مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

صداقت سے تخم‌ریزی کرو،‏ شفقت سے فصل کاٹو

صداقت سے تخم‌ریزی کرو،‏ شفقت سے فصل کاٹو

صداقت سے تخم‌ریزی کرو،‏ شفقت سے فصل کاٹو

‏”‏جو بیگانہ کا ضامن ہوتا ہے سخت نقصان اُٹھائیگا لیکن جسکو ضمانت سے نفرت ہے وہ بےخطر ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۱۵‏)‏ یہ مختصر سی مثل کسقدر اثرآفرینی کے ساتھ احساسِ‌ذمہ‌داری سے کام لینے کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے!‏ ایک غیرذمہ‌دار قرضدار کی ضمانت دینا مصیبت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔‏ ایسے شخص سے ہاتھ ملانے—‏جو قدیم اسرائیل میں کسی معاہدے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا—‏سے باز رہنا مالی نقصان سے بچنا ہے۔‏

واضح طور پر،‏ اِس سلسلے میں ”‏آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا،‏“‏ کا اُصول لاگو ہوتا ہے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۷‏)‏ ہوسیع نبی نے بیان کِیا،‏ ”‏اپنے لئے صداقت سے تخم‌ریزی کرو۔‏ شفقت سے فصل کاٹو۔‏“‏ (‏ہوسیع ۱۰:‏۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدائی طریقے سے کام کرکے صداقت سے تخم‌ریزی کریں اور اُس کی شفقت کی فصل کاٹیں۔‏ اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے درست کام،‏ شائستہ بات‌چیت اور مناسب آداب‌واطوار کی پُرزور حوصلہ‌افزائی کے لئے بارہا اس اُصول کو استعمال کِیا۔‏ اُس کی پُرحکمت باتوں کے قریبی جائزے سے ہم واقعی صداقت سے تخم‌ریزی کرنے کی حوصلہ‌افزائی حاصل کریں گے۔‏—‏امثال ۱۱:‏۱۵-‏۳۱‏۔‏

‏”‏نیک سیرت“‏ بنیں،‏ ”‏عزت“‏ کی فصل کاٹیں

‏”‏نیک سیرت عورت عزت پاتی ہے“‏ دانشمند بادشاہ بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏اور تُندخو آدمی مال حاصل کرتے ہیں۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۱۶‏)‏ یہ آیت نیک سیرت عورت،‏ ”‏مہربان عورت،‏“‏ کی دائمی عزت اور تُندخو آدمی کی حاصل‌کردہ عارضی دولت کا موازنہ پیش کرتی ہے۔‏—‏این امریکن ٹرانسلیشن۔‏

ایک شخص نیک سیرت بن کر کیسے عزت حاصل کرتا ہے؟‏ سلیمان نے نصیحت کی،‏ ”‏دانائی اور تمیز کی حفاظت کر۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏وہ]‏ تیرے گلے کی زینت“‏ ہوں گے۔‏ (‏امثال ۳:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ اس کے علاوہ،‏ زبورنویس نے بھی ’‏بادشاہ کے ہونٹوں میں لطافت بھرے ہونے‘‏ کا ذکر کِیا۔‏ (‏زبور ۴۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ دانائی،‏ تمیز اور زبان کا مناسب استعمال ایک شخص کی قدروقیمت اور عزت بڑھاتا ہے۔‏ یہ ایک عقلمند عورت کی بابت سچ ہے۔‏ اس کی ایک مثال نابال کی بیوی ابیجیل ہے۔‏ وہ ”‏بڑی سمجھدار اور خوبصورت“‏ تھی اور بادشاہ داؤد نے اُسکی ”‏عقلمندی“‏ کی تعریف کی تھی۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۳،‏ ۳۳‏۔‏

