ایک بُتپرست شہر میں سچے خدا کی پرستش
ایک بُتپرست شہر میں سچے خدا کی پرستش
قدیم شہر افسس کے کھنڈرات ترکی کے مغربی ساحل پر واقع ہیں۔ یہاں تقریباً ایک صدی سے سائنسدانوں کی تحقیق جاری ہے۔ کھنڈرات کی بہت سی عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کِیا گیا ہے تاکہ یہ دریافت کِیا جا سکے کہ پُرانے زمانے کا افسس کیسا تھا۔ اس وجہ سے بہت سے سیاح دُوردراز ملکوں سے افسس کے کھنڈرات کو دیکھنے آتے ہیں۔
سائنسدانوں نے افسس کے بارے میں کیا دریافت کِیا ہے؟ اس پُرانے شہر میں لوگوں کی زندگی کیسے گزرتی تھی؟ ان سوالات کا جواب دینے کیلئے آئیں ہم افسس کے کھنڈرات کے علاوہ ملک آسٹریا کے شہر وئینا میں واقع مشہور ’افسس میوزیم‘ کی سیر کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم سمجھ جائینگے کہ بُتوں کی پرستش کے اس مرکز میں خدا کے سچے پرستاروں کیلئے جینا کتنا مشکل تھا۔ لیکن سب سے پہلے ہم افسس کی تاریخ پر غور کرینگے۔
تاریخی پسمنظر
تقریباً ۰۰۰،۳ سال پہلے کی بات ہے کہ یورپ میں جگہ جگہ جنگ ہو رہی تھی۔ اس وجہ سے یونان کے چند باشندے اپنا وطن چھوڑ کر ایشیائےکوچک کے مغربی ساحل پر آباد ہو گئے۔ ایشائےکوچک کے باشندے دیویماتا سیبلی کی پوجا کرتے تھے۔ لہٰذا وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یونانی بھی اس دیویماتا کی پوجا کرنے لگے۔ یہ دیوی بعد میں ارتمس کے نام سے مشہور ہو گئی۔
اسکے تقریباً ۴۰۰ سال بعد شمالی سمت سے خانہبدوش قبیلوں نے ایشیائےکوچک پر حملہ کرکے اس علاقے میں کافی تباہی مچائی۔ اسکے ۲۰۰ سال بعد یہ علاقہ بادشاہ کروسس کے قبضے میں آ گیا۔ یہ بادشاہ اپنی بےپناہ دولت کیلئے مشہور تھا۔ کچھ عرصہ بعد فارس کے بادشاہ خورس نے اس علاقے کے تمام یونانی شہروں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ ان شہروں میں افسس کا شہر بھی شامل تھا۔
پھر یسوع کی پیدائش کے تقریباً ۳۳۰ سال پہلے مکدونیہ کے سکندرِاعظم نے فارس کے شہنشاہ کو شکست دے دی۔ تب افسس کا شہر بھی سکندرِاعظم کے قبضہ میں آ گیا۔ سکندرِاعظم کی وفات کے بعد اسکے جرنیلوں نے سلطنت کو اپنے قبضے میں لانے کی کوشش میں ایک دوسرے پر حملہ کِیا۔ لہٰذا افسس کے شہر نے بھی خوب لڑائی دیکھی۔ پھر تقریباً ۲۰۰ سال بعد افسس پرگمن کے اطالوس سوم کے قبضے میں تھا جس نے اس شہر کو روم کے حاکم کو تحفے کے طور پر عنایت کر دیا۔
سچی پرستش کا جھوٹے مذہب سے ٹکراؤ
جب پولس رسول اپنے دوسرے مشنری دَورے پر پہلی مرتبہ افسس پہنچا تو وہاں کی آبادی تقریباً ۳ لاکھ تھی۔ (اعمال ۱۸:۱۹-۲۱) اپنے تیسرے مشنری دورے پر پولس نے دوبارہ افسس کا رُخ کِیا۔ وہاں اُس نے بڑی دلیری سے یہودی عبادتخانوں میں خدا کی بادشاہت کے بارے میں گواہی دی۔ وہ تین مہینوں تک ایسا کرتا رہا۔ لیکن یہودیوں نے پولس کی اتنی مزاحمت کی کہ اُس نے اُن کے عبادتخانوں میں گواہی دینا چھوڑ دیا۔ اس کی بجائے وہ ترنس کے مدرسہ میں روزانہ تقریریں پیش کرنے لگا۔ (اعمال ۱۹:۱، ۸، ۹) پولس دو سال تک شہر افسس میں مُنادی کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بیماروں کو شفا بخشتا اور لوگوں سے بدروحیں بھی نکالتا۔ (اعمال ۱۹:۱۰-۱۷) اس وجہ سے افسس کے بہت سے باشندے سچے خدا پر ایمان لے آئے اور خدا کا کلام زور پکڑ کر پھیلتا رہا۔ ایک موقعے پر کئی جادوگروں نے اپنی جادومنتر کی کتابیں جلا دیں اور یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگے۔—اعمال ۱۹:۱۹، ۲۰۔
