آپ اپنے بچوں کیلئے کیسی میراث چھوڑتے ہیں؟
آپ اپنے بچوں کیلئے کیسی میراث چھوڑتے ہیں؟
جنوبی یورپ سے ایک خاندان کے سربراہ پاولس کو اپنی بیوی اور بچوں—۱۳ اور ۱۱ سالہ دو بیٹیوں اور ۷ سالہ بیٹے کیساتھ گھر پر وقت گزارنے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔ ہفتے میں سات دن پاولس دو شفٹوں میں دیر تک کام کرتا ہے تاکہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے کافی زیادہ پیسہ کما سکے۔ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کیلئے ایک ایک اپارٹمنٹ خریدنا چاہتا ہے اور اپنے بیٹے کیلئے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے۔ اُسکی بیوی صوفیہ گھر کیلئے طرح طرح کے برتن اور کپڑے جمع کرنے کیلئے سخت محنت کرتی ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں تو اُنہوں نے متفقہ طور پر جواب دیا، ”اپنے بچوں کیلئے کرتے ہیں!“
پاولس اور صوفیہ کی طرح، دُنیا بھر میں بہتیرے والدین اپنے بچوں کی
زندگی کا آغاز بہترین چیزوں کیساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ بعض بچوں کے مستقبل کیلئے پیسہ جمع کرتے ہیں۔ دیگر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے اور ایسا ہنر سکھانے کیلئے فکرمند ہوتے ہیں جو بعد میں اُنکی زندگی میں کام آئیگا۔ اگرچہ بہتیرے والدین ایسی چیزوں کو اپنے بچوں کیلئے میراث اور محبت کا اظہار خیال کرتے ہیں، تاہم اکثر والدین ایسی سہولیات فراہم کرنے کے سلسلے میں رشتہداروں، دوستوں اور اپنے حلقہاحباب کی توقعات پر پورا اُترنے کیلئے بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پس والدین خود سے یہ پوچھ کر اچھا کرتے ہیں کہ، ’ہمیں اپنے بچوں کیلئے کیا کچھ چھوڑنا چاہئے؟‘مستقبل کیلئے بندوبست کرنا
مسیحی والدین کے لئے اپنے بچوں کو سہولیات فراہم کرنا نہ صرف فطری بلکہ صحیفائی تقاضا ہے۔ پولس رسول نے اپنے زمانے کے مسیحیوں سے کہا: ”لڑکوں کو ماں باپ کے لئے جمع کرنا نہیں چاہئے بلکہ ماں باپ کو لڑکوں کے لئے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۱۴) پولس نے مزید بیان کِیا کہ والدین کے طور پر اپنی ذمہداری کو پورا کرنا ایک سنجیدہ فریضہ ہے۔ اُس نے لکھا: ”اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بے ایمان سے بدتر ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۸) بائبل میں بیشمار سرگزشتیں بیان کرتی ہیں کہ بائبل وقتوں میں بھی خدا کے خادموں کے درمیان میراث سے متعلق معاملات بڑی اہمیت کے حامل تھے۔—روت ۲:۱۹، ۲۰؛ ۳:۹-۱۳؛ ۴:۱-۲۲؛ ایوب ۴۲:۱۵۔
تاہم، بعضاوقات والدین اپنے بچوں کے لئے بڑی میراث فراہم کرنے کیلئے خود کو حد سے زیادہ مصروف کر لیتے ہیں۔ مگر کیوں؟ جنوبی یورپ سے ریاستہائےمتحدہ میں نقلمکانی کرنے والا ایک باپ مانولس اسکی ایک وجہ بیان کرتا ہے: ”وہ والدین جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران غربتوافلاس کا سامنا کِیا ہے وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کیلئے پُرعزم ہیں۔“ وہ مزید بیان کرتا ہے: ”اپنی ذمہداری کی بابت
فکرمند ہوتے ہوئے اور اپنے بچوں کو ایک بہتر زندگی دینے کی خواہش کیساتھ والدین بعضاوقات خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔“ بعض والدین اپنے بچوں کو مادی اشیا فراہم کرنے کیلئے خود کو زندگی کی ضروریات سے محروم رکھتے یا کٹھن زندگی گزارتے ہیں۔ مگر کیا والدین کے لئے ایسی روش اختیار کرنا دانشمندی ہے؟”بطلان اور بلایِعظیم“
قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے میراث چھوڑنے کی بابت آگاہ کِیا۔ اُس نے لکھا: ”بلکہ مَیں اپنی ساری محنت سے جو دُنیا میں کی تھی بیزار ہؤا کیونکہ ضرور ہے کہ مَیں اُسے اُس آدمی کیلئے جو میرے بعد آئیگا چھوڑ جاؤں۔ اور کون جانتا ہے کہ وہ دانشور ہوگا یا احمق؟ بہرحال وہ میری ساری محنت کے کام پر جو مَیں نے کِیا اور جس میں مَیں نے دُنیا میں اپنی حکمت ظاہر کی ضابط ہوگا۔ یہ بھی بطلان ہے۔ . . . کیونکہ ایسا شخص بھی ہے جسکے کام حکمت اور دانائی اور کامیابی کیساتھ ہیں لیکن وہ اُنکو دوسرے آدمی کیلئے جس نے اُن میں کچھ محنت نہیں کی اُسکی میراث کے لئے چھوڑ جائیگا۔ یہ بھی بطلان اور بلایِعظیم ہے۔“—واعظ ۲:۱۸-۲۱۔
جیسے سلیمان بیان کرتا ہے، میراث حاصل کرنے والے شاید اسلئے اسکی قدر نہ کر سکیں کیونکہ اُنہوں نے خود اس کیلئے محنت نہیں کی ہے۔ نتیجتاً، والدین نے سخت محنت کیساتھ اپنے بچوں کیلئے جوکچھ جمع کِیا ہے وہ اُسے اپنی حماقت سے اُڑا سکتے ہیں۔ وہ شاید ایسی محنت کی کمائی کو فضول خرچ کر دیں۔ (لوقا ۱۵:۱۱-۱۶) یہ کیسی ”بطلان اور بلایِعظیم“ ہوگی!
میراث اور لالچ
والدین کو ایک اَور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے۔ ایسے معاشرے میں جو میراث اور شادی کیلئے تحفےتحائف کی بابت بہت زیادہ فکرمند ہے بچے لالچی ہو سکتے ہیں اور اپنے والدین سے اُنکی حیثیت سے بڑھ کر املاک یا جہیز کا تقاضا کر سکتے ہیں۔ یونان سے ایک باپ لوقاس کہتا ہے: ”اُس باپ پر افسوس جسکی دو یا تین بیٹیاں ہیں۔ کیونکہ بیٹیاں موازنہ کرتی ہیں کہ اُنکا باپ اُنہیں کیا دینے کے قابل ہے اور دوسرے والدین نے اپنے بچوں کیلئے کیا کچھ جمع کر رکھا ہے۔ وہ یہ کہہ سکتی ہیں کہ اگر اُنہیں مناسب جہیز نہیں دیا جاتا تو انکی شادی کا امکان بہت کم ہے۔“
مانولس جسکا پہلے ذکر کِیا گیا، بیان کرتا ہے: ”ایک نوجوان اُس وقت تک شادی میں تاخیر کر سکتا ہے جبتک اُسے اس بات کا یقین نہیں ہو جاتا کہ دُلہن اُس کیلئے جائیداد یا روپےپیسے کی صورت میں کیا کچھ لائیگی۔ بعضاوقات یہ ناجائز دباؤ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔“
بائبل ہر قسم کے لالچ کے خلاف آگاہ کرتی ہے۔ سلیمان نے تحریر کِیا: ”اگرچہ ابتدا میں میراث یکلخت حاصل ہو تو بھی اُسکا امثال ۲۰:۲۱) پولس رسول نے تاکید کی تھی: ”زر کی دوستی ہر قسم کی برائی کی جڑ ہے“—۱-تیمتھیس ۶:۱۰؛ افسیوں ۵:۵۔
انجام مبارک نہ ہوگا۔“ (”حکمت خوبی میں میراث کے برابر ہے“
سچ ہے کہ میراث کی اپنی ایک اہمیت ہے مگر حکمت مادی اشیا سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ سلیمان بادشاہ نے تحریر کِیا: ”حکمت خوبی میں میراث کے برابر ہے اور . . . زیادہ سودمند ہے۔ کیونکہ حکمت ویسی ہی پناہگاہ ہے جیسے روپیہ لیکن علم کی خاص خوبی یہ ہے کہ حکمت صاحبِحکمت کی جان کی محافظ ہے۔“ (واعظ ۷:۱۱، ۱۲؛ امثال ۲:۷؛ ۳:۲۱) اگرچہ دولت کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے اور اپنے مالک کی تمام ضروریات پوری کرنے کے قابل ہے توبھی یہ کبھی بھی ہاتھ سے جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس، حکمت—مسائل حل کرنے یا مخصوص نشانے حاصل کرنے کے لئے علم کو استعمال کرنے کی لیاقت—ایک شخص کو احمقانہ خطرات مول لینے سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جب حکمت خدائی خوف پر مبنی ہوتی ہے تو یہ بہت جلد آنے والے خدا کے نئے نظام میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے جوکہ واقعی ایک قیمتی میراث ہے!—۲-پطرس ۳:۱۳۔
