کپدُکیہ—جہاں لوگ غاروں میں رہتے تھے
کپدُکیہ—جہاں لوگ غاروں میں رہتے تھے
پطرس رسول نے اپنے پہلے الہامی خط کو ”اُن مسافروں کے نام“ بھی کِیا جو ”کپدُکیہؔ میں جا بجا رہتے ہیں۔“ (۱-پطرس ۱:۱) کپدُکیہ کس قسم کا علاقہ تھا؟ یہاں کے باشندے پتھر میں کھودے گئے غاروں میں کیوں رہتے تھے؟ ان لوگوں تک مسیحی مذہب کیسے پہنچا؟
کپدُکیہ کی سیر کرنے والے اشخاص ایک انوکھے منظر کو دیکھ کر دَنگ رہ جاتے ہیں۔ اس منظر کے بارے میں ایک برطانوی سیاح نے ۱۸۴۰ میں یوں لکھا: ”اچانک ہم ایک ایسی جگہ جا پہنچے جہاں ہر طرف پتھر کے ستون ہی ستون نظر آ رہے تھے۔“ جیہاں، کپدُکیہ کی وادیوں میں یہ عجیب سے ستون ہر طرف پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی تو ۱۰۰ فٹ اونچے ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے طرح طرح کے دیونما مجسّمے تراش کر ان وادیوں میں انکی نمائش لگا رکھی ہو۔
سورج کی بدلتی روشنی میں یہ مجسّمے مختلف قسم کے رنگ اپنا لیتے ہیں۔ صبحسویرے شفق کی لالی میں ایسے لگتا ہے جیسے ان ستونوں نے ہلکے گلابی رنگ کی اوڑھنی پہن رکھی ہو۔ دوپہر کے وقت یہ ہاتھیدانت سا رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور شام کو سورج انکو سنہرے رنگ میں ڈبو دیتا ہے۔ یہ ”پتھر کے ستون“ کیسے وجود میں آئے؟ اور کپدُکیہ کے باشندوں نے ان میں اپنے مکان کیوں بنائے؟
ہوا اور پانی کی مجسّمہسازی
کپدُکیہ کا علاقہ ملک ترکی کے وسط میں ہے۔ اس علاقے میں دو بڑے بڑے آتشفشاں پہاڑ ہیں۔ صدیاں پہلے ان بھڑکتے ہوئے آتشفشانوں کے دھماکوں کی وجہ سے یہاں دو قسم کے پتھر وجود میں آئے۔ ایک تو کالے رنگ کا سخت پتھر اور دوسرا سفید رنگ کا نرم پتھر۔
اس نرم سفید پتھر پر ہوا، بارش اور پانی کا ایسا اثر پڑا کہ آخرکار پورے علاقے میں ہزاروں ستون وجود میں آئے۔ ان میں سے کچھ میں اتنے سُوراخ ہیں کہ وہ بالکل شہد کی مکھیوں کے چھتے کی مانند لگتے ہیں۔ (صفحہ۲۵ پر چھوٹی تصویر کو دیکھیں۔) کپدُکیہ کے باشندوں نے اس نرم پتھر میں اپنے لئے گھر کندے۔ یہ گھر بڑے انوکھے تھے۔ جُوں جُوں گھر میں رہنے والے خاندان کے افراد میں اضافہ ہوتا گیا وہ اپنے لئے مزید کمرے کھود کر تیار کر لیتے۔ ان گھروں کی ایک اَور خوبی یہ تھی کہ وہ گرمی کے موسم میں ٹھنڈے اور سردی کے موسم میں گرم ہوتے تھے۔
ایک مرکزِتجارت
آپ نے شاہراہِریشم کا نام تو سنا ہوگا۔ تاجر اپنا مال لے کر اس ۰۰۰،۴ میل لمبی شاہراہ پر رومی سلطنت سے لے کر چین تک سفر کرتے
تھے۔ یہ شاہراہ کپدُکیہ کے علاقے سے بھی گزرتی تھی۔ اس وجہ سے اس علاقے میں لوگوں کا خوب آناجانا تھا۔ تاجروں کے علاوہ فارسی، یونانی اور رومی لشکر بھی یہاں ڈیرا کرتے تھے۔ یہ مسافر الگ الگ مذہبی نظریے رکھتے تھے۔ اور اسطرح کپدُکیہ کے باشندے بھی مختلف مذہبی نظریات سے واقف ہو گئے۔یسوع کے زمانے سے تقریباً ۱۰۰ سال پہلے کپدُکیہ میں یہودی بھی آباد ہو گئے تھے۔ ۳۳ س.ع. میں عیدِپنتِکُست کے موقعے پر اس علاقے کے یہودی بھی یروشلیم آئے تھے۔ جب یسوع کے شاگردوں پر روحالقدس نازل ہوئی تو پورے یروشلیم میں سے یہودی اس معجزے کو دیکھنے کیلئے وہاں جمع ہو گئے۔ (اعمال ۲:۱-۹) اس بھیڑ میں کپدُکیہ کے یہودی بھی شامل تھے۔ ان میں سے کچھ نے پطرس کی تقریر سُن کر مسیحی مذہب اپنا لیا۔ کچھ عرصے بعد یہ مسیحی کپدُکیہ واپس لوٹ گئے۔ اسلئے پطرس نے اپنا پہلا الہامی خط کپدُکیہ کے مسیحیوں کے نام لکھا تھا۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کپدُکیہ کے مسیحیوں نے بھی غیرمسیحی خیالات اپنانا شروع کر دئے۔ مثال کے طور پر یسوع کی موت کے تقریباً ۳۰۰ سال بعد کپدُکی چرچ کے تین سربراہ تثلیث کے غیرمسیحی عقیدے کو فروغ دینے لگے۔
ان میں سے ایک سربراہ نے راہبوں کی طرح زندگی گزارنے کو بھی اچھا قرار دیا۔ راہب دنیاوی زندگی کو ترک کرکے نہایت سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس علاقے کے غارنما گھر ایسی زندگی کیلئے جیسے بنے ہوئے تھے۔ لہٰذا یہاں پر بہت سے راہب آ کر آباد ہو گئے۔ انہوں نے اس علاقے کی بڑی بڑی چٹانوں میں اپنے لئے گرجاگھر بھی کندے۔ یسوع کی موت کے ۲۰۰،۱ سال بعد کپدُکیہ میں ایسے تقریباً ۳۰۰ گرجاگھر پتھر میں کندے جا چکے تھے۔ ان میں سے بہتیرے آج تک باقی ہیں۔
آجکل کپدُکیہ کے زیادہتر گرجاگھر اور خانقاہیں خالی پڑی ہیں۔ لیکن اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ صدیوں سے ویسے کا ویسا رہا ہے۔ بہتیرے آج بھی پتھر کی چٹانوں میں اپنے گھر بناتے ہیں۔ اور آج بھی جو کوئی اس علاقے سے گزرتا ہے ان لوگوں کی مہارت پر حیران رہ جاتا ہے۔
[صفحہ ۲۵، ۲۴ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
کپدُکیہ
چین