مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپکی زندگی—‏کسقدر قیمتی ہے؟‏

آپکی زندگی—‏کسقدر قیمتی ہے؟‏

آپکی زندگی—‏کسقدر قیمتی ہے؟‏

جس دوران یورپ میں پہلی عالمی جنگ میں لاتعداد زندگیاں قربان ہو رہی تھیں،‏ اُسی دوران انٹارکٹیکا میں زندگیاں بچانے کیلئے حیران‌کُن کوششیں کی جا رہی تھیں۔‏ اینگلو-‏آئرش تحقیق‌وجستجو کے شوقین ارنسٹ شاک‌لٹن کو اور اُسکے ۲۷ ساتھیوں کو جہاز،‏ اینڈیورنس کے ٹوٹنے اور برف کے تودے میں دب جانے سے ایک المناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔‏ تاہم،‏ کسی نہ کسی طرح شاک‌لٹن اپنے آدمیوں کو بحراوقیانوس کے جنوب میں ایلی‌فینٹ جزیرے پر لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔‏ وہ کوئی زیادہ محفوظ جگہ نہیں تھی۔‏ وہ ابھی تک شدید خطرے میں تھے۔‏

شاک‌لٹن نے محسوس کِیا کہ اُنکے بچنے کی واحد اُمید جنوبی جارجیا کے جزیرے سے مدد قبول کرنا ہے۔‏ لیکن یہ مقام اُن سے ۱۰۰،‏۱ کلومیٹر دُور تھا اور اُسکے پاس صرف ۲۲ فٹ لمبی کشتی تھی جو اُس نے اینڈیورنس سے بچا لی تھی۔‏ اُنکے بچنے کے امکانات زیادہ نہیں تھے۔‏

تاہم،‏ مئی ۱۰،‏ ۱۹۱۶ کو ۱۷ ہولناک دنوں کے بعد شاک‌لٹن اور اُسکے عملے کے پانچ ساتھی جنوبی جارجیا پہنچ گئے،‏ لیکن شدید سمندری حالتوں نے اُنہیں غلط جگہ اُترنے پر مجبور کر دیا۔‏ اُنہیں اپنی منزلِ‌مقصود تک پہنچنے کیلئے ۳۰ کلومیٹر برف‌پوش پہاڑی سفر کرنا تھا جسکی کسی نقشے میں کوئی نشاندہی نہیں تھی۔‏ صفر سے بھی کم درجۂ‌حرارت اور کوہ‌پیمائی کے مناسب سازوسامان کے بغیر تمام مشکلات کے باوجود شاک‌لٹن اور اُسکے ساتھی اپنی منزلِ‌مقصود تک پہنچ گئے۔‏ بالآخر وہ مصیبت کے مارے اپنے ساتھیوں کو محفوظ جگہ پہنچانے کے قابل ہو گیا۔‏ شاک‌لٹن نے اتنی تگ‌ودَو کیوں کی تھی؟‏ اُسکی سوانح‌حیات لکھنے والا رونلڈ لکھتا ہے،‏ ”‏اُسکا مقصد اپنے تمام آدمیوں کو زندہ سلامت نکالنا“‏ تھا۔‏

‏”‏ایک بھی غیرحاضر نہیں رہتا“‏

جب شاک‌لٹن کے آدمی ”‏سرد اور ناقابلِ‌رسائی چٹانی جزیرے اور تیس کلومیٹر تک پھیلی ہوئی برف“‏ پر سکڑے انتظار کر رہے تھے تو اُنہیں مکمل مایوسی سے کس چیز نے بچایا تھا؟‏ اُنکے اعتماد نے اُنکا ساتھ دیا تھا کہ اُنکا راہنما اپنے وعدے کے مطابق اُنہیں ضرور بچائیگا۔‏

نسلِ‌انسانی آجکل ایلی‌فینٹ جزیرے پر موجود اُن بےیارومددگار آدمیوں کی مانند ہی ہیں۔‏ بہتیرے ناقابلِ‌یقین خراب حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور محض زندہ رہنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔‏ تاہم،‏ وہ مکمل بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ خدا ”‏مصیبت‌زدہ کو اُسکی مصیبت سے چھڑاتا ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۳۶:‏۱۵‏)‏ یقین رکھیں کہ خدا ہر ایک کی جان کو قیمتی خیال کرتا ہے۔‏ ہمارا خالق یہوواہ خدا فرماتا ہے:‏ ”‏مصیبت کے دن مجھ سے فریاد کر مَیں تجھے چھڑاؤنگا۔‏“‏—‏زبور ۵۰:‏۱۵‏۔‏

کیا آپ کیلئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ خالق آپکو زمین کے اربوں انسانوں میں سے ایک فرد کے طور پر قیمتی سمجھتا ہے؟‏ غور کریں کہ ہماری وسیع کائنات کی کہکشاؤں کے اربوں ستاروں کی بابت یسعیاہ نبی نے کیا لکھا:‏ ”‏اپنی آنکھیں اُوپر اُٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے۔‏ وہی جو انکے لشکر کو شمار کرکے نکالتا ہے اور اُن سب کو نام بنام بلاتا ہے اُسکی قدرت کی عظمت اور اُسکے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیرحاضر نہیں رہتا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۶‏۔‏

