دینا خوشی بخشتا ہے
دینا خوشی بخشتا ہے
جینوال شمالمشرقی برازیل کے ایک پسماندہ علاقے کا رہنے والا تھا اور ہسپتال میں سیکورٹی گارڈ کی ملازمت سے حاصل ہونے والی معمولی تنخواہ سے اپنے بیویبچوں کی کفالت کرتا تھا۔ اپنی مشکلات کے باوجود، جینوال باقاعدگی سے دہیکی دیتا تھا۔ وہ یاد کرتا ہے، ”خدا کی راہ میں ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہنے کی وجہ سے بعضاوقات، میرا خاندان بھوکا ہی رہ جاتا تھا۔“
ملازمت چھوٹ جانے کے بعد بھی، جینوال دہیکی دیتا رہا۔ اُسکے پادری نے اُسے تاکید کی کہ خدا کو آزمانے کیلئے وہ زیادہ ہدیے دے۔ اُس نے یقیندہانی کرائی کہ خدا اُسے ضرور برکت دیگا۔ لہٰذا جینوال نے اپنا گھر بیچنے اور ساری رقم چرچ کو دینے کا فیصلہ کِیا۔
صرف جینوال ہی اس قدر خلوصدلی سے ہدیے نہیں دیتا تھا۔ انتہائی غریب لوگ بھی باقاعدگی سے دہیکی دیتے ہیں، اُن کے چرچ اُنہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ دہیکی بائبل کا تقاضا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟
دہیکی اور شریعت
دہیکی دینے کا حکم اُس شریعت کا حصہ تھا جو یہوواہ خدا نے تقریباً ۵۰۰،۳ سال پہلے قدیم اسرائیل کے ۱۲ قبیلوں کو دی تھی۔ شریعت میں ہیکل کے اندر خدمت پر مامور لاویوں کی کفالت کے لئے ہر شخص کو اپنی زمین اور گلّوں کی پیداوار کا دسواں حصہ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔—احبار ۲۷:۳۰، ۳۲؛ گنتی ۱۸:۲۱، ۲۴۔
یہوواہ نے اسرائیلیوں کو یقیندہانی کرائی کہ شریعت ’اُن کے لئے بہت سخت نہیں ہوگی۔‘ (استثنا ۳۰:۱۱) جب تک وہ وفاداری کیساتھ یہوواہ کے حکم مانتے رہینگے جن میں دہیکی دینا بھی شامل ہے، تو اُنہیں اچھی پیداوار حاصل ہوگی۔ نیز تحفظ کیلئے ایک اَور سالانہ دہیکی کا حکم تھا جو عام طور پر قوم اپنی مذہبی تقریبات پر باقاعدگی کے ساتھ ادا کِیا کرتی تھی۔ تاکہ ’پردیسی، یتیم اور بیوائیں‘ کھا کر سیر ہوں۔—استثنا ۱۴:۲۸، ۲۹؛ ۲۸:۱، ۲، ۱۱-۱۴۔
دہیکی ادا کرنے میں ناکام رہنے کی صورت میں شریعت نے کوئی خاص سزا تجویز نہیں کی تھی لیکن ہر اسرائیلی اس طرح سچی پرستش کی حمایت کرنے کی اخلاقی ذمہداری رکھتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ملاکی کے دنوں میں یہوواہ نے دہیکی ادا کرنے سے غفلت برتنے والے اسرائیلیوں پر الزام لگایا کہ وہ دہیکیوں ملاکی ۳:۸) کیا دہیکی ادا نہ کرنے والے مسیحیوں پر بھی یہ الزام لگایا جا سکتا ہے؟
اور ہدیوں کے سلسلے میں اُسے ٹھگتے ہیں۔‘ (آئیے غور کریں۔ قومی قوانین عموماً ملکی سرحدوں سے باہر عائد نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر، برطانیہ میں بائیں جانب موٹر گاڑی چلانے کی پابندی کا اطلاق فرانس کے ڈرائیوروں پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح، دہیکی کا تقاضا کرنے والی شریعت بھی خدا اور اسرائیلی قوم کے مابین ایک عہد تھی۔ (خروج ۱۹:۳-۸؛ زبور ۱۴۷:۱۹، ۲۰) صرف اسرائیلی ہی اس شریعت کے ماتحت تھے۔
