ہم تنہا کیوں نہیں رہ سکتے
ہم تنہا کیوں نہیں رہ سکتے
”ایک سے دو بہتر ہیں . . . کیونکہ اگر وہ گِریں تو ایک اپنے ساتھی کو اُٹھائیگا۔“— سلیمان بادشاہ
قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے بیان کِیا: ”ایک سے دو بہتر ہیں کیونکہ اُنکی محنت سے اُنکو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ گِریں تو ایک اپنے ساتھی کو اُٹھائیگا لیکن اُس پر افسوس جو اکیلا ہے جب وہ گِرتا ہے کیونکہ کوئی دوسرا نہیں جو اُسے اُٹھا کھڑا کرے۔“ (واعظ ۴:۹، ۱۰) پس انسانی طرزِعمل کا یہ دانشمند مشاہد باہمی رفاقت کیلئے ہماری ضرورت اور خود کو دوسروں سے علیٰحدہ نہ کرنے کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے۔ تاہم، یہ محض انسانی سوچ نہیں۔ سلیمان نے الہٰی حکمت اور الہام سے یہ بیان کِیا تھا۔
خود کو دوسروں سے الگ کرنا دانشمندی کی بات نہیں۔ لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ساتھی انسانوں سے حاصل ہونے والی طاقت اور مدد کی ضرورت ہے۔ ایک بائبل مثل بیان کرتی ہے، ”جو اپنےآپ کو سب سے الگ رکھتا ہے اپنی خواہش کا طالب ہے اور ہر معقول بات سے برہم ہوتا ہے۔“ (امثال ۱۸:۱) لہٰذا حیرانی کی بات نہیں کہ معاشرتی علوم کے ماہرین لوگوں کو کسی گروپ کا حصہ بننے اور دوسروں میں دلچسپی لینے کی حوصلہافزائی کرتے ہیں۔
معاشرتی زندگی کو بحال کرنے کے سلسلے میں دیگر تجاویز دیتے ہوئے پروفیسر رابرٹ پٹنام ”خدا پر ایمان کو مضبوط کرنے“ کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اس سلسلے میں یہوواہ کے گواہوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے کیونکہ وہ پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی خانداننما کلیسیاؤں میں ملنے والے تحفظ سے مستفید ہوتے ہیں۔ وہ پطرس رسول کے الفاظ کی مطابقت میں ”برادری سے محبت“ رکھتے ہیں جو خدا کا مؤدبانہ خوف رکھتی ہے۔ (۱-پطرس ۲:۱۷) گواہ تنہائی اور اسکے نقصاندہ اثرات سے بھی محفوظ ہیں اسلئےکہ سچی پرستش کیساتھ منسوب کئی فائدہمند کارگزاریوں کی وجہ سے وہ اپنے پڑوسیوں کو خدا کے کلام بائبل میں پائی جانے والی سچائی سکھانے میں مصروف رہتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۲:۱۵۔
محبت اور باہمی رفاقت نے اُنکی زندگیاں بدل دیں
یہوواہ کے گواہ ایک متحد معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں جسکا ہر رُکن ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، لاطینی امریکہ کے ایک خاندان کے تین افراد، میگویل، فروئلن اور الما روت کی مثال پر غور کریں۔ اُنہیں پیدائشی طور پر ہڈیوں کی ایک بیماری تھی جو چھوٹے قد کا باعث بنتی ہے۔ یہ تینوں اشخاص ویلچیئر تک محدود ہیں۔ گواہوں کیساتھ رفاقت نے اُنکی زندگیوں پر کیا اثر ڈالا؟
