’خداوند میں مضبوط بنیں‘
’خداوند میں مضبوط بنیں‘
”غرض خداوند میں اور اُسکی قدرت کے زور میں مضبوط بنو۔“—افسیوں ۶:۱۰۔
۱. (ا) تقریباً ۰۰۰،۳ سال پہلے میدانِجنگ پر کونسا واقعہ پیش آیا؟ (ب) داؤد فلستی پہلوان پر کیوں غالب آیا؟
یہ کوئی ۰۰۰،۳ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میدانِجنگ میں دو آدمی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کو کھڑے ہیں۔ ان میں سے ایک تو محض لڑکا ہی ہے جسکا نام داؤد ہے اور جو پیشے کے اعتبار سے چرواہا ہے جبکہ دوسرا جولیت نامی ایک نہایت قدآور اور طاقتور پہلوان ہے۔ اس پہلوان نے پیتل کا جو بکتر پہن رکھا ہے اُسکا وزن تقریباً ۱۲۵ پاؤنڈ [۵۷ کلوگرام] ہے۔ اسکے پاس ایک بہت ہی بڑا نیزہ اور ایک لمبی تلوار ہے۔ اسکے برعکس داؤد نے سادہ سے کپڑے پہن رکھے ہیں اور ایک فلاخن کے علاوہ اسکے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ فلستی پہلوان جولیت نے سوچا تھا کہ اسرائیل کے لشکر میں سے ایک پہلوان اُسکا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہوگا۔ لہٰذا ایک لڑکے کو اپنے مقابلے میں کھڑا دیکھ کر وہ اسے اپنی توہین سمجھتا ہے۔ (۱-سموئیل ۱۷:۴۲-۴۴) میدانِجنگ میں موجود سپاہیوں نے سوچا ہوگا کہ اس مقابلے میں جیت پہلوان ہی کی ہوگی۔ لیکن ضروری نہیں کہ جنگ میں فتح ہمیشہ زورآور کی ہو۔ (واعظ ۹:۱۱) داؤد کو اسلئے فتح حاصل ہوئی کیونکہ اُس نے یہوواہ خدا پر آس لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ”جنگ تو [یہوواہ] کی ہے۔“ لہٰذا بائبل میں لکھا ہے کہ ”داؔؤد اُس فلاخن اور ایک پتھر سے اُس فلستی پر غالب آیا۔“—۱-سموئیل ۱۷:۴۷، ۵۰۔
۲. مسیحی کن دُشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں؟
۲ مسیحی کسی کے خلاف جنگ نہیں کرتے بلکہ سب کیساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ (رومیوں ۱۲:۱۸) لیکن وہ روحانی طور پر بڑے زورآور دُشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پولس رسول نے افسیوں کی کلیسیا کے نام اپنے خط کے آخری باب میں ان دُشمنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ”ہمیں خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکومت والوں اور اختیار والوں اور اس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی ان روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔“—افسیوں ۶:۱۲۔
۳. افسیوں ۶:۱۰ کے مطابق ہم فتح کسطرح حاصل کر سکتے ہیں؟
۳ ’شرارت کی یہ روحانی فوجیں‘ دراصل شیطان اور اُسکے شیاطین ہیں جو ہمیں یہوواہ خدا سے دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ روحانی مخلوقات ہم سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اسلئے ہمیں بھی انکا مقابلہ کرنے کیلئے داؤد کی طرح یہوواہ پر آس لگانی چاہئے۔ پولس ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ”غرض خداوند میں اور اسکی قدرت کے زور میں مضبوط بنو۔“ (افسیوں ۶:۱۰) اسکے بعد پولس بتاتا ہے کہ خدا ہمیں کن طریقوں سے طاقت بخشتا ہے اور یہ بھی کہ ہمیں اس مقابلے میں فتح حاصل کرنے کیلئے کونسی خوبیاں پیدا کرنی پڑینگی۔—افسیوں ۶:۱۱-۱۷۔
۴. اس مضمون میں ہم کن دو اہم نکات پر غور کرینگے؟
۴ آئیں اب ہم دو اہم نکات پر غور کریں۔ پہلا یہ کہ صحائف ہمارے دُشمن شیطان کی قوت اور جنگ کرنے کے طریقوں کی بابت کیا بیان کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم اپنا دفاع کسطرح کر سکتے ہیں۔ اگر ہم یہوواہ کی ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں تو ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہم اپنے دُشمنوں پر ضرور غالب آئینگے۔
شرارت کی روحانی فوجوں سے کشتی
۵. افسیوں ۶:۱۲ میں لفظ ”کشتی“ کے استعمال سے ہم کونسا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟
۵ پولس وضاحت کرتا ہے کہ ’ہمیں شرارت کی ان روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں کشتی کرنا ہے۔‘ شیطان ان روحانی فوجوں کا سردار ہے کیونکہ اُسے بائبل میں ”بدرُوحوں کے سردار“ کا لقب دیا گیا ہے۔ (متی ۱۲:۲۴-۲۶) مگر پولس رسول اس آیت میں ہماری لڑائی یا مقابلے کیلئے لفظ ”کشتی“ کیوں استعمال کرتا ہے؟ پولس کے زمانے میں جب دو یونانی پہلوان ایک دوسرے کیساتھ کشتی کرتے تھے تو وہ کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کو گِرا دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی طرح شیطان ہمیں روحانی طور پر گِرانا چاہتا ہے۔ وہ کن طریقوں سے ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے؟
۶. صحائف سے بیان کریں کہ شیطان کیسے مختلف طریقوں سے ہمارے ایمان کو کمزور کر سکتا ہے۔
۶ شیطان کبھی سانپ، کبھی گرجنے والے ببرشیر اور کبھی نورانی فرشتہ کا بھیس بدل سکتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۳، ۱۴؛ ۱-پطرس ۵:۸) وہ ہمیں اذیت دینے یا بےحوصلہ کرنے کیلئے انسانوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ (مکاشفہ ۲:۱۰) چونکہ ساری دُنیا شیطان کے قبضہ میں ہے اسلئے وہ ہمیں ورغلانے کیلئے اسکا بھرپور استعمال کرتا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۲:۲۶؛ ۱-یوحنا ۲:۱۶؛ ۵:۱۹) جسطرح شیطان نے باغِعدن میں حوا کو بہکایا اسی طرح وہ دُنیاوی یا برگشتہ سوچ کے ذریعے ہمیں بھی گمراہ کر سکتا ہے۔—۱-تیمتھیس ۲:۱۴۔
۷. شیطان ہمیں کیا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا اور کیوں؟
۷ لیکن شیطان ہمیں بہکانے کیلئے جو بھی طریقہ استعمال کرتا ہے ہم اُس پر غالب آ سکتے ہیں۔ شیطان ہمیں بدی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ اسکی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمیں اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کی صلاحیت کیساتھ خلق کِیا گیا ہے اور ہمیں اپنے خیالات اور افعال پر اختیار حاصل ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم تنہا اسکا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ الیشع نبی نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ ”ہمارے ساتھ والے اُنکے ساتھ والوں سے زیادہ ہیں“ اور یہی بات ہمارے معاملے میں بھی سچ ہے۔ (۲-سلاطین ۶:۱۶) بائبل میں ہمیں یقین دلایا جاتا ہے کہ اگر ہم ابلیس کا مقابلہ کرینگے تو وہ ہم سے بھاگ جائیگا۔—یعقوب ۴:۷۔
شیطان کے پھندے
۸، ۹. شیطان نے ایوب کو کن طریقوں سے اذیت پہنچائی اور مسیحیوں کو آج کن روحانی خطرات کا سامنا ہے؟
۸ خدا کے کلام میں شیطان کے پھندوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کِیا گیا ہے، لہٰذا ہم ان سے بےخبر نہیں ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۲:۱۱) اس سلسلے میں ذرا ایوب کی مثال پر غور کیجئے۔ شیطان نے ایوب کو اذیت پہنچانے کیلئے اُسے سخت غریبی میں مبتلا کِیا، اُسکے بچوں کو مار ڈالا، اُسے جسمانی تکلیف دی اور اُسکے خاندان اور جھوٹے دوستوں کے ذریعے اُسکی ملامت بھی کی۔ ایوب ان اذیتوں کو سہتے سہتے اپنی زندگی سے بیزار ہو گیا۔ اُسے یوں لگا جیسے خدا اُس سے خفا ہو گیا ہے۔ (ایوب ۱۰:۱، ۲) آجکل بھی مسیحیوں کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ براہِراست شیطان کی طرف سے نہ ہوں لیکن جب مسیحی ان مشکلات کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں تو اِبلیس اس صورتحال کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔
