لاثانی خوشیاں!
میری کہانی میری زبانی
لاثانی خوشیاں!
از ریجینلڈ والورک
میری بیوی نے مئی ۱۹۹۴ میں وفات پائی۔ جب مَیں اُسکے کاغذات سمیٹ رہا تھا تو مجھے اُسکے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ نوٹ ملا: ”دُنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں جسکا مقابلہ یہوواہ خدا کیلئے مشنری خدمت سے حاصل ہونے والی خوشی کیساتھ کِیا جا سکے!“
آئرین کے اِس جملے نے میرے دل میں اُن ۳۷ سالوں کی یادوں کو تازہ کر دیا جو ہم نے پیرو میں مشنریوں کے طور پر گزارے تھے۔ ہم دونوں نے ہمیشہ خدا کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ ہماری شادی دسمبر ۱۹۴۲ میں ہوئی اِسلئے مَیں اپنی کہانی اِس تاریخ سے شروع کرؤنگا۔ لیکن پہلے مَیں آپکو اپنے اور آئرین کے بارے میں کچھ باتیں بتاتا ہوں۔
آئرین کی اپنی دو بہنوں کیساتھ انگلینڈ کے شہر لِورپول میں پرورش ہوئی تھی۔ اُنکے والدین یہوواہ کے گواہ تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اُسکے والد نے وفات پائی۔ اِسکے بعد آئرین کی والدہ نے ونٹن فریزر سے شادی کر لی اور اُنکا ایک بیٹا پیدا ہوا جسکا نام سڈنی رکھا گیا۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے پہلے پورا خاندان نقلمکانی کرکے ویلز میں رہنے لگا اور ۱۹۳۹ میں آئرین نے بپتسمہ لے لیا۔ سڈنی ایک سال پہلے بپتسمہ لے چکا تھا، لہٰذا بہن اور بھائی نے مل کر ویلز کے شمالی علاقے اور ایک قریبی جزیرے میں پائنیروں—کُلوقتی مُنادوں—کے طور پر منادی کے کام میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
آئرین کی بڑی بہن ویرا اپنی شادی کے بعد رَنکورن میں رہنے لگی جو لِورپول کے نزدیک ہے۔ اُس وقت مَیں رَنکورن کلیسیا کا صدارتی نگہبان تھا۔ آئرین نے دو ہفتوں کیلئے ویرا کے پاس آ کر رہنے کا منصوبہ بنایا۔ اِس دوران وہ منادی کے کام میں حصہ لینا چاہتی تھی۔ اِسلئے سرکٹ اسمبلی کے دوران اُس نے آ کر مجھ سے پوچھا کہ وہ کلیسیا کے کس علاقے میں منادی کر سکتی ہے۔ اِن دو ہفتوں کے دوران ہم نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔ جب آئرین اپنے گھر واپس لوٹ گئی تو مَیں اکثر اُسے ملنے کیلئے ویلز جایا کرتا تھا۔ آخرکار مَیں نے اُس سے پوچھا، کیا وہ مجھ سے شادی کرنے کو تیار ہے۔ جب اُس نے ہاں کر دی تو مَیں بہت ہی خوش ہوا۔
جونہی مَیں اُس سے ملکر اتوار کو گھر پہنچا تو مَیں نے شادی کی تیاریاں شروع کر
دیں۔ لیکن منگل کے دن آئرین نے مجھے ایک تار بھیجا جسکی وجہ سے میرا دل بجھ گیا۔ اِس میں لکھا تھا کہ ”مجھے بہت افسوس ہے کہ اِس تار کی وجہ سے آپ پریشان ہو جائینگے کیونکہ مَیں یہ شادی نہیں کر سکتی۔ اسکی وضاحت مَیں خط میں کرونگی۔“ مَیں حیران تھا کہ آئرین میں یہ تبدیلی کیوں آئی؟اگلے ہی روز آئرین کا خط آ گیا۔ جس میں اُس نے لکھا کہ ایک سال پہلے اُس نے کہا تھا کہ وہ ایسے علاقوں میں جا کر منادی کرنے کو تیار ہے جہاں منادی کرنے والے کم ہیں۔ اِس وجہ سے اب اُس کو بہن ہلڈا پاجٹ کیساتھ یارکشائیر، ہارسفورتھ میں منادی کرنے کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔ * آئرین نے مزید لکھا: ”مَیں نے تم سے ملنے سے پہلے یہوواہ سے یہ وعدہ کِیا تھا۔ اب مجھے اِس وعدے کو پورا کرنا ہے۔“ مَیں بہت غمگین تھا۔ لیکن آئرین کے اِس فیصلے کی وجہ سے میرے دل میں اُسکی قدر اَور بھی بڑھ گئی۔ مَیں نے اُسے ایک تار بھیجا جس میں لکھا: ”جاؤ، اپنا وعدہ پورا کرو۔ مَیں تمہارا انتظار کرؤنگا۔“
