مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏یہوواہ کا فرمان‘‏ ضرور تکمیل پائیگا!‏

‏’‏یہوواہ کا فرمان‘‏ ضرور تکمیل پائیگا!‏

‏’‏یہوواہ کا فرمان‘‏ ضرور تکمیل پائیگا!‏

‏”‏مَیں اُس فرمان کو بیان کرونگا۔‏ [‏یہوواہ]‏ نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ مجھ سے مانگ اور مَیں قوموں کو تیری میراث کیلئے .‏ .‏ .‏ تجھے بخشونگا۔‏“‏ —‏زبور ۲:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۱.‏ انسان اور زمین کیلئے خدا کا مقصد ان منصوبوں سے کیوں ٹکراتا ہے جو قومیں باندھتی ہیں؟‏

یہوواہ نے انسان اور زمین کے لئے ایک مقصد ٹھہرایا ہے۔‏ لیکن خدا کا مقصد ان منصوبوں سے ٹکراتا ہے جو قومیں باندھتی ہیں۔‏ یہ حیرانگی کی کوئی بات نہیں،‏ کیونکہ خدا نے خود کہا کہ ”‏جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں۔‏“‏ خدا کا مقصد بیشک انجام پائیگا۔‏ اسلئے اُس نے آگے کہا:‏ ”‏جسطرح آسمان سے بارش ہوتی اور برف پڑتی ہے اور پھر وہ وہاں واپس نہیں جاتی بلکہ زمین کو سیراب کرتی ہے اور اُسکی شادابی اور روئیدگی کا باعث ہوتی ہے تاکہ بونے والے کو بیج اور کھانے والے کو روٹی دے۔‏ اُسی طرح میرا کلام جو میرے مُنہ سے نکلتا ہے ہوگا۔‏ وہ بےانجام میرے پاس واپس نہ آئیگا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہوگی وہ اُسے پورا کریگا اور اُس کام میں جسکے لئے مَیں نے اُسے بھیجا مؤثر ہوگا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۹-‏۱۱‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ زبور ۲ میں کس بات کی وضاحت کی گئی ہے،‏ اور اس سلسلے میں کونسے سوالات اُٹھتے ہیں؟‏

۲ یہوواہ نے مسیح کی بادشاہت کے سلسلے میں جو مقصد ٹھہرایا ہے وہ بھی پورا ہوگا۔‏ زبور ۲ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے۔‏ خدا کے الہام سے بادشاہ داؤد نے اس زبور میں پیشینگوئی کی کہ ایک زمانہ آئیگا جب قومیں یہوواہ خدا اور مسیح کی مخالفت کرینگی۔‏ اس زبور میں داؤد نے مسیح کے بارے میں یہ بھی کہا:‏ ”‏مَیں اُس فرمان کو بیان کرونگا۔‏ [‏یہوواہ]‏ نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ مجھ سے مانگ اور مَیں قوموں کو تیری میراث کیلئے .‏ .‏ .‏ تجھے بخشونگا۔‏“‏—‏زبور ۲:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۳ ‏’‏یہوواہ کے اس فرمان‘‏ کے مطابق قوموں کا کیا انجام ہوگا؟‏ اس فرمان کا عام لوگوں پر کیا اثر ہوگا؟‏ اور خدا کے خادم زبور ۲ سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟‏

قومیں طیش میں ہیں!‏

۴.‏ زبور ۲:‏۱،‏ ۲ میں قوموں اور اُنکے حاکموں کے بارے میں کیا بتایا جاتا ہے؟‏

۴ زبورنویس قوموں اور اُنکے حاکموں کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏قومیں کس لئے طیش میں ہیں اور لوگ کیوں باطل خیال باندھے؟‏ [‏یہوواہ]‏ اور اُسکے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف‌آرائی [‏کرتے]‏ اور حاکم آپس میں مشورہ [‏کرتے]‏ ہیں۔‏“‏—‏زبور ۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏ *

۵،‏ ۶.‏ قوموں نے کس قسم کے ’‏باطل خیال باندھ‘‏ رکھے ہیں؟‏

۵ زبور ۲:‏۱،‏ ۲ کی پیشینگوئی پہلی صدی میں پوری ہوئی جب یہودی اور رومی حاکموں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے یسوع مسیح کو قتل کروایا۔‏ لیکن اسکی آخری تکمیل ۱۹۱۴ میں شروع ہوئی کیونکہ اُس سال میں یسوع مسیح نے اپنی آسمانی حکمرانی قائم کی۔‏ ہمارے زمانے میں قوموں نے کس قسم کے ’‏باطل خیال باندھ‘‏ رکھے ہیں؟‏ ذرا سوچیں۔‏ آج تک دُنیابھر کی حکومتوں میں سے کسی ایک نے خدا کے مسیح کی حکمرانی کو قبول نہیں کِیا۔‏ اسکی بجائے وہ اپنا اپنا اختیار قائم کرنے کے ’‏خیال باندھتے‘‏ ہیں۔‏

۶ زبورنویس نے قوموں کے ان خیالات کو ”‏باطل“‏ کیوں کہا تھا؟‏ کیونکہ اُنکے منصوبے باطل ہیں یعنی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‏ وہ اس دُنیا میں امن‌وسلامتی نہیں لا سکتے۔‏ اسکی بجائے وہ خدا تعالیٰ اور اُسکے مسیح کی حکمرانی کی مخالفت کرتے ہیں۔‏ یہ کتنی بےوقوفی کی بات ہے!‏

یہوواہ کا بادشاہ

۷.‏ ابتدائی مسیحیوں نے زبور ۲:‏۱،‏ ۲ کے الفاظ کس پر عائد کئے؟‏

۷ ابتدائی مسیحی سمجھ گئے تھے کہ زبور ۲:‏۱،‏ ۲ کے الفاظ یسوع پر عائد ہوتے ہیں۔‏ اذیت کا نشانہ بنتے وقت اُنہوں نے یوں دُعا کی:‏ ”‏اَے مالک [‏یہوواہ]‏!‏ تُو وہ ہے جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کِیا۔‏ تُو نے رُوح‌اُلقدس کے وسیلہ سے ہمارے باپ اپنے خادم داؔؤد کی زبانی فرمایا کہ قوموں نے کیوں دُھوم مچائی؟‏ اور اُمتوں نے کیوں باطل خیال کئے؟‏ [‏یہوواہ]‏ اور اُسکے مسیح کی مخالفت کو زمین کے بادشاہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور سردار جمع ہو گئے۔‏ کیونکہ واقعی تیرے پاک خادم یسوؔع کے برخلاف جسے تُو نے مسح کِیا ہیرؔودیس [‏انتپاس]‏ اور پُنطیُس‌پیلاؔطُس غیرقوموں اور اسرائیلیوں کیساتھ اِسی شہر میں جمع ہوئے۔‏“‏ (‏اعمال ۴:‏۲۴-‏۲۷؛‏ لوقا ۲۳:‏۱-‏۱۲‏)‏  * یہ سچ ہے کہ پہلی صدی میں حاکموں نے خدا کے مسح‌شُدہ خادم یسوع کے خلاف سازش کی تھی۔‏ تاہم اس زبور کی آخری تکمیل بہت عرصے بعد ہونی تھی۔‏