ایک خداپرست عورت واقعی نیک سیرت ہونے سے عزت حاصل کرے گی۔‏ اُسے دوسروں میں اچھی شہرت حاصل ہوگی۔‏ وہ شادی‌شُدہ ہونے کی صورت میں اپنے شوہر کی نظروں میں عزت حاصل کرے گی۔‏ درحقیقت،‏ وہ پورے خاندان کے لئے باعثِ‌توقیر ہوگی۔‏ نیز اُس کی عزت عارضی نہیں۔‏ ”‏نیک نام بےقیاس خزانہ سے اور احسان سونے چاندی سے بہتر ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۲:‏۱‏)‏ خدا کے حضور اُس کا نیک نام دائمی قدروقیمت رکھتا ہے۔‏

‏”‏تُندخو،‏“‏ بیرحم آدمی کی صورتحال مختلف ہے۔‏ (‏امثال ۱۱:‏۱۶‏)‏ ایک تُندخو آدمی کا شمار شریروں اور یہوواہ کے پرستاروں کے مخالفین میں ہوتا ہے۔‏ (‏ایوب ۶:‏۲۳؛‏ ۲۷:‏۱۳‏)‏ ایسا شخص ’‏خدا کو اپنے روبرو نہیں رکھتا۔‏‘‏ (‏زبور ۵۴:‏۳‏)‏ معصوموں پر ظلم ڈھانے اور ان سے ناجائز فائدہ اُٹھانے سے ایسا شخص ”‏خاک کی طرح چاندی جمع“‏ کر سکتا ہے۔‏ (‏ایوب ۲۷:‏۱۶‏)‏ تاہم،‏ ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ نیند سے جاگتا نہیں اور وہ دن اُسکی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے۔‏ (‏ایوب ۲۷:‏۱۹‏)‏ اُسکی تمام دولت اور کامرانیاں مٹی میں مل جاتی ہیں۔‏—‏لوقا ۱۲:‏۱۶-‏۲۱‏۔‏

امثال ۱۱:‏۱۶ کس قدر اہم سبق سکھاتی ہے!‏ نیک سیرت اور تُندخو آدمی کے انجام کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد اسرائیل کا بادشاہ ہمیں صداقت کو فروغ دینے کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏

‏’‏رحمدلی‘‏ اَجر لاتی ہے

انسانی تعلقات کی بابت ایک اَور سبق سکھاتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏رحمدل اپنی جان کے ساتھ نیکی کرتا ہے لیکن بیرحم اپنے جسم کو دُکھ دیتا ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۱۷‏)‏ ایک عالم کے مطابق،‏ ”‏اس مثل کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایک شخص کا دوسروں کے ساتھ اچھا یا بُرا سلوک نادانستہ یا غیرمتوقع نتائج پر منتج ہوتا ہے۔‏“‏ ایک نوجوان خاتون لیزا کی مثال پر غور کریں۔‏ * نیک‌نیت ہونے کے باوجود وہ کبھی بھی وقتِ‌مقررہ پر نہیں پہنچتی۔‏ منادی کی کارگزاری کے لئے دیگر بادشاہتی مُنادوں سے ملتے وقت،‏ ۳۰ منٹ یا اس سے بھی زیادہ تاخیر سے پہنچنا اس کا معمول ہے۔‏ لیزا کی یہ عادت اُس کیلئے نقصان‌دہ ہے۔‏ اگر دوسرے اپنا قیمتی وقت بچانے کیلئے اُسکا انتظار کرنا چھوڑ دیں تو کیا وہ انہیں قصوروار ٹھہرا سکتی ہے؟‏

ایک کمال‌پرست شخص—‏جو کامیابی کے اعلیٰ معیاروں کی پیروی کرتا ہے—‏خود پر بھی ظلم کرتا ہے۔‏ وہ لاحاصل نشانوں کی جستجو میں خود کو ایک مایوس‌کُن اور تھکا دینے والی صورتحال میں مبتلا کر لیتا ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ حقیقت‌پسند اور معقول نشانے قائم کرنے سے ہم خود کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔‏ شاید ہم معاملات کو سمجھنے میں دوسروں کی نسبت زیادہ وقت لگاتے ہیں۔‏ یا شاید بیماری یا بڑھاپے نے ہمیں محدود کر دیا ہے۔‏ ہمیں اپنی روحانی ترقی پر برہم ہونے کی بجائے معقول‌پسندی سے اپنی حدود کا سامنا کرنا چاہئے۔‏ اپنی لیاقتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے حتی‌المقدور ”‏کوشش“‏ کرنے سے ہم خوشی حاصل کریں گے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵؛‏ فلپیوں ۴:‏۵‏۔‏