میگویل بیان کرتا ہے: ”مَیں نے کافی مشکلات کا سامنا کِیا لیکن جب مَیں یہوواہ کے لوگوں کیساتھ رفاقت رکھنے لگا تو میری زندگی بدل گئی۔ خود کو دوسروں سے علیٰحدہ کرنا نہایت خطرناک ہے۔ ہر ہفتے مسیحی اجلاسوں پر ساتھی ایمانداروں کیساتھ ملنے اور ان سے رفاقت رکھنے سے خوشی اور اطمینان حاصل کرنے میں میری بڑی مدد ہوئی۔“
الما روت بیان کرتی ہے: ”مَیں اکثر انتہائی مایوسی کا تجربہ کرتی اور نہایت غمگین رہتی تھی۔ تاہم، یہوواہ کی بابت سیکھنے کے بعد مَیں نے محسوس کِیا کہ مَیں اُس کیساتھ ایک قریبی رشتہ رکھ سکتی ہوں۔ یہ میری زندگی کا سب سے قیمتی رشتہ بن گیا۔ میرے خاندان نے ہماری کافی حمایت کی جسکی وجہ سے ہم سب ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔“
میگویل کے والد نے اُسے پُرمحبت طریقے سے پڑھنا اور لکھنا سکھایا۔ بعدازاں، میگویل نے فروئلن اور الما روت کو بھی پڑھنالکھنا سکھایا۔ یہ صلاحیتیں اُنکی روحانیت کیلئے ضروری تھیں۔ الما روت بیان کرتی ہے، ”پڑھنا سیکھنے سے ہمیں بڑا فائدہ پہنچا کیونکہ اب ہم بائبل اور بائبل پر مبنی مطبوعات پڑھنے سے روحانی تقویت حاصل کر سکتے تھے۔“
اسوقت میگویل ایک مسیحی بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔ فروئلن نو بار پوری بائبل پڑھ چکی ہے۔ الما روت نے ۱۹۹۶ سے پائنیر یعنی کُلوقتی بادشاہتی مُناد کے طور پر یہوواہ کیلئے اپنی خدمت کو وسیع کِیا ہے۔ وہ بیان کرتی ہے: ”یہوواہ کی برکت سے مَیں یہ نشانہ حاصل کر چکی ہوں، اسلئےکہ مجھے منادی کے کام اور ۱۱ بائبل مطالعے کرانے میں اپنی عزیز بہنوں کی مدد حاصل ہوئی ہے۔“
ایک اَور عمدہ مثال ایمیلیا کی ہے جو ایک حادثے میں ٹانگوں اور ریڑھ کی ہڈی پر زخم لگنے کی وجہ سے ویلچیئر کی محتاج ہو گئی ہے۔ میکسیکو شہر میں یہوواہ کے گواہوں نے اُس کے ساتھ بائبل مطالعہ کِیا اور اُس نے ۱۹۹۶ میں بپتسمہ لیا۔ ایمیلیا بیان کرتی ہے: ”سچائی جاننے سے پہلے مَیں اپنی زندگی ختم کر دینا چاہتی تھی۔ مَیں جینا نہیں چاہتی تھی۔ میری زندگی کھوکھلی تھی اور مَیں راتدن آنسو بہایا کرتی تھی۔ لیکن جب مَیں یہوواہ کے لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھنے لگی تو میرے دل میں برادری کے لئے محبت پیدا ہوئی۔ مجھ میں اُن کی ذاتی دلچسپی حوصلہافزائی کا باعث ہے۔ ایک بزرگ میرے لئے ایک بھائی یا باپ کی طرح ثابت ہوا ہے۔ وہ اور بعض خدمتگزار خادم مجھے ویلچیئر پر اجلاسوں اور منادی پر لیجاتے ہیں۔“
ہوسے جس نے ۱۹۹۲ میں یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لیا تنہا رہتا ہے۔ اُس کی عمر ۷۰ سال ہے اور وہ ۱۹۹۰ میں ریٹائر ہوا تھا۔ فلپیوں ۱:۱؛ ۱-پطرس ۵:۲) ایسے ساتھی ایماندار ”تسلی کا باعث“ ہیں۔ (کلسیوں ۴:۱۱) وہ اُسے ڈاکٹر کے پاس لیجاتے ہیں، اُسکے گھر پر اُسے ملنے آتے ہیں اور اُس کے چار آپریشنوں کے دوران اُس کے ساتھ رہے ہیں۔ وہ مزید بیان کرتا ہے، ”وہ میرے لئے فکرمندی ظاہر کرتے ہیں۔ وہ واقعی میرے خاندان کا حصہ ہیں۔ مَیں اُن کی رفاقت سے خوش ہوتا ہوں۔“
