گنتی کی کتاب سے اہم نُکات
یہوواہ کا کلام زندہ ہے
گنتی کی کتاب سے اہم نُکات
مصر سے نکلنے کے فوراً بعد بنی اسرائیل کو قوم کے طور پر منتظم کِیا گیا۔ اسکے تھوڑے عرصے بعد انکو ملکِمعود میں داخل ہونے کا موقع دیا گیا۔ لیکن ایسا کرنے کی بجائے انہیں تقریباً ۴۰ سال تک ایک ”وسیع اور ہولناک بیابان میں“ پھرنا پڑا۔ (استثنا ۸:۱۵) کیوں؟ گنتی کی کتاب سے ہمیں اس سوال کا جواب ملتا ہے۔ اور ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کے احکام پر عمل کرنا اور اُسکے نمائندوں کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔
موسیٰ نے گنتی کی کتاب بیابان میں اور موآب کے میدانوں میں لکھی۔ اس میں جن واقعات کی تفصیل دی گئی ہے وہ ۳۸ سال اور ۹ مہینوں کے دوران واقع ہوئے، یعنی ۱۵۱۲ ق.س.ع. سے ۱۴۷۳ ق.س.ع. تک۔ (گنتی ۱:۱؛ استثنا ۱:۳) اس کتاب کا نام ”گنتی“ اسلئے رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں دو مردمشماریوں کا ذکر ہوا ہے جو ۳۸ سال کے اندر ہوئی تھیں۔ (باب ۱-۴، ۲۶) یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں کوہِسینا کے سامنے ہونے والے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں بتایا گیا ہے کہ بیابان میں پھرتے وقت بنی اسرائیل کیساتھ کیا کیا ہوا۔ اور آخری حصے میں موآب کے میدانوں میں ہونے والے واقعات کا ذکر کِیا گیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے وقت خود سے پوچھیں کہ ’مَیں اس بیان سے کون کونسے سبق سیکھ سکتا ہوں؟ مَیں اس میں سے کونسے اصول حاصل کر سکتا ہوں جو میرے لئے فائدہمند ہونگے؟‘
کوہِسینا کے سامنے
(گنتی ۱:۱–۱۰:۱۰)
بنی اسرائیل کی پہلی مردمشماری کوہِسینا کے سامنے ہوتی ہے۔ اس میں ان مردوں کو گنا جاتا ہے جو اسرائیلی فوج میں لڑ سکتے ہیں۔ اسلئے صرف ایسے آدمیوں کی شماری ہوتی ہے جنکی عمر کم از کم ۲۰ سال ہے، اور لاوی کا قبیلہ اس میں شامل نہیں ہوتا ہے۔ سپاہیوں کی کُل تعداد ۵۵۰،۰۳،۶ ہے۔ لہٰذا عورتوں، بچوں اور لاویوں سمیت بنی اسرائیل کی کُل تعداد ۳۰ لاکھ سے زیادہ ہے۔
اسکے بعد خدا بنی اسرائیل کو یہ احکام دیتا ہے: خدا ان سے کہتا ہے کہ قبیلوں کو کس ترتیب میں روانہ ہونا ہے۔ وہ لاویوں کی ذمہداریاں طے کرتا ہے۔ چھوت بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو ڈیرے سے باہر رہنے کا حکم بھی دیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ خدا فرماتا ہے کہ اُس صورتحال میں کیا کرنا چاہئے جب ایک آدمی اپنی بیوی پر زِنا کا اِلزام لگاتا ہے۔ پھر خدا تفصیل دیتا ہے کہ وہ نذیروں سے کیا توقع کرتا ہے۔ باب ۷ میں بتایا گیا ہے کہ قربانگاہ کی افتتاحی تقریب پر قبائیلی رئیس کونسی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ باب ۹ میں عیدِفسح کو منانے کے سلسلے میں تفصیلات دی جاتی ہیں، اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ڈیرا لگاتے اور روانہ ہوتے وقت بنی اسرائیل کو کیا کرنا چاہئے۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۲:۱، ۲—وہ ”جھنڈے“ اور ”عَلم“ کیا تھے جنکے پاس اسرائیل کے قبیلوں کو ڈیرا لگانا تھا؟ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کس قسم کے جھنڈے یا عَلم تھے۔ لیکن اسرائیلی انکو مذہبی علامات کے طور پر استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان جھنڈوں کو محض اشاروں کے طور پر استعمال کِیا جاتا تھا تاکہ ہر شخص ڈیرے میں اپنا راستہ آسانی سے ڈھونڈ سکے۔
