معافی مانگنا—صلح کی کُنجی
معافی مانگنا—صلح کی کُنجی
”معافی ایک عظیم خوبی ہے۔ اس سے تشدد کے بغیر اختلافات حل ہو جاتے ہیں، قوموں میں نااتفاقیاں ختم ہو جاتی ہیں، حکومتوں کو اپنے شہریوں کی تکلیف کو تسلیم کرنے کا موقع ملتا ہے اور ذاتی رشتوں میں توازن بحال ہوتا ہے۔“ واشنگٹن ڈی. سی. میں جارج ٹاؤن کی معروف مصنفہ اور ماہرِلسانیاتِعمرانی ڈبیرا تانن نے بیان کِیا۔
بائبل اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ خلوصدلی سے معافی مانگنا اکثراوقات شکستہ رشتے کو جوڑنے کا اثرآفرین طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر، مسرف بیٹے کی یسوع کی تمثیل میں، جب بیٹا دلی معافی کے ساتھ گھر واپس آتا ہے تو باپ پہلے سے کہیں زیادہ اس کے استقبال کے لئے تیار ہوتا ہے۔ (لوقا ۱۵:۱۷-۲۴) جیہاں، کسی بھی شخص کو کبھی اس قدر مغرور نہیں ہونا چاہئے کہ اپنے متکبرانہ احساس کو ترک نہ کر سکے بلکہ اُسے معذرت کرنی اور معافی مانگنی چاہئے۔ بیشک، خلوصدل فروتن اشخاص کے لئے معافی مانگنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔
معافی کی طاقت
قدیم اسرائیل میں ایک دانا عورت ابیجیل نے معافی مانگنے کی مثال قائم کی اگرچہ اُس نے اپنے شوہر کی غلطی کیلئے معافی مانگی تھی۔ اسرائیل کے ۱-سموئیل ۲۵:۲-۳۵۔
بادشاہ بننے والے داؤد نے بیابان میں قیام کے دوران اپنے آدمیوں کیساتھ ابیجیل کے شوہر نابال کے گلّوں کی حفاظت کی تھی۔ تاہم، جب داؤد کے جوان آدمیوں نے روٹی اور پانی کی درخواست کی تو نابال نے ہتکآمیز باتیں کہہ کر انہیں واپس بھیج دیا۔ داؤد نے اشتعال میں آکر اپنے ۴۰۰ آدمیوں کو لیکر نابال اور اُس کے گھرانے کے خلاف چڑھائی کرنے کی ٹھان لی۔ صورتحال کی خبر ملتے ہی ابیجیل داؤد سے ملنے کو دوڑی۔ جب اُس نے داؤد کو دیکھا تو اوندھے مُنہ اُسکے پاؤں پر گِری۔ اس کے بعد اُس نے کہا: ”مجھ پر اَے میرے مالک! مجھی پر یہ گُناہ ہو اور ذرا اپنی لونڈی کو اجازت دے کہ تیرے کان میں کچھ کہے اور تُو اپنی لونڈی کی عرض سُن۔“ اس کے بعد ابیجیل نے صورتحال کی وضاحت کی اور داؤد کو کھانے پینے کا ہدیہ دیا۔ اس پر داؤد نے کہا: ”اپنے گھر سلامت جا۔ دیکھ مَیں نے تیری بات مانی اور تیرا لحاظ کِیا۔“—اپنے شوہر کے گستاخانہ رویے کیلئے معذرت سمیت ابیجیل کے فروتن رویے سے اس کا گھرانا بچ گیا۔ داؤد نے تو اُسے خونریزی سے باز رکھنے کیلئے اس کا شکریہ بھی ادا کِیا تھا۔ اگرچہ ابیجیل نے داؤد اور اسکے آدمیوں کیساتھ بُرا سلوک نہیں کِیا تھا توبھی اس نے اپنے خاندان کیلئے الزام کو قبول کِیا اور داؤد کیساتھ صلح کر لی۔
معافی کب مانگنی چاہئے اس کی ایک اَور مثال پولس رسول ہے۔ ایک مرتبہ اس نے یہودی صدر عدالت کے سامنے اپنا دفاع کِیا۔ پولس کی صافگوئی کے باعث سردار کاہن حننیاہ غصے میں آ گیا اور پولس کے ساتھ کھڑے شخص کو اُس کے مُنہ پر طمانچہ مارنے کا حکم دیا۔ اس پر، پولس نے اُسے کہا: ”اَے سفیدی پھری ہوئی دیوار! خدا تجھے ماریگا۔ تُو شریعت کے موافق میرا انصاف کرنے کو بیٹھا ہے اور کیا شریعت کے برخلاف مجھے مارنے کا حکم دیتا ہے؟“ جب مشاہدین نے پولس پر سردار کاہن کو بُرابھلا کہنے کا الزام لگایا تو رسول نے یہ کہتے ہوئے فوراً اپنی غلطی تسلیم کی: ”اَے بھائیو! مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ سردار کاہن ہے کیونکہ لکھا ہے کہ اپنی قوم کے سردار کو بُرا نہ کہہ۔“—اعمال ۲۳:۱-۵۔
پولس کی یہ بات درست تھی کہ قاضیوں کو تشدد نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پھربھی اُس نے سردار کاہن کیلئے اس طریقے سے نادانستہ طور پر کچھ کہنے کے لئے معافی مانگی جسے گستاخی خیال کِیا جا سکتا تھا۔ * پولس کی معذرت سے صدر عدالت اس کی بات سننے کیلئے آمادہ ہو گئی۔ چونکہ پولس عدالت کے ارکان کے درمیان بحثوتکرار سے واقف تھا اس لئے اس نے ان سے کہا کہ قیامت پر ایمان رکھنے کے باعث اُس پر مقدمہ چل رہا ہے۔ نتیجتاً، فریسیوں کے پولس کا ساتھ دینے کی وجہ سے کافی نااتفاقی پیدا ہو گئی۔—اعمال ۲۳:۶-۱۰۔
