خدا کے بادشاہتی وعدوں کی تکمیل
خدا کے بادشاہتی وعدوں کی تکمیل
”تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر [نبیوں کے کلام] پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔“—۲-پطرس ۱:۱۹۔
۱. ہم آجکل دُنیا میں کیا فرق پاتے ہیں؟
آجکل دُنیا مشکلات سے دوچار ہے۔ قدرتی آفات سے لیکر عالمی دہشتگردی تک، نوعِانسان کے مسائل قابو سے باہر ہیں۔ دُنیا کے مذاہب بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ درحقیقت، وہ اکثر جانبداری، نفرت اور قومپرستی کو ہوا دیکر معاملات کو زیادہ بگاڑ دیتے ہیں۔ ایسی باتوں سے لوگ اختلاف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیہاں پیشینگوئی کے مطابق ”تیرگی اُمتوں“ پر چھا گئی ہے۔ (یسعیاہ ۶۰:۲) تاہم، اِسکے برعکس، لاکھوں لوگ مستقبل کی بابت پُراعتماد ہیں۔ کیوں؟ وہ خدا کے نبوّتی کلام پر غور کرتے ہیں کیونکہ ”وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔“ وہ بائبل میں موجود خدا کے ”کلام“ یعنی پیغام کو اپنے قدموں کی راہنمائی کرنے دیتے ہیں۔—۲-پطرس ۱:۱۹۔
۲. دانیایل کی پیشینگوئی کے مطابق ”آخری زمانہ“ میں صرف کن لوگوں کو روحانی سمجھ حاصل ہوتی ہے؟
۲ دانیایل نبی نے ”آخری زمانہ“ کی بابت لکھا: ”بہتیرے اِسکی تفتیشوتحقیق کرینگے اور دانش افزون ہوگی۔ اور بہت لوگ پاک کئے جائینگے اور صافوبراق ہونگے لیکن شریر شرارت کرتے رہینگے اور شریروں میں سے کوئی نہ سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے۔“ (دانیایل ۱۲:۴، ۱۰) روحانی سمجھ صرف اُن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ”تفتیشوتحقیق“ کرتے یا دلی شوق کیساتھ خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے، اُسکے معیاروں پر پورا اُترتے اور اُسکی مرضی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔—متی ۱۳:۱۱-۱۵؛ ۱-یوحنا ۵:۲۰۔
۳. بائبل طالبعلموں نے ۱۸۷۰ کے بعد کونسی اہم سچائی کو سمجھ لیا تھا؟
۳ یہوواہ خدا نے ”اخیر زمانہ“ کے آغاز سے پہلے ”آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں“ کو ۱۸۷۰ کے بعد آشکارا کرنا شروع کر دیا۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵؛ متی ۱۳:۱۱) اُس وقت لوگوں کی عام رائے یہ تھی کہ یسوع مسیح کی واپسی ظاہری ہوگی۔ لیکن بائبل طالبعلموں کے ایک گروہ نے یہ سمجھ لیا کہ مسیح کی واپسی ظاہری نہ ہوگی۔ آسمانی تخت پر بیٹھنے کے بعد یسوع نے بادشاہ کے طور پر زمین پر توجہ دینا شروع کر دی۔ وہ اِسی مفہوم میں واپس آیا کہ وہ اپنی پوری توجہ زمینی معاملات پر لگائیگا۔ ایک واضح پیشینگوئی کے مختلف پہلوؤں کی تکمیل نے اُسکے شاگردوں کو چوکس کر دیا کہ اُسکی نادیدہ موجودگی شروع ہو چکی ہے۔—متی ۲۴:۳-۱۴۔
وعدوں کا حقیقت بننا
۴. یہوواہ نے زمانۂجدید کے اپنے خادموں کے ایمان کو کیسے مضبوط کِیا ہے؟