۵:۲۷—ایک زِناکار عورت ’کی ران سڑ جانے‘ سے کیا مُراد ہے؟ اس آیت میں لفظ ”ران“ عورت کی کوکھ کیلئے استعمال کِیا گیا ہے اور اسکے ’سڑ جانے‘ سے مُراد ہے کہ وہ دوبارہ بچے پیدا نہیں کر سکے گی۔
ہمارے لئے سبق:
۶:۱-۷۔ جب کوئی شخص نذیر بننے کا عہد باندھتا تھا تو اُسکو اپنی خودی کا اِنکار کرنے کے علاوہ مے اور شراب سے پرہیز بھی کرنا پڑتا تھا۔ اُسے اپنے بال کاٹنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اسکے لمبے بال یہوواہ کیلئے اُسکی تابعداری ظاہر کرتے تھے، جیسا کہ ایک عورت کے لمبے بال شوہر یا والد کے تابعدار ہونے کی نشانی تھی۔ نذیروں کو کسی لاش کے نزدیک جانا منع تھا، یہاں تک کہ اُنکو ایک قریبی رشتہدار کی لاش سے بھی دُور رہنا پڑتا تھا۔ اِسی طرح آج بھی یہوواہ کے کُلوقتی خادم اپنی خودی کا اِنکار کرتے اور یہوواہ کے تابع رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُن میں سے بعض دُور دراز ملکوں میں جا کر خدمت کرتے ہیں۔ اور اگر اِس عرصے کے دوران اُنکا ایک قریبی رشتہدار فوت بھی ہو جائے تو اُنکے لئے اُسکے جنازے پر حاضر ہونا مشکل یا بعض اوقات ناممکن ہو سکتا ہے۔
۸:۲۵، ۲۶۔ خیمۂاجتماع میں صرف جوان لاویوں کو خدمتگزاری کا کام سونپا گیا تھا۔ جن لاویوں کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ تھی وہ رضاکارانہ طور پر جوان لاویوں کی مدد کر سکتے تھے۔ آجکل چاہے ہماری عمر کچھ بھی ہو ہم بادشاہت کی مُنادی کرنے سے ریٹائرمنٹ تو نہیں لے سکتے لیکن ہم لاویوں کو دئے گئے اس حکم سے ایک اہم سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر ایک مسیحی بڑھاپے کی وجہ سے اپنی بعض ذمہداریوں کو نبھا نہیں پاتا تو شاید وہ کسی اَور طریقے سے یہوواہ کی خدمت انجام دے سکتا ہے۔
بیابان میں پِھرتے پِھرتے
(گنتی ۱۰:۱۱–۲۱:۳۵)
آخرکار خیمۂاجتماع پر سے بادل اُٹھ جاتا ہے اور بنی اسرائیل کوہِسینا سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ اِنکی منزل موآب کا میدان ہے، لیکن وہاں پہنچنے میں وہ ۳۸ سال اور دو مہینے لگاتے ہیں۔ اُنکے سفر کا نقشہ آپکو کتابچہ ”سی دی گوڈ لینڈ،“ (یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ) صفحہ ۹ پر ملیگا۔
قادس تک سفر کرتے ہوئے یعنی دشتِفاران میں، لوگ تین مرتبہ بڑبڑاتے ہیں۔ پہلی مرتبہ یہوواہ آگ بھیج کر باغیوں کو ختم کر دیتا ہے۔ دوسری مرتبہ لوگ گوشت مانگتے ہیں اور یہوواہ انکے لئے بٹیر بھیجتا ہے۔ تیسرے موقعے پر مریم اور ہارون موسیٰ کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اور مریم عارضی طور پر کوڑھی ہو جاتی ہے۔
