درحقیقت دوزخ کیا ہے؟
درحقیقت دوزخ کیا ہے؟
لفظ دوزخ سے آپ کے ذہن میں خواہ کوئی بھی تصور آئے تاہم دوزخ کو عموماً گناہوں کی سزا کے مقام کے طور پر خیال کِیا جاتا ہے۔ بائبل گناہ اور اس کے اثرات کے متعلق بیان کرتی ہے: ”جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئےکہ سب نے گُناہ کیا۔“ (رومیوں ۵:۱۲) صحائف یہ بھی بیان کرتے ہیں: ”گُناہ کی مزدوری موت ہے۔“ جب گُناہ کی سزا موت ہے تو دوزخ کا اصل مطلب جاننے کے سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے: موت کے وقت ہمارے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟
کیا موت کے بعد بھی کسی صورت میں زندگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے؟ دوزخ کیا ہے اور اس میں کس قسم کے لوگ جاتے ہیں؟ کیا اُن لوگوں کیلئے کوئی اُمید ہے جو دوزخ میں جاتے ہیں؟ بائبل اِن سوالوں کے صحیح اور تسلیبخش جواب فراہم کرتی ہے۔
بعدازموت زندگی؟
کیا ہمارے اندر جان یا روح جیسی کوئی چیز ہے جو جسم کی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے؟ غور کریں کہ پہلا آدمی، آدم کیسے جیتی جان بنا۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”[یہوواہ] خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اُسکے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا۔“ (پیدایش ۲:۷) اگرچہ سانس لینے کے عمل نے اُسکی زندگی کو برقرار رکھا توبھی، اُسکے نتھنوں میں ”زندگی کا دم“ پھونکنے میں محض اُس کے پھیپھڑوں میں ہوا پھونکنے سے زیادہ کچھ شامل تھا۔ اسکا مطلب تھا کہ خدا نے آدم کے بےجان بدن میں زندگی کی جوت یعنی ’قوتِحیات‘ پیدا کر دی جو کہ تمام زمینی مخلوق میں کارفرماں ہے۔ (پیدایش ۶:۱۷؛ ۷:۲۲) بائبل اس قوتِحیات کا حوالہ ”رُوح“ کے طور پر دیتی ہے۔ (یعقوب ۲:۲۶) اس رُوح کو برقیرو سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے جو کسی مشین یا آلے کو حرکت میں لا کر اُسے کام کرنے کے قابل بناتی ہے۔ جیسے برقیرو حرکت میں لائے گئے آلے کی شکل اختیار نہیں کرتی اُسی طرح قوتِحیات بھی کسی متحرک جاندار کی خصوصیات کی حامل نہیں ہے۔ یہ کوئی شخصیت اور سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
جب ایک شخص مرتا ہے تو رُوح کیساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟ زبور ۱۴۶:۴ بیان کرتی ہے: ”اُسکا دم نکل جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔“ جب کوئی شخص مرتا ہے تو اُسکی لاشخصی رُوح کسی دوسرے عالم میں روحانی مخلوق کے طور پر زندہ نہیں رہتی۔ یہ ”خدا کے پاس جس نے اُسے دیا تھا واپس“ چلی جاتی ہے۔ (واعظ ۱۲:۷) اسکا مطلب ہے کہ اُس شخص کی آئندہ زندگی کا انحصار اب صرف خدا پر ہے۔
قدیم یونانی مفکرین سقراط اور افلاطون کا خیال تھا کہ کسی شخص کے اندر موجود جان اُس کی موت کے بعد بچ جاتی ہے اور پھر کبھی نہیں مرتی۔ بائبل پیدایش ۲:۷ بیان کرتی ہے کہ آدم ”جیتی جان ہوا۔“ اُسے جان دی نہیں گئی تھی بلکہ وہ خود ایک جان یعنی مکمل شخص تھا۔ صحائف جان کے کام کرنے، کھانے، چرائے جانے، پریشان ہونے اور اسی طرح کے دیگر کام کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ (احبار ۲۳:۳۰؛ استثنا ۱۲:۲۰؛ ۲۴:۷؛ زبور ۱۱۹:۲۸) جیہاں، آدمی بذاتِخود ایک جان ہے۔ جب ایک شخص مرتا ہے تو دراصل ایک جان مرتی ہے۔—حزقیایل ۱۸:۴۔
