کوریا میں ایک منفرد اہلِزبان کی خدمت کرنا
کوریا میں ایک منفرد اہلِزبان کی خدمت کرنا
ایک پُرجوش مگر خاموش گروہ ۱۹۹۷ کے موسمِگرما میں یہوواہ کے گواہوں کے ڈسٹرکٹ کنونشن پر حاضر ہوا۔ کوریا میں گونگے بہرے لوگوں کیلئے پہلی بار ایسا کنونشن منعقد کِیا گیا تھا۔ اسکے حاضرین کی انتہائی تعداد ۱۷۴،۱ تھی۔ پورا پروگرام—بشمول تقاریر، انٹرویوز اور ڈرامہ—کوریا کی اشاروں کی زبان میں پیش کِیا گیا اور پورا اسمبلی ہال اسے پروجیکٹر کے ذریعے ایک بڑی سکرین پر دیکھ سکتا تھا۔ یہ لاتعداد رضاکاروں کی کئی سالوں پر مشتمل انتھک محنت کا نتیجہ تھا۔
وہ وقت آئیگا جب زمینی فردوس میں ”بہروں کے کان کھولے جائینگے۔“ (یسعیاہ ۳۵:۵) اس فردوس میں زندگی کا تجربہ کرنے کیلئے بہروں سمیت تمام لوگوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ پہلے روحانی فردوس میں داخل ہوں جو درحقیقت خدا کے بابرکت لوگوں کی خوشحال روحانی حالت ہے۔ اُنہیں یہوواہ سے تعلیم پانے والے اُس کے مخصوص اور بپتسمہیافتہ گواہ بننے کی ضرورت ہے۔—میکاہ ۴:۱-۴۔
معمولی شروعات
اگرچہ ۱۹۶۰ میں بہروں کو منادی کی گئی تھی توبھی ان میں سے کچھ لوگوں نے ۱۹۷۰ کے بعد ہی کوریا کے دارالحکومت، سیول میں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کِیا تھا۔ ایک مسیحی بھائی نے جسکی لکھنے کی رفتار بہت تیز تھی بائبل حوالوں سمیت تقاریر کے اہم نکات بلیک بورڈ پر لکھے۔
ٹیجن کے شہر میں ایک گواہ نے سن ۱۹۷۱ میں، اپنے بہرے بیٹے اور اُسکے بہرے دوستوں کو بادشاہتی پیغام سکھانا شروع کِیا۔ اب اس گروہ کے کئی پُرجوش مُناد بہت سے ایسے علاقوں میں جہاں اشاروں کی زبان استعمال ہوتی ہے ثابتقدمی سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔—زکریاہ ۴:۱۰۔
نوجوان خوشی سے اپنےآپ کو پیش کرتے ہیں
اگر بہروں کیلئے خدا اور یسوع کا علم حاصل کرنا اور یوں زندگی کی راہ پر چلنا ممکن بنانا تھا تو اس کیلئے مزید رضاکاروں کی طرف سے اَور زیادہ کوشش درکار ہوگی۔ (یوحنا ۱۷:۳) اس مقصد کے تحت کئی یہوواہ کے گواہوں نے اشاروں کی زبان سیکھتے ہوئے بااَجر تجربات سے استفادہ کِیا ہے۔
ایک ۱۵ سالہ نوجوان پارک ان-سن نے اشاروں کی زبان سیکھنے کو اپنا نشانہ بنایا۔ ایسا کرنے کیلئے وہ ایک فیکٹری میں تربیت حاصل کرنے لگا جہاں ۲۰ بہرے اشخاص کا ایک گروہ کام کِیا کرتا تھا۔ اُس نے آٹھ ماہ تک ان کیساتھ مل کر کام کِیا تاکہ انکی زبان اور سوچنے کے انداز کو سیکھ سکے۔ اگلے سال وہ ریگولر پائنیر یعنی کُلوقتی بادشاہتی مُناد بن گیا اور بائبل سچائی میں دلچسپی رکھنے والے بہرے لوگوں کے ایک گروہ کیساتھ کام کرنے لگا۔ یہ گروہ بڑی تیزی سے بڑھتا گیا اور بہت جلد ۳۵ سے زیادہ لوگ اتوار کے اجلاسوں پر حاضر ہونے لگے۔—زبور ۱۱۰:۳۔