قادس میں پہنچ کر موسیٰ ۱۲ جاسوس بھیجتا ہے تاکہ وہ ملکِمعود کا حال جانچ سکیں۔ ۴۰ دن کے بعد جب وہ واپس لوٹتے ہیں تو اُن میں سے دس آدمی بنی اسرائیل کو بُری رپورٹ دیتے ہیں۔ اس پر لوگ موسیٰ، ہارون اور اُنکے دو وفادار جاسوسوں کو سنگسار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہوواہ غصے میں آ کر ان تمام لوگوں کو وبا سے مارنا چاہتا ہے۔ لیکن موسیٰ بنی اسرائیل کیلئے التجا کرتا ہے۔ اسلئے یہوواہ فیصلہ کرتا ہے کہ بنی اسرائیل ۴۰ سال تک بیابان میں پھرتے رہینگے جبتک تمام باغی مر نہ جائیں۔
پھر یہوواہ مزید ہدایات فراہم کرتا ہے۔ اسکے کچھ عرصے بعد قورح اور اُسکے ساتھی، موسیٰ اور ہارون کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔ اس پر یہوواہ ان میں سے بعض کو آگ سے ہلاک کر دیتا ہے۔ باقی باغیوں کو زمین نگل جاتی ہے۔ اگلے دن بنی اسرائیل کی پوری جماعت موسیٰ اور ہارون کے خلاف بڑبڑانے لگتی ہے۔ اس وجہ سے ۷۰۰،۱۴ لوگ یہوواہ کی بھیجی ہوئی وبا سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اسکے بعد ہارون کی لاٹھی سے معجزانہ طور پر کلیاں پھوٹنے لگتی ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ نے ہارون ہی کو سردارکاہن مقرر کِیا ہے۔ اگلے چند ابواب میں یہوواہ لاویوں کی ذمہداریوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ لوگوں کو پاکصاف کرنے کے لئے ایک سُرخ رنگی بچھیا یعنی گائے کی راکھ استعمال ہونی چاہئے۔ یہ نمونہ یسوع کی قربانی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہمیں بھی عبرانیوں ۹:۱۳، ۱۴۔
گناہوں سے پاکصاف کرتی ہے۔—جب بنی اسرائیل سفر کرتے کرتے قادس واپس آتے ہیں تو مریم فوت ہو جاتی ہے۔ ایک بار پھر بنی اسرائیل کی جماعت موسیٰ اور ہارون کے خلاف بڑبڑاتی ہے، اس مرتبہ پانی کی کمی کی وجہ سے۔ اس پر موسیٰ اور ہارون ایک معجزے کے ذریعے پانی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے خدا کا نام نہیں لیتے اسلئے وہ ملکِمعود میں داخل نہیں ہو پاتے۔ بنی اسرائیل قادس سے روانہ ہو کر کوہِہور پہنچ جاتے ہیں جہاں ہارون وفات پاتا ہے۔ لوگ ملکِادوم سے گزرنے کی بجائے اسکے گِرد سفر کرتے کرتے بہت تھک جاتے ہیں۔ اسلئے وہ خدا اور موسیٰ کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ سزا کے طور پر یہوواہ اُنکے ڈیروں میں زہریلے سانپ بھیجتا ہے۔ موسیٰ کی فریاد پر خدا اُسکو حکم دیتا ہے کہ پیتل کا ایک سانپ بنا اور اُسے ایک سُولی پر لٹکا دے تاکہ جو سانپ کا ڈسا ہوا ہے اُس پر نظر کرے اور زندہ رہے۔ پیتل کا سانپ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یسوع کو بھی سُولی پر لٹکایا گیا تھا تاکہ ہم اُس پر ایمان لا کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکیں۔ (یوحنا ۳:۱۴، ۱۵) بنی اسرائیل اموریوں کے بادشاہوں سیحون اور عوج پر فتح پا کر اُنکے ملکوں کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱۲:۱—مریم اور ہارون موسیٰ کے خلاف کیوں بڑبڑانے لگے؟ موسیٰ کی بیوی صفورہ اپنے دیس کو چھوڑ کر اپنے شوہر کے پاس آ گئی تھی۔ شاید مریم کو ڈر تھا کہ صفورہ کی وجہ سے بنی اسرائیل میں اُسکا رُعب ختم ہو جائیگا۔—خروج ۱۸:۱-۵۔
۱۲:۹-۱۱—ہارون کیوں کوڑھی نہیں ہوا؟ غالباً شروع میں صرف مریم نے موسیٰ کے خلاف آواز اُٹھائی اور پھر بعد میں اُس نے ہارون کو بھی اُکسایا۔ اسکے علاوہ ہارون نے فوراً اپنا گناہ تسلیم کر لیا جس سے ظاہر ہوا کہ اُسکا دل صاف تھا۔
