ ڈلٹن، اوہائیو آیا تھا جہاں اُس نے ہمارے گھر پر مقامی بائبل طالبعلموں کیلئے تقاریر پیش کی تھیں۔
بیشک مجھے ذاتی طور پر تو وہ مواقع یاد نہیں تاہم مجھے ۱۹۱۱ میں ماؤنٹین لیک پارک، میریلینڈ کا کنونشن اچھی طرح یاد ہے۔ وہاں مَیں اور میری چھوٹی بہن آستر دُنیابھر میں بائبل طالبعلموں کی منادی کے نگران چارلس ٹیز رسل سے ملے تھے۔
جون ۲۸، ۱۹۱۴ کے دن جب سرائیوو میں آرچڈیوک فرڈینانڈ اور اُسکی اہلیہ کے خفیہ قتل کے باعث پوری دُنیا جنگ کی زد میں تھی تو مَیں اپنے خاندان کیساتھ کولمبس، اوہائیو کی پُرامن کنونشن پر حاضر تھا۔ ان ابتدائی سالوں ہی سے مجھے یہوواہ کے لوگوں کے کئی کنونشنوں پر حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ایسے بعض اجتماعات پر حاضری صرف ایک سو یا اس سے کچھ زیادہ ہوا کرتی تھی۔ تاہم، کچھ اجتماعات اتنے بڑے تھے کہ انہیں دُنیا کے سب سے بڑے سٹیڈیمز میں منعقد کِیا گیا تھا۔
ایک موزوں علاقے میں ہمارا گھر
پٹسبرگ، پینسلوانیا اور کلیولینڈ، اوہائیو کے درمیان، ڈلٹن میں ہمارے گھر پر ۱۹۰۸ سے لیکر ۱۹۱۸ تک بائبل طالبعلموں کی چھوٹی سی کلیسیا کے اجلاس منعقد ہوتے رہے۔ ہمارا گھر کئی سفری مقررین کی خاطرتواضع کا مرکز بن گیا۔ وہ اپنے گھوڑوں اور بگھیوں کو ہمارے باڑے کے پیچھے باندھا کرتے تھے اور گھر پر موجود افراد کو دلچسپ تجربات اور بائبل سچائیاں سنایا کرتے تھے۔ وہ کیا ہی حوصلہافزا وقت تھا!
میرے والد سکول ٹیچر تھے لیکن وہ عظیم تعلیمی کام، مسیحی خدمتگزاری کو دل سے چاہتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے خاندان کو یہوواہ کی بابت تعلیم دینے
کی ہر ممکن کوشش کی اور ہم ہر شام خاندان کے طور پر دُعا کِیا کرتے تھے۔ والد نے ۱۹۱۹ کے موسمِبہار میں ہمارا گھوڑا اور بگھی بیچ کر ۱۷۵ ڈالر میں ۱۹۱۴ فورڈ کار خرید لی تاکہ وہ منادی کے دوران زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی کر سکے۔ اسی کار میں ہمارا خاندان ۱۹۱۹ اور ۱۹۲۲ میں سیدر پوائنٹ اوہائیو میں منعقد ہونے والے بائبل طالبعلموں کے مشہور کنونشنوں پر حاضر ہوا۔ہمارا پورا خاندان—امی؛ ابو؛ آستر؛ میرا چھوٹا بھائی جان اور مَیں—منادی میں حصہ لیا کرتا تھا۔ مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب پہلی بار ایک صاحبِخانہ نے مجھ سے بائبل پر مبنی سوال پوچھا۔ مَیں تقریباً سات سال کا تھا۔ اُس شخص نے پوچھا، ”بیٹا ہرمجدون کیا ہے؟“ اپنے والد کی مدد کیساتھ مَیں اُسے بائبل میں سے جواب دینے کے قابل ہوا تھا۔
کُلوقتی خدمت کا آغاز
ہمارا خاندان ۱۹۳۱ میں کولمبس اوہائیو کنونشن پر حاضر ہوا جہاں ہم نیا نام یہوواہ کے گواہ اپنا کر بیحد خوش ہوئے۔ جان اسقدر خوش تھا کہ اُس نے فیصلہ کِیا کہ اُسے اور مجھے پائنیر خدمت شروع کر دینی چاہئے۔ * ہمارے علاوہ ہمارے والدین اور آستر نے بھی ایسا ہی کِیا۔ ہمارے پاس کیا ہی شاندار خزانہ تھا—خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی کے پُرمسرت کام میں متحد خاندان! مَیں اس برکت کیلئے ہمیشہ یہوواہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اگرچہ ہم بہت خوش تھے توبھی مزید خوشیاں ابھی ہماری منتظر تھیں۔