چنانچہ آئرین ہلڈا کیساتھ یارکشائیر، ہارسفورتھ میں رہنے لگی۔ اس دوران اُسے تین مہینوں کیلئے قید میں بھی رکھا گیا۔ وہ کیوں؟ اِسلئےکہ اُس نے بائبل کے اصولوں کی پیروی کی اور دوسری عالمی جنگ کی کارگزاریوں میں حصہ لینے سے انکار کِیا۔ پھر اِس واقع کے ۱۸ مہینے بعد، دسمبر ۱۹۴۲ میں ہماری شادی ہوگئی۔
میرا بچپن
سن ۱۹۱۹ میں، میری والدہ نے سٹڈیز اِن دی سکرپچرز * کی کتابیں خریدی۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ آپ نے تو پہلے کبھی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ابو کی یہ بات بالکل درست تھی۔ امی نے اِن کتابوں کو نہ صرف پڑھا بلکہ اِنکے ذریعے بائبل کا مطالعہ بھی کِیا اور ۱۹۲۰ میں بپتسمہ لے لیا۔
ہم چار بہن بھائی ہیں۔ میری دو بہنوں کا نام گوین اور آئیوی ہے اور میرے بھائی کا نام ایلک ہے۔ میرے والد خوشمزاج شخص تھے۔ اُنہوں نے امی پر کوئی پابندیاں نہیں لگائی تھیں۔ اِسلئے وہ بِلاروکٹوک ہم بچوں کی سچائی کی راہ میں تربیت کر سکتی تھی۔ اُس زمانے میں شہر رَنکورن میں کوئی کلیسیا نہیں تھی۔ اکثر سٹانلی راجرز اور دوسرے بھائی بھی لِورپول سے یہاں تقریر دینے کیلئے آیا کرتے تھے۔ آخرکار ہمارے شہر میں بھی ایک کلیسیا قائم ہو گئی۔ اِس کلیسیا کی ترقی ہمارے خاندان کیلئے بہت فائدہمند ثابت ہوئی۔
میری بہن گوین چرچ آف انگلینڈ کی رُکن بننا چاہتی تھی۔ اِسلئے وہ چرچ کے پادری کی کلاسوں میں جایا کرتی تھی۔ مگر جونہی گوین نے امی کیساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کِیا اُس نے اِن کلاسوں میں جانا بند کر دیا۔ جب پادری یہ پوچھنے کیلئے ہمارے گھر آیا کہ اب وہ اُنکی کلاسوں پر کیوں نہیں آتی تو گوین نے اُس سے بہت سے سوال کئے۔ لیکن وہ کسی سوال کا جواب نہ دے سکا۔ یہاں تک کہ جب گوین نے اُس سے پوچھا کہ خداوند کی دُعا ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے تو وہ چپ رہا! آخرکار گوین نے پادری کو اِس دُعا کا مطلب سمجھایا۔ پھر گوین نے اُسے ۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’مَیں دو مختلف دسترخوانوں پر شریک ہونا نہیں چاہتی۔‘ اِسکے بعد پادری چلا گیا۔ اُس نے جاتے وقت گوین سے کہا کہ وہ اُسکے لئے دُعا کریگا اور واپس آ کر اُسکے سوالات کے جواب ضرور دیگا۔ لیکن وہ کبھی واپس نہ آیا۔ بعدازاں گوین نے یہوواہ کی ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا اور جلد ہی کُلوقتی خدمت میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
ہماری کلیسیا میں بچوں کی روحانی طور پر ترقی کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب مَیں سات سال کا تھا تو ہماری کلیسیا میں ایک بزرگ تقریر دینے کیلئے آیا۔ اجلاس کے بعد اُس نے مجھ سے باتچیت کرنا شروع کر دی۔ مَیں اُسے بتانے لگا کہ مَیں ابرہام کی زندگی کے اُس واقعہ کے بارے میں پڑھ رہا تھا جب اُس نے اپنے بیٹے اضحاق کو قربان کرنے کی کوشش کی۔ بزرگ نے مجھ سے کہا: ”جاؤ اور پلیٹفارم پر کھڑے ہو کر مجھے پورا واقعہ سناؤ۔“ مَیں نے بڑی خوشی سے اُسکا کہنا مانا۔ اِسطرح مَیں نے پہلی مرتبہ پلیٹفارم پر کھڑے ہو کر ایک چھوٹی سی تقریر دی!