۸.‏ آجکل قومیں زبور ۲:‏۳ کی پیشینگوئی کو کسطرح پوری کرتی ہیں؟‏

۸ پُرانے زمانے میں قومیں جب بھی اسرائیلی بادشاہوں کا مقابلہ کرتیں تو دراصل وہ خدا اور اُسکے مسح‌شُدہ بادشاہ کے خلاف سازِش کر رہی ہوتیں۔‏ آجکل بھی قومیں خدا اور اُسکے مسیح کے احکام پر پورا اُترنے سے انکار کرتی ہیں۔‏ اسلئے وہ کہتی ہیں کہ ”‏آؤ ہم اُنکے بندھن توڑ ڈالیں اور اُنکی رسیاں اپنے اُوپر سے اُتار پھینکیں۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ جو پابندیاں خدا اور اُسکا مسیح ان پر لگاتے ہیں قومیں اُنکی خلاف‌ورزی کرتی ہیں۔‏ لیکن وہ اس بندھن کو نہیں توڑ سکیں گی اور نہ ہی ان رسیوں کو اپنے اُوپر سے اُتار سکیں گی۔‏

یہوواہ اُنکا مضحکہ اُڑاتا ہے

۹،‏ ۱۰.‏ یہوواہ قوموں کا مذاق کیوں اُڑاتا ہے؟‏

۹ انسانی حکومتیں خدا کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی حاکمیت کو قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‏ لیکن یہوواہ اس بات سے بالکل متاثر نہیں ہوتا۔‏ زبورنویس آگے بیان کرتا ہے:‏ ”‏وہ جو آسمان پر تخت‌نشین ہے ہنسیگا۔‏ [‏یہوواہ]‏ اُنکا مضحکہ اُڑائیگا۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ چاہے انسانی حاکم کچھ بھی کریں یہوواہ خدا اپنی مرضی پوری کریگا۔‏ خدا اُنکی گستاخی کی وجہ سے ہنستا اور اُنکا مذاق اُڑاتا ہے۔‏ حاکم اپنے بڑے بڑے منصوبوں پر فخر تو کرتے ہیں لیکن آخرکار وہ یہوواہ خدا کے خلاف کچھ بھی نہیں کر پائینگے۔‏

۱۰ داؤد نے ایک اَور زبور میں خدا کے دُشمنوں کے سلسلے میں یوں بیان کِیا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ لشکروں کے خدا۔‏ اؔسرائیل کے خدا!‏ سب قوموں کے محاسبہ کیلئے اُٹھ۔‏ کسی دغاباز خطاکار پر رحم نہ کر۔‏ وہ شام کو لوٹتے اور کتے کی طرح بھونکتے ہیں اور شہر کے گِرد پھرتے ہیں۔‏ دیکھ!‏ وہ اپنے مُنہ سے ڈکارتے ہیں۔‏ اُنکے لبوں کے اندر تلواریں ہیں۔‏ کیونکہ وہ کہتے ہیں کون سنتا ہے؟‏ پر اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تُو اُن پر ہنسیگا۔‏ تُو تمام قوموں کو ٹھٹھوں میں اُڑائیگا۔‏“‏ (‏زبور ۵۹:‏۵-‏۸‏)‏ یہوواہ قوموں کی شیخی پر ہنستا ہے کیونکہ اُنکی بےبسی اور بےوقوفی صاف ظاہر ہے۔‏

۱۱.‏ جب قومیں خدا کی خلاف‌ورزی کرتی ہیں تو اُسکا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟‏

۱۱ زبور ۲ کے یہ الفاظ ہمارے ایمان کو اَور بھی مضبوط بنا سکتے ہیں۔‏ ہم اس بات پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہر صورتحال میں اپنی مرضی بجا لائیگا۔‏ وہ اپنے خادموں کو کبھی ترک نہیں کریگا۔‏ (‏زبور ۹۴:‏۱۴‏)‏ جب قومیں خدا کی خلاف‌ورزی کرتی ہیں تو اُسکا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟‏ زبورنویس جواب دیتا ہے کہ ”‏تب وہ اپنے غضب میں اُن سے کلام کریگا،‏“‏ یعنی وہ ایک گرجنے والے بادل کی طرح اُن پر ٹوٹ پڑیگا اور چمکتی بجلی کی طرح ”‏اپنے قہرِشدید میں اُنکو پریشان کر دیگا۔‏“‏—‏زبور ۲:‏۵‏۔‏