لیکن افسس کے تمام باشندوں نے ارتمس کی پوجا سے مُنہ نہیں موڑا۔ یہ لوگ پولس پر بھڑک پڑے کیونکہ اُسکی وجہ سے ہی اتنے لوگ اس دیوی کی پوجا سے پھر گئے تھے۔ دیمیتریس نامی شخص کی مثال لیجئے جو سنار تھا اور ارتمس کی پوجا کیلئے چاندی کے مندر بناتا تھا۔ اُسکو اپنا پیشہ خطرے میں نظر آنے لگا۔ اسلئے اُس نے افسس کے شہر میں پولس کے خلاف فساد برپا کر دیا۔—اعمال ۱۹:۲۳-۳۲۔
پولس کی زندگی خطرے میں تھی۔ دیمیتریس کے اُکسانے پر ایک بھیڑ جمع ہو گئی اور دو گھنٹے تک چلّاتی رہی: ”افسیوں کی ارتمسؔ بڑی ہے۔“ (اعمال ۱۹:۳۴) آخرکار بھیڑ نے دَم لیا اور پولس کی جان بچ گئی۔ افسس کے مسیحیوں کی حوصلہافزائی کرنے کے بعد پولس شہر چھوڑ کر چلا گیا۔
ارتمس کا مندر لڑکھڑانے لگتا ہے
افسس بہت عرصے سے ارتمس دیوی کی پوجا کا مرکز رہا تھا۔ بادشاہ کروسس کے زمانے سے پہلے اس علاقے میں دیویماتا سیبلی کی پوجا کی جاتی تھی۔ بادشاہ کروسس اپنی سلطنت میں ایشائےکوچک کے باشندوں اور یونانیوں کو متحد کرنا چاہتا تھا۔ اس کوشش میں اُس نے ارتمس دیوی کی پوجا کو نمایاں کِیا۔ اسکے علاوہ اُس نے افسس کے شہر میں ارتمس دیوی کیلئے ایک شاندار مندر بھی تعمیر کِیا۔
یہ مندر یونانی فنِتعمیر کا ایک انوکھا نمونہ تھا۔ اسکی تعمیر کیلئے سنگِمرمر کے بڑے بڑے تراشے ہوئے پتھر استعمال کئے گئے۔ اتنے بڑے پتھر اس سے پہلے کبھی کسی عمارت کی تعمیر میں استعمال نہیں ہوئے تھے۔ یہ مندر تقریباً ۲۰۰ سال تک قائم رہا اور پھر جل کر خاک ہو گیا۔ لیکن اسکی بنیاد پر ایک نیا مندر تعمیر کِیا گیا جو بہت ہی بڑا تھا۔ اس عالیشان مندر کا شمار قدیم زمانے کے سات عجائب میں ہے۔ یہ مندر کڑی بدکاری کا مرکز تھا۔ قدیم زمانے کے ایک فلاسفر کے مطابق وہاں اس قدر گھناؤنی حرکتیں کی جاتی تھیں کہ پوجاری بالکل وحشی بن جاتے تھے۔ افسس کے
لوگ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ مندر ایک دن خالی پڑ جائیگا۔ لیکن تاریخ کی ایک کتاب کے مطابق ”دوسری صدی میں ارتمس سمیت باقی یونانی دیویدیوتاؤں کی پوجا بھی زوال پر تھی۔“تیسری صدی میں افسس شہر ایک زبردست زلزلہ میں بڑی حد تک تباہ ہو گیا۔ اس وجہ سے افسس کے شہری اپنے شہر کی دفاع کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہ جان کر بحیرۂاسود کے علاقے کے لوگ افسس پر حملہآور ہوئے۔ اُنہوں نے ارتمس کے مندر کی دولت کو لوٹ لیا اور مندر کو آگ لگا دی۔ تاریخ کی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ”لوگوں کے خیال میں ارتمس دیوی ہی افسس کی نگرانی کرتی تھی۔ لیکن اب تو اُسکا مندر لوٹا گیا تھا اور وہ اس حرکت کو روک نہ سکی۔ لہٰذا لوگ دیوی میں اپنا ایمان کھو بیٹھے۔“—زبور ۱۳۵:۱۵-۱۸۔