ہوسے مایوسی کا شکار تھا لیکن جب ایک گواہ نے اُسے منادی کی تو وہ بِلاتاخیر مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے لگا۔ اُس نے جوکچھ سنا اور دیکھا وہ اُسے پسند آیا۔ مثال کے طور پر، اُس نے بھائیوں کے خلوص اور اُن کی ذاتی دلچسپی کو محسوس کِیا۔ اُس کی کلیسیا کے بزرگ اور خدمتگزار خادم اب اُس کی دیکھبھال کرتے ہیں۔ (دینا حقیقی خوشی لاتا ہے
یہ کہنے سے کچھ دیر پہلے کہ ”ایک سے دو بہتر ہیں،“ سلیمان بادشاہ مادی چیزوں کے حصول کے لئے اپنی تمامتر قوتوتوانائی وقف کر دینے کے بےفائدہ عمل پر باتچیت کر چکا تھا۔ (واعظ ۴:۷-۹) آجکل بہتیرے لوگ اسی چیز کو حاصل کرنے کی تگودَو میں لگے رہتے ہیں اگرچہ اس کا مطلب خاندان کے اندر اور باہر انسانی رشتوں کی قربانی ہوتا ہے۔
لالچ اور خودغرضی کی اس روح نے بہتیروں کو دوسروں سے دُور رہنے کی تحریک دی ہے۔ نتیجتاً اُنہوں نے زندگی سے نہ تو کوئی خوشی حاصل کی ہے نہ اطمینان اسلئےکہ ایسی روح سے مغلوب ہونے والوں میں مایوسی اور نااُمیدی عام ہے۔ اسکے برعکس، مسبوقالذکر بیانات یہوواہ کی خدمت کرنے اور یہوواہ اور اپنے پڑوسیوں کیلئے محبت سے تحریک پانے والوں کیساتھ رفاقت رکھنے کے مثبت اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔ مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری، ساتھی مسیحیوں کی حمایت اور فکرمندی اور خدمتگزاری میں پُرجوش شمولیت ایسے اہم عناصر ہیں جنکے ذریعے ان اشخاص کی تنہائی کیساتھ وابستہ منفی احساسات سے نپٹنے میں مدد ہوئی ہے۔—امثال ۱۷:۱۷؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
چونکہ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے، لہٰذا دوسروں کی خدمت سے تسکین حاصل کرنا قدرتی بات ہے۔ اپنے کام سے بہتیروں کو فائدہ پہنچانے والے البرٹ آئنسٹائن نے بیان کِیا: ”ایک شخص کی قدروقیمت . . . کا تعیّن اس بات سے ہوتا ہے کہ اُس نے معاشرے کو کیا دیا ہے نہ کہ معاشرے سے کیا حاصل کِیا ہے۔“ یہ بات ہمارے خداوند یسوع مسیح کے ان الفاظ سے مطابقت رکھتی ہے: ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) لہٰذا محبت حاصل کرنا خوشی بخشتا ہے لیکن دوسروں کیلئے محبت ظاہر کرنا بھی مفید ہے۔
کئی سالوں سے روحانی مدد پیش کرنے کیلئے کلیسیاؤں کا دورہ کرنے اور محددو وسائل رکھنے والے مسیحیوں کیلئے اجلاسوں کی جگہ تعمیر کرنے والے ایک سفری نگہبان نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کِیا: ”اپنے بھائیوں کی خدمت کرنے اور اُنکے چہروں پر خوشی اور قدردانی کے جذبات کو دیکھنے سے مجھے انکی مدد کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہنے کی تحریک ملتی ہے۔ مَیں تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ دوسروں میں ذاتی دلچسپی ظاہر کرنا خوشی کی کُنجی ہے۔ نیز بزرگوں کے طور پر، ہمیں ’آندھی سے پناہگاہ، زمین میں پانی کی ندیوں اور ماندگی کی زمین میں بڑی چٹان کے سایہ کی مانند‘ ہونا چاہئے۔“—یسعیاہ ۳۲:۲۔
باہم ملکر رہنا کسقدر خوشی لاتا ہے!