مَیں نے فروری ۱۹۳۴ میں بروکلن، نیو یارک میں یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈکوارٹرز (بیتایل) میں خدمت شروع کر دی۔ کچھ ہفتوں بعد جان بھی میرے ساتھ خدمت کرنے لگا۔ ہم دونوں ایک ہی کمرے میں رہتے تھے لیکن بعدازاں ۱۹۵۳ میں اُسکی شادی جسی سے ہوگئی جس سے اُسے بہت پیار تھا۔
میرے اور جان کے بیتایل جانے کے بعد ہمارے والدین نے ملک کے مختلف علاقوں میں پائنیر تفویضات قبول کیں جن میں آستر اور اُسکا شوہر جارج ریڈ بھی ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ ہمارے والدین نے ۱۹۶۳ میں اپنی زمینی زندگی کے اختتام تک پائنیر خدمت جاری رکھی۔ آستر اور اُسکے شوہر نے بڑی عمدگی سے اپنے خاندان کی پرورش کی جس کے باعث مجھے بیحد عزیز بھانجیبھانجوں کی برکت حاصل ہے۔
بیتایل میں کام اور رفاقت
جان نے بیتایل میں اپنی تکنیکی مہارتیں بروئےکار لاتے ہوئے دوسرے بیتایل ارکان کیساتھ مل کر سفری فونوگرافس کی تیاری جیسے دیگر پروجیکٹس پر کام کِیا۔ انہیں ہزاروں یہوواہ کے گواہ اپنی گھرباگھر منادی میں استعمال کِیا کرتے تھے۔ جان نے سالانہ چندے لگوانے والے انفرادی اشخاص کیلئے رسالے پارسل کرنے اور ان پر لیبل لگانے والی مشینوں کی نمونہسازی اور تیاری میں بھی مدد کی۔
مَیں نے اپنی بیتایل خدمت کا آغاز کتابوں کی جِلدسازی کے شعبے سے کِیا۔ اُس وقت اس فیکٹری میں کام کرنے والے نوجوان اب بھی بیتایل میں وفاداری سے خدمت کر رہے ہیں۔ ان میں کیری باربر اور رابرٹ ہیٹزفیلڈ شامل ہیں۔ ایسے دیگر بھائیوں میں ناتھن نار، کارل کلائن، لےمین سونگل، کلاؤس جینسن، گرانٹ سوٹر، جارج گینگس، اورن ہبارڈ، جان سیورس، رابرٹ پین، چارلس فیکل، بینو برچک اور جان پیری شامل ہیں جو وفات پا چکے ہیں مگر مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ اُنہوں نے وفاداری سے سالہاسال کسی شکایت یا ”ترقی“ کی توقع کے بغیر اپنی خدمت جاری رکھی۔ تاہم، تنظیم کی ترقی ان میں سے کئی روح سے مسحشُدہ وفادار مسیحیوں کیلئے اضافی ذمہداریوں کا باعث بنی۔ بعض نے یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی میں بھی خدمت انجام دی۔
خودایثارانہ جذبہ رکھنے والے ان بھائیوں کیساتھ کام کرنے سے مَیں نے ایک اہم سبق سیکھا۔ دُنیاوی کام کرنے والوں کو اپنی محنت کی اُجرت ملتی ہے۔ یہ انکا اَجر ہوتا ہے۔ بیتایل میں خدمت کرنا کثیر روحانی برکات پر منتج ہوتا ہے اور صرف روحانی مردوزن ہی ایسے اَجر کی قدر کرتے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۲:۶-۱۶۔
ناتھن نار جو ۱۹۲۳ میں ایک نوجوان کے طور پر بیتایل آیا تھا، ۱۹۳۰ کے دہے میں فیکٹری اوورسیئر بن گیا۔ وہ ہر روز فیکٹری سے گزرتے وقت ہر کارکُن
کو سلام کِیا کرتا تھا۔ بیتایل میں آنے والے نئے اشخاص ایسی ذاتی دلچسپی کی بڑی قدر کِیا کرتے تھے۔ ہمیں ۱۹۳۶ میں جرمنی سے ایک نئی پرنٹنگ پریس ملی جس کے پُرزوں کو جوڑنے میں بعض نوجوان بھائیوں کو بہت مشکل پیش آئی۔ لہٰذا، بھائی نار نے اپنے کپڑوں پر ایک موٹا سا لباس پہن کر ان کیساتھ اس پر ایک مہینے سے زائد عرصہ کام کِیا جس کے بعد یہ چلنے لگی۔بھائی نار اسقدر محنتی شخص تھا کہ ہم میں سے بہتیرے لوگ اس کی طرح کام نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم اسے تفریح سے لطفاندوز ہونا بھی آتا تھا۔ جنوری ۱۹۴۲ میں یہوواہ کے گواہوں کی عالمگیر منادی کی نگرانی کی ذمہداری اُٹھانے کے بعد بھی وہ بعضاوقات بیتایل خاندان کے ارکان اور گلئیڈ مشنری سکول کے طالبعلموں کیساتھ نیو یارک، ساؤتھ لانسنگ کے کیمپس میں بیسبال کھیلا کرتا تھا۔
