ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ خدا کون ہے
ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ خدا کون ہے
کیا آپ رات کو صافوشفاف آسمان پر ستاروں کو دیکھ کر متحیر نہیں ہوتے؟ کیا رنگبرنگے پھولوں کی بھینیبھینی خوشبو آپ کو خوش نہیں کرتی؟ کیا آپ پرندوں کی چہچہاہٹ اور پتوں کی سرسراہٹ سے محظوظ نہیں ہوتے؟ اس کے علاوہ، سمندر میں رہنے والی طاقتور وھیل اور دیگر مخلوقات کس قدر دلکش ہے! پھر ضمیر اور حیرانکُن پیچیدہ دماغی صلاحیت رکھنے والے انسانوں کی بابت بھی سوچیں۔ آپ اپنے چوگرد تمام عجائب کی کیسے وضاحت کریں گے؟
بعض کے خیال میں یہ سب کچھ محض اتفاقاً وجود میں آیا ہے۔ اگر ایسا ہے توپھر انسان خدا پر کیوں ایمان رکھتے ہیں؟ کیا مختلف کیمیکلز کا حادثاتی امتزاج روحانی ضرورت رکھنے والی مخلوق پیدا کریگا؟
”انسانی فطرت میں مذہب کی جڑیں کافی گہری ہیں اور اس کا تجربہ ہر سطح کے معاشی حیثیت رکھنے والے اور تعلیمی پسمنظر رکھنے والے لوگ کرتے ہیں۔“ یہ بیان اس تحقیق کا خلاصہ پیش کرتا ہے جسے پروفیسر الیسٹر ہارڈی نے اپنی کتاب دی سپرچیول نیچر آف مین میں پیش کِیا ہے۔ دماغ کے سلسلے میں کئے جانے والے حالیہ تجربات بعض نیوروسائنٹسٹ کی طرف سے یہ مفروضہ پیش کرنے کا سبب بنے ہیں کہ انسان مذہب کی صلاحیت کے ساتھ ”توراثی طور پر ترتیب“ دئے گئے ہیں۔ کتاب بعنوان از گاڈ دی اونلی ریئلٹی؟ بیان کرتی ہے: ”مذہب کے ذریعے مطلب کی جستجو . . . نسلِانسانی کے ظہور کے وقت سے لے کر ہر ثقافت اور ہر عمر میں عام تجربہ ہے۔“
غور کریں کہ کوئی ۰۰۰،۲ سال پہلے ایک عالم نے کیا نتیجہ اخذ کِیا تھا۔ اس نے لکھا: ”ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔“ (عبرانیوں ۳:۴) درحقیقت، بائبل کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بیان کرتی ہے: ”خدا نے اِبتدا میں زمینوآسمان کو پیدا کِیا۔“—پیدایش ۱:۱۔
تاہم، خدا کون ہے؟ نسلِانسانی اس سوال کے مختلف جواب دیتی ہے۔ جب یوشی نامی ایک نوعمر جاپانی سے پوچھا گیا کہ خدا کون ہے تو اُس نے جواب دیا: ”مَیں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مَیں ایک بدھسٹ ہوں اور میرے لئے یہ جاننا کبھی اہم نہیں رہا کہ خدا کون ہے۔“ تاہم یوشی نے تسلیم کِیا کہ بدھا کو بہتیرے ایک معبود خیال کرتے ہیں۔ ایک بزنسمین جسکا نام نِک ہے جو ۶۰ کے دہے میں ہے خدا پر ایمان رکھتا ہے اور اسے ایک
قادرِمطلق قوت خیال کرتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ خدا کی بابت کیا جانتا ہے تو نِک نے کافی دیر خاموش رہنے کے بعد جواب دیا: ”میرے دوست یہ بہت مشکل سوال ہے۔ مَیں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خدا موجود ہے۔ وہ وجود رکھتا ہے۔“بعض لوگ ”خالق کی بجائے خدا کی تخلیق کی پرستش اور خدمت کرتے ہیں۔“ (رومیوں ۱:۲۵، ٹوڈیز انگلش ورشن) لاکھوں لوگ اس خیال سے مُردہ آباؤاجداد کی پرستش کرتے ہیں کہ خدا تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ ہندو مذہب میں، بہتیرے دیویدیوتا ہیں۔ زیوس اور ہرمیس جیسے مختلف معبودوں کی یسوع مسیح کے رسولوں کے ایّام میں پرستش کی جاتی تھی۔ (اعمال ۱۴:۱۱، ۱۲) دُنیائےمسیحیت کی بیشتر کلیسیائیں تعلیم دیتی ہیں کہ خدا ایک تثلیث ہے جو خدا باپ، خدا بیٹے اور خدا روح پاک پر مشتمل ہے۔
بیشک، ”بہتیرے خدا اور بہتیرے خداوند ہیں،“ بائبل بیان کرتی ہے۔ تاہم، یہ اضافہ کرتی ہے: ”ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ جسکی طرف سے سب چیزیں ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۸:۵، ۶) جیہاں، صرف ایک ہی سچا خدا ہے۔ لیکن وہ ہے کون؟ وہ کیسا ہے؟ ان سوالوں کے جواب جاننا ہمارے لئے اہم ہے۔ یسوع نے اس ہستی سے اپنی دُعا میں کہا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) پس اپنی ابدی فلاح کیلئے خدا کی بابت سچائی جاننا واقعی معقول ہے۔
[صفحہ ۳ پر تصویر]
کونسی بات اسکے وجود کی وضاحت کرتی ہے؟
[تصویر کا حوالہ]
Whale: Courtesy of Tourism Queensland
[صفحہ ۲ پر تصویر کا حوالہ]
2002 © COVER: Index Stock Photography