سن ۱۹۳۱ میں، جب مَیں ۱۵ سال کا تھا تو میری ماں کی وفات ہو گئی۔ اُسی سال مَیں نے بپتسمہ لیا اور پھر سکول ختم کرنے کے بعد الیکٹریشن کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔ سن ۱۹۳۶ میں بائبل تقریریں ریکارڈ کرکے اُنہیں ایک مشین کے ذریعے لوگوں کو سنایا جاتا تھا۔ ایک عمررسیدہ بہن نے میری اور میرے بھائی کی اِس طریقے سے منادی کے کام میں حصہ لینے کیلئے حوصلہافزائی کی۔ اِسلئے ہم دونوں نے ایک سائیکل خرید لی۔ پھر ہم نے سائیکل کیساتھ لگانے کیلئے ایک گاڑی بنوائی جس پر ریکارڈ بجانے والی مشین کو رکھا جاتا تھا۔ ہم نے اِس پر ایک لاوڈسپیکر
بھی لگوایا۔ مکینک نے اس سے پہلے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں بنائی تھی! مگر ہم اُسکے کام سے بہت خوش تھے اور جوشوخروش سے اپنے پورے علاقے میں اِس مشین کے ذریعے منادی کرنے لگے۔ ہم دونوں اُس بہن کے اس مشورے کیلئے شکرگزار تھے اِسلئےکہ اِس پر عمل کرنے سے ہمیں منادی کرنے کے بڑے شرف حاصل ہوئے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران مسائل کا سامنا
سن ۱۹۳۸ میں، دُنیا جنگ کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اِسی دوران سٹانلی راجرز اور مَیں لوگوں کو ایک عوامی تقریر پر حاضر ہونے کی دعوت دے رہے تھے جسکا عنوان تھا، ”حقائق کا سامنا کریں۔“ یہ تقریر ۱۱ ستمبر کو لندن کے رائیل البرٹ ہال میں دی گئی اور بعد میں ایک کتابچے کی صورت میں شائع ہوئی۔ اسکے ایک سال بعد ایک اَور کتابچہ شائع ہوا جسکا عنوان، ”ظالم حکومت یا آزادی“ تھا۔ دونوں کتابچوں میں بتایا گیا تھا کہ ہٹلر صرف جرمنی کا ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کا حاکم بننا چاہتا ہے۔ مَیں اپنی منادی کی وجہ سے پورے شہر میں مشہور تھا۔ یہ بات میرے لئے فائدہمند رہی کیونکہ لوگ اس کام کی وجہ سے میری عزت کرتے تھے۔
ایک مرتبہ میری کمپنی کو ایک نئے کارخانے میں بجلی کی تاریں لگانے کو کہا گیا۔ لیکن اِس کارخانے میں جنگی اسلحہ بنانے کا کام ہونا تھا۔ اِسلئے مَیں نے وہاں پر کام کرنے سے انکار کر دیا۔ میرے آجر اِس بات پر ناراض ہو گئے۔ لیکن میرے فورمین نے میری مدد کی جسکی وجہ سے مجھے کوئی اَور کام کرنے کو کہا گیا۔ بعدازاں مجھے معلوم ہوا کہ اسکی ایک رشتہدار بھی یہوواہ کی گواہ تھی۔
میرے ساتھ کام کرنے والے ایک الیکٹریشن نے یہ کہہ کر میری حوصلہافزائی کی کہ ”ریجینلڈ ہم جانتے تھے کہ تم یہ کام نہیں کرو گے۔ تم تو اِتنے سالوں سے لوگوں کو بائبل کی تعلیم دے رہے ہو، بھلا تم ایسا کام کیسے کر سکتے تھے؟“ لیکن کمپنی کے تمام لوگ اس جیسے نہیں تھے۔ کئی مجھے نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اِسلئے مجھے محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔
جنگ کے دوران حکومت تمام نوجوانوں کو جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے پر مجبور کر رہی تھی۔ مَیں نے بائبل کے اصولوں کی بِنا پر ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ جون ۱۹۴۰ میں عدالت نے میرے انکار کو اِس شرط پر قبول کر لیا کہ مَیں الیکٹریشن کے طور پر اپنا کام جاری رکھونگا۔ اِسطرح قید ہونے کی بجائے مَیں جنگ کے دوران بھی اپنی مسیحی خدمت کو جاری رکھنے کے قابل ہوا۔