دانشمند بادشاہ مزید تفصیل فراہم کرتا ہے کہ صادق خود کو فائدہ اور ظالم خود کو نقصان کیسے پہنچاتا ہے:‏ ‏”‏شریر کی کمائی باطل ہے لیکن صداقت بونے والا حقیقی اجر پاتا ہے۔‏ صداقت پر قائم رہنے والا زندگی حاصل کرتا ہے اور بدی کا پیرو اپنی موت کو پہنچتا ہے۔‏ کج‌دِلوں سے [‏یہوواہ]‏ کو نفرت ہے لیکن کامل‌رفتار اُسکی خوشنودی ہیں۔‏ یقیناً شریر بےسزا نہ چھوٹیگا لیکن صادقوں کی نسل رہائی پائیگی۔‏“‏—‏امثال ۱۱:‏۱۸-‏۲۱‏۔‏

یہ آیات مختلف طریقوں سے اس بنیادی نکتے پر زور دیتی ہیں:‏ صداقت سے تخم‌ریزی کریں اور اسکا اَجر پائیں۔‏ شریر آدمی محنت کئے بغیر،‏ دھوکادہی یا جُوئےبازی سے دولت کما سکتا ہے۔‏ ایسی کمائی باطل ہے لہٰذا وہ مایوسی کا سامنا کر سکتا ہے۔‏ ایک دیانتدار شخص اپنی محنت کی کمائی سے تحفظ حاصل کرتا ہے۔‏ خدا کی خوشنودی حاصل ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھتا ہے۔‏ تاہم بُرے شخص کا کیا انجام ہوتا ہے؟‏ فریب کا جال بچھانے والا شریر شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔‏ (‏امثال ۲:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ صداقت بونے کی کیا ہی شاندار حوصلہ‌افزائی!‏

دانشمند کیلئے حقیقی خوبصورتی

سلیمان مزید بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏بےتمیز عورت میں خوبصورتی گویا سُوار کی ناک میں سونے کی نتھ ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۲۲‏)‏ بائبل وقتوں میں نتھ ایک عام زیور ہوا کرتا تھا۔‏ ناک کی ایک طرف یا دونوں نتھنوں کے درمیان سونے کی نتھ عورت کا نمایاں زیور تھا۔‏ یہ منفرد زیور سُوار کی ناک میں کتنا ناگوار لگتا!‏ یہ مثال ایک ”‏بےتمیز“‏ شخص پر پوری اُترتی ہے جو بظاہر خوبصورت نظر آتا ہے۔‏ ایسی زیبائش سُوار اور اُس کی مادہ کو زیب نہیں دیتی۔‏ یہ غیرموزوں ہے—‏اس میں کوئی دلکشی نہیں۔‏

بیشک،‏ اپنی ظاہری وضع‌قطع کی بابت دوسروں کی رائے کی فکر کرنا فطرتی بات ہے۔‏ تاہم اپنے خدوخال اور جسم کی بابت حد سے زیادہ پریشان یا غیرمطمئن ہونے سے کیا فائدہ؟‏ ہم اپنی شکل‌وصورت کے بہتیرے پہلوؤں کو بدل نہیں سکتے۔‏ نیز جسمانی وضع‌قطع ہی سب کچھ نہیں۔‏ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم بہت سے ایسے لوگوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں جو صرف قبول صورت ہی ہوتے ہیں؟‏ جسمانی کشش خوشی کی کُنجی نہیں۔‏ دائمی خدائی خوبیوں کو ظاہر کرنے سے حاصل ہونے والی باطنی خوبصورتی حقیقی قدروقیمت رکھتی ہے۔‏ خدا کرے کہ ہم دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی خوبیوں کو پیدا کریں۔‏