۹ اس اخیر زمانے میں مسیحیوں کو اپنی روحانیت برقرار رکھنے میں بہت زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں دولت کمانا اور آرامدہ زندگی گزارنا خدا کو خوش کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اخبارات اور ٹیلیویژن وغیرہ میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنی ناجائز جنسی خواہشات کو پورا کرنے سے حقیقی خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور زیادہتر لوگ ”خدا کی نسبت عیشوعشرت کو دوست رکھنے والے“ بن گئے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) ایسی سوچ ہمیں خدا سے دُور کر سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ”اِیمان کے واسطے جانفشانی“ کرنے کی ضرورت ہے۔—یہوداہ ۳۔
۱۰-۱۲. (ا) بیج بونے والے کی تمثیل میں یسوع نے ہمیں کس خطرے سے آگاہ کِیا تھا؟ (ب) بیل کی مثال سے ظاہر کریں کہ ہماری روحانیت کسطرح کچلی جا سکتی ہے۔
۱۰ شیطان ہمیں دولت کی دھن اور دُنیاوی مشغلوں میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس میں بڑا کامیاب بھی رہا ہے۔ اس وجہ سے یسوع نے بیج بونے والے کی تمثیل میں ہمیں آگاہ کِیا کہ ”دُنیا کی فکر اور دولت کا فریب [بادشاہت کے] کلام کو دبا دیتا ہے۔“ (متی ۱۳:۱۸، ۲۲) اظہار ”دبا دیتا“ ایک ایسے یونانی لفظ کا ترجمہ ہے جسکا مطلب ہے ”بالکل ختم کر دینا“ یا ”کچل دینا۔“
۱۱ کئی جنگلات میں ایک ایسی بیل پائی جاتی ہے جو درخت کے تنے سے لپٹ کر آہستہ آہستہ سے اُگتی ہے۔ اس دوران بیل کی جڑیں زور پکڑتی ہیں اور درخت کے گِرد زمین میں پائی جانے والی تمام معدنیات کو چوس لیتی ہیں۔ بیل کے پتے اتنے گھنے ہو جاتے ہیں کہ درخت کو روشنی تک نہیں پہنچتی اور آخرکار وہ مر جاتا ہے۔
۱۲ اسی طرح اس دُنیا کی فکریں اور مالودولت حاصل کرنے اور آرامدہ زندگی گزارنے کی خواہش آہستہ آہستہ ہمارے زیادہ سے زیادہ وقت اور ہماری قوت کو چوس سکتی ہے۔ ہم ان دُنیاوی باتوں میں اتنے مشغول ہو جاتے ہیں کہ روحانی باتوں کیلئے کم ہی وقت بچتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہم بائبل کا مطالعہ کرنا اور باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونا چھوڑ دیتے ہیں اور اس وجہ سے ہماری روحانی توانائی کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارا پورا دھیان دُنیاوی چیزوں پر رہنے لگتا ہے اور آخرکار ہم آسانی سے شیطان کا شکار بن جاتے ہیں۔
مضبوطی سے قائم رہیں
۱۳، ۱۴. ہم شیطان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۳ پولس مسیحیوں کو ’ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہنے‘ کی تاکید کرتا ہے۔ (افسیوں ۶:۱۱) یقیناً، ہم شیطان اور اُسکے شیاطین کو ختم نہیں کر سکتے۔ خدا نے یہ کام یسوع مسیح کو سونپا ہے۔ (مکاشفہ ۲۰:۱، ۲) لیکن جبتک یسوع شیطان کو ختم نہیں کر دیتا اُس وقت تک ہمیں ’قائم رہنے‘ کی ازحد ضرورت ہے تاکہ ہم شیطان کا شکار نہ بن جائیں۔
۱۴ پطرس رسول نے بھی ہمیں شیطان کے مقابلے میں قائم رہنے ۱-پطرس ۵:۸، ۹) جیہاں، شیطان ایک گرجنے والے شیرببر کی طرح ہم پر حملہ کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں قائم رہنے کیلئے ہمیں اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے سہارے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
کی تاکید کی۔ اُس نے لکھا کہ ”تُم ہوشیار اور بیدار رہو۔ تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔ تُم ایمان میں مضبوط ہو کر اور یہ جان کر اُسکا مقابلہ کرو کہ تمہارے بھائی جو دُنیا میں ہیں ایسے ہی دُکھ اٹھا رہے ہیں۔“ (۱۵، ۱۶. صحائف سے ایک مثال دے کر بتائیں کہ مسیحی بہنبھائی ہمیں قائم رہنے میں کیسے سہارا دیتے ہیں۔
