مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کا خوف ماننے والا دل پیدا کریں

یہوواہ کا خوف ماننے والا دل پیدا کریں

یہوواہ کا خوف ماننے والا دل پیدا کریں

‏”‏کاش اُن میں ایسا ہی دل ہو تاکہ وہ میرا خوف مانکر ہمیشہ میرے سب حکموں پر عمل کرتے۔‏“‏ —‏استثنا ۵:‏۲۹‏۔‏

۱.‏ ہم کیسے یقین رکھ سکتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن لوگ خوف سے آزادی ضرور حاصل کرینگے؟‏

خوف نے صدیوں سے نسلِ‌انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔‏ بھوک،‏ بیماری،‏ جُرم یا جنگ کا خوف لاکھوں لوگوں کو مسلسل پریشان رکھتا ہے۔‏ اسی وجہ سے حقوقِ‌انسانی کا عالمگیر منشور ایسی دُنیا لانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے جہاں تمام انسان خوف سے آزادی حاصل کریں گے۔‏ * خوشی کی بات ہے کہ خدا بھی ہمیں اِس بات کا یقین دلاتا ہے کہ ایسی دُنیا ضرور آئیگی لیکن یہ انسانی کوششوں سے نہیں آئے گی۔‏ یہوواہ اپنے نبی میکاہ کی معرفت،‏ ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ اُس کی راست نئی دُنیا میں ’‏کوئی بھی شخص اس کے لوگوں کو نہیں ڈرائے گا۔‏‘‏—‏میکاہ ۴:‏۴‏۔‏

۲.‏ (‏ا)‏ صحائف ہمیں خدا کا خوف ماننے کی تاکید کیسے کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ جب ہم خدا کا خوف ماننے کے اپنے فرض پر غور کرتے ہیں تو کونسے سوال پیدا ہوتے ہیں؟‏

۲ اس کے برعکس،‏ خوف ایک مثبت قوت بھی ہو سکتا ہے۔‏ صحائف میں خدا کے خادموں کو بارہا یہوواہ کا خوف ماننے کی تاکید کی گئی ہے۔‏ موسیٰ نے اسرائیلیوں کو حکم دیا:‏ ”‏تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کا خوف ماننا اور اُسی کی عبادت کرنا۔‏“‏ (‏استثنا ۶:‏۱۳‏)‏ صدیوں بعد سلیمان نے لکھا:‏ ”‏خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِ‌کُلی یہی ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱۳‏)‏ اسی طرح ہم ملکوتی نگرانی کے تحت گواہی دینے کے اپنے کام کے ذریعے تمام لوگوں کو تاکید کرتے ہیں کہ ”‏خدا سے ڈرو اور اُس کی تمجید کرو۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ یہوواہ سے ڈرنے کے علاوہ،‏ مسیحیوں کو اپنے سارے دل سے اس سے محبت رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ ہم بیک‌وقت خدا سے محبت رکھتے ہوئے اس کا خوف کیسے مان سکتے ہیں؟‏ ایک پُرمحبت خدا کا خوف ماننا کیوں ضروری ہے؟‏ ہم خدائی خوف پیدا کرنے سے کونسے فوائد حاصل کرتے ہیں؟‏ ان سوالوں کے جواب کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا کے خوف کا مطلب کیا ہے اور اس طرح کا خوف یہوواہ کے ساتھ ہمارے رشتے کا بنیادی جُزو کیسے ہے۔‏

مؤدبانہ احترام،‏ تعظیم اور خوف

۳.‏ خدا کے خوف کا کیا مطلب ہے؟‏

۳ خدا کا خوف ایک ایسا احساس ہے جو مسیحیوں کو اپنے صانع کے لئے رکھنا چاہئے۔‏ ایک تعریف کے مطابق یہ خوف ”‏خالق کا مؤدبانہ احترام اور گہری تعظیم اور اسے ناراض کرنے کا خوشگوار ڈر ہے۔‏“‏ لہٰذا،‏ خدا کا خوف ہماری زندگیوں کے دو اہم پہلوؤں پر اثرانداز ہوتا ہے:‏ خدا کی بابت ہمارا رُجحان اور اُس کی نظر میں ناپسندیدہ چال‌چلن کی بابت ہمارا رُجحان۔‏ یقیناً،‏ یہ دونوں پہلو نہایت ضروری اور گہری توجہ کے مستحق ہیں۔‏ وائن کی ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف نیو ٹیسٹامنٹ ورڈز کے مطابق مسیحیوں کے لئے یہ مؤدبانہ خوف ’‏روحانی اور اخلاقی دونوں معاملات میں زندگی کا بنیادی محرک ہے۔‏‘‏