کُلوقتی خدمت کا آغاز
جنگ ختم ہونے کے بعد مَیں نے نوکری چھوڑ کر آئرین کیساتھ کُلوقتی خدمت شروع کرنے کا فیصلہ کِیا۔ سن ۱۹۴۶ میں، مَیں نے ایک ۱۸ فٹ لمبی گاڑی بنائی۔ ہم اِس گاڑی میں رہنے لگے۔ اِسطرح جب بھی ہمیں کسی علاقے میں منادی کرنے کیلئے بھیجا جاتا تو ہم آسانی سے وہاں جا کر رہ سکتے تھے۔ ہم نے انگلینڈ کے مختلف علاقوں میں منادی کی۔ سن ۱۹۵۱ میں، مجھے سفری نگہبان کے طور پر جنوبی ویلز کی مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کیلئے بھیجا گیا۔ لیکن ابھی دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ہمیں واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۲۱ ویں جماعت میں حصہ لینے کی دعوت ملی جہاں ہمیں مشنری بننے کی تعلیم دی گئی۔
مجھے اور آئرین کو بالکل یہ معلوم نہ تھا کہ ہمیں کس ملک میں مشنری کے طور پر بھیجا جائیگا۔ آخرکار ۱۹۵۳ میں ہماری کلاس کا آخری دن آ پہنچا اور ہمیں پتہ چلا کہ ہمیں ملک پیرو بھیجا جا رہا ہے۔ ہم یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے۔ کیوں؟ اِسلئےکہ آئرین کا بھائی سڈنی اپنی بیوی مارگریٹ کیساتھ ایک سال سے پیرو کے برانچ دفتر میں خدمت کر رہا تھا۔ اُنہوں نے گلئیڈ سکول کی ۱۹ ویں کلاس میں حصہ لیا تھا۔
ویزے کیلئے انتظار کرتے وقت ہم نے بروکلن بیتایل میں کام کِیا۔ لیکن جونہی ہمارے کاغذات تیار ہوئے ہم پیرو روانہ ہو گئے۔ اُس وقت ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم اِس ملک کی ۱۰ مختلف جگہوں میں مشنری کے طور پر خدمت کرینگے۔ اِن میں سب سے پہلے کلاؤ شہر تھا جو پیرو کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ پیرو میں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ اِسلئے ہم نے پہلے ہی سے یہ زبان سیکھنا شروع کر دی تھی۔ لیکن ہم دونوں میں سے کوئی اِس زبان میں باتچیت کرنے کے قابل نہ تھا۔ ہم منادی کے کام میں کیسے حصہ لے سکتے تھے؟
منادی کے مسائلوفوائد
گلئیڈ سکول میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایک ماں اپنے ننھے بچے کو کوئی زبان نہیں سکھاتی بلکہ جوں جوں ماں اُس کیساتھ بات کرتی ہے بچہ خودبخود اُسکی زبان سیکھ جاتا ہے۔ اِس وجہ سے ہمیں یہ نصیحت دی گئی کہ ”فوراً منادی کے کام میں حصہ لیں اور ملک کی زبان وہاں کے لوگوں سے سیکھیں۔ وہ آپکی مدد کرینگے۔“ مَیں ہسپانوی زبان کو سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر یہ آسان نہیں تھا۔ جب مجھے کلاؤ پہنچنے کے دو ہفتوں بعد ہی وہاں کی کلیسیا کا صدارتی نگہبان بنا دیا گیا تو مَیں بہت حیران ہوا! اس سلسلے میں مَیں اپنے بہنوئی سڈنی سے مشورہ کرنے گیا لیکن اُس نے مجھے وہی نصیحت کی جو گلئیڈ سکول سے ملی تھی کہ کلیسیا کے بھائیوں اور منادی کے کام میں لوگوں کیساتھ دوستی کرو۔ اُنکے ساتھ میلجول رکھو۔ پھر جلد ہی زبان سیکھ جاؤ گے۔ مَیں نے اِس نصیحت پر عمل کرنے کا پکا اِرادہ کر لیا۔