۱۵ جب افریقہ کے صحراؤں میں ایک بھوکا شیر گرجتا ہے تو ہرن بڑی تیزی سے خطرے کی جگہ سے دُور بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن ہاتھی دوڑنے کی بجائے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا عمدہ نمونہ فراہم کرتے ہیں۔ کتاب ایشیا اور افریقہ کے نرمدل دیو (انگریزی) میں لکھا ہے کہ ”خطرے کے وقت تمام ہاتھی اپنی پشتیں ملا کر دائرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسطرح انکے بچے دائرے کے اندر محفوظ رہتے ہیں جبکہ وہ خود دُشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔“ ہاتھیوں کا ایکا اور اُنکی طاقت کو دیکھ کر شیر اُن پر حملہ کرنے سے خبردار رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھی کے بچوں پر بھی کم ہی حملہ کرتا ہے۔
۱۶ اسی طرح جب شیطان اپنے شیاطین سمیت ہم پر حملہآور ہوتا ہے تو ہمیں بھی اپنے مسیحی بھائیوں کیساتھ شانہبہشانہ مل کر اُسکا مقابلہ کرنا چاہئے۔ پولس رسول نے اس بات کو تسلیم کِیا کہ جب وہ روم میں قید تھا تو کچھ مسیحی اُسکی ”تسلی کا باعث“ بنے تھے۔ (کلسیوں ۴:۱۰، ۱۱) جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”تسلی کا باعث“ کِیا گیا ہے وہ بائبل کے یونانی صحائف میں صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ایک لغت کے مطابق یہ لفظ ”ایک ایسی دوا کی طرف اشارہ کرتا ہے جو خارِش، جلن یا درد کو کم کرتی ہے۔“ (وائن کی ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف نیو ٹسٹامنٹ ورڈز) جب ہم کسی جسمانی یا جذباتی تکلیف میں ہوتے ہیں تو پُختہ مسیحی بہنبھائی دوا کی مانند ہماری تکلیف کو کم کر سکتے ہیں۔
۱۷. ہم خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟
۱۷ ہمارے مسیحی بہنبھائی اور خاص طور پر کلیسیا کے بزرگ ہمیں خدا کے وفادار رہنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ (یعقوب ۵:۱۳-۱۵) اسکے علاوہ باقاعدگی سے بائبل پر غور کرنا اور مسیحی اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں پر حاضر ہونے سے بھی ہم خدا کے وفادار رہ سکیں گے۔ خدا کیساتھ ہمارا قریبی رشتہ بھی ہمیں ایسا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جیہاں، چاہے ہم کھا رہے ہوں یا پی رہے ہوں یا کچھ بھی کر رہے ہوں ہمیں ہمیشہ خدا کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱) اور ان تمام باتوں کے علاوہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کے وفادار رہنے میں دُعا بہت ہی اہم ہوتی ہے۔—زبور ۳۷:۵۔
۱۸. ہمیں مسائل اور مصیبتوں کا سامنا کرتے وقت ہمت کیوں نہیں ہارنی چاہئے؟
۱۸ شیرببر عموماً کسی کمزور جانور ہی کا شکار کرتا ہے۔ شیطان بھی ہم پر اُس وقت حملہ کرتا ہے جب ہم روحانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم خاندانی مسائل، معاشی مشکلات یا بیماری کی وجہ سے بےدل ہو گئے ہوں۔ لیکن ہمیں نیک کام کرنے میں ہمت نہیں ہارنی چاہئے کیونکہ پولس رسول نے کہا کہ ”جب مَیں کمزور ہوتا ہوں اُسی وقت زورآور ہوتا ہوں۔“ ۲-کرنتھیوں ۱۲:۱۰؛ گلتیوں ۶:۹؛ ۲-تھسلنیکیوں ۳:۱۳) وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ دراصل پولس کہہ رہا تھا کہ جب ہم خدا سے مدد مانگتے ہیں تو وہ ہمیں ہماری کمزوریوں پر غالب آنے کیلئے طاقت بخش سکتا ہے۔ جیسا کہ آپکو یاد ہوگا داؤد نے فلستی پہلوان جولیت پر فتح حاصل کی تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا اپنے بندوں کی مدد کرنے کی نہ صرف خواہش رکھتا ہے بلکہ ایسا کرتا بھی ہے۔ جدید زمانے کے یہوواہ کے گواہوں نے بھی سخت مصیبت کے وقت خدا کی طاقت محسوس کی ہے۔—دانیایل ۱۰:۱۹۔
(۱۹. ایک ایسی مثال بیان کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو طاقت بخشتا ہے۔
۱۹ ایک شادیشُدہ جوڑے نے اپنی زندگی میں اکثر خدا کی طاقت کو محسوس کِیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”ہم دونوں میاںبیوی کئی سالوں سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے آ رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران ہم نے بےتحاشا برکتیں پائی ہیں اور بہت سے دوست بنائے ہیں۔ یہوواہ نے ہمیں نہ صرف مشکل حالات میں صبر سے کام لینا سکھایا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیں سہارا بھی دیتا رہا ہے۔ اکثر ہم نہیں جانتے تھے کہ جوکچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے لیکن ہم یہ ضرور جانتے تھے کہ یہوواہ خدا ہمیشہ ہماری مدد کرنے کو تیار ہے۔“
