”اراراط کی سرزمین“ میں عدالتِعالیہ نے سچی پرستش کی حمایت کی
”اراراط کی سرزمین“ میں عدالتِعالیہ نے سچی پرستش کی حمایت کی
ایک آرمینی آدمی پر جو تین بچوں کا باپ ہے عدالتِعالیہ میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ اِس آدمی کی آزادی بلکہ اُسکے ہمایمانوں کی آزادی بھی خطرے میں ہے۔ وہ بائبل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریے کو سمجھا رہا ہے اور کمرۂعدالت میں تمام لوگ اُسکی باتوں کو غور سے سن رہے ہیں۔ اِس مقدمے کا نتیجہ سچی پرستش کیلئے ایک بہت بڑی جیت تھا۔ یہ کسطرح ممکن ہوا؟ آئیے، اِسکو سمجھنے کیلئے ہم پورے واقعہ پر غور کرتے ہیں۔
آرمینیا کے مغرب میں ترکی کا ملک ہے اور اُسکے شمال میں کوہِقاف کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ آرمینیا کی آبادی تقریباً ۳۰ لاکھ ہے اور یریوان اُس کا دارالحکومت ہے۔ دارلحکومتی شہر یریوان سے کوہِاراراط کی دو چوٹیاں صاف نظر آتی ہیں جنکے بارے میں روایت ہے کہ طوفان کے بعد نوح کی کشتی انہی چوٹیوں پر آ کر ٹکی تھی۔—پیدایش ۸:۴۔ *
یہوواہ کے گواہ ۱۹۷۵ سے آرمینیا میں اپنی مسیحی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ سن ۱۹۹۱ تک آرمینیا سوویت یونین کے ماتحت تھا۔ آزادی کے بعد حکومت کے مذہبی امور کے ایک ریاستی ادارے نے مختلف مذاہب کو قانونی
طور پر رجسٹر کرنا تھا۔ لیکن یہ ادارہ غیرجانبداری کے مسئلے پر یہوواہ کے گواہوں کو رجسٹر کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔ نتیجتاً، ۱۹۹۱ سے لے کر ۱۰۰ سے زائد نوجوان گواہوں کو بائبل کے اصولوں کی فرمانبرداری میں فوج میں بھرتی سے انکار پر مجرم ٹھہراتے ہوئے بہتیروں کو قید کی سزا بھگتنی پڑی ہے۔اِس ادارے نے سرکاری وکیل سے لووا مارگاریان نامی ایک شخص کی مذہبی کارگزاریوں پر تحقیقات کرنے کی درخواست بھی کی۔ بھائی مارگاریان ایک مسیحی بزرگ ہے۔ وہ ایک بجلی پیدا کرنے والی کمپنی کے لئے وکیل کے طور پر ملازمت کرتا ہے۔ آخرکار سرکاری وکیل بھائی مارگاریان پر دفعہ ۲۴۴ کی بِنا پر الزام لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ دفعہ ایک پُرانے قانون سے لی گئی ہے جو اُس زمانے میں جاری کِیا گیا تھا جب آرمینیا سوویت حکومت کے ماتحت تھا۔ سوویت حکومت نے یہ قانون یہوواہ کے گواہوں اور دوسرے مذہبی گروہوں کی کارگزاریوں کو روکنے اور ختم کرنے کے مقصد سے جاری کِیا تھا۔
اِس قانون کے مطابق ایک ایسے مذہبی گروہ کو قائم کرنا اور اُسکی سربراہی کرنا جُرم ہے جسے حکومت نے رجسٹر نہ کِیا ہو، خاص طور پر اگر یہ گروہ منادی کرنے کے بہانے ’نوجوان لوگوں کو مذہبی اجلاسوں پر حاضر ہونے کی دعوت دیتا‘ اور ’اپنے ارکان کو اپنی معاشرتی ذمہداریوں کو پورا کرنے سے روکتا ہے۔‘ سرکاری وکیل نے اِس قانون کی بِنا پر بھائی مارگاریان پر دو الزام لگائے۔ بھائی مارگاریان پر پہلا الزام یہ لگایا کہ اُس نے جن مذہبی اجلاسوں کو منعقد کِیا تھا اُن پر چھوٹے بچے بھی حاضر تھے۔ بھائی مارگاریان پر دوسرا الزام یہ لگایا کہ اُس نے کلیسیا کے نوجوان لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے سے منع کِیا تھا۔
مقدمے کا آغاز
مقدمہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں جمعہ، ۲۰ جولائی ۲۰۰۱ کے دن شروع ہوا اور اگست کے مہینے میں ختم ہوا۔ مقدمے کے دوران گواہی دینے والوں کو آخرکار یہ تسلیم کرنا پڑا کہ حکومت کی خفیہ پولیس نے اُنہیں بھائی مارگاریان کے خلاف تحریری اور زبانی گواہی دینے پر مجبور کِیا تھا۔ ایک عورت نے بیان کِیا کہ اُسے ایک سرکاری افسر نے یہ گواہی دینے کو کہا تھا کہ ”یہوواہ کے گواہ ہماری حکومت اور ہمارے مذہب کے خلاف ہیں۔“ جب اُس عورت سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یہوواہ کے گواہوں کو ذاتی طور پر جانتی ہے تو اُسے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ اُن سے واقف نہیں ہے۔ وہ صرف گواہوں کے بارے میں حکومتی ٹیوی پروگراموں کے حوالے سے جانتی ہے جن میں اُن پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔
جب بھائی مارگاریان کے بیان کی باری آئی تو اُس نے کہا کہ چھوٹے بچے اپنے والدین سے اجازت لے کر ہی یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ فوج میں بھرتی ہونا ایک ذاتی فیصلہ ہے۔ سرکاری وکیل نے کئی دنوں تک جرح جاری رکھی۔ جب بھی وکیل اُسکے ایمان کے بارے میں سوال کرتا تو بھائی مارگاریان اپنی بائبل کو استعمال کرتے ہوئے ادب سے جواب دیتا۔ اِسی دوران وکیل بھی اپنی بائبل میں صحائف کو پڑھتا تاکہ وہ معلوم کر سکے کہ بھائی مارگاریان کے جواب درست ہیں یا نہیں۔
جج نے ۱۸ ستمبر، ۲۰۰۱ کے دن اعلان کِیا کہ مارگاریان بےقصور ہے۔ جج نے یہ بھی کہا کہ مارگاریان جوکچھ کرتا ہے وہ ”جُرم نہیں ہے۔“ ایک امریکی اخبار نے مقدمے کے بارے میں لکھا: ”آرمینیا کی عدالت میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک مذہبی راہنما کو بریالزام ٹھہرایا گیا۔ اُس پر دو الزامات لگائے گئے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی منادی کے ذریعے لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے سے منع کرتا ہے۔ مقدمہ دو مہینوں تک جاری رہا جسکے بعد عدالت نے فیصلہ کِیا کہ
لووا مارگاریان کے خلاف ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اُسے رِہا کر دیا جائے۔ اُسے تقریباً پانچ سال تک قید ہو سکتی تھی۔ . . . آرمینیا کا آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن اِسکے باوجود اکثر نئے مذاہب کو رجسٹر ہونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آرمینیا میں زیادہتر لوگ رسولی چرچ کے ارکان ہیں اور اسی چرچ کو دوسرے مذاہب کی نسبت زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔“ یورپ میں تحفظ اور تعاون کو برقرار رکھنے والی ایک تنظیم نے مقدمے کے بارے میں ۱۸ ستمبر ۲۰۰۱ کے اپنے بیان میں لکھا: ”ہم عدالت کے فیصلے سے بہت خوش ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اِس بات پر بہت افسوس ہے کہ حکومت نے اس قسم کا مقدمہ چلایا۔ حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔“حکومت کی طرف سے مزید الزامات