خدا کے بادشاہ کی تخت‌نشینی

۱۲.‏ زبور ۲:‏۶ میں کس کی تخت‌نشینی کی طرف اشارہ کِیا گیا ہے؟‏

۱۲ زبور ۲ میں درج یہوواہ کے اگلے الفاظ قوموں کیلئے ناراضگی کا باعث ہیں۔‏ یہوواہ فرماتا ہے:‏ ”‏مَیں تو اپنے بادشاہ کو اپنے کوہِ‌مُقدس صیوؔن پر بٹھا چکا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۶‏)‏ کوہِ‌صیون یروشلیم میں ایک پہاڑ ہے جہاں داؤد کو اسرائیل کا بادشاہ بنایا گیا تھا۔‏ لیکن مسیح کا تخت زمین پر نہیں ہوگا۔‏ درحقیقت یہوواہ آسمانی کوہِ‌صیون پر یسوع مسیح کو اپنے بادشاہ کے طور پر بٹھا چکا ہے۔‏—‏مکاشفہ ۱۴:‏۱‏۔‏

۱۳.‏ یہوواہ نے اپنے بیٹے کیساتھ کونسا عہد باندھا؟‏

۱۳ اگلی آیت میں بادشاہ یسوع مسیح کلام کرتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں اُس فرمان کو بیان کرونگا۔‏ [‏یہوواہ]‏ نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔‏ آج تُو مجھ سے پیدا ہؤا۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۷‏)‏ اس آیت میں ”‏اُس فرمان“‏ سے مُراد وہ عہد ہے جسکی بِنا پر یہوواہ نے اپنے بیٹے کو بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا۔‏ یسوع نے اس عہد کا ذکر کرتے ہوئے اپنے رسولوں سے کہا:‏ ”‏تُم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے۔‏ اور جیسے میرے باپ نے میرے لئے ایک بادشاہی مقرر کی ہے مَیں بھی تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں۔‏“‏—‏لوقا ۲۲:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۱۴.‏ یسوع بادشاہ بننے کا حقدار کیوں ہے؟‏

۱۴ جسطرح زبور ۲:‏۷ میں بتایا گیا ہے یہوواہ نے یسوع کے بپتسمے کے موقعے پر یسوع سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تُو میرا بیٹا ہے۔‏ اور جب خدا نے یسوع کو مُردوں میں سے جی اُٹھا کر آسمان پر لے لیا تو اُس نے اس بات کو دوبارہ ظاہر کِیا۔‏ (‏مرقس ۱:‏۹-‏۱۱؛‏ رومیوں ۱:‏۴؛‏ عبرانیوں ۱:‏۵؛‏ ۵:‏۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو آسمانی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا ہے۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ یسوع داؤد کی شاہی نسل سے پیدا ہوا تھا۔‏ اسلئے کوئی شک نہیں کہ وہ بادشاہ بننے کا حق رکھتا ہے۔‏ (‏۲-‏سموئیل ۷:‏۴-‏۱۷؛‏ متی ۱:‏۶،‏ ۱۶‏)‏ زبور ۲ کے مطابق خدا اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ ”‏مجھ سے مانگ اور مَیں قوموں کو تیری میراث کیلئے اور زمین کے انتہائی حصے تیری ملکیت کیلئے تجھے بخشونگا۔‏“‏—‏زبور ۲:‏۸‏۔‏

