سب لوگ یہوواہ کی تمجید کریں
سب لوگ یہوواہ کی تمجید کریں
’یہوواہ ہی کی تمجیدوتعظیم کرو۔ یہوواہ کی ایسی تمجید کرو جو اُسکے نام کے شایان ہے۔‘ —زبور ۹۶:۷، ۸۔
۱، ۲. کون یہوواہ کی تمجید کرتے ہیں اور کن کو اس میں شامل ہونے کی تاکید کی گئی ہے؟
یسی کے بیٹے داؤد نے بیتلحم میں ایک چرواہے کے طور پر پرورش پائی۔ چراگاہوں میں اپنے باپ کے گلّوں کی حفاظت کرتے وقت اُس نے کتنی بار رات کے وقت ستاروں بھرے وسیع آسمان کو دیکھا ہوگا! بِلاشُبہ پاک روح سے تحریک پا کر زبور ۱۹ کے خوبصورت الفاظ کو تحریر کرتے اور گاتے وقت اُسے ایسے مناظر یاد آئے ہوں گے: ”آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے۔ اُن کا سُر ساری زمین پر اور اُن کا کلام دُنیا کی انتہا تک پہنچا ہے۔“—زبور ۱۹:۱، ۴۔
۲ بغیر آواز اور الفاظ کے یہوواہ کے تخلیقکردہ آسمان ہر روز اُس کا جلال ظاہر کرتے ہیں۔ تخلیق کبھی بھی یہوواہ کا جلال ظاہر کرنا بند نہیں کرتی اور زمین کے سب باشندوں کے لئے اس پر غور کرنا واقعی عاجزی کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم تخلیق کی خاموش گواہی کافی نہیں ہے۔ وفادار انسان آواز کے ساتھ شامل ہونے کی تحریک پاتے ہیں۔ ایک زبورنویس جس کا نام نہیں دیا گیا وفادار پرستاروں کو ان الہامی الفاظ میں تاکید کرتا ہے: ”[یہوواہ] ہی کی تمجیدوتعظیم کرو۔ [یہوواہ] کی ایسی تمجید کرو جو اُس کے نام کے شایان ہے۔“ (زبور ۹۶:۷، ۸) یہوواہ سے قریبی رشتہ رکھنے والے لوگ اس نصیحت پر دھیان دیکر بہت خوش ہیں۔ تاہم، یہوواہ کو جلال دینے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۳. کن طریقوں سے انسان خدا کی تمجید کرتے ہیں؟
۳ محض الفاظ سے زیادہ کچھ درکار ہے۔ یسعیاہ کے زمانے کے اسرائیلی اپنے ہونٹوں سے تو یہوواہ کی تمجید کرتے تھے مگر ان میں خلوص کی کمی تھی۔ یسعیاہ کی معرفت یہوواہ نے فرمایا: ”یہ لوگ زبان سے میری نزدیکی چاہتے ہیں اور ہونٹوں سے میری تعظیم کرتے ہیں لیکن اُن کے یسعیاہ ۲۹:۱۳) ان اشخاص کی طرف سے کی جانے والی تمجید بےمعنی تھی۔ پُرمعنی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ حمد یہوواہ کے لئے محبت سے معمور دل کے ساتھ اور اُس کے یکتا جلال کو تسلیم کرتے ہوئے کی جائے۔ صرف یہوواہ ہی خالق ہے۔ وہ قادرِمطلق اور کائنات کا واحد منصف اور محبت کا عظیم نمونہ ہے۔ وہ ہماری نجات کا منبع اور واحد حاکم ہے اور زمین اور آسمان کی تمام مخلوقات اُس کے تابع ہیں۔ (مکاشفہ ۴:۱۱؛ ۱۹:۱) اگر ہم واقعی ان باتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے پورے دل سے یہوواہ کی تمجید کرنی چاہئے۔
دل مجھ سے دُور ہیں۔“ (۴. خدا کو جلال دینے کے سلسلے میں، یسوع نے کیا ہدایات دیں اور ہم کیسے اُن پر عمل کر سکتے ہیں؟