چوتھی صدی کے آخر میں شہنشاہ تھیوڈوسیئس اوّل نے کیتھولک مذہب کو اپنی رعایا کا مذہب قرار دیا۔ اسلئے لوگوں نے ارتمس کی پوجا بالکل ہی چھوڑ دی اور اُسکے مندر کے بچےکھچے پتھروں سے لوگوں نے اپنے گھر تعمیر کرنے شروع کر دئے۔ اُس زمانے کے ایک سیاح نے ارتمس کے مندر کے بارے میں کہا کہ یہ عمارت جو ایک زمانے میں دُنیا کے سات عجائب میں شامل تھی ”آج بالکل ہی تباہوبرباد ہو چکی ہے۔“
ارتمس اور مریم کی پوجا کا تعلق
پولس نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو آگاہ کِیا کہ اُسکے جانے کے بعد کلیسیا میں ”پھاڑنے والے بھیڑئے“ آئینگے اور ایسے آدمی اُٹھینگے ”جو الٹی الٹی باتیں کہینگے۔“ (اعمال ۲۰:۱۷، ۲۹، ۳۰) اور رسولوں کی موت کے بعد ایسا ہی ہوا۔ حالانکہ چوتھی صدی تک افسس کے تمام لوگ مسیحی بن چکے تھے پھر بھی وہ جھوٹی مذہبی تعلیمات اور رسومات کو جاری رکھے ہوئے تھے۔
سن ۴۳۱ میں افسس میں تمام مسیحی فرقوں کی تیسری کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس پر اسکے بارے میں بحث کی گئی کہ آیا یسوع مسیح واقعی خدا ہے یا نہیں۔ تاریخ کی ایک کتاب کے مطابق ”اس کانفرنس پر اُس فرقے نے جیت حاصل کی جو یسوع کو خدا کے طور پر مانتا تھا۔“ لہٰذا مسیحی یہ بھی ماننے لگے کہ ”یسوع کی ماں مریم نے ایک انسان کو نہیں بلکہ خدا کو جنم دیا۔ اسکے نتیجے میں مریم کی پوجا عام ہو گئی۔ لیکن تمام فرقوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کِیا۔ . . . مسیحی فرقوں میں یہ بحثوتکرار آج تک جاری ہے۔“
جہاں پہلے سیبلی اور ارتمس کو دیویماتا کے طور پر پوجا جاتا تھا وہاں مریم کو ”خدا کی ماں“ کے طور پر پوجا جانے لگا۔ وہی تاریخ کی کتاب میں یوں درج ہے: ”مریم کی پوجا آج تک عام ہے۔ اس مذہبی روایت کو افسس کی ارتمس کی پوجا کی بنیاد ہی پر قائم کِیا گیا تھا۔“
افسس کا زوال
ارتمس کے مندر کیساتھ ساتھ شہر افسس بھی زوال پر تھا۔ شہریوں کو زلزلوں اور ملیریا کا سامنا تھا۔ اسکے علاوہ شہر کی بندرگاہ بھی آہستہ آہستہ کیچڑ سے بھر کر بےکار پڑ رہی تھی۔
ساتویں صدی تک عربی قبیلے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے متحد ہو گئے اور اسلام دُنیابھر میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ عربی قبیلے افسس شہر پر باربار حملہآور ہو کر اسے تباہ کر گئے۔ اس کے علاوہ شہر کی بندرگاہ بالکل ہی بےکار پڑ گئی۔ اسطرح افسس کی حیثیت ایک بڑے اور شاندار شہر سے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بدل گئی۔ آج یہ گاؤں سیلچک کہلاتا ہے اور مُلک ترکی میں واقع ہے۔
افسس کے کھنڈرات کی سیر
قدیم افسس کی شانوشوکت کا اندازہ لگانے کے لئے آئیے ہم اس کے کھنڈرات کی سیر کرتے ہیں۔ ہماری سیر شہر کے دروازے سے شروع ہوتی ہے۔ ہم کوریٹس نامی ایک وسیع سڑک پر چل رہے ہیں۔ ہمارے دائیں طرف ایک چھوٹی سی تماشاگاہ ہے جسے دوسری صدی میں تعمیر کِیا گیا تھا۔ یہاں ۵۰۰،۱ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اس تماشاگاہ میں ڈرامے دکھائے جاتے تھے اور سرکاری افسر مشورہ کرنے کیلئے بھی بیٹھتے تھے۔ سڑک کے دائیں اور بائیں طرف ہم مختلف عمارتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ہماری نظر اگورا نام کی ایک عوامی جلسہگاہ پر پڑتی ہے۔ چند قدم آگے ہم ہیڈرئین کے مندر سے گزرتے ہیں۔ ہمیں جگہ جگہ چشمے اور بڑے بڑے شاندار گھر بھی نظر آتے ہیں۔ یہ شہر کے امیر اور مشہور لوگوں کے گھر ہوتے تھے۔ آخرکار ہم سیلسس کی لائبریری پہنچ جاتے ہیں۔