۴ جس رویا میں یسوع کی صورت بدل گئی تھی وہ اُسکے بادشاہتی جلال کی ایک روشن جھلک تھی۔ (متی ۱۷:۱-۹) جب بعض شاگردوں نے غیرصحیفائی توقعات کے پورا نہ ہونے پر یسوع کی پیروی کرنا چھوڑ دی تو اِس رویا نے پطرس، یعقوب اور یوحنا کے ایمان کو مضبوط رکھا۔ اِسی طرح، اِس آخری زمانہ میں یہوواہ نے اُس شاندار رویا اور اس سے وابستہ کئی پیشینگوئیوں کی زیادہ سمجھ دینے سے زمانۂجدید کے اپنے خادموں کے ایمان کو مضبوط کِیا ہے۔ آئیے ایمان کو مضبوط کرنے والی اِن روحانی حقیقتوں میں سے بعض پر غور کریں۔
۵. صبح کا ستارہ کون ثابت ہوا اور اُس نے کیسے ’چمکنا‘ شروع کِیا؟
۵ رویا میں یسوع کی صورت بدل جانے کا حوالہ دیتے ہوئے پطرس رسول نے لکھا: ”ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تُم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے جبتک پَو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ تمہارے دلوں میں نہ چمکے۔“ (۲-پطرس ۱:۱۹) وہ صبح کا علامتی ستارہ، یا ”صبح کا چمکتا ہوا ستارہ“ جلالی یسوع مسیح ہے۔ (مکاشفہ ۲۲:۱۶) جب ۱۹۱۴ میں خدا کی بادشاہت آسمان پر وجود میں آئی تو یسوع نے ستارے کے طور پر ’چمکنا‘ شروع کر دیا۔ اسطرح ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۵) یسوع کی صورت بدلنے والی رویا میں موسیٰ اور ایلیاہ یسوع کیساتھ ظاہر ہوتے اور باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟
۶، ۷. یسوع کی صورت بدلنے کی رویا میں موسیٰ اور ایلیاہ کن کی نمائندگی کرتے ہیں اور صحائف اسکی بابت کونسی اہم معلومات بیان کرتے ہیں؟
۶ موسیٰ اور ایلیاہ کا رویا میں یسوع مسیح کیساتھ نظر آنا بادشاہی میں شریک اشخاص کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ سمجھ دانیایل نبی کو دکھائی جانے والی تختنشین مسیحا کی رویتی جھلک کی مطابقت میں ہے۔ دانیایل ”ایک شخص آدمزاد کی مانند“ کو ”قدیمالایّام“ یعنی یہوواہ خدا سے ”ابدی سلطنت“ حاصل کرتے دیکھتا ہے۔ لیکن غور کریں کہ اِسکے تھوڑی دیر بعد دانیایل کو کیا دکھایا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ”تمام آسمان کے نیچے سب ملکوں کی سلطنت اور مملکت اور سلطنت کی حشمت حقتعالیٰ کے مُقدس لوگوں کو بخشی جائیگی۔“ (دانیایل ۷:۱۳، ۱۴، ۲۷) جیہاں، یسوع کی صورت بدلنے والی رویا سے پانچ سو سال پہلے خدا نے اِس بات کو آشکارا کر دیا تھا کہ بعض ”مُقدس لوگوں“ کو مسیح کی بادشاہتی حشمت میں حصہ دیا جائیگا۔
رومیوں ۸:۱۶، ۱۷) مُقدس لوگ روح سے مسحشُدہ یسوع کے شاگردوں کے علاوہ اَور کوئی نہیں ہیں۔ یسوع مکاشفہ میں بیان کرتا ہے: ”جو غالب آئے مَیں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھاؤنگا۔ جسطرح مَیں غالب آکر اپنے باپ کے ساتھ اُس کے تخت پر بیٹھ گیا۔“ اِن کی تعداد ۰۰۰،۴۴،۱ ہے۔ یہ قیامتیافتہ ’غالب آنے والے‘ یسوع کیساتھ پوری زمین پر حکمرانی کرینگے۔—مکاشفہ ۳:۲۱؛ ۵:۹، ۱۰؛ ۱۴:۱، ۳، ۴؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۳۔
