حقیقی روحانی اقدار آپکو کہاں مل سکتی ہیں؟
حقیقی روحانی اقدار آپکو کہاں مل سکتی ہیں؟
”اگر آپ محض خاندانی روایت کی وجہ سے مذہب کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو پھر کیوں نہ گال قوم کے مذہب کا انتخاب کریں جس پر ۰۰۰،۲ سال پہلے ہمارے آباؤاجداد چلتے تھے؟“ روڈلف طنزیہ لہجے میں پوچھتا ہے۔ اُسکا نوعمر سامع اس بات پر مسکرا دیتا ہے۔
”خدا کیساتھ میرا رشتہ میرے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے،“ روڈلف کہتا ہے۔ مَیں اس نظریے کا سخت مخالف ہوں کہ مذہبی عقائد جبراً روایت کے طور پر محض اسلئے مجھ پر ٹھونس دئے جائیں کہ میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو سینکڑوں سال پہلے اس مذہب پر چلتا تھا۔“ روڈلف معاملات کا بغور تجزیہ کر رہا تھا وہ انتہائی اہم معاملات کو محض میراث میں ملنے والی چیز خیال نہیں کرتا تھا۔
اگرچہ آجکل مذہب کا ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہونے کا رواج نہیں توبھی اکثریت اپنے خاندان کے مذہب میں رہنا چاہتی ہے۔ لیکن کیا اپنے والدین کی مذہبی اقدار سے جڑے رہنا ہمیشہ صحیح ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں بائبل کیا کہتی ہے؟
بیابان میں ۴۰ سال گزارنے کے بعد، موسیٰ کے جانشین یشوع نے اسرائیلیوں کے سامنے ایک انتخاب رکھا: ”اگر [یہوواہ] کی پرستش تم کو بُری معلوم ہوتی ہو تو آج ہی تم اُسے جسکی پرستش کرو گے چن لو۔ خواہ وہ وہی دیوتا ہوں جن کی پرستش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے اُس پار کرتے تھے یا اموریوں کے دیوتا ہوں جنکے مُلک میں تم بسے ہو۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو [یہوواہ] کی پرستش کرینگے۔“—یشوع ۲۴:۱۵۔
باپدادا جنکی طرف یشوع اشارہ کر رہا تھا وہ ابرہام کا باپ تارح تھا جو دریائےفرات کے مشرق میں واقع اُور کے شہر میں رہتا تھا۔ بائبل تارح کی بابت اس سے زیادہ کچھ نہیں بتاتی کہ وہ غیرقوم معبودوں کی پرستش کرتا تھا۔ (یشوع ۲۴:۲) اُسکا بیٹا ابرہام، خدا کے مقصد کی بابت مکمل علم نہ رکھنے کے باوجود، یہوواہ کے حکم کی مطابقت میں اپنے آبائی شہر کو چھوڑنے کیلئے تیار تھا۔ واقعی، ابرہام نے اپنے باپ کے مذہب سے بالکل مختلف مذہب کا انتخاب کِیا۔ ایسا کرنے سے ابرہام اُن برکات سے مستفید ہوا جسکا وعدہ خدا نے کِیا تھا اور وہ ایک ایسی ہستی بن گیا جسے بیشتر مذاہب ”ان سب کا باپ“ سمجھتے ہیں جو ”ایمان لاتے ہیں۔“—رومیوں ۴:۱۱۔
بائبل مثبت طور پر یسوع مسیح کی اُمالاسلاف روت کی سرگزشت بھی بیان کرتی ہے۔ موآبی روت نے ایک اسرائیلی سے شادی کی تھی لیکن پھر وہ بیوہ ہو گئی اور اُسے ایک انتخاب کا سامنا تھا: آیا وہ اپنے مُلک میں رہیگی یا اپنی ساس کیساتھ اسرائیل لوٹ جائیگی۔ اپنے والدین کی بُتپرستی کا مقابلہ یہوواہ کی روت ۱:۱۶، ۱۷۔
