مَیں نابینا ہونے کے باوجود بینا تھا!
میری کہانی میری زبانی
مَیں نابینا ہونے کے باوجود بینا تھا!
از ایگون ہاؤسر
بینائی چلے جانے کے دو ماہ بعد، میری آنکھوں نے اُن بائبل سچائیوں کو جان لیا جن سے مَیں اپنی ساری زندگی ناواقف رہا۔
جب مَیں ستر سال پیچھے نظر ڈالتا ہوں تو میری زندگی خاصی اطمینانبخش تھی۔ لیکن اگر میرے بس میں ہوتا تو مَیں کئی سال پہلے ہی یہوواہ خدا کی بابت سیکھ چکا ہوتا۔
مَیں ارجنٹینا اور برازیل کے درمیان واقع یوراگوئے کے مُلک میں ۱۹۲۷ میں پیدا ہوا اور دُور دُور تک پھیلے ہوئے خوبصورت مناظر اور اٹلانٹک ساحل سے لطفاندوز ہوتا تھا۔ یہاں کی آبادی بنیادی طور پر اطالوی اور ہسپانوی نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ تاہم، اُس وقت مَیں بہت چھوٹا تھا جب میرے والدین ہنگری سے نقلمکانی کرکے ایک کم آمدنی والے علاقے میں اپنی ہی طرح کے لوگوں کیساتھ رہنے لگے۔ ہمیں اپنے دروازوں پر تالے اور اپنی کھڑکیوں میں جنگلے لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے درمیان نسلی تعصّب نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پردیسی اور مقامی، کالے اور گورے سب ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے۔
میرے والدین کیتھولک تھے لہٰذا دس سال کی عمر میں مجھے آلٹر بوائے (چرچ میں الطار پر خدمت انجام دینے والا) بنا دیا گیا۔ بالغ ہونے پر مجھے مقامی چرچ میں کام مل گیا اور مَیں اُس علاقے کے بشپ کے مشیروں کے ایک سرگرم گروپ کا رُکن بھی تھا۔ جب مَیں نے طب کے شعبے کا انتخاب کِیا تو مجھے وینزویلا میں کیتھولک چرچ کی طرف سے منعقد کئے جانے والے ایک سیمینار میں شرکت کیلئے مدعو کِیا گیا۔ گائناکالوجی میں خاص مہارت حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کے طور پر ہمارے گروپ کو
ایسی مانعحمل اشیا کی بابت مطالعہ کرنے کی تفویض سونپی گئی جو اُس وقت عام ملتی تھیں۔میڈیکل کے طالبعلم کے طور پر ابتدائی تاثرات
جب مَیں ابھی طالبعلم کے طور پر انسانی بدن کی بابت تعلیم حاصل کر رہا تھا تو مَیں اسکی بناوٹ میں پنہاں حکمت سے بہت متاثر ہوا۔ مثال کے طور پر، مَیں بدن کے زخموں یا چوٹ وغیرہ سے ازخود شفا پانے کے عمل سے بہت حیران تھا جیسےکہ ہماری پسلیاں اور جگر کا کچھ حصہ کاٹ دینے کے بعد وہ واپس بڑھ کر نارمل سائز میں آ جاتے ہیں۔
اس دوران مَیں نے سنگین حادثات سے دوچار لوگوں کو بھی دیکھا اور مجھے بڑا دُکھ ہوتا تھا جب وہ خون دئے جانے کے باعث مر جاتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ خون کی منتقلی کے باعث مر جانے والے مریض کے عزیزواقارب کو سمجھانا کتنا مشکل ہوتا تھا۔ اکثر تو رشتہداروں کو بتایا ہی نہیں جاتا تھا کہ اُنکے عزیز کی وفات انتقالِخون کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اُنہیں اَور ہی وجوہات بتا دی جاتی تھیں۔ اگرچہ کئی سال گزر چکے ہیں مگر مجھے انتقالِخون کی بابت اپنے احساسات آج بھی یاد ہیں اور انجامکار مَیں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس میں کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہے۔ کاش مجھے اُس وقت خون کے تقدس سے متعلق یہوواہ کی شریعت کی بابت معلوم ہوتا! اِسطرح مجھے سمجھ آئی کہ مجھے اس کام سے بےچینی کیوں ہوتی ہے۔—اعمال ۱۵:۱۹، ۲۰۔