اپریل ۱۹۵۰ میں بیتایل خاندان ۱۲۴ کولمبیا ہائٹس، بروکلن، نیو یارک میں واقع ہماری نئی دس منزلہ رہائشی عمارت میں منتقل ہو گیا۔ نئے ڈائننگ روم میں ہم سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے۔ اس رہائشگاہ کی تعمیر کے تقریباً تین سالوں کے دوران ہم اپنی صبح کی پرستش کا پروگرام منعقد نہیں کر پائے تھے۔ وہ وقت کیا ہی پُرمسرت تھا جب یہ پروگرام دوبارہ شروع کِیا گیا! بھائی نار نے خاندان کے نئے ارکان کے نام یاد کرانے میں اُن کی مدد کے لئے مجھے چیئرمین ٹیبل پر اپنے ساتھ بیٹھنے کے لئے مقرر کِیا۔ مَیں ۵۰ سالوں تک صبح کی پرستش اور ناشتے کے لئے اسی کرسی پر بیٹھتا تھا۔ پھر اگست ۴، ۲۰۰۰ کو یہ ڈائننگ روم بند کر دیا گیا اور مجھے سابقہ ٹاورز ہوٹل کے ازسرِنو آراستہ کئے گئے ڈائننگ رومز میں سے ایک میں منتقل کر دیا گیا۔
مَیں نے ۱۹۵۰ کے دہے میں کچھ عرصہ تک فیکٹری میں لائنوٹائپ مشین پر ٹائپ کی سطر تیار کرنے کا کام کِیا جنہیں پرنٹنگ پلیٹ کی تیاری میں صفحوں کی صورت میں جمع کِیا جاتا تھا۔ یہ کام مجھے کچھ خاص پسند نہیں تھا لیکن ان مشینوں کی نگرانی کرنے والے بھائی ولیم پیٹرسن کا رویہ میرے ساتھ اسقدر عمدہ تھا کہ مَیں نے وہاں اچھا وقت گزارا۔ پھر ۱۹۶۰ میں ۱۰۷ کولمبیا ہائٹس پر نئی رہائشی عمارت کو رنگ کرنے کے لئے رضاکاروں کی ضرورت پڑی۔ مَیں نے ہمارے بڑھتے ہوئے بیتایل خاندان کے لئے ان نئی سہولیات کی تیاری میں خوشی کے ساتھ اپنی خدمات پیش کیں۔
مَیں ۱۰۷ کولمبیا ہائٹس بلڈنگ کو رنگ کرنے کے کچھ ہی دیر بعد بیتایل میں مہمانوں کا استقبال کرنے کی تفویض اچانک ملنے پر بہت خوش ہوا۔ استقبالکنندہ کے طور پر میری خدمت کے گزشتہ ۴۰ سال بیتایل میں گزارے گئے تمام سالوں سے زیادہ شاندار رہے ہیں۔ مہمانوں سے لیکر بیتایل خاندان کے نئے ممبران تک بیتایل آنے والے ہر شخص کیساتھ بادشاہتی ترقی کیلئے کام کرنے کی ہماری مشترکہ کوششوں کے نتائج پر غور کرنا ہیجانخیز تجربہ رہا ہے۔
بائبل کے مستعد طالبعلم
ہمارا بیتایل خاندان روحانی طور پر خوشحال ہے کیونکہ اسکے ارکان بائبل سے محبت کرتے ہیں۔ شروع میں جب مَیں بیتایل آیا تو مَیں نے پروف ریڈر کے طور پر کام کرنے والی بہن ایما ہیملٹن سے پوچھا کہ اُس نے کتنی بار بائبل پڑھی ہے۔ اُس نے جواب دیا، ”پینتیس مرتبہ کے بعد مَیں اس کا حساب نہیں رکھ پائی۔“ اسی دوران بیتایل میں خدمت کرنے والا ایک اَور پُختہ مسیحی اینٹن کوئربر کہا کرتا تھا: ”بائبل ہمیشہ قابلِرسائی جگہ پر رکھیں۔“
سن ۱۹۱۶ میں بھائی رسل کی موت کے بعد جوزف ایف. رتھرفورڈ نے انکی تنظیمی ذمہداریاں سنبھالی۔ رتھرفورڈ ایک اثرآفرین اور تجربہکار عوامی مقرر تھا جس نے ایک وکیل کے طور پر ریاستہائےمتحدہ کے سپریم کورٹ میں یہوواہ کے گواہوں کے حق میں مقدمات لڑے تھے۔ سن ۱۹۴۲ میں رتھرفورڈ کی موت کے بعد بھائی نار نے ان کی جگہ لی اور عوامی فنِتقریر کی اپنی مہارت کو بہتر بنانے کی سخت کوشش کی۔ چونکہ مَیں ان کے ساتھ والے کمرے میں رہتا تھا، لہٰذا مَیں اکثر انہیں اپنی تقاریر بار بار دہراتے ہوئے سنتا تھا۔ وقت آنے پر ایسی مستعد کوششوں کے ذریعے وہ ایک عمدہ عوامی مقرر بن گئے۔