اعلیٰ پرستش سے کرتے ہوئے، روت نے اپنی ساس کو صاف صاف کہہ دیا: ”تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔“—بائبل میں اس ریکارڈ کی موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے، ڈکشنرے ڈی لا بائبل اس سرگزشت کی بابت بیان کرتی ہے کہ ”کیسے ایک پردیسی عورت بُتپرست لوگوں کے درمیان پیدا ہوئی جو اسرائیل کے رقیب تھے اور جن سے اسرائیلی نفرت کرتے تھے . . . وہ محض یہوواہ کی قوم اور اُسکی پرستش سے محبت کی وجہ سے مُقدس بادشاہ داؤد کی اُمالاسلاف بن گئی۔“ روت نے ایک ایسے مذہب کا انتخاب کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی جو اُسکے والدین کے مذہب سے بالکل مختلف تھا اور اس فیصلے کی وجہ سے اُسے خدا کی طرف سے برکت ملی۔
مسیحیت کی ابتدا سے متعلق سرگزشت زیادہ واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ یسوع کے شاگردوں نے کیوں اپنے اسلاف کے مذہب کو چھور دیا تھا۔ ایک پُرجوش تقریر میں پطرس رسول نے اپنے سامعین کو دعوت دی کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لینے سے ”اپنے آپ کو اُس ٹیڑھی قوم سے بچاؤ۔“ (اعمال ۲:۳۷-۴۱) سب سے غیرمعمولی مثال، مسیحیوں کے یہودی ایذارساں ساؤل کی ہے۔ دمشق جاتے ہوئے، اُس نے رویا میں مسیح کو دیکھا جسکے بعد ساؤل مسیحی بن گیا اور پولس رسول کے طور پر مشہور ہو گیا۔—اعمال ۹:۱-۹۔
ابتدائی مسیحیوں کی اکثریت کو ایسا قابلِدید تجربہ پیش نہیں آیا تھا۔ اسکے باوجود، سب کو یا تو یہودیت یا پھر مختلف جھوٹے معبودوں کی پرستش کو ترک کرنا تھا۔ جن لوگوں نے مسیحیت کو قبول کِیا اُنہوں نے تمام حقائق کو سمجھنے، اکثر یسوع کے مسیحا کے کردار کی مفصل سمجھ حاصل کرنے کے بعد ایسا کِیا تھا۔ (اعمال ۸:۲۶-۴۰؛ ۱۳:۱۶-۴۳؛ ۱۷:۲۲-۳۴) وہ ابتدائی مسیحی اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت سے بخوبی واقف تھے۔ یہ دعوت یہودی اور غیریہودی دونوں کیلئے تھی مگر پیغام ایک ہی تھا۔ خدا کو خوش کرنے کیلئے ایک نئی قِسم کی پرستش کرنا یعنی مسیحیت کی پیروی کرنا ضروری تھا۔
ہمارے لئے ایک ضروری انتخاب
پہلی صدی میں خاندانی مذہبی روایات—یہودیت، بادشاہ اور جھوٹے معبودوں کی پرستش—کو مسترد کرنا اور ایک ایسی تحریک میں شامل ہو جانا جسے یہودی اور رومی دونوں ناپسند کرتے تھے واقعی جرأت کا تقاضا کرتا تھا۔ یہ انتخاب جلد ہی سخت اذیت کا باعث بن گیا۔ کلرمونٹ فررانڈ کا کیتھولک بشپ ہیپولائٹ سائمن اپنی کتاب فرانس میں بُتپرستی؟ میں بیان کرتا ہے کہ اسی طرح آجکل بھی ”خود کو پیروی کرنے کے ماحول میں ڈبو دینے سے“ انکار کیلئے ہمت درکار ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کی طرح تنقید کا شکار کسی اقلیتی مذہبی تحریک کا حصہ بننا حوصلے کا تقاضا کرتا ہے۔