علاوہازیں، یہ سچ ہے کہ خدا لاتبدیل ہے مگر اُسکے تقاضے بعضاوقات بدل جاتے ہیں۔ (ملاکی ۳:۶) بائبل قطعی طور پر بیان کرتی ہے کہ ۳۳ س.ع. میں یسوع کی قربانی نے شریعت اور اس کیساتھ ساتھ ”شریعت کے مطابق دہیکی“ کے حکم کو ’مٹا ڈالا‘ یا ’ڈھا دیا‘ تھا۔—کلسیوں ۲:۱۳، ۱۴؛ افسیوں ۲:۱۳-۱۵؛ عبرانیوں ۷:۵، ۱۸۔
مسیحی ہدیے
تاہم، سچی پرستش کی معاونت کیلئے عطیات کی ضرورت تھی۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو ’زمین کی انتہا تک گواہی دینے‘ کا حکم دیا تھا۔ (اعمال ۱:۸) ایمانداروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ کلیسیاؤں کا دورہ کرنے اور اُنہیں مضبوط بنانے کیلئے مسیحی اُستادوں اور نگہبانوں کی ضرورت بھی بڑھتی گئی۔ اکثراوقات، بیواؤں، یتیموں اور دیگر حاجتمندوں کی دیکھبھال کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ پہلی صدی کے مسیحیوں نے اس سلسلے میں اُٹھنے والے اخراجات کیسے پورے کئے؟
تقریباً ۵۵ س.ع. میں، یورپ اور ایشیائےکوچک کے غیرقوم مسیحیوں سے یہودیہ کی نادار کلیسیا کیلئے ہدیوں کی درخواست کی گئی۔ کرنتھس کی کلیسیا کے نام اپنے خطوط میں، پولس رسول بیان کرتا ہے کہ ’مُقدسوں کیلئے یہ چندہ کیسے جمع کِیا جاتا ہے۔‘ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۱) پولس کے الفاظ مسیحی ہدیے کی بابت جوکچھ آشکارا کرتے ہیں شاید آپ اُسے پڑھ کر حیران رہ جائیں۔
پولس رسول ساتھی مسیحیوں کو ہدیہ دینے کے لئے قائل نہیں کِیا کرتا تھا۔ درحقیقت، مکدنیہ کے مسیحی جو ’مصیبت کی بڑی آزمایش اور سخت غریبی کا شکار تھے وہ خیرات اور مُقدسوں کی خدمت کی شراکت کی بابت بڑی منت کے ساتھ درخواست کرتے رہتے تھے۔‘—۲-کرنتھیوں ۸:۱-۴۔
سچ ہے کہ پولس نے مالی طور پر مستحکم کرنتھیوں سے مکدنیہ کے بھائیوں کی سخاوت کی نقل کرنے کیلئے حوصلہافزائی کی تھی۔ ایک کتاب کے مطابق اُس نے ’حکم جاری کرنے سے اجتناب کِیا اور اس کی بجائے درخواست، تجویز، حوصلہافزائی یا استدعا پر زور دیا۔ اگر زبردستی کی جاتی ہے تو کرنتھیوں کے ہدیوں سے آمادگی اور تپاک ختم ہو جائیگا۔ پولس جانتا تھا کہ ”خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے“ مگر ”لاچاری سے“ دینے والے کو پسند نہیں کرتا۔—۲-کرنتھیوں ۹:۷۔
ایمان اور علم کیساتھ ساتھی مسیحیوں کیلئے حقیقی محبت نے کرنتھیوں کو خودبخود دینے کی تحریک دی ہوگی۔—۲-کرنتھیوں ۸:۷، ۸۔
’جس قدر کسی نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے‘
مخصوص رقم یا کچھ فیصد تجویز کرنے کی بجائے، پولس نے محض یہ مشورہ دیا کہ ”ہفتہ کے پہلے دن تم میں سے ہر شخص اپنی آمدنی کے موافق کچھ . . . رکھ چھوڑا کرے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۲) باقاعدہ بنیادوں پر کچھ رقم مختص کرنے سے کرنتھس کے لوگ جب پولس اُن کے پاس آئیگا تو لاچاری یا مجبوری سے دینے کے دباؤ کا شکار نہیں ہونگے۔ کوئی کتنا دے گا اس بات کا فیصلہ ہر مسیحی کا ذاتی معاملہ تھا کہ اُس نے ’اپنے دل میں کس قدر ٹھہرایا ہے۔‘—۲-کرنتھیوں ۹:۵، ۷۔