بھائی نار نے فروری ۱۹۴۲ میں بیتایل میں ہم سب بھائیوں کے فنِتقریروتعلیم کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دینے کیلئے ایک پروگرام شروع کِیا۔ یہ سکول بائبل تحقیق اور عوامی فنِتقریر پر مُرتکز تھا۔ اس کے آغاز پر ہم سب کو بائبل کرداروں کی بابت مختصر تقاریر پیش کرنے کی تفویض ملی۔
میری پہلی تقریر موسیٰ کی بابت تھی۔ یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں ۱۹۴۳ میں ایسا ہی ایک سکول شروع کِیا گیا جو آج تک جاری ہے۔ اب بھی بیتایل میں بائبل علم حاصل کرنے اور مؤثر تعلیمی طریقوں کو فروغ دینے پر زور دیا جاتا ہے۔فروری ۱۹۴۳ میں گلئیڈ مشنری سکول کی پہلی کلاس منعقد ہوئی۔ اب گلئیڈ کی ۱۱۱ ویں کلاس کے طالبعلم حال ہی میں فارغالتحصیل ہوئے ہیں! اس سکول نے اپنی ۵۸ سال سے زائد عرصے کی کارکردگی کے دوران دُنیابھر میں مشنریوں کے طور پر خدمت انجام دینے کیلئے ۰۰۰،۷ سے زیادہ اشخاص کی تربیت کی ہے۔ قابلِغور بات یہ ہے کہ ۱۹۴۳ میں جب یہ سکول شروع ہوا تو اُس وقت دُنیابھر میں ۰۰۰،۰۰،۱ سے کچھ ہی زیادہ یہوواہ کے گواہ تھے۔ اب خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی میں حصے لینے والوں کی تعداد ۰۰۰،۰۰،۶۰ سے زائد ہے!
اپنے روحانی ورثے کی قدر کرنا
گلئیڈ کے قیام کے کچھ عرصہ پہلے بیتایل میں سے ہم تین ارکان کو ریاستہائےمتحدہ کی کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کی تفویض سونپی گئی۔ ہم ان کلیسیاؤں کو روحانی طور پر مضبوط کرنے کی خاطر ان کیساتھ ایک یا اس سے زیادہ دن یا ایک ہفتے تک رہتے تھے۔ ہمیں بھائیوں کے خادم کہا جاتا تھا لیکن بعدازاں یہ نام بدل کر سرکٹ خادم یا سرکٹ اوورسیئر رکھ دیا گیا۔ تاہم گلئیڈ سکول شروع ہونے کے بعد بہت جلد مجھے کچھ کورسس پڑھانے کیلئے واپس بلایا گیا۔ مَیں نے دوسری سے پانچویں کلاس کے باقاعدہ اُستاد کے طور پر خدمت کی اور ۱۴ ویں کلاس کو بھی ایک باقاعدہ اُستاد کی جگہ پڑھایا تھا۔ طالبعلموں کیساتھ یہوواہ کی تنظیم کی جدید تاریخ کے حیرتانگیز ابتدائی واقعات پر نظرثانی کرنے سے—جن میں سے بیشتر مَیں ذاتی تجربے سے بیان کر سکتا تھا—میرے دل میں اپنے روحانی ورثے کیلئے اَور زیادہ قدردانی پیدا ہو گئی۔
یہوواہ کے لوگوں کے بینالاقوامی کنونشنوں پر حاضری ایک اَور استحقاق ہے جس سے مَیں ان سالوں میں مستفید ہوا ہوں۔ مَیں ۱۹۶۳ میں ۵۰۰ سے زائد نمائندوں کے ساتھ دُنیابھر میں ”ایورلاسٹنگ گڈ نیوز (ابدی خوشخبری)“ کے کنونشنوں پر حاضر ہوا۔ دیگر تاریخساز کنونشنیں جن پر مَیں حاضر ہوا ۱۹۸۹ میں وارسا، پولینڈ، ۱۹۹۰ میں برلن، جرمنی اور ۱۹۹۳ میں ماسکو، روس میں منعقد ہوئے۔ ہر کنونشن پر مجھے نازی حکومت، کمیونسٹ حکومت یا ان دونوں حکومتوں کے تحت عشروں سے اذیت برداشت کرنے والے بہنبھائیوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ یہ تجربات کتنے ایمانافزا تھے!