۲۰. صحائف سے ظاہر کریں کہ یہوواہ ہمیشہ اپنے خادموں کی مدد کرتا ہے۔
۲۰ یہوواہ کا ہاتھ چھوٹا نہیں کہ وہ اپنے وفادار خادموں کو طاقت نہ بخش سکے۔ (یسعیاہ ۵۹:۱) زبورنویس داؤد نے ایک موقع پر یوں گایا: ”[یہوواہ] گِرتے ہوئے کو سنبھالتا اور جھکے ہوئے کو اُٹھا کھڑا کرتا ہے۔“ (زبور ۱۴۵:۱۴) جیہاں، ہمارا آسمانی باپ ”ہر روز ہمارا بوجھ اُٹھاتا“ اور ہماری ضروریات پوری کرتا ہے۔—زبور ۶۸:۱۹۔
”خدا کے سب ہتھیار باندھ لو“
۲۱. پولس نے خدا کے سب ہتھیار باندھنے کی اہمیت کو کیسے واضح کِیا؟
۲۱ ہم شیطان کے کچھ ایسے طریقوں پر غور کر چکے ہیں جنکے ذریعے وہ ہمیں اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ ہمیں مضبوطی سے قائم رہ کر اسکے حملوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اب ہم دیکھینگے کہ ہم اپنے ایمان کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پولس رسول نے افسیوں کی کلیسیا کو خط لکھتے ہوئے دو مرتبہ ایک ایسی چیز کا ذکر کِیا جسکے بغیر ہم شیطان اور شیاطین کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پولس لکھتا ہے: ”خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ تُم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔ . . . اس واسطے تُم خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ بُرے دن میں مقابلہ کر سکو اور سب کاموں کو انجام دیکر قائم رہ سکو۔“—افسیوں ۶:۱۱، ۱۳۔
۲۲، ۲۳. (ا) خدا کے سب ہتھیاروں میں کیا کچھ شامل ہے؟ (ب) ہم اگلے مضمون میں کن باتوں پر غور کرینگے؟
۲۲ جیہاں، ہمیں ’خدا کے سب ہتھیار باندھنے‘ چاہئیں۔ جب پولس نے افسیوں کی کلیسیا کو یہ خط لکھا تھا تو وہ روم میں قید تھا اور روزانہ کوئی نہ کوئی سنتری اُسکے پاس کھڑا پہرہ دیتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سنتری
کبھیکبھار اپنے تمام جنگی ہتھیاروں سے لیس ہوتا ہوگا۔ پولس نے خدا کے الہام سے ان ہتھیاروں کی تشبیہ دیتے ہوئے ظاہر کِیا کہ خدا کے خادموں کو روحانی ہتھیار پہننے کی ازحد ضرورت ہے۔۲۳ خدا کے ان ہتھیاروں میں ایسی خوبیاں شامل ہیں جنہیں ایک مسیحی کو پیدا کرنا چاہئے۔ اسکے علاوہ ان میں وہ تمام طریقے بھی شامل ہیں جن سے یہوواہ اپنے خادموں کو روحانی قوت بخشتا ہے۔ اگلے مضمون میں ہم ان روحانی ہتھیاروں میں سے ہر ایک پر غور کرینگے۔ ایسا کرنے سے ہم اندازہ لگا سکیں گے کہ ہم کس حد تک شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اسکے علاوہ ہم یسوع کی مثال پر بھی غور کرینگے تاکہ ہم اُسکی طرح شیطان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہ سکیں۔
آپکا کیا جواب ہوگا؟
• تمام مسیحی کن زورآور دُشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں؟
• شیطان کے کچھ پھندوں کا ذکر کریں۔
• مسیحی بہنبھائی ہمیں قائم رہنے میں کیسے سہارا دیتے ہیں؟
• ہمیں کس کی طاقت پر آس لگانی چاہئے اور کیوں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۱ پر تصویریں]
مسیحی ’شرارت کی روحانی فوجوں سے کشتی‘ کر رہے ہیں
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
دُنیا کی فکر بادشاہت کے کلام کو دبا سکتی ہے
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
ہمارے مسیحی بہنبھائی ہمارے لئے ”تسلی کا باعث“ بن سکتے ہیں
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
کیا آپ خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آپکو طاقت دے؟