۱۵.‏ یسوع قوموں کو میراث میں پانے کی درخواست کیوں کرتا ہے؟‏

۱۵ صرف یہوواہ خدا یسوع سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔‏ یہوواہ تجربے سے جانتا ہے کہ یسوع اسکا وفادار ہے اور بالکل قابلِ‌بھروسہ بھی ہے۔‏ اسکے علاوہ یسوع مسیح ”‏اندیکھے خدا کی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے۔‏“‏ (‏کلسیوں ۱:‏۱۵‏)‏ یسوع خدا کا اکلوتا بیٹا ہے اسلئے اُسے وارث ہونے کا حق حاصل ہے۔‏ اگر یسوع مانگے تو خدا ’‏قوموں کو اُسکی میراث کیلئے اور زمین کے انتہائی حصے اُسکی ملکیت کیلئے اُسے بخشے گا۔‏‘‏ یسوع قوموں کو میراث میں پانے کی درخواست کیوں کرتا ہے؟‏ کیونکہ ’‏اُسکی خوشنودی بنی‌آدم کی صحبت میں ہے۔‏‘‏ اسکے علاوہ وہ انسان اور زمین کے فائدے کیلئے اپنے آسمانی باپ کی مرضی پوری کرنا چاہتا ہے۔‏—‏امثال ۸:‏۳۰،‏ ۳۱‏۔‏

قوموں کے خلاف خدا کا فرمان

۱۶،‏ ۱۷.‏ زبور ۲:‏۹ کے مطابق قوموں کا کیا انجام ہوگا؟‏

۱۶ زبور ۲ کی پیشینگوئی کی تکمیل یسوع کی اندیکھی موجودگی کے دوران یعنی ہمارے زمانے میں ہو رہی ہے۔‏ لہٰذا قوموں کا کیا انجام ہوگا؟‏ بادشاہ یسوع مسیح جلد ہی اس فرمان پر عمل کرنے والا ہے:‏ ”‏تُو اُن [‏قوموں]‏ کو لوہے کے عصا سے توڑیگا۔‏ کمہار کے برتن کی طرح تُو اُنکو چکناچور کر ڈالیگا۔‏“‏—‏زبور ۲:‏۹‏۔‏

۱۷ پُرانے زمانے میں ایک بادشاہ کا عصائےشاہی اُسکے اختیار کا نشان ہوتا تھا۔‏ جسطرح زبور میں بیان کِیا گیا ہے بعض دفعہ یہ عصا لوہے کا بنا ہوا ہوتا تھا۔‏ ذرا اس تشبیہ پر غور کریں:‏ اگر مٹی کے ایک برتن پر لوہے کا عصا پٹخا جائے تو برتن ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے،‏ یہاں تک کہ اسکی مرمت کرنا ناممکن ہوتا ہے۔‏ اسی طرح یسوع مسیح قوموں کو بھی پٹخ کر ہمیشہ کیلئے تباہ کر دیگا۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ خدا کی عدالت سے بچنے کیلئے زمین کے بادشاہوں کو کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۸ کیا قوموں کے حاکم اس تباہی سے بچ سکتے ہیں؟‏ جی‌ہاں۔‏ زبورنویس اُن سے مخاطب ہو کر یوں کہتا ہے:‏ ”‏پس اب اَے بادشاہو!‏ دانشمند بنو۔‏ اَے زمین کے عدالت کرنے والو تربیت پاؤ۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۱۰‏)‏ خدا ان بادشاہوں کو دانشمند بننے اور آگاہی پر عمل کرنے کا موقع دے رہا ہے۔‏ انکو سمجھ لینا چاہئے کہ انکے اپنے منصوبے بےکار ہیں اور خدا ہی کی بادشاہت خوشی لا سکتی ہے۔‏