۴.‏ ہم اپنے خالق کیلئے مؤدبانہ خوف اور احترام کا احساس کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

۴ ہم اپنے خالق کے لئے مؤدبانہ احترام اور تعظیم کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏ جب ہم کوئی قدرتی نظارہ،‏ دلکش آبشار یا غروبِ‌آفتاب کا قابلِ‌دید منظر دیکھتے ہیں تو ہم حیرت‌زدہ ہو جاتے ہیں۔‏ جب ہم ایمان کی آنکھوں سے ان تخلیقی کاموں کے پیچھے کارفرما ہاتھ دیکھتے ہیں تو یہ احساس اَور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ بادشاہ داؤد کی طرح ہمیں یہوواہ کی وسیع‌وعریض تخلیق کے مقابلے میں اپنی ادنیٰ حیثیت کا احساس ہونے لگتا ہے۔‏ ”‏جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دستکاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جن کو تُو نے مقرر کِیا غور کرتا ہوں توپھر انسان کیا ہے کہ تُو اُسے یاد رکھے اور آدم‌زاد کیا ہے کہ تُو اُس کی خبر لے؟‏“‏ (‏زبور ۸:‏۳،‏ ۴‏)‏ یہ مؤدبانہ خوف احترام کرنے کا باعث بنتا ہے جو ہمیں ہماری خاطر کئے جانے والے یہوواہ کے کاموں کا شکر اور ستائش کرنے کی تحریک دیتا ہے۔‏ داؤد نے یہ بھی لکھا:‏ ”‏مَیں تیرا شکر کرونگا کیونکہ مَیں عجیب‌وغریب طور سے بنا ہوں تیرے کام حیرت‌انگیز ہیں۔‏ میرا دل اسے خوب جانتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۳۹:‏۱۴‏۔‏

۵.‏ ہمیں یہوواہ کا خوف کیوں ماننا چاہئے اور اس سلسلے میں ہمارے پاس کونسا عمدہ نمونہ ہے؟‏

۵ احترام اور تعظیم کا احساس خالق کی حیثیت سے خدا کی قدرت اور کائنات کے جائز حکمران کے طور پر اس کے اختیار کا خوشگوار اور مؤدبانہ خوف پیدا کرتا ہے۔‏ ایک رویا میں یوحنا رسول نے دیکھا کہ ”‏حیوان اور اس کے بُت .‏ .‏ .‏ پر غالب“‏ آنے والے—‏اپنے آسمانی مرتبے میں مسیح کے ممسوح پیروکار—‏اعلان کرتے ہیں:‏ ”‏اَے ازلی بادشاہ!‏ تیری راہیں راست اور درست ہیں۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏!‏ کون تجھ سے نہ ڈرے گا؟‏ اور کون تیرے نام کی تمجید نہ کرے گا؟‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۵:‏۲-‏۴‏)‏ اس کے جاہ‌وجلال کے لئے گہری تعظیم سے پیدا ہونے والا خدا کا خوف،‏ آسمانی بادشاہت میں مسیح کے ساتھ ان ساتھی حکمرانوں کی راہنمائی کرتا ہے کہ اعلیٰ‌وبالا ہستی کے طور پر خدا کی عزت کریں۔‏ جب ہم یہوواہ کے سب کاموں اور کائنات کو چلانے کے راست طریقے پر غور کرتے ہیں تو کیا ہمارے پاس اس کا خوف ماننے کی کافی وجہ نہیں ہے؟‏—‏زبور ۲:‏۱۱؛‏ یرمیاہ ۱۰:‏۷‏۔‏