۲۱:۱۴، ۱۵—’یہوواہ کا جنگنامہ‘ کیا ہے؟ جن لوگوں نے بائبل لکھی انہوں نے اکثر دوسری کتابوں سے معلومات حاصل کی تھیں۔ (یشوع ۱۰:۱۲، ۱۳؛ ۱-سلاطین ۱۱:۴۱؛ ۱۴:۱۹، ۲۹) ’یہوواہ کا جنگنامہ‘ ایسی ایک کتاب ہے۔ اس میں یہوواہ کے لوگوں کی جنگوں کی تفصیل درج ہے۔
ہمارے لئے سبق:
۱۱:۲۷-۲۹۔ ہم موسیٰ کے نمونے سے سیکھ سکتے ہیں کہ جب کسی بھائی کو ایک استحقاق ملتا ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہئے۔ جب الداد اور میداد نبوت کرنے لگے تو موسیٰ اُن سے جلنے کی بجائے اُنکے ساتھ خوش ہوا۔
۱۲:۲، ۹، ۱۰؛ ۱۶:۱-۳، ۱۲-۱۴، ۳۱-۳۵، ۴۱، ۴۶-۵۰۔ جب یہوواہ کسی شخص کو اختیار دیتا ہے تو ہمیں اُسکا احترام کرنا چاہئے۔
۱۴:۲۴۔ اس بُری دُنیا کی آزمایشوں پر غالب آنے کیلئے ہمیں خود میں ”کچھ اَور ہی طبیعت“ پیدا کرنے کی ضرورت ہے یعنی ایک ایسا مزاج جو اس دُنیا سے فرق ہو۔
۱۵:۳۷-۴۱۔ اسرائیلیوں کو اپنے کپڑوں کے کناروں پر جھالر لگانے کا حکم دیا گیا۔ وہ اسلئے کہ انہیں ہمیشہ یاد رہے کہ خدا کی عبادت اور اُسکے حکموں پر عمل کرنے کیلئے اُنکو دوسری قوموں سے الگ رہنا پڑیگا۔ اسی طرح ہم بھی خدا کے معیاروں پر چلتے اور دُنیا سے الگ رہتے ہیں۔
موآب کے میدانوں پر
(گنتی ۲۲:۱–۳۶:۱۳)
جب بنی اسرائیل موآب کے میدانوں پر ڈیرا لگاتے ہیں تو موآبی اُنکی وجہ سے بہت خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ اسلئے موآبی بادشاہ بلق، بلعام کو پیسے دیتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل پر لعنت بھیجے۔ لیکن یہوواہ بلعام کو لعنت بھیجنے کی بجائے برکت دینے پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر بلعام موآبی اور مدیانی عورتوں کے ذریعے اسرائیلی آدمیوں کو بداخلاقی اور بُتپرستی کرنے پر ورغلاتا ہے۔ اسکے نتیجے میں یہوواہ وبا بھیج کر بنی اسرائیل میں سے ۰۰۰،۲۴ لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ وبا اُس وقت تھم جاتی ہے جب فینحاس بدکار اسرائیلیوں کو مار ڈالتا ہے۔
دوسری مردمشماری میں پتا چلتا ہے کہ جن اسرائیلیوں کو پہلی مردمشماری میں گنا گیا تھا اُن میں سے صرف وفادار جاسوس کالب اور یشوع زندہ رہے ہیں۔ خدا یشوع کو بنی اسرائیل کا اگلا رہنما بننے کیلئے مقرر کرتا ہے۔ اسکے بعد اسرائیلیوں کو قربانیاں دینے اور قسم کھانے کے سلسلے میں تفصیلات دی جاتی ہیں۔ پھر وہ بنیمدیان سے بدلہ لیتے ہیں۔ بنیجد، بنیروبن اور منسی کا آدھا قبیلہ یردن کے مشرق میں آباد ہو جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کو یردن پار کرنے اور ملکِمعود پر قبضہ کرنے کیلئے ہدایات دی جاتی ہیں۔ مُلک کی سرحد قائم کی جاتی ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ ہر قبیلے کی میراث قُرعہ سے مقرر کی جائے۔ لاویوں کو ۴۸ شہر دئے جاتے ہیں جن میں سے ۶ پناہ کے شہر مقرر کئے جاتے ہیں۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۲۲:۲۰-۲۲—بلعام نے یہوواہ کو غصہ کیوں دلایا؟ یہوواہ نے بلعام کو بنی اسرائیل پر لعنت بھیجنے سے منع کر دیا تھا۔ (گنتی ۲۲:۱۲) اسکے باوجود بلعام خدا کے لوگوں پر لعنت بھیجنے کیلئے بلق کے آدمیوں کیساتھ مل گیا۔ وہ اس بُرے کام کیلئے بلق سے انعام حاصل کرنا چاہتا تھا۔ (۲-پطرس ۲:۱۵، ۱۶؛ یہوداہ ۱۱) لیکن خدا نے بلعام کو لعنت کی بجائے برکت دینے پر مجبور کر دیا۔ لہٰذا بلعام نے بادشاہ بلق کو یہ تجویز پیش کی کہ مدیانی عورتیں اسرائیلی آدمیوں کو بداخلاقی کرنے پر اُکسائیں۔ (گنتی ۳۱:۱۵، ۱۶) بلعام کے اس لالچ نے آخرکار یہوواہ کو غصہ دلایا۔
