مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدائی حکمت کے ذریعے اپنے بچوں کی حفاظت کریں

خدائی حکمت کے ذریعے اپنے بچوں کی حفاظت کریں

خدائی حکمت کے ذریعے اپنے بچوں کی حفاظت کریں

ہمارے بدنوں کو ہر وقت بیشمار جرثوموں کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔‏ خدا کا شکر ہے کہ ہم میں سے اکثریت کا دفاعی نظام اتنا اچھا ہے کہ یہ ہمیں ایسے جرثوموں سے محفوظ رکھتا اور بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے۔‏

اسی طرح،‏ مسیحیوں کو غیرصحیفائی سوچ اور معیاروں نیز ایسے دباؤ کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے جو ہماری روحانی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏)‏ ہر روز ہمارے دلوں اور دماغوں پر ہونے والے اس حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنے اندر روحانی دفاعی صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں۔‏

ایسا دفاع بالخصوص ہمارے بچوں کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ اس دُنیا کی روح کا مقابلہ کرنے والی یہ روحانی دفاعی صلاحیت پیدائشی طور پر حاصل نہیں ہوتی۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۲‏)‏ بچے جوں جوں بڑے ہوتے ہیں،‏ والدین کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اُنہیں ذاتی طور پر اپنے اندر ایسی دفاعی صلاحیتیں پیدا کرنے میں مدد دیں۔‏ انکا انحصار کس چیز پر ہے؟‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ’‏یہوواہ حکمت بخشتا ہے۔‏ وہ اپنے مُقدسوں کی راہ کو محفوظ رکھیگا۔‏‘‏ (‏امثال ۲:‏۶،‏ ۸‏)‏ خدائی حکمت نوجوانوں کی راہ کو محفوظ رکھ سکتی ہے ورنہ وہ بُری صحبت،‏ ساتھیوں کے دباؤ یا خراب تفریح میں پڑ سکتے ہیں۔‏ والدین کیسے یہوواہ کی راہنمائی پر چل سکتے اور اپنے بچوں کے ذہنوں میں خدائی حکمت نقش کر سکتے ہیں؟‏

اچھی رفاقت تلاش کرنا

نوجوان یقیناً اپنے ہم‌عمروں کی رفاقت سے خوش ہوتے ہیں۔‏ مگر صرف ناتجربہ‌کار نوجوانوں کیساتھ دوستی خدائی حکمت کو فروغ نہیں دے سکتی۔‏ امثال آگاہ کرتی ہے:‏ ”‏حماقت لڑکے کے دل سے وابستہ ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۲:‏۱۵‏)‏ تاہم،‏ بعض والدین نے رفاقت کے سلسلے میں خدائی حکمت کا اطلاق کرنے میں اپنے بچوں کی کیسے مدد کی ہے؟‏

ڈان * نامی ایک والد نے بیان کِیا:‏ ”‏ہمارے بیٹے اپنے ہم‌عمر دوستوں کیساتھ خاصا وقت گزارتے ہیں لیکن اس میں سے زیادہ‌تر وقت ہمارے گھر کے اندر ہماری موجودگی میں گزرتا تھا۔‏ ہمارا گھر ہمیشہ نوجوانوں کیلئے کھلا رہتا تھا۔‏ ہم اُنہیں خوشی سے قبول کرنے کیساتھ ساتھ اُن کیلئے کھانےپینے کا بندوبست بھی کرتے تھے۔‏ اپنے بچوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے ہم ہر طرح کا شور اور ہنگامہ برداشت کرنے کو تیار تھے۔‏“‏