سیلسس کی یہ شاندار لائبریری دوسری صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔ آئیے ہم اسکے اندر ایک نظر جھانک کر دیکھتے ہیں۔ لائبریری کے مرکزی کمرے کی دیواروں میں لاتعداد طومار رکھنے کیلئے طاق بنائے گئے ہیں۔ لائبریری کے بیرونی دروازے کے دائیں اور بائیں طرف چار مجسّمے کھڑے ہیں۔ یہ چار مختلف خوبیوں کی نشاندہی کرتے ہیں یعنی دانائی، نیکی، دینداری اور سمجھداری۔ آج ان مجسّموں کے اصل وئینا کے ”افسس میوزیم“ میں پائے جاتے ہیں۔ لائبریری کے اِردگِرد ایک صحن ہے جسکے پھاٹک سے گزر کر ہم افسس کے مرکزی بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا میدان ہے جسکے چاروں طرف دُکانیں بنی ہوئی تھیں۔ ہم قدیم زمانے میں اس جگہ کی مصروفیت کا تصور ہی کر سکتے ہیں۔
اب ہم سنگِمرمر کی سڑک پر آتے ہیں۔ اسکے آخر میں ایک بہت بڑی تماشاگاہ ہے جس میں ۰۰۰،۲۵ تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اس تماشاگاہ کو ستونوں، طرح طرح کے نقشونگار اور مجسّموں سے سجایا گیا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں دیمیتریس سنار کے اُکسانے پر ایک بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔
اس تماشاگاہ سے ایک بہت بڑی اور وسیع سڑک سیدھا شہر کی بندرگاہ کو جاتی ہے۔ یہ سڑک ۵۰۰ میٹر لمبی اور ۱۱ میٹر چوڑی ہے اور اسکے کنارے پر وقفے وقفے پر ستون ہیں۔ اسکے دائیں اور بائیں طرف شہر کی ورزشگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ سڑک کے آخر میں ایک بہت شاندار پھاٹک ہے جو بندرگاہ پر کھلتا ہے۔ یہاں سے لوگ سات سمندر کی سیر کو نکلتے تھے۔ یہ تھی افسس شہر کے کھنڈرات کی ہماری مختصر سی سیر۔ وئینا کے ”افسس میوزیم“ میں آپ اس شہر کا لکڑی سے بنا ہوا ماڈل دیکھ سکتے ہیں۔
میوزیم اور افسس کے کھنڈرات کو دیکھ کر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ افسس کے سچے مسیحیوں کیلئے وہاں جینا کتنا مشکل تھا۔ یہ شہر جادوگری اور مذہبی تعصب کیلئے مشہور تھا۔ ارتمس کے پوجاریوں نے سچے مسیحیوں کی بڑی مخالفت کی۔ یہاں کے مسیحیوں کو صبر اور دلیری سے کام لینا پڑتا تھا۔ (اعمال ۱۹:۱۹؛ افسیوں ۶:۱۲؛ مکاشفہ ۲:۱-۳) اسکے باوجود افسس میں سچے خدا کی پرستش قائم رہی۔ آخرکار ارتمس دیوی کی پوجا کا نامونشان مٹ گیا۔ افسس کے مسیحیوں کی طرح ہم بھی اپنے ایمان پر قائم رہینگے اور اُس وقت کا انتظار کرینگے جب آخرکار جھوٹے مذہب کا نامونشان ہمیشہ کیلئے مٹ جائیگا۔—مکاشفہ ۱۸:۴-۸۔
[صفحہ ۲۶ پر نقشہ/تصویر]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
مکدونیہ
بحیرۂاسود
ایشیائےکوچک
افسس
بحیرۂروم
مصر
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
ارتمس دیوی کے مندر کے کھنڈرات
[صفحہ ۲۸ پر تصویریں]
۱۔ سیلسس کی لائبریری
۲۔ لائبریری کے بیرونے حصے پر ’نیکی‘ کا مجسّمہ
۳۔ بڑی تماشاگاہ تک جانے والی سنگِمرمر کی سڑک