یہوواہ کی خدمت میں میری زندگی واقعی روحانی طور پر نہایت بااَجر ثابت ہوئی ہے! روحانی برکات کی یہ فراہمی لامحدود ہے۔ نیز مادی دولت کے برعکس، ہم جتنا زیادہ ان بیشقیمت چیزوں کو دوسروں میں بانٹتے ہیں ہماری دولت اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ مَیں نے بعضاوقات کچھ اشخاص کو یہ کہتے سنا ہے کہ کاش اُن کی پرورش یہوواہ کے گواہوں کے طور پر نہ ہوئی ہوتی۔ اُنکا کہنا ہے کہ اگر وہ پہلے خدا کی تنظیم کے باہر زندگی کا تجربہ کرتے تو پھر وہ بائبل سچائیوں کی زیادہ قدر کرنے کے قابل ہوتے۔
جب مَیں نوجوانوں کو یہ کہتے سنتا ہوں تو مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہوواہ کی راہوں کے علم کے بغیر پرورش پانا بہتر ہے۔ تاہم، اُن تمام بُری عادات اور غلط خیالات کی بابت سوچیں جن سے لوگوں کو اپنی زندگی میں بائبل سچائی جاننے کے بعد نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ مَیں ہمیشہ اس بات کیلئے بڑا شکرگزار رہا ہوں کہ میرے والدین نے اپنے تینوں بچوں کی پرورش راستی کی راہوں میں کی۔ جان جولائی ۱۹۸۰ میں اپنی موت کے وقت تک یہوواہ کا ایک وفادار خادم رہا اور آستر آج بھی ایک وفادار گواہ ہے۔
میرے لئے کئی وفادار مسیحی بہنبھائیوں کے ساتھ عمدہ رفاقتوں کی یادیں نہایت گرانقدر ہیں۔ مَیں نے بیتایل میں ۶۷ سے زائد شاندار سال گزارے ہیں۔ اگرچہ مَیں نے کبھی شادی نہیں کی توبھی میرے کئی روحانی بیٹےبیٹیاں اور پوتےپوتیاں اور نواسےنواسیاں ہیں۔ یہ سوچ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے عالمگیر روحانی خاندان کے عزیز نئے ارکان سے ابھی میری ملاقات ہونی ہے جن میں سے ہر ایک بیشقیمت ہے۔ یہ الفاظ کس قدر سچ ہیں: ”[یہوواہ] ہی کی برکت دولت بخشتی ہے“!—امثال ۱۰:۲۲۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 16 مَیں نے مارچ ۸، ۱۹۳۲ میں بپتسمہ لیا۔ درحقیقت میرا بپتسمہ اس فیصلے کے بعد ہوا کہ مجھے پائنیر بننا چاہئے۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
بائیں سے دائیں: میرا والد اور ان کی گود میں میرا بھائی جان، آستر، مَیں اور میری والدہ
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
سن ۱۹۴۵ میں گلئیڈ کلاس کو پڑھاتے ہوئے
اُوپر دائیں جانب: گلئیڈ سکول کے اُستاد ایڈوارڈو کیلر، فریڈ فرینز، مَیں اور البرٹ شروڈر
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
یہوواہ کی خدمت میں اپنی بااَجر زندگی پر غور کرتے ہوئے