اسکے بعد سیول میں پہلی بار مسیحی اجلاس مکمل طور پر اشاروں کی زبان میں منعقد کئے جانے لگے۔ بھائی پارک ان-سن تیزی سے بڑھنے والے اس گروہ میں سپیشل پائنیر کے طور پر خدمت کرنے لگا۔ اب اُس نے اشاروں کی زبان میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ بعض مہینوں کے دوران، اُس نے بہرے لوگوں کیساتھ ۲۸ گھریلو بائبل مطالعے کرائے۔ ان میں سے بہتیرے ترقی کرکے یہوواہ کے گواہ بن چکے ہیں۔
اس پُرجوش رضاکارانہ کام کے نتیجے میں، اکتوبر ۱۹۷۶ میں، سیول کے اندر ۴۰ پبلشروں اور دو باقاعدہ پائنیروں یا کُلوقتی بادشاہتی مُنادوں پر مشتمل اشاروں کی زبان کی پہلی کلیسیا قائم ہوئی۔ یوں کوریا کے دیگر شہروں میں بھی اس کام پر توجہ دی جانے لگی۔ بہتیرے بہرے لوگ خوشخبری سننے اور گواہوں سے ملاقات کرنے کے مشتاق تھے۔
بہروں کے درمیان کام کرنا
آپ شاید سوچیں کہ بہروں کی تلاش کیسے کی گئی تھی۔ اُن میں سے بیشتر کو ایک شخص کے ذریعے دوسرے تک رسائی کرنے سے تلاش کِیا گیا تھا۔ اسکے علاوہ، مقامی علاقوں میں چاولوں کی دُکانوں کے مالکوں سے رابطہ کرکے بہرے اشخاص کے نام اور پتے حاصل کئے گئے۔ بعض سرکاری دفاتر ایسی معلومات فراہم کرنے کیلئے مددگار ثابت ہوئے۔ ایسے علاقے کا مستعد احاطہ جہاں بہرے لوگ رہتے تھے اسقدر کامیاب ثابت ہوا کہ وقت آنے پر وہاں اشاروں کی زبان کی چار کلیسیائیں قائم ہو گئیں۔ بہتیرے مسیحی نوجوانوں نے اشاروں کی زبان سیکھنے کی تحریک پائی۔
یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر نے اشاروں کی زبان سیکھنے والے سپیشل پائنیروں کو ان کلیسیاؤں کیساتھ کام کرنے کیلئے تفویض کِیا۔ حال ہی میں، ان کلیسیاؤں میں تفویض کئے جانے والے منسٹریل ٹریننگ سکول کے گریجویٹس نے انہیں روحانی طور پر مضبوط کِیا ہے۔
اس کام میں مشکلات سے نپٹنا پڑتا ہے۔ اس حلقے میں خدمت کرنا بہروں کے طورطریقوں کو سمجھنے کیلئے کوشش کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ اُنکے خیالات اور اعمال مخلصانہ ہوتے ہیں۔ یہ بات بعضاوقات لوگوں کو حیران کرتی اور غلطفہمیوں کا باعث بھی بنتی ہے۔ اسکے علاوہ، جب گواہ بہروں کیساتھ بائبل مطالعے کرتے ہیں تو اُنہیں اپنی زبان میں مہارت حاصل کرنے اور پڑھائی اور مطالعے کے ذاتی پروگرام کو وسیع کرنے میں مدد دینے کی ضرورت ہے۔
اپنی روزمرّہ کی کارگزاریوں میں بہرے اشخاص جن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں دوسرے ان سے اکثر ناواقف ہوتے ہیں۔ سرکاری دفاتر اور طبّی نگہداشت کے اداروں سے رابطہ اور روزمرّہ کا کاروباری لیندین بھی اکثر اُن کیلئے سنگین مسائل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ قریبی کلیسیاؤں کے گواہوں کی پُرمحبت مدد کی وجہ سے مسیحی کلیسیا میں موجود بہرے لوگوں نے حقیقی برادری کا تجربہ کِیا ہے۔—غیررسمی گواہی نتیجہخیز ثابت ہوتی ہے