۶.‏ ہمیں یہوواہ کو ناراض کرنے کا خوشگوار ڈر کیوں رکھنا چاہئے؟‏

۶ تاہم،‏ مؤدبانہ خوف اور تعظیم کے علاوہ،‏ خدا کے خوف میں اسے ناراض کرنے یا اس کے نافرمان ہونے کا خوشگوار ڈر بھی شامل ہونا چاہئے۔‏ کیوں؟‏ اِسلئےکہ یہوواہ ”‏قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی“‏ ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ”‏مجرم کو ہرگز بری نہیں کریگا۔‏“‏ (‏خروج ۳۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ شفیق اور رحمدل ہونے کے باوجود یہوواہ ناراستی اور دانستہ غلط‌کاری کو برداشت نہیں کرتا۔‏ (‏زبور ۵:‏۴،‏ ۵؛‏ حبقوق ۱:‏۱۳‏)‏ یہوواہ کے حضور دانستہ اور غیرتائب رُجحان کیساتھ بدی اور مخالفت کرنے والے بےسزا نہ چھوٹیں گے۔‏ پولس رسول کے بیان کے مطابق ”‏زندہ خدا کے ہاتھوں میں پڑنا ہولناک بات ہے۔‏“‏ ایسی صورتحال میں پڑنے کا خوشگوار ڈر رکھنا ہمارے لئے حتمی تحفظ ہے۔‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۱‏۔‏

‏”‏تم .‏ .‏ .‏ اُسی سے لپٹے رہنا“‏

۷.‏ یہوواہ کی نجات‌بخش قوت پر توکل کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟‏

۷ خدا کا مؤدبانہ خوف اور اس کی مہیب قدرت سے آگہی یہوواہ پر توکل اور اعتماد کے لوازمات ہیں۔‏ جیسے ایک بچہ اپنے باپ کے نزدیک ہونے سے تحفظ محسوس کرتا ہے اسی طرح ہم یہوواہ کی راہنمائی کے تحت محفوظ اور پُراعتماد محسوس کرتے ہیں۔‏ غور کریں کہ جب یہوواہ اسرائیلیوں کو مصر سے نکال لایا تو اُنہوں نے کیسا محسوس کِیا:‏ ”‏اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو [‏یہوواہ]‏ نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ [‏یہوواہ]‏ سے ڈرے اور [‏یہوواہ]‏ پر .‏ .‏ .‏ ایمان لائے۔‏“‏ (‏خروج ۱۴:‏۳۱‏)‏ الیشع کا تجربہ بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ سے ڈرنے والوں کی چاروں طرف اُسکا فرشتہ خیمہ‌زن ہوتا ہے اور اُن کو بچاتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۳۴:‏۷؛‏ ۲-‏سلاطین ۶:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ یہوواہ کے گواہوں کی زمانۂ‌جدید کی تاریخ اور غالباً ہمارا اپنا ذاتی تجربہ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ خدا اپنے خادموں کے حق میں اپنی قدرت کو کام میں لاتا ہے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹‏)‏ لہٰذا،‏ ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے خوف میں قوی اُمید ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۴:‏۲۶‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ خدا کا خوف ہمیں اسکی راہوں پر چلنے کی تحریک کیوں دیتا ہے؟‏ (‏ب)‏ واضح کریں کہ ہمیں یہوواہ سے کیسے ”‏لپٹے“‏ رہنا چاہئے۔‏

۸ خدا کا خوشگوار ڈر اس پر ہمارے توکل اور اعتماد کو بڑھانے کے علاوہ ہمیں اس کی راہوں پر چلنے کی تحریک بھی دیتا ہے۔‏ جب سلیمان نے ہیکل کا افتتاح کِیا تو اس نے یہوواہ سے دُعا کی:‏ ”‏جب تک [‏اسرائیل]‏ اُس ملک میں جسے تُو نے ہمارے باپ‌دادا کو دیا جیتے رہیں تیرا خوف مانکر تیری راہوں میں چلیں۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۶:‏۳۱‏)‏ اس سے پہلے،‏ موسیٰ نے اسرائیلیوں کو تاکید کی:‏ ”‏تم [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کی پیروی کرنا اور اُسکا خوف ماننا اور اُسکے حکموں پر چلنا اور اُسکی بات سننا۔‏ تم اُسی کی بندگی کرنا اور اُسی سے لپٹے رہنا۔‏“‏ (‏استثنا ۱۳:‏۴‏)‏ جیسےکہ یہ آیات واضح کرتی ہیں،‏ یہوواہ کی راہوں پر چلنے اور اسی سے ”‏لپٹے“‏ رہنے کی خواہش خدا پر توکل اور اعتماد سے پیدا ہوتی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ جس طرح ایک بچہ اپنے باپ سے لپٹ جاتا ہے جس پر اُسے مکمل بھروسا اور اعتماد ہوتا ہے،‏ اسی طرح خدائی خوف یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے،‏ اس کی خدمت کرنے اور اسی سے لپٹے رہنے کا باعث بنتا ہے۔‏—‏زبور ۶۳:‏۸؛‏ یسعیاہ ۴۱:‏۱۳‏۔‏