‏”‏فیاض‌دل موٹا ہو جائیگا“‏

سلیمان بادشاہ بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏صادقوں کی تمنا صرف نیکی ہے لیکن شریروں کی اُمید غضب ہے۔‏ وہ اس بات کو واضح کرتے ہوئے مزید بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏کوئی تو بتھراتا ہے پر توبھی ترقی کرتا ہے اور کوئی واجبی خرچ سے دریغ کرتا ہے پر توبھی کنگال ہے۔‏“‏‏—‏امثال ۱۱:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

خدا کے کلام کا علم مستعدی سے بتھرانے—‏دوسروں تک پہنچانے—‏سے ہم واقعی اسکی ”‏چوڑائی اور لمبائی اور اُونچائی اور گہرائی“‏ کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۳:‏۱۸‏)‏ اسکے برعکس،‏ اپنے علم کو استعمال میں نہ لانے والا شخص اسے کھونے کے خطرے میں پڑ جاتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ ”‏جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹیگا اور جو بہت بوتا ہے وہ بہت کاٹیگا۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۶‏۔‏

‏”‏فیاض‌دل موٹا ہو جائیگا اور سیراب کرنے والا خود بھی سیراب ہوگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۲۵‏)‏ سچی پرستش کو فروغ دینے کیلئے اپنے وقت اور وسائل کا فراخدلانہ استعمال یہوواہ کو بہت خوش کرتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ وہ ’‏آسمان کے دریچوں کو کھول کر ہم پر برکت برسائیگا یہاں تک کہ ہمارے پاس جگہ نہ رہیگی۔‏‘‏ (‏ملاکی ۳:‏۱۰‏)‏ آجکل اُسکے خادموں کی روحانی خوشحالی پر ذرا غور کریں!‏

صادق اور شریر کی خواہشات میں تضاد کی ایک اَور مثال پیش کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏جو غلّہ روک رکھتا ہے لوگ اُس پر لعنت کرینگے لیکن جو اُسے بیچتا ہے اُس کے سر پر برکت ہوگی۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۲۶‏)‏ کم داموں میں چیزیں خرید کر اُن کی رسد میں کمی کے باعث اُنکی قیمتوں میں اضافہ ہونے پر انہیں فروخت کرنا منافع‌بخش ہو سکتا ہے۔‏ اگرچہ کفایت‌شعاری اور بچت کسی حد تک فائدہ‌مند ہیں لیکن لوگ ایسے شخص کی خودغرضی سے نفرت کرتے ہیں۔‏ اسکے برعکس،‏ کسی بحران سے فائدہ اُٹھا کر بڑے منافعوں سے گریز کرنے والا شخص لوگوں کی مقبولیت حاصل کرتا ہے۔‏

نیکی یا راستی کی خواہش کو برقرار رکھنے کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہوئے اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏جو دل سے نیکی کی تلاش میں ہے مقبولیت کا طالب ہے لیکن جو بدی کی تلاش میں ہے وہ اُسی کے آگے آئیگی۔‏ جو اپنے مال پر بھروسا کرتا ہے گِر پڑیگا لیکن صادق ہرے پتوں کی طرح سرسبز ہونگے۔‏“‏—‏امثال ۱۱:‏۲۷،‏ ۲۸‏۔‏

راستباز شخص زندگی بچاتا ہے

احمقانہ کام کے نقصان‌دہ نتائج ظاہر کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏جو اپنے گھرانے کو دُکھ دیتا ہے ہوا کا وارث ہوگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۲۹الف‏)‏ عکن کی غلط‌کاری اُس کے ’‏دُکھ‘‏ کا سبب بنی اور نتیجتاً اُسے اور اُس کے خاندان کو سنگسار کِیا گیا۔‏ (‏یشوع،‏ ۷ باب‏)‏ آجکل ایک مسیحی خاندان کا سربراہ اور خاندان کے دیگر افراد غلط‌کاری کے ارتکاب میں مسیحی کلیسیا سے خارج ہو جاتے ہیں۔‏ خدا کے احکام سے مطابقت پیدا کرنے میں ذاتی طور پر ناکام رہنے اور خاندان میں سنگین غلط‌کاری کی اجازت دینے سے ایک شخص اپنے اور اپنے خاندان پر دُکھ لاتا ہے۔‏ اُسے اور شاید اُس کے خاندان کے دیگر افراد کو غیرتائب خطاکاروں کے طور پر مسیحی رفاقت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ نیز وہ کیا حاصل کرے گا؟‏ صرف ہوا—‏ایسی چیز جس کی اہمیت یا حقیقی قدروقیمت کچھ بھی نہیں۔‏