لوگوں کی مدد کرنے سے حاصل ہونے والی تسکین
ایک وقت آیا کہ مجھے سانٹا لوسیا میں ایک طبی مرکز کا ڈائریکٹر اور سرجن تعینات کر دیا گیا۔ مَیں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بائیولاجیکل سائنس میں بھی ذمہدارانہ عہدے پر فائز تھا۔ اس سے مجھے تسکین ملی۔ مَیں بیماروں کو شفا دیتا، اُنہیں جسمانی تکالیف سے چھٹکارا دلاتا اور بیشتر صورتوں میں اُنکی زندگیاں بچاتا اور کئی نئی زندگیوں کو بھی دُنیا میں لایا تھا۔ انتقالِخون کے سلسلے میں میرے ابتدائی تجربات کی وجہ سے مَیں خون دینے سے گریز کرتا تھا اور مَیں نے خون کے بغیر ہزاروں آپریشن کئے۔ مَیں بحث کرتا کہ بہت زیادہ خون بہنا ایک کنستر میں لیک یا رساؤ کے مترادف ہے۔ اسکا واحد حل لیک کو بند کرنا ہے نہ کہ کنستر کو اُوپر سے بھرتے جانا ہے۔
گواہ مریضوں کا علاج کرنا
یہوواہ کے گواہوں سے میری واقفیت ۱۹۶۰ کے دہے میں ہوئی جب اُنہوں نے خون کے بغیر سرجری کیلئے ہمارے کلینک پر آنا شروع کِیا۔ مجھے مرسیدس گونزالز نامی ایک مریض پائنیر (کُلوقتی خادمہ) آج بھی یاد ہے۔ اُس میں خون کی اتنی زیادہ کمی تھی کہ یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر اُسکا آپریشن کرنے کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ وہ بچ نہیں پائیگی۔ اگرچہ اُسکا خون بہہ رہا تھا توبھی ہم نے اپنی کلینک پر اُسکا آپریشن کِیا۔ سرجری کامیاب رہی اور وہ ۳۰ سال تک ۸۶ برس میں وفات پانے تک اس خدمت کو انجام دیتی رہی۔
مَیں گواہوں کے اپنے بیمار مسیحی بھائیوں کیلئے محبت اور فکرمندی دکھانے سے ہمیشہ بڑا متاثر ہوتا تھا۔ جب مَیں راؤنڈ کیلئے جاتا تو مَیں اُنکے اعتقادات کی بابت سُن کر خوش ہوتا تھا اور اُن سے لٹریچر بھی لے لیتا تھا۔ میرے وہموگمان میں بھی نہیں تھا کہ بہت جلد مَیں نہ صرف اُنکا ڈاکٹر بلکہ اُنکا ایک روحانی بھائی بھی بن جاؤنگا۔
جب ایک مریض کی بیٹی بیٹرس سے میری شادی ہو گئی تو
مَیں گواہوں کے اَور بھی زیادہ قریب آ گیا۔ اُسکے خاندان کے بیشتر لوگ گواہوں کیساتھ رفاقت رکھتے تھے اور جب ہماری شادی ہو گئی تو میری بیوی بھی ایک سرگرم گواہ بن گئی۔ جبکہ مَیں پوری طرح اپنے کام میں مگن تھا اور طبی میدان میں خاصی شہرت رکھتا تھا۔ زندگی بڑی اچھی گزر رہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری دُنیا یکسر بدل جائیگی۔ایک مشکل آن پڑی