ایک دن صبح کے وقت مَیں ایک بڑھئی کی دُکان پر گیا۔ بڑھئی نے مجھ سے کہا کہ ”مجھے کام جاری رکھنا ہے لیکن آپ بیٹھ کر مجھ سے باتیں کر سکتے ہیں۔“ مَیں نے اُس سے کہا کہ ”ٹھیک ہے لیکن صرف ایک شرط پر اور وہ یہ کہ جب بھی مَیں غلطی کروں تو آپ میری درستی کرینگے۔ مَیں بالکل بُرا نہیں مانونگا۔“ بڑھئی نے ہنس کر کہا: ”مجھے منظور ہے۔“ مَیں ہفتے میں دو بار اُس سے ملنے جاتا تھا۔ ہسپانوی زبان سیکھنے کا یہ بہت ہی عمدہ طریقہ تھا۔ جو نصیحت ہمیں گلئیڈ سکول میں دی گئی تھی وہ فائدہمند ثابت ہوئی۔
اسکے بعد ہمیں مشنریوں کے طور پر خدمت کرنے کے لئے شہر اِیکا بھیجا گیا۔ اِتفاقاً وہاں بھی میری ملاقات ایک بڑھئی سے ہوئی۔ مَیں نے اُسے بتایا کہ پہلے بڑھئی نے کسطرح میری مدد کی تھی۔ اُس نے کہا کہ وہ بھی میری مدد کرنا چاہتا ہے۔ اِسطرح مَیں نے ہسپانوی زبان سیکھنے میں ترقی کی۔ لیکن روانی سے بولنے میں مجھے تین سال لگ گئے۔ یہ بڑھئی ہمیشہ بہت مصروف ہوتا تھا۔ لیکن پھر بھی مَیں اُسکو کچھ حوالے سنا کر سمجھایا کرتا اور اِسطرح اُسکے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا کرتا تھا۔ ایک دن جب مَیں اُس سے ملنے کیلئے گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ شہر لیما میں نوکری کرنے کیلئے چلا گیا ہے۔ کچھ عرصے بعد آئرین اور مَیں ایک کنونشن پر حاضر ہونے کیلئے لیما گئے۔ وہاں یہ بڑھئی بھی حاضر تھا۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ اُس نے لیما میں گواہوں کیساتھ مطالعہ کرنا جاری رکھا اور اپنے پورے خاندان سمیت یہوواہ کا گواہ بن گیا تھا!
ایک کلیسیا میں ہمیں پتہ چلا کہ ایک آدمی اور عورت کو بپتسمہ دیا گیا تھا حالانکہ وہ شادی کے بغیر ایک دوسرے کیساتھ رہ رہے تھے۔ ہم نے اُن دونوں کو بائبل سے دکھایا کہ خدا کی نظروں میں شادی کو قانونی طور پر رجسٹر کرانا کیوں اہم ہے۔ اُنہوں نے فوراً اسے رجسٹر کرانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ وہ اسی صورت میں بپتسمہیافتہ گواہ بننے کے لائق ٹھہر سکتے تھے۔ مَیں اُنکو رجسٹریشن آفس لے گیا۔ مگر وہاں ایک اَور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اِس جوڑے کے چار بچے تھے اور اُنہوں نے اُن میں سے کسی ایک کو بھی رجسٹر نہیں کرایا تھا۔ لیکن پیرو میں ایسا نہ کرنے پر جرمانہ ہوتا ہے۔ یہ خاندان بہت غریب تھا۔ اُنکے پاس جرمانہ ادا کرنے کیلئے کوئی پیسے نہیں تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ میئر کیا فیصلہ کریگا۔ اُس نے جوڑے سے کہا: ”دراصل مجھے تم سے جرمانہ لینا چاہئے کیونکہ تم نے اپنے بچوں کو رجسٹر نہیں کرایا۔ لیکن مَیں ایسا نہیں کرونگا۔ بلکہ مَیں چاروں بچوں کو بغیر فیس رجسٹر کرنے کو تیار ہوں۔ یہ مَیں صرف اِسلئے کر رہا ہوں کہ تمہارے دوست تمہیں یہاں رجسٹر کرانے کیلئے لائے ہیں۔ یہوواہ کے گواہ بہت اچھے لوگ ہیں۔“ اِس فیصلے کیلئے ہم اُسکے بہت ہی شکرگزار تھے!