۷ دانیایل کی رویا میں مُقدس لوگ کون ہیں؟ پولس رسول ایسے مُقدس لوگوں کی بابت لکھتا ہے: ”روح خود ہماری روح کیساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔ اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہممیراث بشرطیکہ ہم اُسکے ساتھ دُکھ اُٹھائیں تاکہ اُسکے ساتھ جلال بھی پائیں۔“ (۸. یسوع کے ممسوح شاگردوں نے موسیٰ اور ایلیاہ کی طرح کے کام کیسے کئے ہیں اور اِسکا کیا نتیجہ نکلا ہے؟
۸ تاہم، موسیٰ اور ایلیاہ ممسوح مسیحیوں کی نمائندگی کیوں کرتے ہیں؟ اِسکی وجہ یہ ہے کہ ممسوح مسیحی زمینی زندگی کے دوران موسیٰ اور ایلیاہ جیسے کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ اذیت کے تحت بھی یہوواہ کے گواہوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰؛ اعمال ۸:۱-۸؛ مکاشفہ ۱۱:۲-۱۲) موسیٰ اور ایلیاہ کی طرح وہ دلیری کیساتھ جھوٹے مذہب کا پردہ فاش کرتے ہیں۔ اِسکے علاوہ وہ خلوصدل لوگوں کو صرف سچے خدا کی پرستش کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ (خروج ۳۲:۱۹، ۲۰؛ استثنا ۴:۲۲-۲۴؛ ۱-سلاطین ۱۸:۱۸-۴۰) کیا اُنکا کام پھلدار ثابت ہوا ہے؟ بالکل ہوا ہے! اُنہوں نے تمام ممسوح اشخاص کو جمع کرنے کے علاوہ لاکھوں ’دوسری بھیڑوں‘ کی بھی یسوع مسیح کی تابعداری کرنے میں مدد کی ہے۔—یوحنا ۱۰:۱۶؛ مکاشفہ ۷:۴۔
یسوع مسیح اپنی فتح مکمل کرتا ہے
۹. مکاشفہ ۶:۲ آجکل یسوع کی تصویرکشی کیسے کرتی ہے؟
۹ اب یسوع ادنیٰ انسان کی طرح گدھے پر سوار نہیں بلکہ ایک طاقتور بادشاہ ہے۔ اُسے اب گھوڑے پر سوار دکھایا گیا ہے جوکہ بائبل کے مطابق جنگ کی علامت ہے۔ (امثال ۲۱:۳۱) مکاشفہ ۶:۲ بیان کرتی ہے: ”مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اُسکا سوار کمان لئے ہوئے ہے۔ اُسے ایک تاج دیا گیا اور وہ فتح کرتا ہوا نکلا تاکہ اَور بھی فتح کرے۔“ زبورنویس داؤد نے بھی یسوع کی بابت لکھا: ”[یہوواہ] تیرے زور کا عصا صیوؔن سے بھیجیگا۔ تُو اپنے دشمنوں میں حکمرانی کر۔“—زبور ۱۱۰:۲۔
۱۰. (ا) یسوع کی فتح کیلئے گھڑسواری کا کیسے شاندار آغاز ہوا ہے؟ (ب) مسیح کی پہلی فتح کا دُنیا پر کیا اثر ہوا ہے؟
۱۰ یسوع نے سب سے پہلے اپنے نہایت طاقتور دشمن شیطان اور اُسکے شیاطین پر فتح حاصل کی۔ اُس نے اُنہیں آسمان سے نیچے زمین پر پھینک دیا۔ وہ جانتے ہیں کہ اُنکا تھوڑا سا وقت باقی ہے۔ لہٰذا اِن شریر روحوں نے نوعِانسان کو اپنے قہر کا نشانہ بنایا ہے جو بہت زیادہ غم اور دُکھ کا سبب بنا ہے۔ مکاشفہ میں اِس دُکھمصیبت کی نمائندگی تین اَور گھڑسواروں سے ہوتی ہے۔ (مکاشفہ ۶:۳-۸؛ ۱۲:۷-۱۲) ’اپنی موجودگی اور دُنیا کے آخر کے نشان‘ کی بابت یسوع کی پیشینگوئی کی مطابقت میں گھڑسواری جنگ، کال اور جانلیوا وبا پر منتج ہوئی ہے۔ (متی ۲۴:۳، ۷؛ لوقا ۲۱:۷-۱۱) بِلاشُبہ، حقیقی دردِزہ کی طرح یہ ’مصیبتیں‘ اُس وقت تک جاری رہینگی جبتک یسوع مسیح شیطان کی دیدنی تنظیم کا نامونشان مٹانے سے ’اپنی فتح مکمل‘ نہیں کر لیتا۔ *—متی ۲۴:۸۔
