اہود ظلم کے جوئے کو توڑتا ہے
اہود ظلم کے جوئے کو توڑتا ہے
یہ دلیری اور عملی حکمت کی سچی کہانی ہے۔ تقریباً ۰۰۰،۳ سال پہلے ایسا واقع ہوا تھا۔ صحیفائی سرگزشت اِن الفاظ کے ساتھ شروع ہوتی ہے: ”بنیاسرائیل نے پھر [یہوواہ] کے آگے بدی کی۔ تب [یہوواہ] نے موآؔب کے بادشاہ عجلوؔن کو اسرائیلیوں کے خلاف زور بخشا اِس لئے کہ اُنہوں نے [یہوواہ] کے آگے بدی کی تھی۔ اور اُس نے بنیعمون اور بنیعمالیق کو اپنے ہاں جمع کِیا اور جاکر اؔسرائیل کو مارا اور اُنہوں نے کھجوروں کا شہر لے لیا۔ سو بنیاسرائیل اٹھارہ برس تک موآؔب کے بادشاہ عجلوؔن کے مطیع رہے۔“—قضاۃ ۳:۱۲-۱۴۔
موآبیوں کا علاقہ دریائےیردن اور بحرمُردار کے مشرق میں ہے۔ لیکن وہ دریا عبور کرنے کے بعد یریحو کے اردگرد، ’کھجوروں کے شہر‘ میں آباد ہو گئے تھے اور یوں اسرائیلیوں پر حکومت کرنے لگے تھے۔ (استثنا ۳۴:۳) موآبی بادشاہ عجلون جو ”بڑا موٹا آدمی“ تھا اُس نے تقریباً بیس سال تک اسرائیل سے ہدیہ وصول کِیا۔ (قضاۃ ۳:۱۷) تاہم، ہدیے کے لئے اُس کے تقاضوں نے بالآخر اس ظالم بادشاہ کو ختم کرنے کا موقع فراہم کِیا۔
سرگزشت بیان کرتی ہے: ”جب بنیاسرائیل نے [یہوواہ] سے فریاد کی تو [یہوواہ] نے بنیمینی جیرؔا کے بیٹے اؔہود کو جو بیںہتھا تھا اُن کا چھڑانے والا مقرر کِیا اور بنیاسرائیل نے اُس کی معرفت موآؔب کے بادشاہ عجلوؔن کے لئے ہدیہ بھیجا۔“ (قضاۃ ۳:۱۵) یقیناً یہوواہ نے ہی بندوبست کِیا ہوگا کہ اہود ہدیہ پیش کرے۔ اس سلسلے میں کوئی بیان نہیں ملتا کہ آیا اہود نے پہلے کبھی یہ کام کِیا تھا یا نہیں۔ تاہم، جس طرح اہود نے اس ملاقات کی تیاری کی اور جو حکمتِعملی اُس نے اختیار کی اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عجلون کے محل سے واقف تھا اور وہاں کیا واقع ہو سکتا ہے وہ اس سے بھی بخوبی واقف تھا۔ بہرصورت، اس تمام واقعہ میں نمایاں چیز اُس کا بیںہتھا ہونا تھا۔
ایک معذور یا جنگجو؟
دراصل عبرانی میں لفظ ”بیںہتھا“ کا مطلب ہے ’محدود، معذور یا دائیں ہاتھ سے مجبور۔‘ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اہود معذور تھا یعنی اُس کا دایاں ہاتھ صحیح نہیں تھا؟ غور کریں کہ بائبل بنیمین کے قبیلے میں سے ’سات سو چنے ہوئے‘ بیںہتھے نوجوانوں کے بارے میں کیا بیان کرتی ہے۔ قضاۃ ۲۰:۱۶ کہتی ہے کہ ان ”میں سے ہر ایک فلاخن سے بال کے نشانہ پر بغیر خطا کئے پتھر مار سکتا تھا۔“ یقیناً اُنہیں اُن کی جنگی مہارت کی وجہ سے منتخب کِیا گیا تھا۔ بعض بائبل مفکرین کے مطابق، ”بیںہتھے“ وہ لوگ ہیں جو دائیں ہاتھ کے ساتھ ساتھ اپنے بائیں ہاتھ کو بھی بخوبی استعمال کر سکتے ہیں، یعنی ایسے اشخاص دوہری مہارت رکھتے ہیں۔—قضاۃ ۳:۱۵۔