ایک سرجن کیلئے اس سے بڑا نقصان اَور کوئی نہیں کہ اُسکی بینائی جاتی رہے۔ میرے ساتھ یہی ہوا۔ اچانک میری دونوں آنکھوں کے پردے پھٹ گئے—میری بینائی چلی گئی اور مَیں نہیں جانتا تھا کہ میری بینائی بحال ہو سکے گی یا نہیں۔ آپریشن کے بعد مَیں دونوں آنکھوں پر پٹیوں کیساتھ مایوسی کا شکار ہو گیا۔ مَیں خود کو اس حد تک بیکار اور نااُمید محسوس کرنے لگا کہ مَیں نے اپنی زندگی ہی ختم کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔ چونکہ مَیں چوتھی منزل پر تھا لہٰذا مَیں اپنے بستر سے اُٹھ کر کھڑکی تلاش کرنے کیلئے دیوار کیساتھ ساتھ چلنے لگا۔ مَیں کھڑکی سے چھلانگ لگانے والا تھا۔ مگر مَیں ہسپتال کے برآمدے کی طرف نکل گیا اور ایک نرس مجھے واپس بستر پر لے آئی۔
مَیں نے دوبارہ ایسا کرنے کی کوشش نہ کی۔ مگر مَیں اپنی تاریک دُنیا میں انتہائی مایوسی کا شکار تھا اور اس وجہ سے بہت چڑچڑا ہو چکا تھا۔ مَیں نے اس وقت اندھےپن میں خدا سے وعدہ کِیا کہ اگر میری نظر واپس آ گئی تو مَیں شروع سے لیکر آخر تک پوری بائبل پڑھونگا۔ بالآخر میری بینائی قدرے بہتر ہو گئی اور مَیں پڑھ سکتا تھا۔ مگر اب مَیں سرجن کا کام نہیں کر سکتا تھا۔ یوراگوئے میں ایک کہاوت ہے ”نو ہے مل کو پور بن نو ونگا،“ ”اتنی خراب کوئی چیز نہیں کہ اُس میں سے کچھ اچھا نہ نکل سکے۔“ مَیں اس کہاوت کی صداقت کا تجربہ کرنے والا تھا۔
غلط راہ پر نکل پڑنا
مَیں بڑے حروف میں دی جیروصلم بائبل خریدنا چاہتا تھا مگر مجھے پتہ چلا کہ یہوواہ کے گواہوں کے پاس کم قیمت والی بائبل ہے جسے دینے کا وعدہ ایک جوان گواہ نے کِیا۔ اگلی صبح وہ بائبل کے ساتھ میرے دروازے پر کھڑا تھا۔ میری بیوی نے دروازہ کھول کر اُس سے باتچیت کی۔ مَیں غصے سے چلّایا کہ اگر وہ میری بیوی سے اس بائبل کی قیمت وصول کر رہا ہے تو پھر مجھے بائبل نہیں چاہئے اور وہ فوراً یہاں سے چلا جائے۔ پس وہ فوراً ہی چلا گیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہی شخص میری زندگی میں بہت جلد ایک اہم کردار ادا کریگا۔
ایک دن مَیں نے اپنی بیوی سے ایک وعدہ کِیا مگر اُسے پورا نہ کر سکا۔ لہٰذا اسکی تلافی کرنے کیلئے مَیں نے اُس سے کہا کہ مَیں مسیح کی موت کی یادگار پر اُس کیساتھ جاؤنگا۔ پس مَیں مسیح کی موت کی یادگار منانے کے دن اُسکے ساتھ گیا۔ وہاں کے دوستانہ اور مہربانہ ماحول نے مجھے بہت زیادہ متاثر کِیا۔ جب مقرر نے اپنی تقریر شروع کی تو مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ تو وہی جوان شخص ہے جسے مَیں نے غصے میں گھر سے جانے کیلئے کہا تھا۔ اُسکی تقریر کا مجھ پر بڑا گہرا اثر ہوا اور مجھے بڑا افسوس تھا کہ مَیں اس سے اتنی بُری طرح پیش آیا تھا۔ اب مَیں اسکی تلافی کیسے کر سکتا تھا؟
مَیں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اُسے شام کے کھانے پر مدعو کرو مگر اُس نے کہا: ”آپکے خیال میں کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ آپ خود اُسے گھر آنے کی دعوت دیں؟ ابھی وہ ہمارے پاس آئیگا اسلئے ذرا یہیں ٹھہرے رہیں۔“ اُس نے صحیح کہا تھا۔ وہ ہم سے ملنے کیلئے آیا اور ہماری دعوت بھی قبول کی۔