۱۱. مسیحی کلیسیا کی تاریخ کیسے یسوع مسیح کے شاہی اختیار کی تصدیق کرتی ہے؟
مکاشفہ ۱۷:۵، ۶) یہ یسوع مسیح کی بادشاہت کی ایک پُرزور شہادت ہے!—زبور ۱۱۰:۳۔
۱۱ یسوع کے شاہی اختیار میں موجودگی کی شہادت اِس بات سے بھی ملتی ہے کہ اُس نے مسیحی کلیسیا کو محفوظ رکھا ہے تاکہ وہ تمام دُنیا میں بادشاہتی پیغام کی منادی کرنے کی اپنی ذمہداری کو پورا کر سکیں۔ بڑے بابل یعنی جھوٹے مذہب کی عالمی سلطنت اور دشمن حکومتوں کی طرف سے شدید مخالفت کے باوجود منادی کا کام نہ صرف جاری رہا ہے بلکہ دُنیا کی تاریخ میں ایک لاثانی حیثیت حاصل کر گیا ہے۔ (۱۲. بیشتر لوگ یسوع مسیح کی نادیدہ موجودگی کو کیوں نہیں سمجھتے؟
۱۲ تاہم افسوس کی بات ہے کہ کروڑوں نامنہاد مسیحیوں سمیت زیادہتر لوگ زمین پر رونما ہونے والے اہم واقعات کے پیچھے چھپے حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ تو خدا کی بادشاہت کا اعلان کرنے والوں کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۳، ۴) کیوں؟ اِسلئےکہ شیطان نے اُنکی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۳، ۴) درحقیقت اُس نے کئی صدیاں پہلے ہی نامنہاد مسیحیوں کی روحانی عقلوں پر پردہ ڈالنا شروع کر دیا تھا، حتیٰکہ وہ اُنکے بیشقیمت بادشاہتی اُمید کے ترک کرنے کا بھی سبب بنا ہے۔
بادشاہتی اُمید کو چھوڑ دینا
۱۳. روحانی تاریکی کے پردے کا کیا نتیجہ نکلا؟
۱۳ یسوع نے گیہوں اور کڑوے دانوں کی اپنی تمثیل میں یہ پیشینگوئی کر دی تھی کہ برگشتہ اشخاص مسیحی کلیسیا میں داخل ہوکر بہتوں کو گمراہ کر دینگے۔ (متی ۱۳:۲۴-۳۰، ۳۶-۴۳؛ اعمال ۲۰:۲۹-۳۱؛ یہوداہ ۴) ایک وقت آیا کہ اِن نامنہاد مسیحیوں نے جھوٹے مذہبی تہواروں، رسوم اور تعلیمات پر چلنا شروع کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان تہواروں، رسومات اور تعلیمات کو مسیحی قرار دے دیا۔ مثال کے طور پر، کرسمس کی رسومات جھوٹے معبود سورج دیوتا اور زحل کی پرستش سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن نامنہاد مسیحیوں کو اِن غیرمسیحی تہواروں کو اَپنانے کی تحریک کس نے دی؟ دی نیو انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا (۱۹۷۴) بیان کرتا ہے: ”کرسمس یعنی یسوع مسیح کی پیدائش کا تہوار اسلئے رائج کِیا گیا تھا کیونکہ لوگ مسیح کی قریبی واپسی کی اُمید چھوڑتے جا رہے تھے۔“
۱۴. آریگن اور آگسٹین نے کیسے بادشاہتی سچائی کو غلط طریقے سے پیش کِیا؟