۴ یسوع نے ہمیں سکھایا کہ خدا کی تمجید کیسے کی جانی چاہئے۔ اُس نے کہا: ”میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہروگے۔“ (یوحنا ۱۵:۸) ہم کیسے بہت سا پھل لاتے ہیں؟ اوّل تو یہ کہ ہم پورے دلوجان سے ”بادشاہی کی اس خوشخبری“ کی مُنادی کرنے سے تمام مخلوقات کے ساتھ ملکر خدا کی ’اندیکھی صفات‘ کی بابت بیان کرنے میں حصہ لے سکتے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴؛ رومیوں ۱:۲۰) علاوہازیں، ایسا کرنے سے ہم سب کسی نہ کسی طرح—بالواسطہ یا بِلاواسطہ—نئے شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لیتے ہیں جو مزید یہوواہ خدا کی تمجید کا باعث بنتے ہیں۔ دوم، ہم اپنے اندر روح کے پھل پیدا کرتے اور یہوواہ خدا کی اعلیٰ صفات کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳؛ افسیوں ۵:۱؛ کلسیوں ۳:۱۰) اس کے نتیجے میں، ہمارے روزمرّہ چالچلن سے خدا کو جلال ملتا ہے۔
”تمام رویِزمین پر“
۵. واضح کریں کہ خدا کو جلال دینے کے سلسلے میں پولس نے مسیحیوں کی دوسروں کو اپنے ایمان کی بابت بتانے کی ذمہداری پر کیوں زور دیا۔
۵ رومیوں کے نام اپنے خط میں پولس نے دوسروں کے سامنے اپنے ایمان کی بابت بیان کرنے سے خدا کی تمجید کرنے کی مسیحیوں کی ذمہداری پر زور دیا تھا۔ رومیوں کی کتاب کا خاص موضوع یہ ہے کہ صرف یسوع مسیح پر ایمان لانے والے ہی نجات پائیں گے۔ اپنے خط کے ۱۰ ویں باب میں، پولس نے بیان کِیا کہ اُس کے زمانے کے پیدائشی اسرائیلی ابھی تک موسوی شریعت کی پیروی کرنے سے راستبازی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ ”مسیح شریعت کا انجام [تھا]۔“ پس پولس کہتا ہے، ”اگر تُو اپنی زبان سے یسوؔع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کے خدا نے اُسے مُردوں میں سے جلایا تو نجات پائے گا۔“ اُس وقت سے لیکر ”یہودیوں اور یونانیوں میں کچھ فرق نہیں اسلئےکہ وہی سب کا خداوند ہے اور اپنے سب دُعا کرنے والوں کے لئے فیاض ہے۔ کیونکہ جو کوئی [یہوواہ] کا نام لے گا نجات پائے گا۔“—رومیوں ۱۰:۴، ۹-۱۳۔
۶. پولس نے زبور ۱۹:۴ کا اطلاق کیسے کِیا؟
۶ پھر پولس استدلال کرتا ہے: ”مگر جس پر وہ ایمان نہیں لائے اُس سے کیونکر دُعا کریں؟ اور جس کا ذکر اُنہوں نے سنا نہیں اُس پر ایمان کیونکر لائیں؟ اور بغیر منادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟“ (رومیوں ۱۰:۱۴، ۱۵) اسرائیل کی بابت پولس کہتا ہے: ”لیکن سب نے اس خوشخبری پر کان نہ دھرا۔“ اسرائیل نے کیوں نہ دھیان دیا؟ کیونکہ اُن کو موقع تو ملا تھا مگر اُن میں ایمان کی کمی تھی۔ یہ ظاہر کرنے کے لئے پولس زبور ۱۹:۴ کا حوالہ دیتا ہے اور مخلوقات کی خاموش گواہی کی بجائے اس کا اطلاق مسیحی مُنادی پر کرتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”اُن کی آواز تمام رویِزمین پر اور اُن کی باتیں دُنیا کی انتہا تک پہنچیں۔