مسیحی والدین اپنے اور اپنے بچوں کے لئے مناسب ترجیحات قائم کرنے سے ایسی حکمت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ (فلپیوں ۱:۱۰) بچوں کے استعمال کیلئے جمع کی جانے والی مادی چیزوں کو روحانی معاملات پر ترجیح نہیں دی جانی چاہئے۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کی حوصلہافزائی کی تھی: ”بلکہ تُم پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائینگی۔“ (متی ۶:۳۳) جو والدین اپنے خاندان کیلئے روحانی نشانے قائم کرتے ہیں وہ بہت زیادہ برکات حاصل کرنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”صادق کا باپ نہایت خوش ہوگا اور دانشمند کا باپ اُس سے شادمانی کریگا۔ اپنے ماں باپ کو خوش کر۔ اپنی والدہ کو شادمان رکھ۔“—امثال ۲۳:۲۴، ۲۵۔
ایک دائمی میراث
قدیم اسرائیلیوں میں میراث بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ (۱-سلاطین ۲۱:۲-۶) تاہم یہوواہ نے اُنہیں نصیحت کی تھی: ”یہ باتیں جنکا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔ اور تُو انکو اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت انکا ذکر کِیا کرنا۔“ (استثنا ۶:۶، ۷) اسی طرح مسیحی والدین کو بھی حکم دیا گیا ہے: ”[یہوواہ] کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر انکی [اپنے بچوں کی] پرورش کرو۔“—افسیوں ۶:۴۔
روحانی ذہنیت کے مالک والدین سمجھتے ہیں کہ اپنے گھرانے کیلئے فراہم کرنے میں بائبل تعلیم دینا بھی شامل ہے۔ تین بچوں کا باپ اندریاس بیان کرتا ہے: ”اگر بچے اپنی زندگیوں میں خدائی اُصولوں کا اطلاق کرنا سیکھ جاتے ہیں تو وہ مستقبل کیلئے بہتر طور پر لیس ہونگے۔“ ایسی میراث اُنہیں خالق کیساتھ ذاتی رشتہ پیدا کرنے اور اُسے قائم رکھنے میں بھی مدد دیگی۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۹۔
کیا آپ نے کبھی اپنے بچے کو روحانی مستقبل دینے کی بابت سوچا ہے؟ مثال کے طور پر، اگر بچہ کُلوقتی خدمت شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو والدین اُس کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ اگرچہ ایک کُل وقتی خادم کو مالی امداد کی توقع یا تقاضا نہیں کرنا چاہئے توبھی شفیق والدین اُس کی ’احتیاجیں رفع‘ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں تاکہ کُلوقتی خدمت کو جاری رکھنے میں اُس کی مدد ہو سکے۔ (رومیوں ۱۲:۱۳؛ ۱-سموئیل ۲:۱۸-۱۹؛ فلپیوں ۴:۱۴-۱۸) ایسا حمایتی میلان یقیناً یہوواہ کو پسند آئے گا۔
پس والدین کو اپنے بچوں کے لئے کیسی میراث چھوڑنی چاہئے؟ اُنکی مادی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ، مسیحی والدین اس بات کو بھی یقینی بنائینگے کہ اُنکے بچے روحانی میراث حاصل کریں جو اُنہیں ہمیشہ فائدہ پہنچائیگی۔ اسطرح، اُنکے سلسلے میں زبور ۳۷:۱۸ کے الفاظ سچ ثابت ہونگے: ”کامل لوگوں کے ایّام کو [یہوواہ] جانتا ہے۔ اُنکی میراث ہمیشہ کیلئے ہوگی۔“
[صفحہ ۲۷، ۲۶ پر تصویریں]
آپ اپنے بچوں کی بابت کیسے مستقبل کے خواہاں ہیں؟