اِس جیت کے باوجود سرکاری وکیلوں نے عدالت کے فیصلے پر اپیل کی جسکی وجہ سے ایک نیا مقدمہ شروع ہوا جو چار مہینوں تک جاری رہا۔ مقدمے کیلئے تین ججوں کی ایک کمیٹی مقرر ہوئی۔ کمیٹی کے صدر نے بھائی مارگاریان سے پہلا سوال کِیا۔ لیکن جیسے ہی وہ جواب دینے لگا صدر نے اُسکی بات کاٹ دی۔ اِسکے بعد کمیٹی کے صدر نے بھائی مارگاریان کو ایک بھی سوال کا جواب دینے کی اجازت نہیں دی۔ جب بھائی مارگاریان کا وکیل اُس سے سوال کرنے لگا تو کمیٹی کے صدر نے ان میں سے زیادہتر سوالات کو عدالتی ریکارڈ میں درج کرنے سے منع کر دیا۔ کمرۂعدالت میں بہتیرے ایسے لوگ بھی موجود تھے جو یہوواہ کے گواہوں کے خلاف تھے۔ مقدمے کے دوران یہ لوگ بھائی مارگاریان کو اُونچی آواز میں گالیاں دیتے رہے۔ اِسکے علاوہ مقدمے کے بارے میں ٹیوی میں بھی طرح طرح کی جھوٹی خبریں دکھائی جاتی تھیں۔ اِن میں سے ایک خبر یہ تھی کہ بھائی مارگاریان نے اپنا قصور تسلیم کر لیا ہے۔
دو مہینوں کے بعد کمیٹی کو حکومت کے اُس ادارے کی طرف سے جس نے بھائی مارگاریان کے خلاف کارروائی شروع کی تھی ایک خط ملا۔ کمیٹی کے صدر نے عدالت کے سامنے خط پڑھ کر سنایا۔ اِس خط میں بھائی مارگاریان کو مجرم قرار دینے کا حکم درج تھا۔ کمرۂعدالت میں دوسرے ممالک کے نمائندے بھی حاضر تھے۔ جب اُنہوں نے خط کو دیکھا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ وہ کیوں؟ اِسلئےکہ آرمینیا کی حکومت نے کونسل آف یورپ میں شامل ہونے کی
درخواست کی تھی اور اِس درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”آرمینیا میں ہر طرح کے مذاہب کیلئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔“مقدمے کی وجہ سے گواہوں کے لئے صورتحال بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ گواہوں کو کمرۂعدالت کے اندر اور باہر پریشان کِیا جا رہا تھا۔ لوگ گواہ بہنوں کو ٹھوکریں مارتے تھے۔ ایک گواہ بھائی پر حملہ کِیا گیا۔ جب اُس نے حملے کا بدلہ نہ لیا تو کسی نے پیچھے سے اُس کی کمر پر اتنی زور سے مارا کہ اُسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
اِسی دوران مقدمے کیلئے ایک نئے صدر کو مقرر کِیا گیا۔ جب کمرۂعدالت کے حاضرین میں سے کچھ لوگوں نے دوبارہ سے بھائی مارگاریان کے وکیل کو ڈرانے کی کوشش کی تو اِس نئے صدر نے ایسی حرکتوں کی اجازت نہ دی۔ یہانتک کہ جب ایک عورت نے بھائی مارگاریان کے وکیل کو اُونچی آواز میں دھمکیاں دینا شروع کر دیں تو کمیٹی کے صدر نے پولیس سے کہا کہ وہ عورت کو کمرۂعدالت سے باہر نکال دیں۔
مقدمہ آرمینیا کے سپریم کورٹ میں پہنچ جاتا ہے
آخرکار ۷ مارچ، ۲۰۰۲ کو فاضل کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح اِس کورٹ نے بھی بھائی مارگاریان کو بےقصور ٹھہرایا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کورٹ کے فیصلے کے اعلان کے ایک دن پہلے حکومت نے اُس ادارے کو بند کر دیا جس نے بھائی مارگاریان پر مقدمہ چلایا تھا۔ سرکاری وکیلوں نے ایک مرتبہ پھر اپیل کی۔ وہ چاہتے تھے کہ بھائی مارگاریان پر دوبارہ سے مقدمہ ہو تاکہ اُسکو ”مجرم قرار دیا جائے۔“