“ (رومیوں ۱۰:۱۶، ۱۸) جیہاں، جیسے بےجان مخلوق یہوواہ کی تمجید کرتی ہے، پہلی صدی کے مسیحیوں نے بھی ہر جگہ نجات کی خوشخبری کی مُنادی کی اور اس طرح ”رویِزمین“ پر خدا کی تمجید کی۔ کلسیوں کے نام اپنے خط میں، پولس نے یہ بھی بیان کِیا کہ خوشخبری کہاں تک سنائی جا چکی تھی۔ اُس نے کہا کہ ”آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں“ خوشخبری کی مُنادی ہو چکی تھی۔—کلسیوں ۱:۲۳۔
سرگرم گواہ
۷. یسوع کے مطابق، مسیحیوں پر کونسی ذمہداری ہے؟
۷ پولس نے کلسیوں کے نام اپنا خط یسوع مسیح کی وفات کے تقریباً ۲۷ سال بعد لکھا۔ اتنے کم وقت میں منادی کا کام کلسے کے علاقے تک کیسے پہنچ سکتا تھا؟ یہ اس لئے واقع ہوا کیونکہ پہلی صدی کے مسیحی سرگرم تھے اور یہوواہ نے اُن کے جذبے کو برکت دی تھی۔ یسوع نے یہ کہتے ہوئے پہلے ہی پیشینگوئی کی تھی کہ اُس کے پیروکار سرگرم مُناد ہوں گے: ”ضرور ہے کہ پہلے سب قوموں میں انجیل کی منادی کی جائے۔“ (مرقس ۱۳:۱۰) اس پیشینگوئی کے ساتھ یسوع نے یہ حکم بھی دیا جو متی کی انجیل کی آخری آیات میں درج ہے: ”پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے رُوحاُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) یسوع کے آسمان پر جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد، اُس کے پیروکاروں نے ان الفاظ کی تکمیل شروع کر دی۔
۸، ۹. اعمال کے مطابق، مسیحیوں نے یسوع کے حکم کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۸ پنتِکُست ۳۳ س.ع. پر رُوحاُلقدس کے نزول کے بعد، یسوع کے وفادار پیروکاروں نے جو کام کِیا وہ یروشلیم میں منادی کرنا اور لوگوں کو ”خدا کے بڑے بڑے کاموں“ کی بابت بیان کرنا تھا۔ اُن کی منادی نہایت مؤثر رہی اور تقریباً ”تین ہزار آدمیوں“ نے بپتسمہ لیا۔ شاگردوں نے علانیہ اور گرمجوشی کے ساتھ خدا کی تمجید کرنا جاری رکھا اور اُنہیں عمدہ نتائج حاصل ہوئے۔—اعمال ۲:۴، ۱۱، ۴۱، ۴۶، ۴۷۔
۹ اُن مسیحیوں کی سرگرمیاں جلد ہی مذہبی پیشواؤں کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ پطرس اور یوحنا کی دلیری سے پریشان ہو کر اُنہوں نے دونوں رسولوں کو منادی کرنے سے منع کر دیا۔ رسولوں نے جواب دیا: ”ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سنا ہے وہ نہ کہیں۔“ ڈرادھمکا کر رِہا کر دئے جانے کے بعد پطرس اور یوحنا واپس بھائیوں کے پاس چلے گئے اور وہ سب ملکر یہوواہ سے دُعا کرنے لگے۔ اُنہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ یہوواہ سے درخواست کی: ”اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کے ساتھ سنائیں۔“—اعمال ۴:۱۳، ۲۰، ۲۹۔
۱۰. کونسی مخالفت شروع ہو گئی اور سچے مسیحیوں نے اس کا مقابلہ کیسے کِیا؟