۱۹ خدا کی عدالت سے بچنے کے لئے زمین کے بادشاہوں کو کیا کرنا چاہئے؟‏ زبورنویس انکو نصیحت دیتا ہے:‏ ”‏ڈرتے ہوئے [‏یہوواہ]‏ کی عبادت کرو۔‏ کانپتے ہوئے خوشی مناؤ۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۱۱‏)‏ اگر دنیا کے بادشاہ اس نصیحت پر عمل کرتے تو وہ طیش میں آنے کی بجائے خوشی منا سکتے۔‏ کیوں؟‏ کیونکہ وہ بھی یہ اُمید رکھ سکتے کہ مسیح کی بادشاہت اُنکے لئے خوشی لائیگی۔‏ لیکن اس خوشی کو حاصل کرنے کیلئے اُنکو اپنا غرور اور اپنی گستاخی چھوڑنی پڑتی۔‏ اسکے علاوہ اُنکو یہوواہ کی حاکمیت اور اُسکے بادشاہ یسوع مسیح کے اختیار کو بھی قبول کرنا پڑتا۔‏

‏”‏بیٹے کو چُومو“‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ ’‏بیٹے کو چُومنے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

۲۰ خدا اتنا رحیم ہے کہ وہ زبورنویس کے ذریعے قوموں کے حاکموں کو یہ دعوت دیتا ہے:‏ ”‏بیٹے کو چُومو۔‏ ایسا نہ ہو کہ وہ [‏یہوواہ خدا]‏ قہر میں آئے اور تُم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُسکا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۱۲‏)‏ دُنیا کے حاکموں کو رَب‌اُلافواج یہوواہ کی بات پر عمل کرنا چاہئے۔‏ خدا کی خلاف‌ورزی کرنے اور ’‏باطل خیال باندھنے‘‏ کی بجائے انکو خدا کے بادشاہ کو قبول کرنا اور اسکے فرمانبردار رہنا چاہئے۔‏

۲۱ ‏’‏بیٹے کو چُومنے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏ زبورنویس کے زمانے میں لوگ اپنی دوستی کو ظاہر کرنے کیلئے ایک دوسرے کو چُوما کرتے تھے۔‏ ایک شخص اپنے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے وقت بھی اُنہیں چُومتا تھا۔‏ اسکے علاوہ لوگ اپنی وفاداری کا اظہار کرنے کیلئے بھی ایک دوسرے کو چُومتے تھے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۰:‏۱‏)‏ زبور ۲ کی اس آیت میں یہوواہ قوموں کو حکم دیتا ہے کہ میرے بیٹے اور مسح‌شُدہ بادشاہ کا خیرمقدم کرنے کیلئے اُسے چُومو۔‏

۲۲.‏ قوموں کے حاکموں کو کونسی آگاہی پر دھیان دینا چاہئے؟‏

۲۲ ایسے انسانی حاکم جو خدا کے بادشاہ کا خیرمقدم نہیں کرتے دراصل وہ یہوواہ کی توہین کر رہے ہوتے ہیں۔‏ اُنہیں یقین نہیں کہ یہوواہ پوری کائنات کا حاکم ہے۔‏ اُنکے خیال میں خدا اس قابل نہیں کہ وہ ایک ایسے بادشاہ کا انتخاب کرے جو انسان کے فائدے کیلئے حکمرانی کر سکتا ہو۔‏ وہ انسانی منصوبوں کو فروغ دے رہے ہیں۔‏ اس وجہ سے خدا ان سے بہت ناراض ہے اور انکو تباہ کر دیگا۔‏ ”‏اُسکا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔‏“‏ قوموں کے حاکموں کو اس آگاہی پر دھیان دینا چاہئے کیونکہ اُنکی زندگی خطرے میں ہے۔‏

۲۳.‏ انفرادی طور پر لوگ تباہی سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۲۳ زبور ۲ کے اختتام پر داؤد نے یوں لکھا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ سب جنکا توکل [‏یہوواہ]‏ پر ہے۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۱۲‏)‏ قوموں کے حاکم اور باقی لوگ بھی انفرادی طور پر اس آنے والی تباہی سے بچ سکتے ہیں۔‏ نجات پانے کے لئے اُن کو اپنا توکل یہوواہ پر رکھنا پڑیگا جو اپنی بادشاہت کے ذریعے ان کی حفاظت کریگا۔‏ لیکن اس آگاہی پر عمل کرنے کے ئے محض تھوڑا سا وقت باقی ہے۔‏ کیونکہ یسوع مسیح اپنی بادشاہت کے دُشمنوں کو نیست کرنے والا ہے۔‏