برائن اور میری کے تین بچے ہیں لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کرنا ہمیشہ آسان نہیں تھا۔‏ وہ بیان کرتے ہیں:‏ ”‏ہماری کلیسیا میں ایسے نوجوان بچے بہت کم تھے جو ہماری بیٹی جین کیساتھ رفاقت رکھ سکتے تھے۔‏ تاہم،‏ اُسکی دوستی ایک سوزین نامی لڑکی سے تھی جو بہت ہی خوش‌اخلاق اور پیار کرنے والی بچی تھی۔‏ لیکن اُسکے والدین کچھ آزاد خیال تھے۔‏ سوزین کو دیر تک گھر سے باہر رہنے،‏ جینز پہننے،‏ نامناسب موسیقی سننے اور فلمیں دیکھنے کی اجازت تھی۔‏ جین کو ہمارا نقطۂ‌نظر سمجھنے میں کچھ مشکل پیش آ رہی تھی۔‏ اُسکے خیال میں سوزین کے والدین زیادہ اچھے تھے جبکہ ہم بہت سخت تھے۔‏ لیکن جب سوزین مشکل میں پھنس گئی اور جین ہمارے سخت رویے کی وجہ سے بچ گئی تو اُس وقت اُسے ہماری تربیت کا فائدہ سمجھ میں آیا۔‏ ہم خوش ہیں کہ ہم اپنی بیٹی کیلئے جوکچھ مناسب تھا وہی کرنے کے اپنے مؤقف پر قائم رہے۔‏“‏

جین کی مانند بہت سے نوجوان صحبتوں کے سلسلے میں اپنے والدین کی راہنمائی کو قبول کرنے کے فائدے کو سمجھ گئے ہیں۔‏ امثال بیان کرتی ہے:‏ ”‏جو زندگی بخش تنبیہ پر کان لگاتا ہے داناؤں کے درمیان سکونت کریگا۔‏“‏ (‏امثال ۱۵:‏۳۱‏)‏ خدائی حکمت نوجوانوں کو اچھے دوست تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔‏

دوسرے نوجوانوں کی نقل کرنے سے گریز کریں

ساتھیوں کا دباؤ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‏ ہر روز ہمارے بچوں کو اپنے ساتھیوں کی نقل کرنے کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ چونکہ نوجوان اکثر اپنے ہم‌عمروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں اسلئے ساتھیوں کا دباؤ اُنہیں ایسے کام کرنے کی طرف مائل کر سکتا ہے جو دُنیا کی نظر میں درست ہیں۔‏—‏امثال ۲۹:‏۲۵‏۔‏

بائبل ہمیں یاددہانی کراتی ہے کہ ”‏دُنیا اور اُسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏)‏ اسلئے والدین کو بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ اُنکے بچے دُنیا کے خیالات سے متاثر نہ ہوں۔‏ وہ اپنے بچوں کو ایک مسیحی کی مانند سوچنے میں کیسے مدد دے سکتے ہیں؟‏

رچرڈ بیان کرتا ہے:‏ ”‏میری بیٹی دوسرے نوجوانوں کی طرح کا لباس پہننا چاہتی تھی۔‏ لہٰذا ہم نے بڑے تحمل کیساتھ اُسے اسکے فائدے اور نقصان بتائے۔‏ ایسے لباس کی بابت بھی جو قابلِ‌قبول ہیں ہم اُسی نصیحت پر عمل کرتے تھے جو ہم نے چند سال پہلے سنی تھی،‏ ’‏دانشمند شخص وہ ہے جو نہ تو فیشن متعارف کراتا ہو اور نہ ہی اُسے اپنی پہچان بناتا ہو۔‏‘‏“‏

پولین نامی خاتون نے دوستوں کی طرف سے دباؤ کا مقابلہ کچھ اسطرح کِیا۔‏ وہ یاد کرتی ہے:‏ ”‏مَیں اپنے بچوں کی دلچسپیوں میں شریک ہوتی اور اُنکے کمرے میں جاکر اُن کیساتھ بات‌چیت کرنے میں وقت گزارتی تھی۔‏ ان کیساتھ دیر تک گفتگو کرتے رہنے نے مجھے اُنکے نظریات کو ترتیب دینے اور اُنہیں معاملات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے میں مدد دینے کے قابل بنایا۔‏“‏

دوستوں کی طرف سے دباؤ کبھی ختم نہیں ہوگا اسلئے والدین کو ہمیشہ اپنے بچوں کے ذہنوں سے دُنیاوی سوچ کو نکالنے اور اُنکے اندر مسیح جیسی سوچ پیدا کرنے میں مدد دینی ہوگی۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۵‏)‏ لیکن ’‏دُعا میں مشغول‘‏ رہنے سے والدین اور بچے دونوں اس اہم کام کو انجام دینے کیلئے تیار ہونگے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۲؛‏ زبور ۶۵:‏۲‏۔‏

تفریح کی پُرزور کشش

ایک تیسرا حلقہ جس سے نپٹنا والدین کیلئے کافی مشکل ہو سکتا ہے وہ تفریح ہے۔‏ بچے فطری طور پر کھیل‌کود کے دیوانے ہوتے ہیں۔‏ بہتیرے بڑے بچے بھی تفریح کو بہت پسند کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۲‏)‏ اگر اس خواہش کو نامناسب طریقے سے پورا کِیا جاتا ہے تو یہ اُنکے روحانی دفاع کو کمزور کر سکتی ہے۔‏ خطرہ عموماً دو صورتوں میں ہوتا ہے۔‏

پہلی بات تو یہ کہ زیادہ‌تر تفریح دُنیا کے گھٹیا اخلاقی معیاروں کو ظاہر کرتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ مگر اسے انتہائی دلکش اور پُرکشش طریقے سے پیش کِیا جاتا ہے۔‏ یہ اُن نوجوانوں کیلئے بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جو اسکے درپردہ خطرات کو نہیں پہچان پاتے۔‏

دوسرا یہ کہ تفریح میں صرف کِیا جانا والا وقت بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔‏ بعض کیلئے ہنسی‌مذاق ہی زندگی میں سب سے اہم چیز بن جاتا ہے جو اُنکا بہت زیادہ وقت اور توانائی لے لیتا ہے۔‏ امثال آگاہ کرتی ہے کہ ”‏بہت شہد کھانا اچھا نہیں۔‏“‏ (‏امثال ۲۵:‏۲۷‏)‏ اسی طرح بہت زیادہ تفریح روحانی بھوک کو مٹانے کیساتھ ساتھ ذہنی سُستی پر منتج ہو سکتی ہے۔‏ (‏امثال ۲۱:‏۱۷؛‏ ۲۴:‏۳۰-‏۳۴‏)‏ اس دُنیا سے بھرپور لطف اُٹھانا نوجوانوں کے ”‏ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ“‏ کرنے—‏خدا کی نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۲،‏ ۱۹‏)‏ والدین نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کِیا ہے؟‏

تین بیٹیوں کی ماں ماری کارمن نے بیان کِیا:‏ ”‏ہم چاہتے تھے کہ ہماری بیٹیاں اچھی تفریح سے بھرپور خوشی حاصل کریں۔‏ لہٰذا ہم بطور خاندان باقاعدہ سیروتفریح کیلئے جایا کرتے تھے۔‏ اسکے علاوہ وہ کلیسیا میں ہم‌عمر سہیلیوں کیساتھ بھی وقت گزارتی تھیں۔‏ لیکن ہم تفریح کو اُسکے مقام پر ہی رکھتے تھے۔‏ ہم اسے کھانے کے آخر میں کھائے جانے والے میٹھے سے تشبیہ دیتے تھے جوکہ بہت اچھا تو لگتا ہے مگر اُسکے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔‏ اسطرح وہ گھر،‏ سکول اور کلیسیا میں کام کرنا سیکھنے کے بھی قابل ہو گئیں۔‏“‏

ڈان اور روت بھی تفریح کو مناسب مقام دیتے ہیں۔‏ وہ بیان کرتے ہیں،‏ ”‏ہم نے ہفتے کا دن ’‏خاندان کی تفریح‘‏ کیلئے رکھا ہوا تھا۔‏ ہم صبح کے وقت منادی کیلئے جاتے،‏ دوپہر کو تیراکی کیلئے اور شام کو خاص کھانا کھایا کرتے تھے۔‏“‏

ان والدین کی بات‌چیت اچھی تفریح فراہم کرنے اور اسے ایک مسیحی کی زندگی میں مناسب مقام دینے کے سلسلے میں توازن قائم رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔‏—‏واعظ ۳:‏۴؛‏ فلپیوں ۴:‏۵‏۔‏