دراصل، بنیمین کا قبیلہ اپنے بیںہتھے لوگوں کے لئے مشہور تھا۔ پہلی تواریخ ۱۲:۱، ۲ بنیمینیوں کی بابت بیان کرتی ہے، ”وہ اُن سُورماؤں میں تھے جو لڑائی میں اُس کے مددگار تھے۔ اُن کے پاس کمانیں تھیں اور وہ فلاخن سے پتھر مارتے اور کمان سے تیر چلاتے وقت دہنے اور بائیں دونوں ہاتھوں کو کام میں لا سکتے تھے۔“ ایک کتاب کے مطابق یہ لیاقت، ”چھوٹے بچوں کے دائیں ہاتھ کو باندھ دینے اور اُنہیں بائیں ہاتھ سے کام کرنا سکھانے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔“ اسرائیل کے دُشمن عام طور پر دائیں ہاتھ والے جنگی مردوں سے لڑنے کی تربیت پاتے تھے۔ لہٰذا اگر اُن کا سامنا بائیں ہاتھ والے فوجی سے ہو جاتا تو اُن کی بیشتر تربیت بیکار ثابت ہوتی تھی۔
بادشاہ کے لئے ”ایک خفیہ پیغام“
اہود کا پہلا قدم ”اپنے لئے تلوار“ تیار کرنا تھا—ایک ایسی دودھاری تلوار جسے وہ اپنے لباس کے نیچے چھپا سکتا۔ شاید اُسے یہ بھی توقع تھی کہ اُس کی تلاشی لی جا سکتی ہے۔ تلواریں عموماً جسم کے بائیں طرف لٹکائی جاتی تھیں جہاں سے اُنہیں بڑی آسانی کے ساتھ دائیں ہاتھ سے نکالا جا سکتا تھا۔ بیںہتھا ہونے کی وجہ سے، اہود نے اپنا ہتھیار ”اپنے جامے کے نیچے دہنی ران پر باندھ لیا“ تھا جہاں بادشاہ کے سپاہیوں کے تلاشی لینے کا امکان بہت کم تھا۔ پس بغیر کسی رکاوٹ کے، ”اُس نے موآؔب کے بادشاہ عجلوؔن کے حضور وہ ہدیہ پیش کِیا۔“—قضاۃ ۳:۱۶، ۱۷۔
عجلون کے دربار میں اس سے پہلے کیا واقع ہوا تھا اس کی بابت کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ بائبل صرف یہ کہتی ہے: ”جب وہ [اہود] ہدیہ پیش کر چکا تو اُن لوگوں کو جو ہدیہ لائے تھے رخصت کِیا۔“ (قضاۃ ۳:۱۸) اہود ہدیہ پیش کرنے کے بعد دیگر لوگوں کے ساتھ عجلون کے محل سے دُور چلا گیا اور پھر اُن سے الگ ہو کر واپس عجلون کی رہائشگاہ پہنچ گیا۔ مگر کیوں؟ کیا وہ لوگ اُس کی حفاظت کے لئے آئے تھے کیا محض درباری آدابواطوار کو ملحوظِخاطر رکھا گیا تھا یا کیا وہ ہدیہ اُٹھانے والے تھے؟ نیز کیا وہ اپنے منصوبے پر عمل کرنے سے پہلے اُنہیں محفوظ مقام تک پہنچا دینا چاہتا تھا؟ وہ خواہ کچھ بھی سوچ رہا تھا، وہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکیلا ہی واپس لوٹا تھا۔
”[اہود] پتھر کی کان کے پاس سے جو جلجاؔل میں ہے لوٹ کر کہنے لگا کہ اَے بادشاہ میرے پاس تیرے لئے ایک خفیہ پیغام ہے۔“ صحائف یہ بیان نہیں کرتے کہ وہ کیسے دوبارہ بادشاہ کے حضور پہنچا۔ کیا سپاہیوں کو اُس پر شک نہیں ہوا ہوگا؟ کیا اُنہوں نے یہ سوچا کہ تنہا اسرائیلی اُن کے بادشاہ کے لئے خطرے کا باعث نہیں ہو سکتا؟ کیا اہود کے تنہا واپس لوٹنے نے یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے لوگوں کو دغا دے رہا تھا؟ بہرصورت، اہود نے تنہا بادشاہ سے ملاقات کی اجازت چاہی اور اُسے مل گئی۔—قضاۃ ۳:۱۹۔
الہامی سرگزشت مزید بیان کرتی ہے: ”پھر اؔہود اُس کے [عجلون] پاس آیا۔ اُس وقت وہ اپنے ہوادار بالاخانہ میں اکیلا بیٹھا تھا۔ تب اؔہود نے کہا تیرے لئے میرے پاس خدا کی طرف سے ایک پیغام ہے۔“ اہود خدا کی طرف سے ایک زبانی پیغام کا حوالہ نہیں دے رہا تھا۔ اہود کے ذہن میں اپنی تلوار کا استعمال کرنا تھا۔ اپنے خدا کاموس کی طرف سے کوئی پیغام سننے کی توقع میں بادشاہ اپنی ”کرسی پر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔“ پس پلک جھپکتے ہی ”اہود نے اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر اپنی دہنی ران پر سے وہ تلوار لی اور اُس کی [عجلون] توند میں گھسیڑ دی۔ اور پھل قبضہ سمیت داخل ہو گیا اور چربی پھل کے اُوپر لپٹ گئی کیونکہ اُس نے تلوار کو اُس کی توند سے نہ نکالا بلکہ وہ پار ہو گئی۔“—قضاۃ ۳:۲۰-۲۲۔