جس شام وہ مجھے ملنے کیلئے آیا اُس دوران ہونے والی گفتگو میری زندگی میں بہت سی تبدیلیوں کا سبب بنی۔ اُس نے مجھے سچائی جو باعثِابدی زندگی ہے * کتاب دکھائی اور مَیں نے اُسے اس کتاب کی چھ کاپیاں دکھائیں۔ مختلف گواہ مریضوں نے ہسپتال میں مجھے یہ دی تھیں مگر مَیں نے انہیں کبھی نہیں پڑھا تھا۔ کھانے کے دوران اور اسکے بعد رات گئے تک مَیں سوال پر سوال کرتا رہا جنکا جواب اُس نے بائبل سے دیا۔ صبح ہونے تک ہماری باتچیت چلتی رہی۔ جانے سے پہلے اس نوجوان نے مجھے سچائی کی کتاب کی مدد سے بائبل مطالعہ کرنے کی پیشکش کی۔ تین مہینوں میں ہم نے یہ کتاب ختم کر لی اور اسکے بعد ”بابلون دی گریٹ ہیز فالن! گاڈز کنگڈم رولز!“ میں سے مطالعہ جاری رکھا۔ * اسکے بعد مَیں نے اپنی زندگی یہوواہ کیلئے مخصوص کر دی اور بپتسمہ لے لیا۔
ایک بار پھر خود کو مفید سمجھنا
طبعی اندھےپن نے ’میرے دل کی آنکھیں روشن‘ کر دیں اور مَیں اُن بائبل سچائیوں کو سمجھنے لگا جنہیں مَیں ہمیشہ نظرانداز کرتا آیا تھا! (افسیوں ۱:۱۸) یہوواہ اور اُسکے پُرمحبت مقصد کو جاننے نے میری زندگی یکسر بدل دی۔ ایک بار پھر مَیں خود کو خوش اور کارآمد سمجھنے لگا۔ مَیں لوگوں کو جسمانی اور روحانی دونوں طرح سے مدد دیتا اور اُنہیں بتاتا ہوں کہ وہ کیسے اس نظام میں اپنی زندگیوں کو طویل اور آنے والے نئے نظام میں ابدی بنا سکتے ہیں۔
مَیں نے طب کے میدان میں ہونے والی پیشقدمیوں سے آگاہ رہنے کیساتھ ساتھ خون کے خطرات، متبادل علاج، مریض کے حقوق اور بائیوایتھکس [علاج کے سلسلے میں اخلاقی ضابطوں] جیسے مسائل پر بھی تحقیق کی ہے۔ جب مجھے میڈیکل سیمینارز میں ان موضوعات پر تقریر کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے تو مَیں مقامی طبی حلقے کو ان معلومات سے آگاہ کرنے کے موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھاتا ہوں۔ مَیں ۱۹۹۴ میں ریو ڈی جینیرو برازیل میں بغیر خون علاج کی بابت پہلی کانگریس میں شریک ہوا اور خون بہنے کے مسئلے سے نپٹنے کے سلسلے میں تقریر بھی دی۔ ان معلومات کا کچھ حصہ ایک مضمون میں بھی شامل کِیا گیا جو مَیں نے لکھا تھا جسے اے سٹریٹیجک پروپوزیشن فار اینٹی ہیمرج ٹریٹمنٹ کے تحت میڈیکل میگزین میں شائع کِیا گیا۔
دباؤ کے تحت وفاداری
شروع شروع میں، انتقالِخون کی بابت میرے شکوک سائنسی علم کی بنیاد پر تھے۔ تاہم، جب مَیں خود ایک مریض بن گیا تو مجھے احساس ہوا کہ انتقالِخون سے انکار کرنا اور ڈاکٹروں کی طرف سے سخت دباؤ کے تحت اپنے ایمان پر قائم رہنا اتنا آسان نہیں۔ شدید ہارٹاٹیک کے بعد، مجھے سرجن کو اپنا مؤقف سمجھانے میں کوئی دو گھنٹے لگے۔ وہ میرے ایک بڑے اچھے دوست کا بیٹا تھا اور اُس نے کہا کہ اگر وہ انتقالِخون سے میری جان بچا سکتا ہے تو وہ مجھے مرنے نہیں دیگا۔ مَیں نے دل ہی دل میں یہوواہ سے دُعا کی کہ اگر یہ ڈاکٹر اس بات سے متفق نہیں تو بھی اسے میرے مؤقف کو سمجھنے اور اسکا احترام کرنے میں مدد دے۔ انجامکار ڈاکٹر نے میری خواہش کا احترام کرنے کا وعدہ کِیا۔
ایک دوسرے موقع پر، مجھے اپنے پروسٹریٹ گلینڈ میں سے ایک بڑی رسولی نکلوانی تھی۔ خون بہنا شروع ہو گیا۔ ایک بار پھر مجھے خون نہ لینے کی بابت اپنے مؤقف کی وضاحت کرنی پڑی اور اگرچہ میرا دو تہائی خون بہہ چکا تھا توبھی طبی عملے نے میری خواہش کیلئے احترام دکھایا۔