۱۴ لفظ ”بادشاہت“ کے غلط معنی پر بھی غور کریں۔ کتاب دی کنگڈم آف گاڈ اِن ٹوینٹیئتھ سنچری انٹرپریٹیشن بیان کرتی ہے: ”بادشاہت کی بابت مسیحی جو سمجھ رکھتے تھے آریگن [تیسری صدی کا عالمِدین] نے اس سے بالکل فرق معنی دئے۔ اسکے مطابق بادشاہت دل میں خدا کی حکمرانی ہے۔“ آریگن کی تعلیم کا ماخذ کیا تھا؟ اُسکی تعلیم صحائف کی بجائے ”فیلسوفی اور دنیاوی نظریے پر مبنی تھی جو یسوع اور ابتدائی کلیسیا کے نظریے سے بالکل فرق تھی۔“ اپنی کتاب ’خدا کا شہر‘ میں آگسٹین (۳۵۴-۴۳۰ س.ع.) نے بیان کِیا کہ چرچ بذاتِخود خدا کی بادشاہت ہے۔ ایسی غیرصحیفائی سوچ نے دُنیائےمسیحیت کے چرچز کو سیاسی اقتدار پر قابض ہونے کیلئے مذہبی بنیاد فراہم کی۔ اُنہوں نے کئی صدیوں تک ایسے اقتدار کو قائم رکھا اور اکثراوقات بڑے ظالمانہ طریقے سے حکومت کی ہے۔—مکاشفہ ۱۷:۵، ۱۸۔
۱۵. دُنیائےمسیحیت کے چرچز کے سلسلے میں گلتیوں ۶:۷ کیسے پوری ہو رہی ہے؟
۱۵ تاہم، آجکل چرچز نے جوکچھ بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں۔ (گلتیوں ۶:۷) بہتیرے اپنے اختیار سے محروم ہو رہے ہیں۔ نیز ان چرچز میں عبادت کرنے والے بھی کم ہو رہے ہیں۔ یورپ میں یہ رجحان بہت نمایاں ہے۔ جریدے کرسچیئنٹی ٹوڈے کے مطابق ”اس وقت یورپ کے بڑے چرچز عجائبگھر بن چکے ہیں جنہیں اب صرف سیاح ہی دیکھنے آتے ہیں۔“ دُنیا کے دیگر حصوں میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جھوٹے مذہب کیلئے یہ کس بات کا اشارہ ہے؟ کیا یہ محض مالی امداد اور ممبروں کی کمی کی وجہ سے ختم ہو رہا ہے؟ اس سے سچی پرستش پر کیا اثر پڑیگا؟
خدا کے روزِعظیم کیلئے تیار
۱۶. بڑے بابل سے بڑھتی ہوئی عداوت کس بات کا نشان ہے؟
۱۶ جسطرح سے خاموش آتشفشاں سے دھواں اور راکھ اسکے کسی بھی وقت پھٹنے کا نشان ہوتا ہے اسی طرح بہتیرے ملکوں میں مذہب کیلئے بڑھتی ہوئی عداوت اس بات کا نشان ہے کہ جھوٹے مذہب کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ عنقریب، یہوواہ دُنیا کے سیاسی عناصر کو بڑے بابل کا پردہ فاش کرنے اور تباہ کرنے کی تحریک دیگا۔ (مکاشفہ ۱۷:۱۵-۱۷؛ ۱۸:۲۱) کیا سچے مسیحیوں کو اس واقعہ سے اور اسکے بعد رُونما ہونے والی ”بڑی مصیبت“ کے دیگر پہلوؤں سے ڈرنا چاہئے؟ (متی ۲۴:۲۱) ہرگز نہیں! جب خدا شریروں کے خلاف کارروائی کریگا تو انکے پاس خوش ہونے کی ہر وجہ موجود ہے۔ (مکاشفہ ۱۸:۲۰؛ ۱۹:۱، ۲) پہلی صدی کے یروشلیم اور اس میں رہنے والے مسیحیوں کے نمونے پر غور کریں۔
۱۷. یہوواہ کے وفادار خادم کیوں اعتماد کیساتھ اس نظام کے خاتمے کا سامنا کرینگے؟