فیاضی سے فصل کاٹنے کیلئے کرنتھیوں کو فیاضی سے بونے کی بھی ضرورت تھی۔ کبھی بھی ”اپنی حیثیت سے بڑھ کر“ دینے کا مشورہ نہیں دیا گیا تھا۔ پولس نے اُنہیں یقیندہانی کرائی کہ ’مَیں نہیں چاہتا کہ تم کو تکلیف ہو۔ انسان کی خیرات اُس کے موافق مقبول ہوگی جو آدمی کے پاس ہے نہ اُس کے موافق جو اُس کے پاس نہیں۔‘ (۲-کرنتھیوں ۸:۱۲، ۱۳؛ ۹:۶) بعدازاں پولس نے ایک خط میں آگاہ کِیا: ”اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۸) پولس نے اس اصول کی تحقیر کرنے والے ہدیوں کی حوصلہافزائی نہیں کی تھی۔
اعمال ۳:۶) پولس کلیسیاؤں کی طرف سے بھیجے جانے والے تحائف کو شکرگزاری کے ساتھ قبول کر لیتا تھا تاہم وہ اپنے بھائیوں پر ”بوجھ“ ڈالنے سے گریز کرتا تھا۔—۱-تھسلنیکیوں ۲:۹؛ فلپیوں ۴:۱۵-۱۸۔
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ پولس حاجتمند ’مُقدسوں کے لئے ہدیوں‘ کی نگرانی پر مامور تھا۔ صحائف میں ہم یہ نہیں پڑھتے کہ پولس یا دیگر رسول ہدیے جمع کرتے یا اپنی ذاتی خدمتگزاری کی کفالت کے لئے دہیکی وصول کِیا کرتے تھے۔ (آجکل رضاکارانہ ہدیے
صاف ظاہر ہے کہ پہلی صدی کے مسیحی دہیکی کی بجائے رضاکارانہ ہدیوں کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم، آپ شاید سوچیں کہ آیا خوشخبری کی منادی کے کام اور حاجتمند مسیحیوں کی مالی امداد کرنے کا کوئی اس سے بھی مؤثر طریقہ ہے۔
مندرجہذیل پر غور کریں۔ سن ۱۸۷۹ میں اس رسالے کے مُدبران نے علانیہ بیان کِیا کہ وہ اس کام کی معاونت کیلئے ”کبھی بھی آدمیوں سے بھیک نہیں مانگیں گے۔“ کیا یہ فیصلہ بائبل سچائی پھیلانے کے سلسلے میں یہوواہ کے گواہوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے؟
آجکل گواہ ۲۳۵ سے زائد ممالک میں بائبل، مسیحی کُتب اور دیگر مطبوعات تقسیم کرتے ہیں۔ مینارِنگہبانی بائبل پر مبنی رسالہ ہے جسکی شروع میں ماہانہ تقسیم ایک زبان میں ۰۰۰،۶ کاپیاں تھی۔ لیکن اب اس پندرہ روزہ رسالے کی ۱۴۶ زبانوں میں ۰۰۰،۰۰،۴۰،۲ سے زیادہ کاپیاں شائع ہوتی ہیں۔ بائبل کے عالمگیر تعلیمی کام کو منظم کرنے کیلئے گواہوں نے ۱۱۰ ممالک میں تنظیمی مراکز تعمیر کئے ہیں۔ علاوہازیں، اُنہوں نے بائبل تعلیم کے متلاشیوں کیلئے اجلاس کے ہزاروں مقامات نیز بڑےبڑے اسمبلی ہالز تعمیر کئے ہیں۔
اگرچہ اوّلیت لوگوں کی روحانی ضروریات کو دی جاتی ہے، توبھی یہوواہ کے گواہ ساتھی ایمانداروں کی مادی ضروریات سے بھی غافل نہیں۔ جب اُنکے بھائی جنگوں، بھونچالوں، قحطوں اور طوفانوں سے متاثر ہوتے ہیں تو وہ طبّی امداد، خوراک، کپڑے اور دیگر ضروریاتِزندگی فراہم کرنے میں