۳۰:۶-۸—کیا ایک مسیحی شوہر اپنی بیوی کی منت یا عہد کو توڑ سکتا ہے؟ آج یہوواہ ہر شخص سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنے ہی وعدے پر پورا اُترے۔ مثال کے طور پر ہر مسیحی یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کرنے کا فیصلہ خود کرتا ہے۔ (گلتیوں ۶:۵) لہٰذا ایک شوہر کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی بیوی کی منت کو توڑے۔ لیکن ایک بیوی کو ایسی قسم بھی نہیں کھانی چاہئے جو خدا کے کلام کے خلاف ہو یا اُسکے شوہر کیلئے نقصاندہ ثابت ہو۔
ہمارے لئے سبق:
۲۵:۱۱۔ فینحاس نے خدا کو راضی کرنے کی غیرت کی کتنی عمدہ مثال قائم کی! اگر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایک مسیحی بداخلاقی میں مبتلا ہے تو ہم کلیسیا کے بزرگوں کو اس بات سے آگاہ کرینگے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی کلیسیا پاکصاف رہے۔
۳۵:۹-۲۹۔ جب ایک شخص کسی اَور کو بِلاارادہ مار ڈالتا تو اُس کو اپنا گھر چھوڑ کر کچھ دیر کے لئے پناہ کے شہر میں رہنا پڑتا تھا۔ اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک زندگی بیشقیمت ہے اور ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔
۳۵:۳۳۔ جو زمین کسی شخص کے بہائے ہوئے خون سے ناپاک ہو جاتی ہے اسے صرف قاتل کے خون کے کفارہ سے پاک کِیا جا سکتا ہے۔ اسلئے فردوس لانے سے پہلے یہوواہ زمین پر سے تمام شریروں کو ختم کر دیگا۔—امثال ۲:۲۱، ۲۲؛ دانیایل ۲:۴۴۔
خدا کا کلام مؤثر ہے
گنتی کی کتاب سے ہم یہ سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ ہمیں نہ صرف یہوواہ کا بلکہ ان اشخاص کا بھی احترام کرنا چاہئے جنہیں خدا نے مقرر کِیا ہے۔ اس اصول پر عمل کرنے سے ہم اپنی کلیسیاؤں میں اتحاد اور امن برقرار رکھ سکتے ہیں۔
گنتی کی کتاب سے ہم یہ بھی جان لیتے ہیں کہ ایک شخص کتنی جلد بڑبڑانے لگتا ہے یا پھر بداخلاقی یا بُتپرستی کے پھندے میں پھنس سکتا ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی روحانیت کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہئے۔ شاید یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر، خاص طور پر خدمتی اجلاس پر، مقامی ضروریات کے مطابق گنتی کی کتاب میں سے کچھ مثالوں پر غور کِیا جا سکتا ہے۔ جیہاں، ”خدا کا کلام زندہ اور مؤثر“ ہے۔—عبرانیوں ۴:۱۲۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
خیمۂاجتماع پر ایک بادل رہتا تھا جسکے ذریعے یہوواہ نے ظاہر کِیا کہ بنی اسرائیل کو کہاں کہاں ڈیرا لگانا ہے اور وہاں سے کب روانہ ہونا ہے
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُسکے فرمانبردار رہیں اور اُسکے نمائندوں کا احترام کریں