۱۷ جب رومی فوجوں نے ۶۶ س.ع. میں یروشلیم کا محاصرہ کِیا تو روحانی طور پر بیدار مسیحیوں کو اس پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ اس سے خوفزدہ ہوئے تھے۔ خدا کے کلام کے اچھے طالبعلم ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے ”کہ اسکا اجڑ جانا نزدیک ہے۔“ (لوقا ۲۱:۲۰) وہ یہ بھی جانتے تھے کہ خدا نے انکی حفاظت کیلئے بھاگ جانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ جب ایسا ہوا تو مسیحی بھاگ گئے۔ (دانیایل ۹:۲۶؛ متی ۲۴:۱۵-۱۹؛ لوقا ۲۱:۲۱) اسی طرح آجکل، جو خدا کو جانتے اور اسکے بیٹے کی فرمانبرداری کرتے ہیں وہ اعتماد کیساتھ اس نظام کے خاتمے کا سامنا کر سکتے ہیں۔ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۶-۹) درحقیقت، جب بڑی مصیبت آتی ہے تو وہ خوشی کیساتھ ’سیدھے ہوکر سر اُوپر اُٹھائینگے اسلئےکہ اُنکی مخلصی نزدیک ہوگی۔‘—لوقا ۲۱:۲۸۔
۱۸. یہوواہ کے خادموں کے خلاف جوج کے براہِراست حملے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
۱۸ بڑے بابل کی تباہی کے بعد، جوج کے ماجوج کے طور پر، شیطان یہوواہ کے پُرامن گواہوں کے خلاف براہِراست حملہآور ہوگا۔ ”زمین کو بادل کی طرح چھپا“ لینے والے کی مانند جوج کی فوجیں آسانی سے فتح حاصل کرنے کی توقع کرینگی۔ لیکن کوئی اَور ہی چیز انکی منتظر ہوگی! (حزقیایل ۳۸:۱۴-۱۶، ۱۸-۲۳) یوحنا رسول نے لکھا: ”مَیں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اُس پر ایک سوار ہے جو سچا اور برحق کہلاتا ہے . . . اور قوموں کے مارنے کیلئے اُسکے مُنہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے۔“ یہ فاتح ”بادشاہوں کا بادشاہ“ یہوواہ کے پرستاروں کو بچائیگا اور انکے دُشمنوں کو ہلاک کر دیگا۔ (مکاشفہ ۱۹:۱۱-۲۱) یہ صورت بدلنے والی رویا کی تکمیل کا کیا ہی شاندار عروج ہوگا!
۱۹. مسیح کی مکمل فتح کیسے اسکے شاگردوں پر اثرانداز ہوگی اور انہیں اس وقت کیا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؟
۱۹ یسوع ”اس دن . . . سب ایمان لانے والوں کے سبب سے تعجب کا باعث“ ہوگا۔ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۱۰) کیا آپ ان اشخاص میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو اُس وقت خدا کے فاتح بیٹے کی تعظیم کرینگے؟ توپھر اپنے ایمان کو بڑھائیں اور ’تیار رہیں کیونکہ جس گھڑی آپکو گمان بھی نہ ہوگا ابنِآدم آ جائیگا۔‘—متی ۲۴:۴۳، ۴۴۔
ہوشیار رہیں
۲۰. (ا) ہم ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی صورت میں خدا کی فراہمی کیلئے اپنی قدردانی کسطرح ظاہر کر سکتے ہیں؟ (ب) ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟
۲۰ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ باقاعدگی سے خدا کے لوگوں کو تاکید کرتا ہے کہ جاگتے اور ہوشیار رہیں۔ (متی ۲۴:۴۵، ۴۶؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۶) کیا آپ ان بروقت یاددہانیوں کی قدر کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی زندگی میں مختلف فیصلے کرتے وقت ان یاددہانیوں کو استعمال کرتے ہیں؟ کیوں نہ خود سے پوچھیں: ’کیا مجھے واضح روحانی سمجھ حاصل ہے جو مجھے خدا کے بیٹے کو آسمان پر حکمرانی کرتے دیکھنے کے قابل بناتی ہے؟ کیا مَیں اُسے بڑے بابل اور شیطانی نظام کے خلاف الہٰی عدالت کرنے کیلئے تیار دیکھتا ہوں؟‘