پیشپیش ہوتے ہیں۔ اِن کی کفالت انفرادی مسیحیوں یا کلیسیاؤں کی طرف سے ملنے والے عطیات کے ذریعے کی جاتی ہے۔رضاکارانہ عطیات متذکرہ جینوال جیسے محدود وسائل رکھنے والے بھائیوں کا بوجھ ہلکا کر دیتے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ اس سے پہلے کہ جینوال اپنا گھر فروخت کرتا، یہوواہ کے گواہوں کی ایک کُلوقتی خادمہ، ماریا اُسکے گھر پہنچ گئی۔ ”ہماری گفتگو نے میرے خاندان کو بہت سی غیرضروری مشکلات سے بچا لیا،“ جینوال یاد کرتا ہے۔
جینوال سمجھ گیا کہ خداوند کا کام دہیکیوں کا محتاج نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت دہیکی ایک صحیفائی تقاضا نہیں ہے۔ اُس نے یہ بھی سیکھ لیا کہ مسیحیوں کو اُس وقت برکت ملتی ہے جب وہ فیاضی سے ہدیے پیش کرتے ہیں لیکن اُن سے اپنی استطاعت سے زیادہ کی توقع نہیں کی جاتی۔
رضامندی سے دینا جینوال کے لئے حقیقی خوشی کا باعث بنا ہے۔ وہ اس کا اظہار یوں کرتا ہے: ”شاید مَیں دسواں حصہ تو نہیں دے سکتا مگر مَیں اپنے ہدیوں سے خوش ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہوواہ بھی خوش ہے۔“
[صفحہ ۶ پر بکس/تصویریں]
کیا ابتدائی آبائےکلیسیا نے دہیکی کی تعلیم دی تھی؟
”ہمارے ہاں دولتمند ضرورتمند کی مدد کرتے ہیں . . . جو لوگ مالی طور پر مستحکم ہیں وہ رضامندی سے جن کی چاہے مدد کرتے ہیں۔“—دی فرسٹ اپولوجی، جسٹن مارٹر، تقریباً ۱۵۰ س.ع.
”اگرچہ یہودی اپنے مال سے خدا کو دہیکی دینے کے پابند تھے مگر جنہیں آزادی حاصل تھی وہ اپنا سب کچھ خداوند کے مقاصد کیلئے وقف کر دیتے تھے . . . جیسے اُس غریب بیوہ نے اپنا سب کچھ خدا کی ہیکل کے خزانہ میں ڈال دیا تھا۔“—اگینسٹ ہیریسیز، آئرینیس، تقریباً ۱۸۰ س.ع.
”اگرچہ ہمارا بھی چندے کا ڈبہ ہے لیکن یہ نجات خریدنے کی رقم کیلئے نہیں بنا گویا کہ مذہب کی قیمت لگائی جا رہی ہے۔ ہر مہینے اگر کوئی اپنی رضامندی سے اس میں تھوڑا بہت ہدیہ ڈالتا ہے تو یہ اسکی خوشی اور استطاعت کا معاملہ ہے، کسی کو مجبور نہیں کِیا جاتا سب کچھ رضاکارانہ طور پر دیا جاتا ہے۔“—اپولوجی، طرطلیان، تقریباً ۱۹۷ س.ع.
”کلیساؤں میں اضافے کیساتھ مختلف ادارے قائم کئے گئے اور حسبِضرورت پادریوں کی مستقل اور مناسب معاونت کو یقینی بنانے کیلئے قوانین تشکیل دئے گئے۔ دہیکی کا تصور قدیم شریعت سے لیا گیا تھا . . . اس موضوع پر ابتدائی قانون ۵۶۷ میں فرانس کے شہر ٹوئرز میں جمع ہونے والے بشپ صاحبان کے خط اور ۵۸۵ میں ماکون کی کونسل کے مذہبی قوانین میں پایا جاتا تھا۔“—دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا۔
[تصویر کا حوالہ]
.Coin, top left: Pictorial Archive )Near Eastern History( Est
[صفحہ ۴ پر تصویر]
رضامندی سے دینا خوشی بخشتا ہے
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
رضاکارانہ عطیات منادی، ہنگامی صورتحال اور عبادتگاہوں کی تعمیر کی کفالت کرتے ہیں