واقعی، دوسروں کی مدد کرنا اور یہوواہ کی خدمت کرنے والوں کیساتھ رفاقت رکھنا نہایت فائدہمند اور حقیقی خوشی کا باعث ہے۔ زبورنویس نے بیان کِیا، ”دیکھو! کیسی اچھی اور خوشی کی بات ہے کہ بھائی باہم ملکر رہیں۔“ (زبور ۱۳۳:۱) میگویل، فروئلن اور الما روت کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ خاندانی اتحاد ایک اہم عنصر ہے جسکے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کی جا سکتی ہے۔ نیز ایک دوسرے کیساتھ سچی پرستش میں متحد ہونا کتنی بڑی برکت ہے! مسیحی شوہروں اور بیویوں کو نصیحت کرنے کے بعد پطرس رسول نے لکھا: ”غرض سب کے سب یکدل اور ہمدرد رہو۔ برادرانہ محبت رکھو۔ نرمدل اور فروتن بنو۔“—۱-پطرس ۳:۸۔
حقیقی دوستی بہت سے جذباتی اور روحانی فوائد بخشتی ہے۔ پولس رسول نے ساتھی ایمانداروں کو نصیحت کی: ”کمہمتوں کو دلاسا دو۔ کمزوروں کو سنبھالو۔ سب کے ساتھ تحمل سے پیش آؤ۔ . . . ہر وقت نیکی کرنے کے درپے رہو۔ آپس میں بھی اور سب سے۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴، ۱۵۔
لہٰذا، دوسروں کے ساتھ نیکی کرنے کے عملی طریقے تلاش کریں۔ ”جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاصکر اہل ایمان کے ساتھ،“ کیونکہ یہ آپکی زندگی کو بامقصد بنائیگا اور آپکو اطمینان اور سکون بخشے گا۔ (گلتیوں ۶:۹، ۱۰) یسوع کے شاگرد یعقوب نے لکھا: ”اگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو اور اُنکو روزانہ روٹی کی کمی ہو۔ اور تم میں سے کوئی اُن سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ۔ گرم اور سیر رہو مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ اُنہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟“ (یعقوب ۲:۱۵، ۱۶) اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ ہمیں ”اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ دوسروں کے احوال پر بھی نظر“ رکھنی چاہئے۔—فلپیوں ۲:۴۔
دوسروں کی مادی طور پر مدد کرنے کے علاوہ کسی ضرورت یا آفت کی صورت میں یہوواہ کے گواہ ایک نہایت اہم طریقہ—خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی—سے ساتھی انسانوں کو فائدہ پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴) اُمید اور تسلی کے اس پیغام کی منادی کرنے میں ۰۰۰،۰۰،۶۰ سے زائد گواہوں کا حصہ لینا دوسروں میں اُنکی حقیقی، پُرمحبت دلچسپی کا ثبوت ہے۔ تاہم، پاک صحائف سے مدد فراہم کرنا ایک اَور انسانی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ وہ کیا ہے؟
ایک اہم ضرورت کو پورا کرنا
حقیقی خوشی سے مستفید ہونے کیلئے ہمیں خدا کیساتھ ایک مناسب رشتہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک بیان کے مطابق: ”درحقیقت انسانوں نے شروع سے لیکر آج تک، ہر دَور میں خود سے بالاتر اور طاقتور ہستی سے مدد طلب کرنے کی ضرورت کو محسوس کِیا ہے لہٰذا اس بات کو سائنسی طور پر بھی تسلیم کِیا جانا چاہئے کہ مذہب ایک فطرتی ضرورت ہے۔ . . . ایک اعلیٰ ہستی پر ایمان اور اُسکی تلاش کی عالمگیریت نہ صرف ہمیں حیران کرتی ہے بلکہ ہمارے احترام کی بھی مستحق ہے۔“—مین ڈز ناٹ سٹینڈ الون از اے. کریسی موریسن۔
یسوع مسیح نے بیان کِیا: ”مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔“ (متی ۵:۳) لوگ دوسرے انسانوں سے خود کو علیٰحدہ کرنے سے زیادہ دیر تک خوش نہیں رہ سکتے۔ تاہم، اپنے خالق سے دُور رہنا اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ (مکاشفہ ۴:۱۱) ”خدا کی معرفت“ کو حاصل کرنا اور اسکا اطلاق کرنا ہماری زندگی کا اہم پہلو ہونا چاہئے۔ (امثال ۲:۱-۵) واقعی، ہمیں اپنی روحانی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے پُرعزم رہنا چاہئے کیونکہ ہم خدا سے دُور ہوکر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ ایک خوشکُن اور حقیقی معنوں میں بااَجر زندگی کا انحصار ”تمام زمین پر بلندوبالا“ ہستی یہوواہ کیساتھ ایک اچھے رشتے پر ہے۔—زبور ۸۳:۱۸۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
میگویل: ”مَیں نے کافی مشکلات کا سامنا کِیا لیکن جب مَیں یہوواہ کے لوگوں کیساتھ رفاقت رکھنے لگا تو میری زندگی بدل گئی“
[صفحہ ۵ پر تصویر]
الما روت: ”یہوواہ کی بابت جاننے کے بعد، مَیں نے محسوس کِیا کہ مَیں اُس کیساتھ ایک قریبی رشتہ رکھ سکتی ہوں“
[صفحہ ۶ پر تصویر]
ایمیلیا: ”سچائی جاننے سے پہلے . . . میری زندگی کھوکھلی تھی“
[صفحہ ۷ پر تصویر کی عبارت]
سچے پرستاروں کیساتھ رفاقت ہماری روحانی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتی ہے