کوریا کی جنوبی بندرگاہ پوسان کے شہر میں ایک گواہ کی دو بہروں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا: ”ہمیں فردوس اچھا لگتا ہے۔ ہم اُن صحائف کی بابت جاننا چاہتے ہیں جو ہمیشہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔“ بھائی نے اُنکے گھر کا پتا لکھ لیا اور اُن سے ملاقات کا بندوبست بنایا۔ جب وہ ان سے ملنے گیا تو پورا کمرہ بہروں سے بھرا پایا جو بادشاہتی پیغام سننے کیلئے جمع ہوئے تھے۔ اس تجربے نے اُسے اشاروں کی زبان سیکھنے کی تحریک دی۔ بہت جلد پوسان میں اشاروں کی زبان کی ایک کلیسیا قائم ہو گئی۔
اس کلیسیا کے ایک بھائی نے دو بہروں کو آپس میں اشاروں سے باتیں کرتے دیکھا تو وہ اُن کے پاس گیا۔ یہ جاننے کے بعد کہ وہ دونوں ایک مذہبی اجلاس سے واپس لوٹ رہے تھے اُس نے اُنہیں اُسی دن دوپہر دو بجے کنگڈم ہال آنے کی دعوت دی۔ وہ وہاں حاضر ہوئے اور بائبل مطالعہ شروع کر دیا گیا۔ اسکے کچھ ہی عرصہ
بعد، وہ دونوں اپنے ۲۰ بہرے ساتھیوں کیساتھ ڈسٹرکٹ کنونشن پر حاضر ہوئے۔ اس گروپ میں سے بیشتر نے اپنی زندگیاں یہوواہ کیلئے مخصوص کر دی ہیں۔ دو اشخاص اب اشاروں کی زبان کی کلیسیاؤں میں بزرگ اور ایک خدمتگزار خادم بن گئے ہیں۔ثابتقدمی بااَجر ثابت ہوتی ہے
چونکہ بعض بہرے اشاروں کی زبان کی کلیسیا سے بہت دُور رہتے ہیں لہٰذا اُنہیں بائبل میں سے باقاعدہ روحانی خوراک فراہم کرنا اکثر بڑی کوشش اور ثابتقدمی کا تقاضا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک جزیرے پر رہنے والا ۳۱ سالہ شخص ماہیگیری کے ذریعے اپنا گزربسر کِیا کرتا تھا۔ اُس نے اپنے نوجوان بھائی سے بائبل کا پیغام سنا جس کیساتھ یہوواہ کے گواہ رابطہ کر چکے تھے۔ اپنی روحانی بھوک مٹانے کی کوشش میں یہ بہرہ ماہیگیر کشتی کے ذریعے دس میل سفر کرکے جنوبی ساحلی شہر ٹونگیانگ پہنچا۔ اسکا مقصد ماسان شہر میں اشاروں کی زبان کی کلیسیا کے ایک سپیشل پائنیر سے ملاقات کرنا تھا۔ یہ سپیشل پائنیر اس بہرے ماہیگیر کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے کیلئے ہر سوموار ۴۰ میل کا سفر کِیا کرتا تھا۔
بائبل مطالعہ کرنے والے اس بہرے شخص کو ماسان شہر میں اتوار کے اجلاس پر حاضر ہونے کیلئے کشتی کے ذریعے ۱۰ میل اور پھر بس کے ذریعے ۴۰ میل کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ تاہم اُسکی ثابتقدمی بااَجر ثابت ہوئی۔ کچھ ماہ بعد، اُس نے اشاروں کی زبان میں مہارت حاصل کی، کوریا زبان کے ہجے سیکھے اور سب سے اہم بات یہ کہ یہوواہ کیساتھ رشتہ قائم کرنے کا واحد طریقہ بھی سیکھ لیا۔ اجلاسوں اور باقاعدہ گواہی دینے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے وہ اُس علاقہ میں منتقل ہو گیا جہاں اشاروں کی زبان کی کلیسیا موجود تھی۔ کیا یہ آسان کام تھا؟ ہرگز نہیں۔ اُسے ۸۰۰ ڈالر کے ماہانہ منافع والے ماہیگیری کے پیشے کو چھوڑنا پڑا لیکن اُسکی ثابتقدمی بااَجر ثابت ہوئی۔ سچائی میں ترقی کرنے کے بعد، اُس نے بپتسمہ لیا اور اب وہ اپنے خاندان سمیت خوشی سے یہوواہ کی خدمت کر رہا ہے۔