اعمال ۵:۱۸-۲۰) رسولوں نے چونکہ حکم مانا تھا اس لئے یہوواہ اُنہیں برکت دیتا رہا۔ پس ”وہ ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔“ (اعمال ۵:۴۲) واضح طور پر، منظم اور سخت مخالفت بھی یسوع کے پیروکاروں کو مکمل طور پر علانیہ خدا کی تمجید کرنے سے باز نہ رکھ سکی۔
۱۰ یہ دُعا یہوواہ کی مرضی کے عین مطابق تھی جیساکہ بعدازاں عیاں ہو گیا تھا۔ رسولوں کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور پھر وہ معجزانہ طور پر ایک فرشتے کے ذریعے رِہا ہو گئے۔ فرشتے نے اُنہیں کہا: ”جاؤ ہیکل میں کھڑے ہوکر اس زندگی کی سب باتیں لوگوں کو سناؤ۔“ (۱۱. ابتدائی مسیحیوں کا منادی کی بابت کیسا میلان تھا؟
۱۱ جلد ہی ستفنس کو گرفتار کرکے سنگسار کر دیا گیا۔ اس کے قتل نے یروشلیم میں شدید مخالفت کو ہوا دی اور رسولوں کے علاوہ تمام شاگردوں کو مجبوراً پراگندہ ہونا پڑا۔ کیا وہ اذیت سے بےحوصلہ ہو گئے تھے؟ ہرگز نہیں۔ ہم پڑھتے ہیں: ”جو پراگندہ ہوئے تھے وہ کلام کی خوشخبری دیتے پھرے۔“ (اعمال ۸:۱، ۴) خدا کی تمجید کرنے کے سلسلے میں ایسی گرمجوشی بارہا دیکھنے کو ملی۔ اعمال کے ۹ باب میں، ہم پڑھتے ہیں کہ ترسس کے فریسی ساؤل نے یسوع کے شاگردوں کو دمشق میں ستانے کے لئے جاتے وقت یسوع کی رویا دیکھی اور اپنی بینائی کھو بیٹھا۔ دمشق میں، حننیاہ نے معجزانہ طور پر ساؤل کو شفا بخشی۔ ساؤل جو بعدازاں پولس رسول کے طور پر مشہور ہوا اُس نے سب سے پہلا کام کیا کِیا؟ ریکارڈ بیان کرتا ہے: ”فوراً عبادتخانوں میں یسوؔع کی منادی کرنے لگا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔“—اعمال ۹:۲۰۔
سب نے منادی میں شرکت کی
۱۲، ۱۳.(ا) مؤرخین کے مطابق، ابتدائی مسیحی کلیسیا کی خاص بات کیا تھی؟ (ب) اعمال کی کتاب اور پولس کی باتیں مؤرخین کے بیانات سے کیسے متفق ہیں؟
۱۲ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ابتدائی مسیحی کلیسیا کے سب لوگ منادی کے کام میں شریک ہوتے تھے۔ اُس زمانے کے مسیحیوں کی بابت فلپ شیف لکھتا ہے: ”ہر کلیسیا خدمتگزاری میں شریک ہوتی تھی اور ہر مسیحی ایک مشنری تھا۔“ (ہسٹری آف دی کرسچن چرچ) ڈبلیو. ایس. ولیم دی گلورئس منسٹری آف دی لیٹی میں بیان کرتا: ”یہ بات بڑی عام ہے کہ ابتدائی چرچ کے تمام مسیحی بالخصوص جنہیں معجزانہ طاقت [روح کی نعمت] حاصل تھی وہ سب کے سب انجیل کی منادی کرتے تھے۔“ وہ مزید بیان کرتا ہے: ”یسوع مسیح نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ منادی محض خدمتگزاری میں شریک مخصوص لوگوں کا شرف ہے۔“ مسیحیت کے ایک قدیم حریف سلسیایس نے بھی لکھا: ”اُون کاتنے والے، جوتے بنانے والے، چمڑے کا کام کرنے والے، اَنپڑھ اور عام لوگ بھی انجیل کے سرگرم مُناد تھے۔“