یہوواہ پر بھروسا رکھیں

روحانی دفاع کرنے کے قابل ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔‏ نیز کوئی ایسی دوائی نہیں جو خدائی حکمت بخش سکے اور بچوں کو آسمانی باپ یہوواہ پر بھروسا کرنے کی تحریک دے سکے۔‏ اسلئے والدین ہی کو ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر انکی پرورش“‏ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ ”‏تربیت اور نصیحت“‏ کے اس جاری عمل کا مطلب بچوں کو یہ مدد دینا ہے کہ وہ معاملات کو خدا کی نظر سے دیکھیں۔‏ والدین یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

ایسا کرنے میں باقاعدہ خاندانی بائبل مطالعہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔‏ بائبل مطالعہ ’‏بچوں کی آنکھیں کھول دیتا ہے تاکہ وہ خدا کی شریعت کے عجائب کو دیکھ سکیں۔‏‘‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۸‏)‏ ڈیاگو خاندانی مطالعے کو بڑی اہمیت دیتا تھا اور اسکے ذریعے اُس نے اپنے بچوں کو یہوواہ کے نزدیک جانے میں مدد دی۔‏ وہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏مَیں بائبل مطالعے کی مکمل تیاری کرتا تھا۔‏ بائبل پر شائع ہونے والی کتابوں اور رسالوں سے چھان‌بین کرکے مَیں بائبل کرداروں کو حقیقی بنا دیتا تھا۔‏ مَیں بچوں کی حوصلہ‌افزائی کرتا کہ اپنا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان میں وفادار لوگوں کی کونسی خوبیاں موجود ہیں۔‏ اس سے میرے بچوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ یہوواہ کیا پسند کرتا ہے۔‏“‏

بچے غیررسمی طریقوں سے زیادہ سیکھتے ہیں۔‏ موسیٰ نے والدین کو نصیحت کی کہ ’‏گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت اپنے بچوں کے سامنے یہوواہ کے قوانین کا ذکر کِیا کریں۔‏‘‏ (‏استثنا ۶:‏۷‏)‏ ایک والد بیان کرتا ہے:‏ ”‏میرا بیٹا اپنے دل کی بات بتانے میں ذرا وقت لیتا ہے۔‏ جب ہم ملکر سیر کیلئے جاتے یا کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں تو پھر وہ آزادانہ طور پر اپنا اظہار کرتا ہے۔‏ ایسے موقعوں پر ہم ایسی بات‌چیت کرتے ہیں جو ہم دونوں کیلئے فائدہ‌مند ثابت ہوتی ہے۔‏“‏

والدین جو دُعائیں کرتے ہیں اُسکا بھی بچوں پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے۔‏ جب وہ اپنے والدین کو فروتنی کیساتھ یہوواہ سے مدد اور معافی مانگتے سنتے ہیں تو بچے بھی یہ ایمان رکھنے کی تحریک پاتے ہیں کہ یہوواہ ”‏موجود ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏)‏ بہتیرے کامیاب والدین خاندانی دُعا کی اہمیت پر بہت زور دیتے ہیں۔‏ ان دُعاؤں میں سکول سے تعلق رکھنے والے معاملات اور دیگر ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں جو اُنکے بچوں کیلئے پریشانی کا باعث ہیں۔‏ ایک باپ کا کہنا ہے کہ اُسکی بیوی بچوں کے سکول جانے سے پہلے اُنکے ساتھ ملکر ضرور دُعا کرتی ہے۔‏—‏زبور ۶۲:‏۸؛‏ ۱۱۲:‏۷‏۔‏

‏”‏نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں“‏

سب والدین غلطیاں کرتے ہیں اور جسطرح سے وہ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسکی بابت بعد میں پچھتانا پڑ سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ بائبل ہمیں نصیحت کرتی ہے کہ کوشش کرتے رہیں اور ”‏نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔‏“‏—‏گلتیوں ۶:‏۹‏۔‏

