ایک ”بیشقیمت موتی“ پا لینا
ایک ”بیشقیمت موتی“ پا لینا
”آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے اور زورآور اُسے چھین لیتے ہیں۔“—متی ۱۱:۱۲۔
۱، ۲. (ا) یسوع مسیح نے بادشاہی کی بابت اپنی ایک تمثیل میں کس خاص خوبی کا ذکر کِیا؟ (ب) بیشقیمت موتی کی تمثیل میں یسوع مسیح نے کیا بیان کِیا؟
کیا آپ کسی بیشقیمت چیز کو حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں؟ اگرچہ لوگ خود کو دولت، شہرت، طاقت یا مرتبے جیسے مقاصد کے لئے وقف کر دیتے ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی نہایت پسندیدہ چیز کے مل جانے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو۔ یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہی کی بابت بیشمار تحریک دینے والی تمثیلوں میں سے ایک میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے والی ایک ایسی ہی پسندیدہ خوبی کا ذکر کِیا تھا۔
۲ یہ بیشقیمت موتی کی تمثیل ہے جو یسوع نے صرف اپنے شاگردوں کو سنائی تھی۔ یسوع نے بیان کِیا: ”آسمان کی بادشاہی اُس سوداگر کی مانند ہے جو عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا۔ جب اُسے ایک بیشقیمت موتی ملا تو اُس نے جاکر جوکچھ اُس کا تھا سب بیچ ڈالا اور اُسے مول لے لیا۔“ (متی ۱۳:۳۶، ۴۵، ۴۶) یسوع مسیح اس تمثیل سے اپنے سامعین کو کیا سکھانا چاہتا تھا؟ نیز ہم یسوع کے الفاظ سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
قیمتی موتی
۳. پُرانے زمانے میں عمدہ موتی اتنے قیمتی کیوں تھے؟
۳ پُرانے زمانے سے، موتیوں کو زیورات کے لئے استعمال کِیا جاتا رہا ہے۔ ایک رومی مصنف کے مطابق، موتیوں کا ”شمار قیمتی چیزوں میں ہوتا ہے۔“ سونےچاندی یا قیمتی پتھروں کے برعکس، موتی جاندار چیزوں کے ذریعے وجود میں آتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سیپیوں کی بعض اقسام چھوٹے چھوٹے پتھروں پر مخصوص تہ جمانے سے اُنہیں موتی میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ پُرانے زمانے میں بہترین موتی اسرائیل کی سرزمین سے کوسوں دُور بحرِقلزم، خلیج فارس اور بحرِہند سے جمع کئے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے یسوع نے اپنی تمثیل میں ایک سوداگر کا ذکر کِیا جو ”عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا۔“ واقعی قیمتی موتی تلاش کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش درکار ہے۔
۴. یسوع کی سوداگر والی تمثیل کا مرکزی خیال کیا ہے؟
۴ اگرچہ عمدہ موتی ہمیشہ سے بہت قیمتی سمجھے جاتے ہیں توبھی، یہ بات واضح ہے کہ یسوع مسیح کی تمثیل کا مرکزی خیال اُن کی مالی قدروقیمت نہیں تھی۔ اس تمثیل میں یسوع نے خدا کی بادشاہی کو قیمتی موتی سے تشبِیہ دینے کی بجائے ہماری توجہ عمدہ موتیوں کی تلاش میں
ایک سوداگر اور موتی مل جانے پر اُس کے ردِعمل کی طرف دلائی ہے۔ ایک عام دُکاندار کے برعکس، موتیوں کا سوداگر یا بیوپاری اپنے کام میں خوب مہارت اور عمدہ موتیوں کو پہچاننے کے لئے خاص نظر اور تجربہ رکھتا ہے۔ وہ پہلی ہی نظر میں اصلی موتی کو پہچان لیتا ہے اور نقلی موتیوں کے دھوکے میں نہیں آتا۔۵، ۶. (ا) یسوع مسیح کی تمثیل کے سوداگر کی بابت خاص بات کیا ہے؟ (ب) کھیت میں چھپے خزانے کی تمثیل میں سوداگر کی بابت کیا ظاہر کِیا گیا ہے؟