ایک مرتبہ بھائی البرٹ شروڈر بروکلن بیتایل کے نمائندے کے طور پر ہمیں ملنے کیلئے آیا۔ اُنہوں نے ہمیں لیما کے ایک اَور علاقے میں نیا مشنری ہوم کھولنے کا مشورہ دیا۔ آئرین اور مَیں نے اِنکے مشورے پر عمل کِیا۔ اِسکے علاوہ ریاستہائےمتحدہ سے دو سگی بہنوں اور کینیڈا سے ایک شادیشُدہ جوڑے نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ ہمارے پہنچنے کے دو تین سال کے اندر ہی وہاں ایک نئی کلیسیا قائم ہو گئی۔
پیرو میں اِس سے پہلے صرف ایک ہی کنگڈم ہال تھا جسے بھائیوں نے خود تعمیر کِیا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہمیں لیما شہر سے ایک پہاڑی علاقے میں خدمت کرنے
کیلئے بھیجا گیا۔ وہاں کی کلیسیا میں ۸۰ یہوواہ کے گواہ تھے جنہوں نے ایک اَور کنگڈم ہال تعمیر کرنے کیلئے زمین خریدی تھی۔ لیکن اِس بات کا ثبوت دینے کیلئے کہ یہ زمین قانونی طور پر ہماری ہے ہمیں تین مرتبہ مقدمہ چلانا پڑا۔ اِس کام میں مجھے یہوواہ کے گواہوں کا قانونی نمائندہ چنا گیا۔ اس قِسم کی قانونی کارروائیوں اور وفادار مشنریوں کی محنت سے پیرو میں ترقی کی بنیاد ڈالی گئی۔ اِن مشنریوں نے منادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں بھرپور حصہ لیا۔ اِس ترقی کا اندازہ ہم اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ۱۹۵۳ میں پیرو میں ۲۸۳ گواہ تھے لیکن آج یہاں ۰۰۰،۸۳ سے زیادہ گواہ ہیں۔افسردہدلی کیساتھ پیرو سے واپسی
ایسے گھروں کو مشنری ہوم کہا جاتا ہے جہاں کئی مشنری اِکٹھے مل کر رہتے ہیں۔ ہم نے ایسے بہت سے گھروں میں رہ کر بہن بھائیوں کیساتھ رفاقت کا لطف اُٹھایا ہے۔ اکثر مَیں اِن گھروں کا نگہبان ہوتا تھا۔ ہر سوموار کے دن صبح کے وقت ہم سب مل کر پورے ہفتے کے کاموں کے بارے میں بات کرتے۔ اُس وقت یہ بھی طے کِیا جاتا کہ گھر میں کون کون کام کریگا۔ ہمیں معلوم تھا کہ سب سے اہم کام منادی کرنا ہے اور اِس میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنے کیلئے ہم ایک دوسرے کی مدد کِیا کرتے تھے۔ مَیں اِس بات سے بہت خوش ہوں کہ جن مشنری ہومز میں ہم رہے وہاں کبھی کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں آیا بلکہ ہم سب ملجُل کر رہتے تھے۔
سب سے آخر میں ہمیں لیما کے ایک اَور علاقے میں خدمت کرنے کیلئے بھیجا گیا جہاں کی کلیسیا میں ۷۰ بہن بھائی تھے۔ جب وہاں گواہوں کی تعدار ۱۰۰ سے زیادہ ہو گئی تو ایک نئی کلیسیا قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس دوران آئرین بیمار ہو گئی۔ شروع میں وہ باتیں بھول جایا کرتی تھی اور کبھیکبھار تو وہ اپنے گھر کا راستہ بھی بھول جاتی تھی۔ مَیں اُسے اچھے سے اچھے ڈاکٹر کے پاس لے گیا مگر اُسکی حالت آہستہآہستہ بگڑتی چلی گئی۔
آخرکار ۱۹۹۰ میں، مَیں نے افسردہ دلی کیساتھ انگلینڈ واپس لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ میری بہن آئیوی نے ہمیں اپنے ساتھ رہنے کو کہا۔ چار سال بعد، آئرین نے ۸۱ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اب مَیں کُلوقتی خدمت جاری رکھنے کیساتھ ساتھ اپنے آبائی شہر رَنکورن میں ایک بزرگ کی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ آج اِس شہر میں تین کلیسیائیں ہیں۔ اِسکے علاوہ مَیں کبھیکبھار شہر مانچسٹر میں ہسپانوی زبان کے اجلاسوں پر بھی حاضر ہو کر وہاں کے بہن بھائیوں کی حوصلہافزائی کرتا ہوں۔