کیا آپ اِسکا مطلب سمجھتے ہیں؟‏ ہماری کہکشاں ملکی وے میں کم‌ازکم ۱۰۰ بلین ستارے ہیں۔‏ ہمارا نظامِ‌شمسی محض اِسکا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔‏ اِسکے علاوہ اَور کتنی کہکشائیں ہیں؟‏ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن بعض کے مطابق یہ اندازاً ۱۲۵ بلین ہیں۔‏ ذرا سوچیں اِن کہکشاؤں میں کتنے زیادہ ستارے ہونگے!‏ تاہم،‏ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کا خالق ہر ستارے کو بنام جانتا ہے۔‏

‏”‏تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں“‏

کوئی اعتراض اُٹھا سکتا ہے،‏ محض اربوں ستاروں—‏یا اربوں انسانوں کے نام جاننے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ انفرادی طور پر اُنکی فکر بھی رکھتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ ایک کمپیوٹر بھی اربوں لوگوں کے نام رجسٹر کر سکتا ہے۔‏ کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ کمپیوٹر اُن میں سے کسی کی بھی فکر رکھتا ہے۔‏ تاہم،‏ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ خدا نہ صرف اربوں انسانوں کے نام جانتا ہے بلکہ وہ اُنکی انفرادی طور پر فکر بھی رکھتا ہے۔‏ پطرس رسول نے لکھا،‏ ”‏اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیونکہ اُسکو تمہاری فکر ہے۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۷‏۔‏

یسوع مسیح نے بھی بیان کِیا:‏ ”‏کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بِکتیں؟‏ اور اُن میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گر سکتی۔‏ بلکہ تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں۔‏ پس ڈرو نہیں۔‏ تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۲۹-‏۳۱‏)‏ غور کریں کہ یسوع مسیح نے یہ نہیں کہا تھا کہ خدا اِس بات سے واقف ہے کہ چڑیوں اور انسانوں کیساتھ کیا واقع ہو رہا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔‏“‏ آپکی قیمت چڑیوں سے زیادہ کیوں ہے؟‏ اسلئےکہ آپ ”‏خدا کی شبِیہ“‏ پر بنائے گئے ہیں۔‏ اسکا مطلب ہے کہ آپکے اندر اخلاقی،‏ ذہنی اور روحانی صفات پیدا کرنے اور انکا اظہار کرنے کی صلاحیت ہے۔‏ یہ تمام ایسی خوبیاں ہیں جو خدا کی اعلیٰ صفات کی عکاسی کرتی ہیں۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

‏”‏ایک ذہین خالق کی تخلیق“‏

ایسے لوگوں کی بات‌چیت سے گمراہ نہ ہوں جو خالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔‏ اُنکے نظریے کے مطابق کائنات کی عقل‌وسمجھ سے عاری،‏ غیرشخصی قوتوں نے آپکو خلق کِیا ہے۔‏ اُنکے مطابق آپ ”‏خدا کی شبِیہ“‏ پر بنائے جانے کی بجائے اِس کرۂارض کے دوسرے حیوانوں کی طرح ہیں۔‏

کیا یہ بات واقعی آپکی سمجھ میں آتی ہے کہ زندگی محض اتفاقاً یا عقل‌وسمجھ سے عاری قوتوں کے ذریعے وجود میں آئی ہے؟‏ مالیکیولر ماہرِحیاتیات مائیکل جے.‏ بی‌ہائے کے مطابق زندگی پر اثرانداز ہونے والے ”‏انتہائی پیچیدہ حیاتیاتی کیمیا عمل“‏ اِس نظریے کو قعطاً غیرمعقول قرار دیتے ہیں۔‏ وہ بیان کرتا ہے کہ حیاتیاتی کیمیا کا ثبوت یہ ناگزیر نتیجہ اخذ کرنے کا باعث بنتا ہے کہ ”‏بنیادی طور پر زمین پر زندگی ایک ذہین خالق کی تخلیق ہے۔‏“‏

بائبل بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہر لحاظ سے زمین پر زندگی ایک ذہین خالق کی تخلیق ہے۔‏ اِسکے علاوہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ تمام ذہین کاریگری کا منبع کائنات کا خالق،‏ یہوواہ خدا ہے۔‏—‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏

اِس دُکھ‌بھری دُنیا میں ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن اِس حقیقت کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ ہمیں زمین اور اِس پر تمام زندگی کے نمونہ‌ساز اور خالق پر ایمان کے منکر بنا دے۔‏ دو بنیادی سچائیوں کو ذہن میں رکھیں۔‏ پہلی سچائی تو یہ ہے کہ خدا نے ہمارے چوگرد نظر آنے والی ناکاملیت خدا کے مقصد کا حصہ نہیں تھی۔‏ دوسری سچائی یہ ہے کہ ہمارے خالق نے معقول وجوہات کی بِنا پر عارضی طور پر اِس ناکاملیت کو قائم رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔‏ جیسےکہ اِس رسالے میں اکثر بیان کِیا گیا ہے،‏ یہوواہ خدا نے تھوڑی مدت کیلئے بدی کو رہنے کی اجازت دی ہے تاکہ مستقل طور پر اُن اخلاقی مسائل کو حل کر سکے۔‏ وہ مسائل اُس وقت پیدا ہوئے تھے جب انسانوں نے پہلے پہل خدا کی حاکمیت کو ردّ کِیا تھا۔‏ *‏—‏پیدایش ۳:‏۱-‏۷؛‏ استثنا ۳۲:‏۴،‏ ۵؛‏ واعظ ۷:‏۲۹؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۸،‏ ۹‏۔‏

وہ محتاج کو چھڑائیگا

اگرچہ انسانوں کو آجکل بہت زیادہ تکلیف‌دہ حالتوں کا سامنا ہے توبھی زندگی ایک قیمتی تحفہ ہے۔‏ اسلئے ہم سب کو اسے بچانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏ مستقبل میں خدا جس زندگی کا وعدہ کرتا ہے اُسکے سامنے یہ مشکلات اور تکلیف‌دہ حالتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔‏ خدا کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں موجودہ تکلیف سے بچاکر ”‏حقیقی زندگی پر قبضہ کرنے“‏ کے قابل بنا دے جوکہ انسانوں کیلئے اُسکا ابتدائی مقصد تھا۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۹‏۔‏

خدا ہماری خاطر یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہے کیونکہ اُسکی نظر میں ہم میں سے ہر ایک کی زندگی بہت قیمتی ہے۔‏ اُس نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کا بندوبست بنایا تاکہ وہ ہمیں ہمارے والدین آدم اور حوا سے موروثی طور پر ملنے والے گُناہ،‏ ناکاملیت اور موت سے چھڑانے کیلئے فدیہ دے۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ یسوع مسیح نے فرمایا،‏ ”‏خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‏“‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶‏۔‏

خدا اُن لوگوں کیلئے کیا کریگا جنکی زندگی دُکھ‌تکلیف سے بھری ہوئی ہے؟‏ خدا کا الہامی کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏وہ محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جسکا کوئی مددگار نہیں چھڑائیگا۔‏ وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائیگا۔‏ اور محتاجوں کی جان کو بچائیگا۔‏ وہ فدیہ دیکر اُنکی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائیگا۔‏“‏ مگر خدا یہ سب کچھ کیوں کریگا؟‏ کیونکہ ”‏اُنکا خون اُسکی نظر میں بیش‌قیمت ہوگا۔‏“‏—‏زبور ۷۲:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

صدیوں سے نسلِ‌انسانی گُناہ اور ناکاملیت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے،‏ گویا وہ دردِزِہ میں پڑی ”‏کراہتی“‏ ہے۔‏ خدا نے یہ جانتے ہوئے اِسکی اجازت دی تھی کہ وہ بعدازاں ہر نقصان کی تلافی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۱۸-‏۲۲‏)‏ بہت جلد وہ اپنے بیٹے یسوع مسیح کو عطاکردہ بادشاہتی حکومت کے ذریعے ”‏سب چیزیں بحال“‏ کر دیگا۔‏—‏اعمال ۳:‏۲۱؛‏ متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

اِس میں اُن لوگوں کا زندہ کِیا جانا بھی شامل ہے جو ماضی میں دُکھ اُٹھاتے اُٹھاتے مر چکے ہیں۔‏ وہ خدا کی یاد میں محفوظ ہیں۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ اعمال ۲۴:‏۱۵‏)‏ بہت جلد وہ ”‏کثرت سے“‏ زندگی پائینگے۔‏ وہ زندگی زمینی فردوس میں دُکھ مصیبت سے آزاد ہمیشہ کی زندگی ہوگی۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۰؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳-‏۵‏)‏ اُس وقت ہر شخص زندگی سے بھرپور لطف اُٹھانے اور شاندار لیاقتیں اور صفات پیدا کرنے کے لائق ہوگا جو ظاہر کرینگی کہ وہ ”‏خدا کی شبِیہ“‏ پر بنایا گیا ہے۔‏

کیا آپ اُس زندگی سے لطف اُٹھانے کیلئے جسکا وعدہ یہوواہ نے کِیا ہے زندہ ہونگے؟‏ اِسکا انحصار آپ پر ہے۔‏ ہم التماس کرتے ہیں کہ آپ خدا کے انتظامات سے فائدہ اُٹھائیں جنکے ذریعے خدا ایسی تمام برکات لائیگا۔‏ اِس رسالے کے ناشرین خوشی سے ایسا کرنے میں آپکی مدد کرینگے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 17 اِس نکتے پر تفصیلی بحث کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کے ۸ باب ”‏خدا دُکھ کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‏“‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۴ اور ۵ پر تصویریں]‏

شاک‌لٹن کے بےیارومددگار آدمیوں کو یقین تھا کہ وہ اُنہیں بچانے کے وعدے کو ضرور پورا کریگا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

CORBIS ©

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

‏”‏تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے“‏