باسیا کروشیا سے تعلق رکھنے والے نوجوان پال نے کیتھولک مذہب میں پرورش پائی تھی اور وہ کبھیکبھار چرچ کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا تھا جیسےکہ کیتھولک فلاحی تنظیموں کیلئے پیسہ جمع کرنے کی غرض سے کیک فروخت کرنا وغیرہ۔ بائبل کی بہتر سمجھ حاصل کرنے کی غرض سے، وہ یہوواہ کے گواہوں کیساتھ باقاعدہ بائبل مباحثوں کے لئے تیار ہو گیا۔ وقت آنے پر وہ سمجھ گیا کہ جوکچھ وہ سیکھ رہا ہے وہ دائمی فوائد پر منتج ہوگا۔ لہٰذا، وہ بائبل معیاروں کو قبول کرنے کے بعد یہوواہ کا ایک گواہ بن گیا۔ اُسکے والدین نے اُسکے انتخاب کو سراہا جسکی وجہ سے اُنکا خاندانی رشتہ متاثر نہ ہوا۔
ایمیلائی جنوبی فرانس میں رہتی ہے۔ چار پُشتوں سے اُسکا خاندان یہوواہ کا گواہ ہے۔ اُس نے اپنے والدین کی مذہبی اقدار کی پیروی کرنے کا انتخاب کیوں کِیا؟ وہ بیان کرتی ہے، ”آپ محض اس وجہ سے یہوواہ کے گواہ نہیں بنتے کہ آپکے والدین یا اُنکے والدین یہوواہ کے گواہ تھے یا ہیں۔ بلکہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ آپ خود کہتے ہیں یہ میرا مذہب ہے کیونکہ یہ میرے اعتقادات ہیں۔“ یہوواہ
کے دیگر نوجوان گواہوں کی طرح، ایمیلائی جانتی ہے کہ اُسکے مذہبی اعتقادات نے اُسے زندگی کا مقصد عطا کِیا ہے اور یہ دائمی خوشی کا باعث ہیں۔خدائی اقدار تسلیم کرنے کی وجہ
امثال ۶ باب کی ۲۰ آیت خدا کو خوش کرنے کے خواہاں لوگوں کی حوصلہافزائی کرتی ہے: ”اَے میرے بیٹے! اپنے باپ کے فرمان کو بجا لا اور اپنی ماں کی تعلیم کو نہ چھوڑ۔“ ایسی مشورت نوجوانوں کو بغیر سوچےسمجھے فرمانبرداری کرنے کی بجائے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور خدا کے لئے ثابت قدم رہنے کا مؤقف اختیار کرنے سے خدائی معیاروں کو قبول کرنے کی تاکید کرتی ہے۔ پولس رسول نے اپنے ساتھیوں کو دعوت دی کہ ’سب باتوں کو آزمائیں‘ تاکہ یہ جان سکیں کہ آیا جوکچھ وہ سیکھ رہے ہیں وہ خدا کے کلام اور اُس کی مرضی کی مطابقت میں ہے اور پھر اُس پر عمل کریں۔—۱-تھسلنیکیوں ۵:۲۱۔
خواہ اُنہوں نے مسیحی گھرانوں میں پرورش پائی ہے یا نہیں، ۶۰ لاکھ سے زائد پیروجواں یہوواہ کے گواہوں نے ایسا فیصلہ کِیا ہے۔ بائبل کے محتاط مطالعے سے اُنہوں نے نہ صرف زندگی کے مقصد سے متعلق اپنے سوالات کے تسلیبخش جواب حاصل کئے بلکہ نسلِانسانی کیلئے خدا کی مرضی کی بابت واضح سمجھ بھی حاصل کی ہے۔ یہ علم حاصل کرنے کے بعد، اُنہوں نے خدا کی اقدار کو قبول کر لیا ہے اور خدا کی مرضی بجا لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
آپ اس رسالے کے باقاعدہ قاری ہیں یا نہیں، یہوواہ کے گواہوں کی بائبل سے روحانی اقدار کو جاننے میں مدد دینے کی پیشکش کو قبول کریں۔ اس طرح آپ ’آزما کر دیکھنے کے قابل ہونگے کہ یہوواہ کیسا مہربان ہے‘ نیز آپ ایسا علم حاصل کرنے کے قابل ہونگے جس پر اگر عمل کِیا جائے تو یہ ہمیشہ کی زندگی کا باعث بنتا ہے۔—زبور ۳۴:۸؛ یوحنا ۱۷:۳۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
فرانس میں چار پُشتوں سے یہوواہ کا گواہ خاندان
[صفحہ ۷ پر تصویر]
روت نے اپنے آبائی معبودوں کی بجائے یہوواہ کی خدمت کرنے کا انتخاب کِیا