خدا سے محبت رکھنا اسکا خوف ماننا ہے

۹.‏ خدا کی محبت اور خدا کے خوف میں کیا تعلق ہے؟‏

۹ صحیفائی نقطۂ‌نظر سے خدا کا خوف ماننا ہمیں کسی بھی طرح اُس سے محبت کرنے سے باز نہیں رکھتا۔‏ اس کے برعکس،‏ اسرائیلیوں کو ”‏[‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ کا خوف [‏ماننے]‏ .‏ .‏ .‏ اور اُس سے محبت [‏رکھنے]‏“‏ کی ہدایت کی گئی تھی۔‏ (‏استثنا ۱۰:‏۱۲‏)‏ لہٰذا،‏ خدا کا خوف اور خدا کی محبت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔‏ خدا کا خوف ہمیں اسکی راہوں پر چلنے کی تحریک دیتا اور یہ اس کے جواب میں اس سے ہماری محبت کا ثبوت دیتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ یہ منطقی بھی ہے کیونکہ جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو ہم بجا طور پر اسے ٹھیس پہنچانے سے ڈرتے ہیں۔‏ اسرائیلیوں نے بیابان میں اپنی باغیانہ روش سے یہوواہ کو آزردہ کِیا۔‏ یقیناً ہم اپنے آسمانی باپ کو آزردہ کرنے والا کوئی کام نہیں کرنا چاہینگے۔‏ (‏زبور ۷۸:‏۴۰،‏ ۴۱‏)‏ اس کی دوسری جانب چونکہ ”‏[‏یہوواہ]‏ اُن سے خوش ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں“‏ اس لئے ہماری فرمانبرداری اور وفاداری سے اس کا دل شاد ہوتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۴۷:‏۱۱؛‏ امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ خدا کی محبت ہمیں اسے خوش کرنے کی تحریک دیتی ہے اور خدا کا خوف ہمیں اسے آزردہ کرنے سے باز رکھتا ہے۔‏ یہ خوبیاں ایک دوسرے کی متضاد ہونے کی بجائے لازم‌وملزوم ہیں۔‏

۱۰.‏ یسوع نے خدا کے خوف میں شادمانی حاصل کرنے کا اظہار کیسے کِیا؟‏

۱۰ یسوع مسیح کی زندگی ظاہر کرتی ہے کہ ہم بیک‌وقت کیسے خدا سے محبت اور اس کا خوف رکھ سکتے ہیں۔‏ یسوع کے متعلق یسعیاہ نبی نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی رُوح اُس پر ٹھہریگی۔‏ حکمت اور خرد کی رُوح مصلحت اور قدرت کی رُوح معرفت اور [‏یہوواہ]‏ کے خوف کی رُوح۔‏ اور اُسکی شادمانی [‏یہوواہ]‏ کے خوف میں ہوگی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱۱:‏۲،‏ ۳‏)‏ اس پیشینگوئی کے مطابق،‏ خدا کی روح نے یسوع کو اپنے آسمانی باپ کا خوف ماننے کی تحریک دی۔‏ مزیدبرآں،‏ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ خوف پابند کرنے کی بجائے تسکین کا ذریعہ تھا۔‏ یسوع نے انتہائی کٹھن حالات میں بھی خدا کی مرضی پوری کرنے اور اسے خوش کرنے سے شادمانی حاصل کی۔‏ اس نے سولی پر موت کا سامنا کرتے وقت یہوواہ سے کہا:‏ ”‏تَو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۳۹‏)‏ اس خدائی خوف کی وجہ سے یہوواہ نے اپنے بیٹے کی التجائیں کرمفرمائی سے سنیں اور اسے موت کے بندھنوں سے چھڑا لیا۔‏—‏عبرانیوں ۵:‏۷‏۔‏

یہوواہ کا خوف ماننا سیکھنا

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ ہمیں خدا کا خوف ماننا کیوں سیکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ یسوع ہمیں یہوواہ کا خوف ماننا کیسے سکھاتا ہے؟‏

۱۱ قدرت کے جاہ‌وجلال اور طاقت کو دیکھ کر پیدا ہونے والی ہیبت کے جبلّی احساس کے برعکس،‏ خدا کا خوف خودبخود پیدا نہیں ہوتا۔‏ اسی وجہ سے عظیم داؤد،‏ یسوع مسیح نبوّتی طور پر ہمیں یہ دعوت دیتا ہے:‏ ”‏اَے بچو!‏ آؤ میری سنو۔‏ مَیں تمکو خداترسی سکھاؤنگا۔‏“‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۱‏)‏ ہم یسوع سے یہوواہ کا خوف ماننا کیسے سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۲ یسوع ہمیں اپنے آسمانی باپ کی حیرت‌انگیز شخصیت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرنے سے یہوواہ کا خوف ماننا سکھاتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱:‏۱۸‏)‏ یسوع کا اپنا نمونہ خدا کی سوچ اور دوسروں کیساتھ اُسکے برتاؤ پر روشنی ڈالتا ہے کیونکہ یسوع نے اپنے باپ کی شخصیت کی مکمل عکاسی کی تھی۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ مزیدبرآں،‏ یسوع کی قربانی کے ذریعے ہم اپنے گناہوں کی معافی کیلئے دُعا میں یہوواہ تک رسائی کرتے ہیں۔‏ خدا کے رحم کا یہ شاندار اظہار اس کا خوف ماننے کی ایک پُرزور وجہ ہے۔‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏مغفرت تیرے ہاتھ میں ہے تاکہ لوگ تجھ سے ڈریں۔‏“‏—‏زبور ۱۳۰:‏۴‏۔‏

۱۳.‏ امثال کی کتاب میں یہوواہ کا خوف ماننے میں ہماری مدد کے لئے کن اقدام کی خاکہ‌کشی کی گئی ہے؟‏

۱۳ امثال کی کتاب کئی ایک اقدام کی خاکہ‌کشی کرتی ہے جو ہمیں خدائی خوف پیدا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اگر تُو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھے۔‏ ایسا کہ تُو حکمت کی طرف کان لگائے اور فہم سے دل لگائے بلکہ اگر تُو عقل کو پکارے اور فہم کے لئے آواز بلند کرے .‏ .‏ .‏ تَو تُو [‏یہوواہ]‏ کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو حاصل کریگا۔‏“‏ (‏امثال ۲:‏۱-‏۵‏)‏ لہٰذا،‏ خدا کا خوف ماننے کیلئے ہمیں خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہئے،‏ اس کی ہدایت کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے اور اس کی مشورت پر دھیان دینا چاہئے۔‏

۱۴.‏ ہم اسرائیلی بادشاہوں کو دی جانے والی مشورت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ قدیم اسرائیل کے ہر بادشاہ کو شریعت کی نقل تیار کرنے اور ’‏اُسے اپنی ساری عمر پڑھنے‘‏ کی ہدایت کی گئی تھی ’‏تاکہ وہ یہوواہ اپنے خدا کا خوف ماننا اور شریعت کی سب باتوں پر عمل کرنا سیکھے۔‏‘‏ (‏استثنا ۱۷:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ یہوواہ کا خوف ماننا سیکھنے کے لئے بائبل پڑھائی اور مطالعہ ہمارے لئے بھی اتنے ہی لازمی ہیں۔‏ جب ہم اپنی زندگی میں بائبل اصولوں کا اطلاق کرنا سیکھتے ہیں تو ہم الہٰی حکمت اور علم حاصل کرتے ہیں۔‏ ہم ’‏[‏یہوواہ]‏ کے خوف کو سمجھتے‘‏ ہیں کیونکہ ہم اپنی زندگیوں میں اس سے پیدا ہونے والے اچھے نتائج دیکھتے اور خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو عزیز رکھتے ہیں۔‏ مزیدبرآں،‏ ساتھی ایمانداروں کے ساتھ باقاعدہ جمع ہونے سے جوان اور عمررسیدہ اشخاص الہٰی تعلیم سن سکتے،‏ خدا کا خوف ماننا اور اس کی راہوں پر چلنا سیکھ سکتے ہیں۔‏—‏استثنا ۳۱:‏۱۲‏۔‏