ان دو بائبل مثالوں سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ان دونوں واقعات میں پُرخلوص پشیمانی کے اظہارات نے رابطے کی راہ مزید ہموار کی۔ پس معذرت کے الفاظ صلح قائم رکھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ جیہاں اپنی غلطی تسلیم کرنا اور نقصان کیلئے معافی مانگنا تعمیری باتچیت کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔
’لیکن میری تو کوئی غلطی نہیں‘
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کسی قولوفعل سے کسی کو دُکھ پہنچا ہے تو ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ شخص نامعقول یا بہت زودرنج ہے۔ تاہم، یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو مشورہ دیا: ”پس اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔ تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آکر اپنی نذر گذران۔“—متی ۵:۲۳، ۲۴۔
مثال کے طور پر، ایک بھائی محسوس کر سکتا ہے کہ آپ نے اُس کے خلاف گناہ کِیا ہے۔ ایسی صورتحال میں یسوع نے کہا کہ آپ جا کر ”اپنے بھائی سے ملاپ“ کریں خواہ آپ محسوس کریں کہ آپ نے غلطی کی ہے یا نہیں۔ یونانی متن کے مطابق، یسوع نے جو الفاظ استعمال کئے وہ ”آپس کی دُشمنی کے بعد باہمی سمجھوتے کو ظاہر کرتے ہیں۔“ (وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز) واقعی، جب دو اشخاص میں کچھ اَنبن ہو تو دونوں فریقین کا قصور ہو سکتا ہے کیونکہ دونوں ناکامل ہیں اور غلطی کر سکتے ہیں۔ یہ بات عموماً باہمی سمجھوتے کا تقاضا کرتی ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ کون غلط ہے اور کون صحیح بلکہ یہ کہ میلملاپ کرنے کیلئے پہل کون کریگا۔ جب پولس رسول نے دیکھا کہ کرنتھس کے مسیحی خدا کے ساتھی خادموں کو مالی نااتفاقیوں جیسے ذاتی اختلافات پر دُنیاوی عدالتوں میں لیکر جا رہے تھے تو اُس نے ان کی اصلاح کی: ”ظلم اُٹھانا کیوں نہیں بہتر جانتے؟ اپنا نقصان کیوں نہیں قبول کرتے؟“ (۱-کرنتھیوں ۶:۷) اگرچہ پولس نے ساتھی مسیحیوں کو دُنیاوی عدالتوں میں اپنے ذاتی اختلافات کی تشہیر کرنے سے منع کِیا توبھی اُصول واضح تھا: ساتھی مسیحیوں کے درمیان صلح کسی کو غلط یا صحیح ثابت کرنے سے زیادہ اہم تھی۔ اس اُصول کو یاد رکھنا ایسی غلطی کے لئے معافی مانگنا آسان بناتا ہے جو کسی شخص کے خیال میں ہم نے اُس کے خلاف کی ہے۔
خلوصدلی کی ضرورت
تاہم، بعض لوگ ان الفاظ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں جن سے معافی مانگنا مُراد ہے۔ مثال کے طور پر، جاپان میں، معافی مانگنے کیلئے استعمال ہونے والا مثالی اظہار سُمیماسن ہزاروں مرتبہ سنا جاتا ہے۔ اسے شکرگزاری کا اظہار کرنے کے لئے بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے، یہ مہربانی کے لئے جوابیعمل نہ دکھانے کے مضطرب احساس کی دلالت بھی کرتا ہے۔ اس کے کثیر استعمال کی وجہ سے بعض محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ لفظ بولنے والے واقعی پُرخلوص ہیں۔ معافی کے مختلف اظہار دیگر ثقافتوں میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔
کسی بھی زبان میں، معافی مانگتے وقت پُرخلوص ہونا اہم ہے۔ لبولہجہ کو حقیقی تاسف کا اظہار کرنا چاہئے۔ یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں اپنے شاگردوں کو سکھایا: ”تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔“ (متی ۵:۳۷) اگر آپ معافی مانگتے ہیں تو اس کی بابت سنجیدہ ہوں! مثال کے طور پر: ایک آدمی ائیرپورٹ پر چیکاِن کاؤنٹر پر کھڑا معذرت کرتا ہے جب اس کا سامان قطار میں آگے کھڑی عورت سے ٹکراتا ہے۔ چند منٹ بعد، جب قطار آگے چلتی ہے تو سوٹکیس دوبارہ اُسی عورت سے ٹکراتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر آدمی خوشاخلاقی سے معذرت کرتا ہے۔ جب ایک مرتبہ پھر یہی واقع ہوتا ہے تو عورت کا ہمسفر اُسے بتاتا ہے کہ اگر وہ مخلصانہ معذرت کر رہا ہے توپھر اُسے اس بات کا یقین کرنا چاہئے کہ سامان عورت سے دوبارہ نہ ٹکرائے۔ جیہاں، خلوصدل معذرت کے ہمراہ غلطی کو دوبارہ نہ دہرانے کا عزم بھی ہونا چاہئے۔