بعض‌اوقات جب والدین اپنے بچوں کو سمجھ نہیں پاتے تو وہ بہت بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔‏ یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ نوجوان نسل بہت مختلف اور مشکل ہے۔‏ لیکن درحقیقت،‏ آجکل کے بچوں میں بھی وہی کمزوریاں ہیں جو پہلی نسلوں کے بچوں میں تھیں اور اُنہیں بھی ویسی ہی آزمائشوں کا سامنا ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ اپنی غلطی کو ماننا اب پہلے کی طرح آسان نہیں رہا ہے۔‏ اسلئے ایک باپ نے اپنے بیٹے کو تنبیہ کرنے کے بعد کچھ اسطرح کے نرم الفاظ کہے:‏ ”‏تمہارا دل وہی کام کرنا چاہتا ہے جو جوانی میں میرا دل کرنے کو چاہتا تھا۔‏“‏ والدین شاید کمپیوٹرز کی بابت تو بہت کچھ نہ جانتے ہوں مگر وہ ناکامل جسم کی خواہشوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔‏—‏متی ۲۶:‏۴۱؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۱‏۔‏

بعض بچے اپنے والدین کی طرف سے حاصل ہونے والی راہنمائی سے زیادہ خوش نہیں ہوتے بلکہ کبھی‌کبھار اُسکے خلاف بغاوت کا اظہار کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ برداشت بہت ضروری ہے۔‏ شروع شروع میں ضدی یا نافرمان ہونے کے باوجود بہت سے بچے کچھ وقت کے بعد بات ماننے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۲:‏۶؛‏ ۲۳:‏۲۲-‏۲۵‏)‏ ایک نوجوان مسیحی میتھیو نے جو اب یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں خدمت کر رہا ہے بیان کِیا:‏ ”‏جب مَیں نوعمر تھا تو مَیں سوچتا تھا کہ میرے والدین بہت زیادہ پابندیاں لگاتے ہیں۔‏ مَیں اُن سے کہا کرتا تھا کہ اگر میرے دوستوں کے والدین اُنہیں کسی کام کی اجازت دیتے ہیں تو پھر آپکو میرے ایسا کرنے پر کیوں اعتراض ہے؟‏ اُس وقت تو مجھے بہت غصہ آتا تھا جب وہ مجھے کشتی‌رانی سے منع کرتے تھے جوکہ میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔‏ لیکن اب مجھے احساس ہوا ہے کہ جو تربیت میرے والدین مجھے دے رہے تھے وہ ضروری تھی اور وہ نہایت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔‏ مَیں اُنکا بہت شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے اُس وقت میری راہنمائی کی جب مجھے اسکی ضرورت تھی۔‏“‏

یہ سچ ہے کہ بعض‌اوقات ہمارے بچوں کو غیرصحتمندانہ روحانی ماحول میں رہنا پڑتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی وہ اچھے مسیحی بن سکتے ہیں۔‏ جیسےکہ بائبل وعدہ کرتی ہے،‏ خدائی حکمت اُنہیں روحانی دفاع فراہم کر سکتی ہے۔‏ ”‏حکمت تیرے دل میں داخل ہوگی اور علم تیری جان کو مرغوب ہوگا۔‏ تمیز تیری نگہبان ہوگی۔‏ فہم تیری حفاظت کریگا تاکہ تجھے شریر کی راہ سے اور کجگو سے بچائیں۔‏“‏—‏امثال ۲:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

نو مہینے تک بچے کو اپنے رحم میں رکھنا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن اگلے ۲۰ سال بھی جذباتی دُکھ‌سکھ پر منتج ہو سکتے ہیں۔‏ مسیحی والدین اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اسلئے وہ اُنہیں خدائی حکمت کے ذریعے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ اپنے بچوں کی بابت ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسا عمررسیدہ یوحنا نے اپنے روحانی بچوں کی بابت محسوس کِیا تھا:‏ ”‏میرے لئے اس سے بڑھ کر اَور کوئی خوشی نہیں کہ مَیں اپنے فرزندوں کو حق پر چلتے ہوئے سنوں۔‏“‏—‏۳-‏یوحنا ۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 اس مضمون میں بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

‏”‏ہمارا گھر ہمیشہ نوجوانوں کیلئے کھلا رہتا تھا“‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

اپنے بچوں کی دلچسپیوں میں شریک ہوں

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

‏”‏مَیں مطالعہ کرانے سے پہلے اسکی مکمل تیاری کرتا تھا“‏