۱۳ ان بیانات کی صداقت کو اعمال کے تاریخی ریکارڈ سے پرکھا جا سکتا ہے۔ پنتِکُست ۳۳ س.ع. پر روحالقدس کے نزول کے بعد تمام مردوزن نے خدا کے عجیب کاموں کی علانیہ گواہی دی۔ ستفنس کے قتل سے شروع ہونے والی ایذارسانی کے بعد، پرگنداہ ہونے والے تمام مسیحیوں نے دُور دُور تک خوشخبری کی منادی کی۔ تقریباً ۲۸ سال بعد عبرانی مسیحیوں کو لکھتے وقت پولس یہ کہتے وقت محض مذہبی راہنماؤں سے مخاطب نہیں تھا: ”پس ہم اُس کے وسیلہ سے حمد کی قربانی یعنی اُن ہونٹوں کا پھل جو اُس کے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کے لئے ہر وقت چڑھایا کریں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۵) منادی کی بابت اپنا ذاتی نظریہ بیان کرتے وقت پولس نے کہا: ”اگر خوشخبری سناؤں تو میرا کچھ فخر نہیں کیونکہ یہ تو میرے لئے ضروری بات ہے بلکہ مجھ پر افسوس ہے اگر خوشخبری نہ سناؤں۔“ (۱-کرنتھیوں ۹:۱۶) واضح طور پر، پہلی صدی کے تمام وفادار مسیحیوں نے ایسا ہی محسوس کِیا تھا۔
۱۴. ایمان اور منادی کے مابین کیا تعلق ہے؟
۱۴ واقعی، ایک سچے مسیحی کے لئے منادی میں شرکت کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کا تعلق براہِراست ہمارے ایمان سے ہے۔ پولس نے کہا: ”کیونکہ راستبازی کے لئے ایمان لانا دل سے ہوتا ہے اور نجات کے لئے اقرار مُنہ سے کِیا جاتا ہے۔“ (رومیوں ۱۰:۱۰) کیا منادی کی ذمہداری محض کلیسیا کے اندر پیشواؤں کے ایک خاص ایماندار گروہ پر ہے؟ بیشک نہیں! تمام سچے مسیحی خداوند یسوع مسیح پر زندہ ایمان رکھتے اور یوں دوسروں کے سامنے اپنے ایمان کا علانیہ اظہار کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ بصورتِدیگر اُن کا ایمان مُردہ ہے۔ (یعقوب ۲:۲۶) پہلی صدی کے تمام وفادار مسیحیوں نے چونکہ اپنے ایمان کا اظہار اسی طرح کِیا تھا لہٰذا یہوواہ کے جلال کا بہت زیادہ چرچا ہوا تھا۔
۱۵، ۱۶. یہ ظاہر کرنے کے لئے مثالیں پیش کریں کہ مسائل کے باوجود منادی کا کام ترقی پاتا گیا۔
۱۵ پہلی صدی میں، یہوواہ نے کلیسیا کے اندر اور باہر مسائل کے باوجود اپنے لوگوں کو برکت بخشی تھی۔ مثال کے طور پر، اعمال ۶ باب عبرانی اور یونانی بولنے والے نومریدوں کے درمیان نااتفاقی کا ذکر کرتا ہے۔ رسولوں نے اس مسئلے کو حل کِیا تھا۔ نتیجتاً ہم پڑھتے ہیں: ”خدا کا کلام پھیلتا رہا اور یرؔوشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا اور کاہنوں کی بڑی گروہ اِس دین کے تحت میں ہو گئی۔“—اعمال ۶:۷۔
۱۶ بعدازاں یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس اگرپا اور صور اور صیدا کے لوگوں کے درمیان سیاسی تناؤ پیدا ہو گیا۔ ان شہروں کے لوگوں نے ہیرودیس اگرپا کو خوش کرنے کے لئے امن معاہدہ کِیا اور اس کے جواب میں ہیرودیس نے عوام سے خطاب کِیا۔ جو لوگ وہاں جمع تھے وہ پکار اُٹھے: ”یہ تو خدا کی آواز ہے نہ انسان کی۔“ اُسی دم خدا کے فرشتہ نے ہیرودیس اگرپا کو مارا اور وہ مر گیا ”اسلئےکہ اُس نے خدا کی تمجید نہ کی۔“ (اعمال ۱۲:۲۰-۲۳) اُن کے لئے کتنا بڑا صدمہ جو انسانی حاکموں پر بھروسا کرتے ہیں! (زبور ۱۴۶:۳، ۴) تاہم، مسیحی یہوواہ کی تمجید کرتے رہے۔ نتیجے کے طور پر، ”خدا کا کلام ترقی کرتا اور پھیلتا گیا۔“—اعمال ۱۲:۲۴۔
تب اور اب
۱۷. پہلی صدی میں، لوگوں کی بڑی تعداد کس کام میں شامل ہو گئی؟
۱۷ جیہاں، پہلی صدی کی عالمی کلیسیا یہوواہ کے پُرجوش اور سرگرم پرستاروں پر مشتمل تھی۔ تمام وفادار مسیحی خوشخبری پھیلانے کے کام میں حصہ لیتے تھے۔ بعض کو سننے والے اشخاص مل جاتے تھے اور جیسے یسوع نے کہا تھا وہ اُنہیں اُن سب حکموں کو ماننے کی تعلیم دیتے تھے جو اُس نے دئے تھے۔ (متی ۲۸:۱۹) اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کلیسیا بڑھتی گئی اور زیادہ سے زیادہ لوگ یہوواہ کی تمجید کرنے کے لئے قدیم زمانہ کے بادشاہ داؤد کے ساتھ ملکر یہ الہامی الفاظ گانے لگے: ”یارب! میرے خدا! مَیں پورے دل سے تیری تعریف کروں گا۔ مَیں ابد تک تیرے نام کی تمجید کروں گا۔ کیونکہ مجھ پر تیری بڑی شفقت ہے۔“—زبور ۸۶:۱۲، ۱۳۔
۱۸. (ا) پہلی صدی کے مسیحیوں اور آج کی دُنیائےمسیحیت کے درمیان کیا فرق دیکھا گیا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس چیز پر بات کی جائے گی؟
۱۸ اس کے پیشِنظر، تھیولاجی کی پروفیسر ایلیسن اے. ٹرائٹس کے الفاظ ہیجانخیز ہیں۔ جدید زمانہ کی مسیحیت کا پہلی صدی کی مسیحیت سے موازنہ کرتے ہوئے، اُس نے کہا: ”آج کے چرچز خاندانوں میں اضافے یا لوگوں کے ایک چرچ کو چھوڑ کر دوسرے میں آنے کی وجہ سے ترقی پاتے ہیں۔ تاہم، اعمال کی کتاب میں بیانکردہ ترقی لوگوں کے اس مذہب میں آنے سے ہو رہی تھی کیونکہ اُس وقت یہ شروع ہی ہوا تھا۔“ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سچی مسیحیت اُس طریقے سے نہیں بڑھ رہی جیسے یسوع نے کہا تھا؟ بیشک نہیں۔ سچے مسیحی آج بھی علانیہ طور پر یہوواہ کی تمجید کرنے میں کسی بھی طرح پہلی صدی کے مسیحیوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہم اگلے مضمون میں یہ دیکھیں گے۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• ہم کن طریقوں سے یہوواہ کو جلال دے سکتے ہیں؟
• پولس نے زبور ۱۹:۴ کا اطلاق کیسے کِیا؟
• ایمان اور منادی کے مابین کیا تعلق ہے؟
• پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا کی بابت کیا بات قابلِغور تھی؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۹ پر تصویر]
آسمان یہوواہ کا جلال ظاہر کرتے ہیں
[تصویر کا حوالہ]
,Courtesy of Anglo-Australian Observatory
photograph by David Malin
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
دُعا اور منادی کا گہرا تعلق ہے