اگر ہم خلوصدل ہیں تو ہماری معذرت میں کسی بھی غلطی کا اعتراف، معافی کی درخواست اور جس حد تک ممکن ہو نقصان کی تلافی شامل ہوگی۔ درحقیقت، جس شخص کو ٹھیس پہنچی ہے اُسے تائب خطاکار کو خوشی سے معاف کرنا چاہئے۔ (متی ۱۸:۲۱، ۲۲؛ مرقس ۱۱:۲۵؛ افسیوں ۴:۳۲؛ کلسیوں ۳:۱۳) دونوں فریقین کے ناکامل ہونے کی وجہ سے صلحصفائی رکھنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ تاہم، معذرت صلح کرنے کے سلسلے میں کافی اثر رکھتی ہے۔
جب معذرت غیرمناسب ہوتی ہے
اگرچہ پشیمانی کے اظہارات اچھا اثر رکھتے اور صلح میں معاونت کرتے ہیں توبھی ایک دانشمند شخص ایسے اظہارات سے گریز کرتا ہے جب ایسا کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، فرض کریں خدا کے حضور راستی کا مسئلہ فلپیوں ۲:۸) تاہم، اُس نے اپنی تکلیف کو کم کرنے کی خاطر اپنے اعتقادات کیلئے معذرت نہیں کی تھی۔ نیز یسوع نے اُس وقت معافی نہیں مانگی تھی جب سردار کاہن نے اس کا تقاضا کِیا: ”مَیں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تُو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔“ یسوع نے بزدلانہ طریقے سے معذرت کرنے کی بجائے دلیری سے جواب دیا: ”تُو نے خود کہہ دیا بلکہ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اُسکے بعد تم ابنِآدم کو قادرِمطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔“ (متی ۲۶:۶۳، ۶۴) اپنے باپ یہوواہ خدا کیلئے راستی کی قیمت پر سردار کاہن کیساتھ صلح برقرار رکھنے کا خیال یسوع کے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا۔
ہے۔ جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو اُس نے ”اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔“ (مسیحی اختیار والوں کی عزتواحترام کرتے ہیں۔ تاہم، انہیں خدا کے لئے اپنی فرمانبرداری اور اپنے بھائیوں کے لئے محبت کی خاطر معذرت کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ رومیوں ۱۳:۵-۷۔
صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں
آجکل، ہم غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے جدِامجد آدم سے ناکاملیت اور گناہ ورثے میں پایا ہے۔ (رومیوں ۵:۱۲؛ ۱-یوحنا ۱:۱۰) آدم کی گنہگارانہ حالت خالق کے خلاف بغاوت کا نتیجہ تھی۔ تاہم شروع میں، آدم اور حوا کامل اور بےگناہ تھے اور خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ انسانوں کو دوبارہ کامل کر دیگا۔ وہ گناہ اور اس کے اثرات مٹا دیگا۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۶، ۵۷۔
ذرا سوچیں اس کا کیا مطلب ہوگا! زبان کے استعمال کی بابت نصیحت کرتے ہوئے یسوع کے سوتیلے بھائی یعقوب نے کہا: ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔“ (یعقوب ۳:۲) ایک کامل آدمی اپنی زبان کو قابو میں رکھ سکتا ہے اس طرح اُسے اس کے غلط استعمال کیلئے معافی مانگنی نہیں پڑتی۔ وہ ’اپنے سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔‘ جب ہم کامل بن جائینگے تو وہ کتنا شاندار وقت ہوگا! پھر اشخاص کے درمیان صلح کرنے میں کوئی رکاوٹیں نہیں رہینگی۔ تاہم اس دوران، غلطی کیلئے مخلص اور موزوں معذرت صلح قائم رکھنے میں انتہائی مددگار ہو سکتی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 8 بہت اغلب ہے کہ پولس کمزور نظر کے باعث سردار کاہن کو پہچان نہ سکا ہو۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
ہم پولس کے نمونے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
[صفحہ ۷ پر تصویر]
جب ہر کوئی کامل ہوگا تو پھر صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی