سوالات از قارئین
سوالات از قارئین
عبرانیوں ۱۲:۴ کے اظہار ”تم نے اب تک ایسا مقابلہ نہیں کِیا جس میں خون بہا ہو“ کا کیا مطلب ہے؟
جزوِجملہ ”اب تک . . . خون بہا ہو“ درحقیقت موت یا خون بہانے کی حد تک برداشت کرنے کا مفہوم پیش کرتا ہے۔
پولس رسول جانتا تھا کہ بعض عبرانی مسیحیوں نے اپنے ایمان کی وجہ سے ”دُکھوں کی بڑی کھکھیڑ اُٹھائی“ ہے۔ (عبرانیوں ۱۰:۳۲، ۳۳) اس کی وضاحت کرتے ہوئے پولس بظاہر یونانی مقابلوں کو استعاراً استعمال کرتا ہے جن میں دوڑ، کشتی، باکسنگ اور قرص اور نیزہ پھینکنا شامل تھا۔ اس کی مطابقت میں وہ عبرانیوں ۱۲:۱ میں ساتھی مسیحیوں کو نصیحت کرتا ہے: ”آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کرکے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔“
تین آیات کے بعد، عبرانیوں ۱۲:۴ میں پولس غالباً دوڑ کے مقابلے کی جگہ باکسنگ کے مقابلے کا حوالہ دیتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۶ میں دونوں کھیلوں کا ذکر ملتا ہے۔) قدیم مکاباز اپنے ہاتھوں اور کلائیوں پر چمڑے کی پٹیاں باندھتے تھے۔ ان پٹیوں میں اکثر ”باکسروں کو شدید چوٹیں پہنچانے کیلئے سیسے، لوہے یا دھات کے ٹکڑے“ جڑے ہوتے تھے۔ ایسے پُرتشدد مقابلوں میں اسقدر خون بہتا تھا کہ بعضاوقات موت واقع ہو جاتی تھی۔
بہرکیف، عبرانی مسیحیوں کے پاس خدا کے ایسے وفادار خادموں کی مثالیں موجود تھیں جنہوں نے موت، ’خون بہنے‘ کی حد تک اذیت اور بدسلوکی برداشت کی تھی۔ غور کریں کہ پولس قدیم ایمانداروں کے تجربے میں آنے والی مشکلات پر کس پیرائے میں توجہ دلاتا ہے:
وہ ”سنگسار کئے گئے۔ آرے سے چیرے گئے آزمایش میں پڑے۔ تلوار سے مارے گئے۔ بھیڑوں اور بکریوں کی کھال اوڑھے ہوئے محتاجی میں۔ مصیبت میں۔ بدسلوکی کی حالت میں مارے مارے پھرے۔“ اسکے بعد پولس ہمارے ایمان کے کامل کرنے والے یسوع کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے جس نے ”شرمندگی کی پروا نہ کرکے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔“—عبرانیوں ۱۱:۳۷؛ ۱۲:۲۔
جیہاں، بہتیروں نے ’خون بہانے‘ یعنی موت تک مقابلہ کِیا تھا۔ وہ صرف ایمان کی کمی کے باعث ہونے والے گناہ کے خلاف باطنی کشمکش ہی سے نبردآزما نہیں تھے۔ وہ شدید جسمانی بدسلوکی کے باوجود موت تک وفادار رہے۔
یروشلیم کی کلیسیا میں آنے والے نئے لوگوں کو ماضی کی شدید مخالفت ختم ہو جانے کے بعد مسیحی بننے کی وجہ سے ایسی سخت آزمائشوں کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ (اعمال ۷:۵۴-۶۰؛ ۱۲:۱، ۲؛ عبرانیوں ۱۳:۷) معمولی آزمائشیں بھی ان میں سے بعض کو بےحوصلہ کر رہی تھیں کیونکہ وہ مقابلہ جاری رکھنے کی بجائے ’بےدل ہو کر ہمت ہار رہے تھے۔‘ (عبرانیوں ۱۲:۳) اُنہیں پختگی کی جانب بڑھنے کی ضرورت تھی۔ اس طرح وہ آنے والی ہر آزمائش بلکہ خون بہانے کی حد تک جسمانی بدسلوکی برداشت کرنے کے قابل بن سکتے تھے۔—عبرانیوں ۶:۱؛ ۱۲:۷-۱۱۔
اپنے مسیحی ایمان پر مصالحت نہ کرنے کی وجہ سے زمانۂجدید کے بہتیرے مسیحیوں نے بھی موت یعنی ’خون بہانے‘ تک مزاحمت کی ہے۔ عبرانیوں ۱۲:۴ میں پولس کے الفاظ سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ہم اس بات کو آگاہی خیال کر سکتے ہیں کہ ہمیں خدا کے وفادار رہنے کیلئے کس حد تک برداشت کرنے کو تیار رہنا چاہئے۔ اسی خط میں پولس نے بعدازاں عبرانیوں کو لکھا: ”پس ہم . . . اُس فضل کو ہاتھ سے نہ دیں جسکے سبب سے پسندیدہ طور پر خدا کی عبادت خداترسی اور خوف کے ساتھ کریں۔“—عبرانیوں ۱۲:۲۸۔