سپریم کورٹ کے اِس مقدمے کے لئے چھ جج مقرر ہوئے۔ مقدمہ ۱۹ اپریل ۲۰۰۲، صبح ۱۱ بجے شروع ہوا۔ سرکاری وکیل نے اپنے بیان میں اِس بات پر غصے کا اظہار کِیا کہ پہلی دو عدالتوں نے بھائی مارگاریان کو مجرم قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن اِس مرتبہ وکیل کی بات کاٹی گئی۔ چار مختلف ججوں نے وکیل سے سوالات کرنے شروع کر دئے۔ ایک جج نے سرکاری وکیل کو اِس بات پر ٹوکا کہ وہ عدالت کو بھائی مارگاریان کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کیوں؟ اِسلئےکہ وکیل نے بھائی مارگاریان کے خلاف اپنے بیان میں منادی کے کام اور یہوواہ کے گواہوں کا رجسٹر نہ ہونے کا ذکر کِیا تھا۔ مگر یہ دونوں باتیں دفعہ ۲۴۴ کے مطابق جُرم نہیں ہیں۔ پھر جج نے حکومت کے وکیلوں پر یہ کہہ کر الزام لگایا کہ وہ بھائی مارگاریان پر ”ایک مجرم کی طرح مقدمہ چلا کر اُسکو اذیت پہنچا رہے ہیں۔“ پھر ایک دوسرے جج نے یورپ کے کئی مقدموں کا ذکر کِیا جن میں یہوواہ کے گواہوں کو ”قانونی طور پر تسلیمشُدہ مذہب“ کے طور پر قبول کِیا گیا تھا۔ جج نے کہا کہ ایک یورپی سمجھوتے کے مطابق گواہوں کے حقوق کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔ اِسی دوران کمرۂعدالت میں ایک پادری نے چلّانا شروع کر دیا کہ یہوواہ کے گواہ قومی اتحاد کو تباہ کر رہے ہیں۔ عدالت نے اُسے خاموش ہو جانے کا حکم دیا۔
پھر عدالت نے ایک ایسا کام کِیا جو عموماً سپریم کورٹ میں نہیں ہوتا ہے۔ مقدمے کے دوران بھائی مارگاریان حاضرین میں بیٹھا ہوا تھا۔ جج نے اُسکو سامنے آنے کی دعوت دی۔ بھائی مارگاریان سے سوالات پوچھے گئے اور جواب میں اُس نے یہوواہ کے گواہوں کے مسیحی نظریات کی وضاحت کی۔ اسطرح وہ اچھی گواہی دینے کے قابل ہوا۔ (مرقس ۱۳:۹) اِسکے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا۔ تمام ججوں نے بھائی مارگاریان کو بےقصور قرار دیا۔ بھائی مارگاریان اِس فیصلے کو سن کر بہت خوش ہوا۔ عدالت نے اپنے تحریری بیان میں لکھا: ”[لووا مارگاریان] کی کارگزاریاں موجودہ قوانین کے مطابق جرم نہیں ہیں۔ اس قسم کے الزامات آرمینیا کا آئین دفعہ ۲۳ اور یورپی سمجھوتے دفعہ ۹ کے خلاف ہیں۔“
عدالتی فیصلے کے اثرات
اگر سرکاری وکیل مقدمے کو جیت جاتے تو کیا ہوتا؟ ایسی جیت کے بعد آرمینیا کی کلیسیاؤں میں بہت سے اَور مسیحی بزرگوں پر بھی مقدمے چلائے جاتے۔ اُمید ہے کہ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کی وجہ سے آرمینیا کے گواہوں کے ساتھ اِس قسم کا سلوک نہیں کِیا جائے گا۔ اِس کے علاوہ اب حکومت کے پاس یہوواہ کے گواہوں کو قانونی طور پر رجسٹر نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں رہا ہے۔
کیا اِس ملک میں رہنے والے ۰۰۰،۷ یہوواہ کے گواہ اب اپنے مذہب کو قانونی طور پر رجسٹر کرا سکیں گے؟ یہ مستقبل کی بات ہے۔ فیالحال سچی پرستش ”اراراط کی سرزمین“ میں ترقی کر رہی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 اِسی حوالے سے آرمینیا کے لوگ اپنے ملک کو ”ارارط کی سرزمین“ بھی کہتے ہیں۔ وہ کیوں؟ پُرانے زمانے میں آرمینیا ایک بہت بڑی سلطنت تھی جس کے علاقے میں کوہِارارط شامل تھا۔ اِسلئے بائبل کا ایک پُرانا ترجمہ یونانی سپتواُجنتا یسعیاہ ۳۷:۳۸ میں ”ارارط کی سرزمین“ کے لئے لفظ ”آرمینیا“ استعمال کرتا ہے۔ آج کوہِاراراط ترکی کا ایک حصہ ہے اور اُس کی مشرقی سرحد کے نزدیک واقع ہے۔
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
لووا مارگاریان اپنے مقدمے کے دوران
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
بھائی مارگاریان اپنے خاندان کیساتھ