۲۴.‏ اس بُرے دَور میں بھی ایک خوشحال زندگی گزارنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۲۴ اگر ہم خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے اور اُس پر دھیان دیتے ہیں تو ہماری زندگی آج بھی مبارک یعنی خوشحال ہو سکتی ہے۔‏ اس دُنیا کے بہتیرے لوگوں کے برعکس ہم دلی سکون محسوس کر سکتے ہیں اور ہماری خاندانی زندگی بھی زیادہ خوشگوار ہو سکتی ہے۔‏ اسکے علاوہ جب ہم خدا کے معیاروں پر چلتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ خدا ہم سے خوش ہے۔‏ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ ہی ”‏اب کی اور آیندہ کی زندگی کا وعدہ“‏ دیتا ہے۔‏ جب وہ اپنی بادشاہت کے تمام مخالفین کو اس زمین سے مٹا دیگا تو ہماری زندگی ہمیشہ تک خوشحال رہیگی۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۸‏۔‏

۲۵.‏ ’‏یہوواہ کے فرمان‘‏ کی تکمیل میں کونسے واقعات ہونے والے ہیں؟‏

۲۵ ‏’‏یہوواہ کا فرمان‘‏ ضرور تکمیل پائیگا۔‏ یہوواہ ہمارا خالق ہے۔‏ وہ انسان کی بھلائی چاہتا ہے۔‏ اپنے بیٹے کی بادشاہت کے ذریعے وہ اپنا ارادہ پورا کریگا اور اپنے وفادار خادموں کو خوشی،‏ اطمینان اور برکت سے نوازیگا۔‏ دانی‌ایل نبی نے ہمارے زمانے کی بابت لکھا کہ ”‏اُن بادشاہوں کے ایّام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کریگا۔‏ .‏ .‏ .‏ وہ اِن تمام مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی ابد تک قائم رہیگی۔‏“‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ لہٰذا ’‏بیٹے کو چُومنے‘‏ اور حاکمِ‌اعلیٰ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے میں دیر نہ کریں!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 اس پیشینگوئی کی پہلی تکمیل میں داؤد بادشاہ ’‏یہوواہ کا مسیح‘‏ تھا اور ”‏زمین کے بادشاہ“‏ اُن فلسطینی حاکموں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو داؤد کے خلاف جنگ کِیا کرتے تھے۔‏

^ پیراگراف 7 بائبل کے یونانی صحائف کے دیگر حوالوں میں بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ’‏خدا کا مسیح‘‏ جسکا ذکر زبور ۲ میں کِیا گیا ہے وہ یسوع ہی ہے۔‏ اس سلسلے میں زبور ۲:‏۷ کا مقابلہ اعمال ۱۳:‏۳۲،‏ ۳۳ اور عبرانیوں ۱:‏۵؛‏ ۵:‏۵ سے کریں۔‏ زبور ۲:‏۹ اور مکاشفہ ۲:‏۲۷ پر بھی غور کریں۔‏

آپکا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• قوموں نے کس قسم کے ’‏باطل خیال باندھ‘‏ رکھے ہیں؟‏

‏• یہوواہ قوموں کا مذاق کیوں اُڑاتا ہے؟‏

‏• قوموں کے خلاف یہوواہ کا فرمان کیا ہے؟‏

‏• ’‏بیٹے کو چُومنے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

داؤد نے مسیح کی شاندار بادشاہت کے بارے میں ایک زبور گایا

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

حاکموں اور یہودیوں نے ملکر یسوع مسیح کو قتل کرنے کی سازش کی

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

مسیح کو آسمانی کوہِ‌صیون پر بادشاہ بنا دیا گیا ہے