یہوواہ کا خوف ماننے والا ہر شخص مبارک ہے

۱۵.‏ کن طریقوں سے خدا کا خوف ہماری پرستش سے تعلق رکھتا ہے؟‏

۱۵ مذکورہ‌بالا بحث سے ہم ایک بات سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کا خوف ایک صحتمندانہ رُجحان ہے جو ہم سب کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کیونکہ یہ یہوواہ کی پرستش کا بنیادی جُزو ہے۔‏ یہ اُس پر قطعی بھروسا رکھنے،‏ اس کی راہوں پر چلنے اور اس سے لپٹے رہنے کا باعث بنتا ہے۔‏ یسوع مسیح کی طرح خدا کا خوف ہمیں بھی اپنی مخصوصیت کے عہد کو اب اور ابدیت تک پورا کرنے کی تحریک دے سکتا ہے۔‏

۱۶.‏ یہوواہ اپنا خوف ماننے کیلئے ہماری حوصلہ‌افزائی کیوں کرتا ہے؟‏

۱۶ خدائی خوف غیرصحتمندانہ یا غیرواجب طور پر پابندیاں عائد کرنے والا نہیں ہے۔‏ بائبل ہمیں یقین دلاتی ہے:‏ ”‏مبارک ہے ہر ایک جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتا اور اُسکی راہوں پر چلتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۲۸:‏۱‏)‏ یہوواہ ہماری حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ ہم اس کا خوف مانیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ خوبی ہمیں تحفظ دیگی۔‏ ہم موسیٰ سے اس کے الفاظ میں اس کی شفیق فکرمندی کو دیکھ سکتے ہیں:‏ ”‏کاش اُن [‏اسرائیلیوں]‏ میں ایسا ہی دل ہو تاکہ وہ میرا خوف مانکر ہمیشہ میرے سب حکموں پر عمل کرتے تاکہ سدا اُنکا اور اُنکی اولاد کا بھلا ہوتا!‏“‏—‏استثنا ۵:‏۲۹‏۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏ ہم خدا کا خوف ماننے سے کونسے فوائد حاصل کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خدائی خوف کے کونسے پہلو اگلے مضمون میں زیرِبحث آئینگے؟‏

۱۷ اسی طرح،‏ اگر ہم خدا کا خوف ماننے والا دل پیدا کریں تو اس میں ہمارا اپنا فائدہ ہوگا۔‏ کن طریقوں سے؟‏ اوّل،‏ ایسا رُجحان خدا کو خوش کرنے سے ہمیں اس کی قربت میں لائے گا۔‏ داؤد اپنے ذاتی تجربے سے جانتا تھا کہ ”‏جو اُس سے ڈرتے ہیں وہ اُن کی مراد پوری کرے گا۔‏ وہ اُن کی فریاد سنے گا اور اُن کو بچا لے گا۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۹‏)‏ دوم،‏ خدائی خوف بدی کی جانب ہمارے رویے پر اثرانداز ہونے کی وجہ سے بھی ہمیں فائدہ پہنچائیگا۔‏ (‏امثال ۳:‏۷‏)‏ اگلے مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ یہ خوف ہمیں روحانی خطرات سے کیسے بچاتا ہے اور پھر اس میں خدا کا خوف مانکر بدی سے کنارہ کرنے والے بعض اشخاص کے صحیفائی نمونوں کا اعادہ بھی کِیا جائے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 1 اقوامِ‌متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر ۱۰،‏ ۱۹۴۸ کو حقوقِ‌انسانی کے عالمگیر منشور کی منظوری دی تھی۔‏

کیا آپ جواب دے سکتے ہیں؟‏

‏• خدا کے خوف کا کیا مطلب ہے اور یہ کیسے ہم پر اثرانداز ہوتا ہے؟‏

‏• خدا کا خوف ماننے اور خدا کیساتھ ساتھ چلنے میں کیا تعلق ہے؟‏

‏• یسوع کا نمونہ کیسے ظاہر کرتا ہے کہ خدا کا خوف خدا کی محبت سے وابستہ ہے؟‏

‏• کن طریقوں سے ہم یہوواہ کا خوف ماننے والا دل پیدا کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

اسرائیلی بادشاہوں کو شریعت کی ایک ذاتی نقل تیار کرنے اور اُسے ہر روز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یہوواہ کا خوف اس پر ایسا بھروسا رکھنے کا باعث بنتا ہے جیسے ایک بیٹا اپنے باپ پر بھروسا رکھتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر کا حوالہ]‏

1991 Stars: Photo by Malin, © IAC/​RGO