آیت کا اگلا حصہ بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏احمق دانا دل کا خادم بنیگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱‏:‏۲۹ب)‏ احمق شخص عملی حکمت کی کمی کے باعث کوئی بڑی ذمہ‌داری حاصل نہیں کر سکتا۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اپنے ذاتی معاملات کو نپٹانے میں ناکامی کی وجہ سے وہ ایک طرح سے کسی دوسرے شخص کا مقروض ہو سکتا ہے۔‏ یوں ایک غیردانشمند شخص ”‏دانا دل کا خادم“‏ بن سکتا ہے۔‏ پس،‏ واضح طور پر اپنے تمام تعلقات میں اچھی بصیرت اور عملی حکمت کو عمل میں لانا اہم ہے۔‏

دانشمند بادشاہ ہمیں یقین دلاتا ہے،‏ ‏”‏صادق کا پھل حیات کا درخت ہے اور جو دانشمند ہے دلوں کو موہ لیتا ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۱:‏۳۰‏)‏ یہ کیسے ممکن ہے؟‏ اپنی بات‌چیت اور چال‌چلن کے ذریعے ایک صادق شخص دوسروں کو روحانی تقویت بخشتا ہے۔‏ وہ یہوواہ کی خدمت کرنے کی حوصلہ‌افزائی حاصل کرتے ہیں اور آخرکار اس زندگی کے وارث بن سکتے ہیں جسکا وعدہ خدا کرتا ہے۔‏

‏’‏گنہگار زیادہ بدلہ پائیگا‘‏

ہمیں صداقت سے تخم‌ریزی کرنے کی نصیحت دینے والی متذکرہ امثال کسقدر اثرآفرین ہے!‏ سلیمان ایک اَور طریقے سے ”‏آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا“‏ کے اُصول کا اطلاق کرتے ہوئے بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏دیکھ صادق کو زمین پر بدلہ دیا جائیگا تو کتنا زیادہ شریر اور گنہگار کو!‏“‏—‏امثال ۱۱:‏۳۱‏۔‏

درست کام کرنے کی حتی‌المقدور کوشش کے باوجود ایک صادق شخص بعض‌اوقات خطا کر بیٹھتا ہے۔‏ (‏واعظ ۷:‏۲۰‏)‏ نیز اُس کی خطا کے لئے اسے تنبیہ کے ذریعے ”‏بدلہ“‏ دیا جاتا ہے۔‏ تاہم،‏ جان‌بوجھ کر غلط روش اختیار کرنے اور راستی کی راہ پر دوبارہ چلنے کی کوشش نہ کرنے والے شریر شخص کا کیا انجام ہوتا ہے؟‏ کیا وہ زیادہ ’‏بدلے‘‏ یا سخت سزا کے لائق نہیں؟‏ پطرس رسول نے لکھا،‏ ”‏جب راستباز ہی مشکل سے نجات پائے گا تو بےدین اور گنہگار کا کیا ٹھکانا؟‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۸‏)‏ پس ہمیں اپنے لئے ہمیشہ صداقت سے تخم‌ریزی کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 11 متبادل نام استعمال کِیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

‏”‏نیک‌سیرت“‏ ابیجیل کو ”‏عزت“‏ بخشی گئی

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویریں]‏

‏’‏شریر کی کمائی باطل ہے،‏ صادق اَجر پاتا ہے‘‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

‏’‏بہت بوئیں،‏ بہت کاٹیں‘‏