میلان میں تبدیلی
بائیوایتھکس کی انٹرنیشنل ایسوسیایشن کا رُکن ہونے کی وجہ سے، مجھے طبی عملے اور قانونی اعتبار سے صاحبِاختیار لوگوں کے میلان میں مریض کے حقوق کی بابت تبدیلی دیکھکر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں کا حاکمانہ رویہ اب بدل گیا ہے اور وہ مریض کی مرضی کا احترام کرتے ہیں۔ اب وہ مریضوں کو اپنی مرضی کا علاج کرانے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔ اب یہوواہ کے گواہوں کو جنونی نہیں سمجھا جاتا جوکہ علاج کے مستحق نہیں ہیں۔ بلکہ اُنہیں ایسے مریض خیال کِیا جاتا ہے جو اچھی واقفیت رکھتے ہیں اور جنکے حقوق کا احترام کِیا جانا چاہئے۔ میڈیکل سیمینارز اور ٹیلیویژن پروگرامز میں مشہور پروفیسرز نے کہا: ”یہوواہ کے گواہوں کی کاوشوں کی بدولت اب ہم سمجھتے ہیں۔ . . . ہم نے گواہوں سے سیکھا ہے،“ اور ”اُنہوں نے ہمیں بہتری پیدا کرنا سکھایا ہے۔“
ایک کہاوت ہے کہ زندگی سب سے بڑی نعمت ہے کیونکہ اسکے بغیر آزادی، خودمحتاری اور عزتووقار جیسی چیزیں بےمعنی ہیں۔ بہتیرے اب اعلیٰ قانونی نظریات کی قدر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کے اپنے حقوق ہیں اور صرف وہی اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے کہ مخصوص حالات کے تحت اُسکے کونسے حقوق کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ اسطرح، انتخاب کرنے کی آزادی اور حق اور مذہبی عقائد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مریض کو بھی اپنے لئے فیصلے کرنے کا حق ہوتا ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کی ہوسپٹل انفارمیشن سروسز نے اس سلسلے میں بہتیرے ڈاکٹروں کی بھی اپنی سمجھ میں بہتری لانے میں مدد کی ہے۔
میرے خاندان کی متواتر مدد نے مجھے یہوواہ کی خدمت میں مفید ثابت ہونے اور مسیحی کلیسیا میں بزرگ کے طور پر خدمت انجام دینے کے قابل بنایا ہے۔ جیسےکہ مَیں نے پہلے بھی بیان کِیا ہے، مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ مَیں بہت پہلے ہی یہوواہ کی بابت کیوں نہ سیکھ سکا۔ پھربھی، مَیں خوش ہوں کہ اُس نے خدا کی بادشاہی کے انتظام کی شاندار اُمید کے سلسلے میں میری آنکھیں کھول دی ہیں جہاں ”کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۴۔ *
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 24 یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ۔
^ پیراگراف 24 یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ۔
^ پیراگراف 34 جب یہ مضمون تیار ہو رہا تھا تو بھائی ایگون ہاؤسر وفات پا گئے۔ وہ وفاداری کی حالت میں مرے اور ہم خوش ہیں کہ اُسکی اُمید کتنی یقینی ہے۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
۳۰ کے دہے میں، سانٹا لوسیا ہسپتال میں کام کرتے ہوئے
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
۱۹۹۵ میں اپنی اہلیہ بیٹرس کیساتھ