بہروں کیلئے ترجمہ
بادشاہتی خوشخبری اکثر زبانی بیان کی جاتی ہے۔ تاہم، خدا کے کلام کے پیغام کو درستی کیساتھ پہنچانے کے لئے بائبل تعلیم دینے کا اس سے زیادہ مؤثر طریقہ ضروری ہے۔ لہٰذا، پہلی صدی میں تجربہکار بزرگوں نے کتابیں اور خطوط لکھے۔ (اعمال ۱۵:۲۲-۳۱؛ افسیوں ۳:۴؛ کلسیوں ۱:۲؛ ۴:۱۶) ہمارے زمانے میں، کتابوں اور دیگر مسیحی مطبوعات کے ذریعے باافراط روحانی خوراک فراہم کی جاتی ہے۔ انکا ترجمہ مختلف اشاروں کی زبانوں سمیت ہزاروں زبانوں میں کِیا گیا ہے۔ انکا ترجمہ کوریا کی اشاروں کی زبان میں کرنے کے لئے برانچ آفس میں اشاروں کی زبان کا ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ موجود ہے۔ ایک ویڈیو ڈپیارٹمنٹ اشاروں کی زبان کے ویڈیوز تیار کرتا ہے۔ اس طرح کوریا کی کلیسیاؤں میں قوتِسماعت سے محروم خوشخبری کے مُنادوں اور دلچسپی رکھنے والوں کو روحانی خوراک فراہم کی جاتی ہے۔
اگرچہ بہتیرے لوگوں نے اشاروں کی زبان میں مہارت حاصل کرتے ہوئے ویڈیوز تیار کرنے میں مدد دی ہے توبھی بہرے والدین کے بچے اکثر بہترین مترجمین ثابت ہوتے ہیں۔ وہ بچپن ہی سے اشاروں کی زبان سیکھتے ہیں۔ درست اشارے کرنے کے قابل ہونے کے علاوہ وہ اپنی حرکاتوسکنات اور چہرے کے تاثرات کے ذریعے پیغام میں جان ڈالتے، اسے ذیاثر بناتے اور یوں دلودماغ تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
جیساکہ پہلے بیان کِیا گیا تھا کوریا میں کنونشن اور اسمبلیاں اب باقاعدگی کیساتھ اشاروں کی زبان میں منعقد کی جا رہی ہیں۔ اس کام کو انجام دینے کیلئے کافی محنت، اخراجات اور کوشش درکار ہے۔ تاہم حاضرین نے اس بندوبست کی قدر کی ہے۔ ان اجتماعات کے اختتام پر، بہتیرے کچھ دیر رُک کر صحتمندانہ رفاقت اور فراہم کی جانے والی عمدہ روحانی خوراک کی بابت باتچیت کرتے ہیں۔ واضح طور پر، اس منفرد گروہ کی خدمت کرنا چیلنجخیز ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والی روحانی برکات کہیں زیادہ ہیں۔
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
کوریا میں تیار کی جانے والی اشاروں کی زبان میں ویڈیوز: ”خدا ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟“ ”اپنے روحانی ورثے کی قدر کرنا،“ ”ہمارے زمانے کیلئے انتباہی مثالیں،“ اور ”یہوواہ کے اختیار کا احترام کریں“
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
نیچے سے دائیں سے بائیں: کوریا برانچ میں تیار کی جانے والی اشاروں کی زبان کی ویڈیو؛ اشاروں کی زبان کی ٹرانسلیشن ٹیم؛ تھیوکریٹک اصطلاحات کیلئے اشارے تیار کرنا؛ ویڈیو کی تیاری کے دوران اشاروں کی زبان سمجھنے والے کو ترغیب دینا