مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

احبار ۲۵ باب میں یوبلی کے سال کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ یہ کس کی عکاسی کرتا ہے؟‏

موسوی شریعت میں ’‏ساتویں سال کو زمین کیلئے خاص آرام کا سبت‘‏ قرار دیا گیا تھا۔‏ اس سال کے بارے میں یہودیوں کو یہ حکم دیا گیا:‏ ”‏اِس میں تُو نہ اپنے کھیت کو بونا اور نہ اپنے انگورستان کو چھانٹنا۔‏ اور نہ اپنی خودروفصل کو کاٹنا اور نہ اپنی بےچھٹی تاکوں کے انگوروں کو توڑنا۔‏ یہ زمین کیلئے خاص آرام کا سال ہو۔‏“‏ (‏احبار ۲۵:‏۴،‏ ۵‏)‏ لہٰذا ہر ساتواں سال زمین کیلئے سبت کا سال ہوتا تھا۔‏ سات ایسے سبت کے سال جب گزر جاتے تھے یعنی ۴۹ سال کے بعد پچاسویں سال میں یوبلی ہوتی۔‏ اس پچاسویں سال کے بارے میں یہودیوں کو کونسا حکم دیا گیا؟‏

یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو یہ حکم دیا:‏ ”‏تُم پچاسویں برس کو مُقدس جاننا اور تمام ملک میں سب باشندوں کیلئے آزادی کی منادی کرانا۔‏ یہ تمہارے لئے یوبلی ہو۔‏ اِس میں تُم میں سے ہر ایک اپنی ملکیت کا مالک ہو اور ہر شخص اپنے خاندان میں پھر شامل ہو جائے۔‏ وہ پچاسواں برس تمہارے لئے یوبلی ہو۔‏ تُم اُس میں کچھ نہ بونا اور نہ اُسے جو اپنے آپ پیدا ہو جائے کاٹنا اور نہ بےچھٹی تاکوں کا انگور جمع کرنا۔‏“‏ (‏احبار ۲۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ یوبلی کے سال میں بھی کوئی کاشت نہیں ہوتی تھی۔‏ اسطرح زمین کو دو سال تک آرام ملتا تھا۔‏ اسکے علاوہ اسرائیل کے باشندوں کیلئے یوبلی آزادی لاتی تھی۔‏ جو یہودی غلام تھے انہیں رِہا کر دیا جاتا اور وہ اپنے خاندان میں دوبارہ شامل ہو جاتے تھے۔‏ اور اگر ایک یہودی مجبور ہو کر اپنی جائداد بیج بھی دیتا تو یوبلی میں یہ اسے واپس کر دی جاتی تھی۔‏ لہٰذا یوبلی بنی‌اسرائیل کیلئے آزادی اور بحالی کا وقت تھا۔‏ لیکن مسیحیوں کیلئے اسکی کیا اہمیت ہے؟‏

پہلے انسان آدم نے بغاوت کرکے تمام انسانوں کو گناہ کی غلامی میں بیچ دیا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے انسانوں کو اس غلامی سے آزاد کرنا چاہا۔‏ اسلئے یسوع مسیح نے اپنی موت کے ذریعے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کِیا۔‏ * اسطرح ہمیں اس غلامی سے نجات پانے کا موقع مل گیا۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ مگر وہ وقت کب آئیگا جب مسیحی گناہ کی غلامی سے آزاد کر دئے جائینگے؟‏ پولس رسول نے ممسوح مسیحیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یوں لکھا:‏ ”‏زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوؔع میں مجھے گُناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا۔‏“‏ (‏رومیوں ۸:‏۲‏)‏ اسکا مطلب ہے کہ ایک شخص جو آسمان میں جانے کی اُمید رکھتا ہے اس وقت گناہ کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے جب وہ رُوح‌اُلقدس سے مسح کِیا جاتا ہے۔‏ یہ بات درست ہے کہ جبتک وہ زمین پر ہے اسکا بدن ناکامل ہوتا ہے۔‏ لیکن خدا ایک شخص کو راستباز قرار دے کر اسے اپنے فرزند کے طور پر اَپنا لیتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۴؛‏ ۸:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ دراصل ممسوح مسیحیوں کیلئے پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ سے ہی مسیحی یوبلی کا دَور شروع ہو گیا۔‏

‏’‏دوسری بھیڑیں‘‏ گناہ کی غلامی سے کب نجات پائینگی؟‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ یسوع کی ہزارسالہ حکمرانی ان دوسری بھیڑوں کیلئے آزادی اور بحالی کا دَور ہوگا۔‏ اس دَور میں یسوع اپنے فدیہ کی قربانی کی بِنا پر ان لوگوں کو گناہ کی غلامی سے آزاد کریگا جو زمین پر جینے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ جب یسوع کی حکمرانی کا دَور ختم ہو جائیگا تو تمام انسان مکمل طور پر گناہ اور موت کی غلامی سے آزاد ہو چکے ہونگے۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۲۱‏)‏ تب مسیحی یوبلی کا دَور ختم ہو جائیگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 یسوع کو ’‏قیدیوں کو رہائی کا اعلان‘‏ کرنے کیلئے زمین پر بھیجا گیا تھا۔‏ (‏یسعیاہ ۶۱:‏۱-‏۷؛‏ لوقا ۴:‏۱۶-‏۲۱‏)‏ اس نے روحانی طور پر آزادی حاصل کرنے کے موقعے کا اعلان کِیا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

یسوع کی ہزارسالہ حکومت ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ کیلئے آزادی اور بحالی کا دَور ہوگا