جان کی بابت کیا بیان کرتی ہے؟پس مُردوں کی حالت کی بابت کیا ہے؟ آدم کو سزا سناتے وقت، یہوواہ نے فرمایا: ”تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائیگا۔“ (پیدایش ۳:۱۹) اس سے پہلے کہ خدا نے آدم کو مٹی سے بنایا اور زندگی عطا کی وہ کہاں تھا؟ سادہ سی بات ہے کہ اُسکا کوئی وجود نہیں تھا! جب وہ مرا تو آدم ایک بار پھر مکمل نیستی کی اُسی حالت میں چلا گیا۔ واعظ ۹:۵، ۱۰ میں مُردوں کی حالت کی وضاحت کی گئی ہے، جہاں ہم پڑھتے ہیں: مُردے کچھ بھی نہیں جانتے . . . پاتال میں جہاں تُو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“ صحیفائی طور پر موت معدومیت کی حالت ہے۔ مُردوں کو کچھ پتہ نہیں، اُنکے کسی قسم کے احساسات اور خیالات نہیں ہوتے۔
دائمی اذیت یا عام قبر؟
جب مُردے کچھ بھی نہیں جانتے تو دوزخ آگ کی جگہ نہیں ہو سکتی جہاں شریر موت کے بعد اذیت اُٹھاتے ہیں۔ پس پھر دوزخ کیا ہے؟ جب یسوع نے وفات پائی تو اُسکے ساتھ جوکچھ واقع ہوا وہ ہمیں اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ بائبل مصنف لوقا بیان کرتا ہے: ”نہ وہ [یسوع] عالمِارواح [یونانی، ہادس] [ہیل یعنی دوزخ، کنگ جیمز ورشن] میں چھوڑا گیا نہ اُسکے جسم کے سڑنے کی نوبت پہنچی۔“ * (اعمال ۲:۳۱) پس یسوع جس عالمِارواح [دوزخ] میں گیا وہ کہاں پر تھا؟ پولس رسول نے لکھا: ”مَیں نے سب سے پہلے تُم کو وہی بات پہنچا دی . . . کہ مسیح کتابِمُقدس کے مطابق ہمارے گُناہوں کیلئے موا اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِمُقدس کے مطابق جی اُٹھا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳، ۴) لہٰذا یسوع عالمِارواح [دوزخ] یعنی قبر میں تھا مگر اُسے وہاں چھوڑا نہیں گیا تھا بلکہ زندہ کر دیا گیا تھا۔
شدید تکلیف اُٹھانے والے راستباز شخص ایوب پر بھی غور کریں۔ اپنی مشکل سے بچنے کے لئے اُس نے التجا کی تھی: ”کاشکہ تُو مجھے پاتال [ہیل، شیول] میں چھپا دے اور جب تک تیرا قہر ٹل نہ جائے مجھے پوشیدہ رکھے۔“ * (ایوب ۱۴:۱۳) یہ سوچنا کتنا غیرمعقول ہے کہ ایوب تحفظ یا پناہ حاصل کرنے کیلئے کسی آتشی جگہ میں جانا چاہتا تھا! ایوب کیلئے ”ہیل“ یعنی دوزخ محض قبر تھی جہاں اُسکی تمام تکلیف ختم ہو جانی تھی۔ پس بائبل کے مطابق ہیل یعنی دوزخ انسانوں کی عام قبر ہے جہاں نیکوبد دونوں طرح کے لوگ جاتے ہیں۔
کیا دوزخ کی آگ بھسم کرنے والی ہے؟
کیا دوزخ کی آگ علامتی مفہوم میں بھسم کرنے یا مکمل تباہی کا مفہوم رکھ سکتی ہے؟ آگ کو ہادس یا دوزخ سے الگ کرتے ہوئے، صحائف بیان مکاشفہ ۲۰:۱۴۔
کرتے ہیں: ”موت اور عالمِارواح [ہادس] آگ کی جھیل میں ڈالے گئے۔“ یہاں جس ”جھیل“ کا ذکر کِیا گیا ہے وہ علامتی ہے کیونکہ موت اور عالمِارواح یعنی دوزخ (ہادس) جو اس میں ڈالی جاتی ہیں وہ بھی حقیقی معنوں میں جلائی نہیں جا سکتیں۔ ”یہ آگ کی جھیل دوسری موت ہے“ ایسی موت جسکے بعد دوبارہ زندگی کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔—آگ کی جھیل کا مطلب بھی اُسی جہنم [ہیل فائر، دوزخ کی آگ، کنگ جیمز ورشن] کی طرح ہے جسکا یسوع نے ذکر کِیا تھا۔ (متی ۵:۲۲؛ مرقس ۹:۴۷، ۴۸) مسیحی یونانی صحائف میں لفظ گیہینّا یعنی جہنم ۱۲ مرتبہ استعمال ہوا ہے اور یہ یروشلیم کے باہر ہنوم کی وادی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب یسوع زمین پر تھا تو اس وادی کو کوڑاکرکٹ پھینکنے کیلئے استعمال کِیا جا رہا تھا، ”جہاں مجرموں اور جانوروں کی لاشیں نیز ہر قسم کا کوڑاکرکٹ پھینکا جاتا تھا۔“ (سمتھس ڈکشنری آف دی بائبل) اس گندگی کو تلف کرنے کیلئے جلنے والی آگ میں گندھک ملائی جاتی تھی۔ یسوع نے دائمی ہلاکت کو ظاہر کرنے کیلئے اس وادی کو علامت کے طور پر استعمال کِیا تھا۔
گیہینّا کی طرح، آگ کی جھیل بھی ابدی ہلاکت کی علامت ہے۔ اس میں موت اور عالمِارواح کے ”ڈالے“ جانے کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان گُناہ اور موت کی سزا سے چھوٹ جائیگا تو یہ دونوں چیزیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائینگی۔ جانبوجھ کر گُناہ کرنے والے غیرتائب گنہگاروں کا ”حصہ“ اس جھیل میں ہوگا۔ (مکاشفہ ۲۱:۸) اُنہیں بھی ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائیگا۔ اس کے برعکس، ہیل یعنی دوزخ، نسلِانسانی کی عام قبر میں موجود لوگ جو یہوواہ کی یاد میں ہیں شاندار مستقبل سے استفادہ کرینگے۔
ہیل کا خالی کِیا جانا!
مکاشفہ ۲۰:۱۳ بیان کرتی ہے: ”سمندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور موت اور عالمِارواح (ہادس) نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا۔“ جیہاں بائبل کا دوزخ خالی ہو جائیگا۔ جیسے یسوع نے وعدہ کِیا، ”وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُسکی [یسوع] کی آواز سنکر نکلینگے۔“ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹) اگرچہ یہوواہ خدا کی یاد میں موجود لاکھوں لوگوں کا اس وقت کوئی وجود نہیں توبھی وہ سب بحالکردہ فردوس میں زندہ کئے جائینگے۔—لوقا ۲۳:۴۳؛ اعمال ۲۴:۱۵۔
خدا کی نئی دُنیا میں، مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے جو لوگ خدا کے راست قوانین کے مطابق چلیں گے وہ پھر کبھی نہیں مرینگے۔ (یسعیاہ ۲۵:۸) یہوواہ ”اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔“ درحقیقت، ”پہلی چیزیں جاتی رہینگی۔“ (مکاشفہ ۲۱:۴) جیہاں، کیا ہی شاندار برکات ”قبروں“ یعنی دوزخ میں موجود لوگوں کی منتظر ہیں! بِلاشُبہ یہ برکت ہمیں یہوواہ خدا اور اُسکے بیٹے یسوع مسیح کی بابت زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی معقول وجہ فراہم کرتی ہے۔—یوحنا ۱۷:۳۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 10 کنگ جیمز ورشن میں مسیحی یونانی صحائف میں دس مرتبہ یونانی لفظ ہادس کا ترجمہ ”ہیل“ یعنی دوزخ کِیا گیا ہے۔ تاہم لوقا ۱۶:۱۹-۳۱ کا بیان عذاب کا ذکر کرتا ہے مگر یہ پوری سرگزشت معنی کے اعتبار سے علامتی ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب عظیمترین انسان جو کبھی ہو گزرا کے باب ۸۸ کو پڑھیں۔
^ پیراگراف 11 عبرانی صحائف میں لفظ شیول ۶۵ مرتبہ آتا ہے اور کنگ جیمز ورشن میں اس کا ترجمہ ”ہیل“ دوزخ، ”قبر“ اور ”پاتال“ کِیا گیا ہے۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
ایوب نے دوزخ میں پناہ کیلئے دُعا کی
[صفحہ ۶ پر تصویر]
آتشی گیہینّا—ابدی ہلاکت کی علامت
[صفحہ ۷ پر تصویر]
”جتنے قبروں میں ہیں نکلینگے“