آئیے مَیں آپکو ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے مَیں بہت خوش ہوا۔ بہت سال پہلے کی بات ہے جب مَیں جوان ہی تھا۔ اُس وقت منادی کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ بائبل میں سے مختلف عنوان پر پانچ پانچ منٹ کی تقریریں ریکارڈ کی جاتی تھیں۔ ہم گھرباگھر جا کر لوگوں کو یہ تقریریں ایک مشین پر سنایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن جب مَیں رَنکورن میں منادی کر رہا تھا تو ایک چھوٹی لڑکی اپنی ماں کے پیچھے چھپ کر تقریر کو غور سے سن رہی تھی۔
جب یہی لڑکی جوان ہوئی تو وہ کینیڈا جا کر رہنے لگی۔ اسی لڑکی کی ایک سہیلی آج بھی رَنکورن میں رہ رہی ہے اور یہوواہ کی ایک گواہ ہے۔ اُن دونوں سہیلیوں نے خطوں کے ذریعے اپنی دوستی کو برقرار رکھا۔ کچھ عرصہ پہلے اِس لڑکی نے کینیڈا سے اپنی سہیلی کو ایک خط میں لکھا کہ اُسکے گھر دو گواہ آئے تھے۔ گواہوں نے اُسے جو باتیں بتائیں اِن سے اُسکو وہ باتیں یاد آ گئیں جو اُس نے بہت عرصہ پہلے اپنی ماں کے پیچھے چھپ کر سنی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ باتیں سچی ہیں۔ اِسلئے وہ بھی یہوواہ کی ایک گواہ بن گئی۔ اُس نے اپنی سہیلی کو لکھا کہ میری طرف سے اُس نوجوان کا شکریہ ادا کرنا جس نے ۶۰ سال پہلے ہمارے گھر آ کر ہمیں بائبل کے پیغام کا ریکارڈ سنایا تھا۔ جیہاں، جب ہم لوگوں کے دِلوں میں سچائی کے بیج بوتے ہیں تو ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کب بڑھنے لگیں گے۔—واعظ ۱۱:۶۔
جب مَیں اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مَیں یہوواہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے اپنی خدمت کرنے کے اتنے مواقع دئے۔ مَیں نے ۱۹۳۱ میں یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کی اور اُسی سال سے آج تک مَیں ہر اسمبلی پر حاضر ہوا ہوں۔ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے۔ لیکن ہم نے کم از کم ۱۵۰ لوگوں کو یہوواہ خدا کی مرضی پر عمل کرنا سکھایا ہے اور یہی لوگ ہمارے لئے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ میری پیاری بیوی بالکل ٹھیک کہتی تھی کہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنا لاثانی خوشیاں بخشتا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 9 ہلڈا پاجٹ کی سوانححیات اکتوبر ۱، ۱۹۹۵ کے دی واچٹاور، صفحہ ۱۹ تا ۲۴ میں شائع ہوئی تھی۔
^ پیراگراف 12 یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
ماں، ۱۹۰۰ کی ابتدا میں
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
اُوپر: آئرین میرے ساتھ اُس گاڑی کے سامنے جس میں ہم رہا کرتے تھے
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
دائیں: ہلڈا پیجٹ، مَیں، آئرین اور جائس رولی، انگلینڈ میں، ۱۹۴۰
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
ویلز میں ایک عوامی تقریر کا اعلان کرتے ہوئے، ۱۹۵۲