۲۱. بعض اشخاص کی روحانی سمجھ کیوں کمزور ہو گئی ہے اور انہیں فوراً کیا کرنا چاہئے؟
۲۱ یہوواہ کے لوگوں سے اس وقت رفاقت رکھنے والے بعض اشخاص نے اپنی روحانی سمجھ کو کمزور کر لیا ہے۔ کیا یہ صبر اور برداشت کی کمی کی وجہ ہوا ہے جیساکہ یسوع کے کچھ شاگردوں کیساتھ بھی تھا؟ کہیں زندگی کی فکروں، مادہپرستی یا اذیت نے تو انہیں متاثر نہیں کِیا؟ (متی ۱۳:۳-۸، ۱۸-۲۳؛ لوقا ۲۱:۳۴-۳۶) شاید بعض نے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی شائعکردہ کسی معلومات کو سمجھنا مشکل پایا ہے؟ اگر ان میں سے کوئی بات آپ کیساتھ واقع ہوئی ہے تو ہم آپکو تاکید کرتے ہیں کہ نئے جوش کیساتھ خدا کے کلام کا مطالعہ کریں اور یہوواہ سے دُعا کریں تاکہ آپ اس کیساتھ مضبوط اور قریبی رشتہ حاصل کر سکیں۔—۲-پطرس ۳:۱۱-۱۵۔
۲۲. صورت بدلنے والی رویا اور اس سے تعلق رکھنے والی پیشینگوئیاں آپکو کیسے متاثر کرتی ہیں؟
۲۲ جب یسوع کے شاگردوں کو حوصلہافزائی کی ضرورت تھی تو انہیں صورت بدلنے والی رویا بخشی گئی۔ آجکل، ہمیں مضبوط کرنے کیلئے اس سے بڑی چیز ہے۔ ہمیں اس شاندار رویا کی تکمیل اور اس سے تعلق رکھنے والی پیشینگوئی کی سمجھ حاصل ہے۔ جب ہم ان شاندار حقیقتوں اور مستقبل میں انکی اہمیت پر غور کرتے ہیں تو ہم بھی اپنے سارے دل سے یوحنا رسول کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں جب اس نے کہا: ”آمین۔ اَے خداوند یسوؔع آ۔“—مکاشفہ ۲۲:۲۰۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 10 اصلی یونانی زبان میں ”مصیبتوں“ کا ترجمہ ”دردِزہ“ کِیا گیا ہے۔ (متی ۲۴:۸، کنگڈم انٹرلینئر) اِس سے اشارہ ملتا ہے کہ دردِزہ کی طرح دُنیا کے مسائل بڑھتے جائینگے، انکی شدت میں اضافہ ہوتا جائیگا اور یہ دیر تک رہینگے۔ یہ بڑی مصیبت پر انتہا کو پہنچ جائینگے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• سن ۱۸۷۰ میں، بائبل طالبعلموں کے چھوٹے سے گروہ کو یسوع مسیح کی واپسی کی بابت کیا سمجھ حاصل ہوئی تھی؟
• صورت بدلنے والی رویا کیسے تکمیل پا چکی ہے؟
• یسوع مسیح کا فتح کرتے ہوئے آگے بڑھنا دُنیا اور مسیحی کلیسیا پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟
• جب یسوع مسیح اپنی فتح مکمل کرتا ہے تو بچنے والوں میں شمار ہونے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۶ اور ۱۷ پر تصویریں]
ایک وعدہ جو حقیقت بن چکا ہے
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب یسوع مسیح نے فتح کرنا شروع کِیا تو کیا واقع ہوا تھا؟