خاموشی سے بچ نکلنا
اپنی تلوار نکالنے کی کوشش کرنے کی بجائے، ”اؔہود نے برآمدہ میں آکر اور بالاخانہ کے دروازوں کے اندر اُسے بند کرکے قفل لگا دیا۔ اور جب وہ چلتا بنا تو اُس کے خادم آئے اور اُنہوں نے دیکھا کہ بالاخانہ کے دروازوں میں قفل لگا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ وہ ضرور ہوادار کمرے میں فراغت کر رہا ہے۔“—قضاۃ ۳:۲۳، ۲۴۔
وہ ”برآمدہ“ کونسا تھا جس میں سے اہود ہو کر گزرا؟ ایک کتاب کہتی ہے، ”اس عبرانی لفظ کا مخصوص مطلب تو معلوم نہیں لیکن دالان، ڈیوڑھی تجویز کئے گئے ہیں۔“ کیا اہود نے دروازوں کو اندر سے بند کر دیا اور کسی دوسرے راستے سے باہر نکل گیا تھا؟ یا کیا اُس نے
بادشاہ کی جیب سے چابی لیکر دروازوں کو باہر سے تالا ڈال دیا تھا؟ کیا وہ آہستہ آہستہ چل کر خادموں کے پاس سے گزر گیا گویا کچھ ہوا ہی نہیں؟ صحائف اس کی بابت کچھ نہیں بتاتے۔ تاہم، اہود نے جو بھی طریقہ اختیار کِیا، عجلون کے خادموں کو فوراً یہ خبر نہ ہو سکی کہ دروازے کیوں بند ہیں۔ اُنہوں نے صرف یہی سوچا تھا کہ شاید بادشاہ ”فراغت کر رہا ہے۔“جب بادشاہ کے خادم دیر لگا رہے تھے تو اہود فرار ہو گیا۔ پھر اُس نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر کہا: ”میرے پیچھے پیچھے چلے چلو کیونکہ [یہوواہ] نے تمہارے دشمنوں یعنی موآبیوں کو تمہارے ہاتھ میں کر دیا ہے۔“ پس یردن کے گھاٹوں کو اپنے قبضے میں کر لینے کے بعد اہود کے آدمیوں نے موآبیوں کا اُن کے ملک تک پیچھا کِیا۔ لہٰذا ”اُس وقت اُنہوں نے [اسرائیلیوں] موآؔب کے دس ہزار مرد کے قریب جو سب کے سب موٹےتازہ اور بہادر تھے قتل کئے اور اُن میں سے ایک بھی نہ بچا۔ سو موآؔب اُس دن اسرائیلیوں کے ہاتھ کے نیچے دب گیا اور اُس ملک میں اسی برس چین رہا۔“—قضاۃ ۳:۲۵-۳۰۔
ہمارے لئے سبق
اہود کے دنوں کے واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جب ہم یہوواہ کی نظر میں بُرے کام کرتے ہیں تو اُس کے نتائج بھی بُرے نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ تائب ہوکر یہوواہ کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ اُن کی مدد کرتا ہے۔
اہود کے منصوبے اُس کی مہارت اور اُس کے دُشمن کی نااہلی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ الہٰی مقاصد کی تکمیل انسانی عناصر پر منحصر نہیں ہے۔ اہود کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب اُس نے خدا کے لوگوں کو رہائی دلانے کے سلسلے میں خدا کی ناقابلِتسخیر مرضی کی مطابقت میں کام کِیا تو اُسے خدا کی پشتپناہی حاصل تھی۔ خدا نے اہود کو برپا کِیا لہٰذا ”جب [یہوواہ] اُن کے لئے قاضیوں کو برپا کرتا تو [یہوواہ] اُس قاضی کے ساتھ ہوتا۔“—قضاۃ ۲:۱۸؛ ۳:۱۵۔