۵ اس سوداگر کے سلسلے میں ایک اَور بات بھی غورطلب ہے۔ ایک عام سوداگر یا بیوپاری شاید پہلے موتی کی قیمت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس بات کا اندازہ لگا سکے کہ وہ نفع کے ساتھ اسے کتنی قیمت میں خرید سکتا ہے۔ پھر وہ اس بات پر بھی غور کرے گا کہ آیا اس کی مانگ بھی ہے یا نہیں تاکہ وہ اسے اچھے داموں فوری طور پر بیچ سکے۔ دوسرے لفظوں میں وہ موتی کا مالک بننے کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی دلچسپی رکھتا ہے کہ وہ اس سے کتنا منافع حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن یسوع مسیح کی تمثیل کا سوداگر ایسا نہیں ہے۔ اُس کی دلچسپی پیسے یا مال میں نہیں تھی۔ درحقیقت وہ اس موتی کو حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ بیچ ڈالنے کو تیار تھا۔ جس میں اُس کی تمام ذاتی چیزیں اور جائیداد شامل تھی۔
۶ یسوع مسیح کی تمثیل کے مطابق سوداگر نے جوکچھ کِیا وہ بیشتر سوداگروں کی نظر میں شاید بےوقوفی تھی۔ ایک ہوشیار کاروباری شخص ایسا خطرناک کاروبار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن یسوع کی تمثیل میں سوداگر چیزوں کی اہمیت کی بابت مختلف نظریہ رکھتا تھا۔ اُس کی خوشی مالی نفع کی بجائے کسی بیشقیمت چیز کا مالک بننے سے حاصل ہونے والی راحت اور اطمینان میں تھی۔ اس نکتے کو یسوع مسیح کی اسی طرح کی ایک دوسری تمثیل سے واضح کِیا گیا ہے۔ اُس نے کہا: ”آسمان کی بادشاہی کھیت میں چھپے خزانہ کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے پاکر چھپا دیا اور خوشی کے مارے جاکر جوکچھ اُس کا تھا بیچ ڈالا اور اُس کھیت کو مول لے لیا۔“ (متی ۱۳:۴۴) جیہاں، اس خزانے کو پانے اور اس کا مالک بننے سے حاصل ہونے والی خوشی نے اُس شخص کو اپنا سب کچھ بیچ ڈالنے کی تحریک دی تھی۔ کیا آجکل بھی ایسے لوگ ہیں؟ کیا کوئی ایسا خزانہ ہے جس کے لئے سب کچھ قربان کِیا جا سکتا ہے؟
بادشاہی کی قدروقیمت کو سمجھنے والے لوگ
۷. یسوع مسیح نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ بادشاہت کی اعلیٰ قدروقیمت کو سمجھتا ہے؟
۷ یسوع مسیح اپنی تمثیل میں ”آسمان کی بادشاہی“ کا ذکر کر رہا تھا۔ اناجیل اس حقیقت کی پُرزور شہادت دیتی ہیں کہ اُس نے یقیناً بادشاہت کی اعلیٰ قدروقیمت کو سمجھ لیا تھا۔ یسوع نے ۲۹ س.ع. میں اپنے بپتسمے کے بعد ”منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کِیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔“ ساڑھے تین سال تک، اس نے بیشمار لوگوں کو بادشاہت کی بابت تعلیم دی۔ اس نے مُلک کے طولوعرض کا سفر کِیا، ”وہ منادی کرتا اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سناتا ہوا شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھرنے لگا۔“—متی ۴:۱۷؛ لوقا ۸:۱۔
۸. یسوع مسیح نے کیسے ظاہر کِیا کہ بادشاہت کیا کچھ انجام دے گی؟
۸ یسوع مسیح نے سارے مُلک میں بیشمار معجزے کئے۔ اس نے بیماروں کو شفا بخشی، بھوکوں کو کھانا کھلایا، طوفانوں کو ساکن کِیا، یہانتک کہ مُردوں کو بھی زندہ کِیا۔ یسوع نے یہ بھی ظاہر کِیا کہ خدا کی بادشاہت کیا کچھ انجام دے گی۔ (متی ۱۴:۱۴-۲۱؛ مرقس ۴:۳۷-۳۹؛ لوقا ۷:۱۱-۱۷) بالآخر، اُس نے سولی پر ایک شہید کی موت مرنے سے خدا اور بادشاہت کے لئے اپنی وفاداری ثابت کر دی۔ ”قیمتی موتی“ کے لئے اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار سوداگر کی طرح یسوع مسیح بادشاہت کے لئے زندہ رہا اور بادشاہت کی خاطر ہی اُس نے اپنی جان بھی دے دی۔—یوحنا ۱۸:۳۷۔
۹. یسوع مسیح کے ابتدائی شاگردوں میں کونسی نادر خوبی نمایاں تھی؟
۹ یسوع مسیح نے نہ صرف اپنی ساری زندگی بادشاہی کے لئے وقف کر دی بلکہ اُس نے پیروکاروں کا ایک چھوٹا سا گروہ بھی تشکیل دیا۔ یہ لوگ بھی اپنے اندر بادشاہی کی قدروقیمت کو سمجھنے کی نادر خوبی رکھتے تھے۔ ان میں اندریاس بھی شامل تھا جو پہلے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا شاگرد تھا۔ یوحنا کی یہ گواہی سننے کے بعد کہ یسوع ”خدا کا برّہ“ یوحنا ۱:۳۵-۴۹۔
ہے، اندریاس اور یوحنا کا ایک دوسرا شاگرد، شاید زبدی کے بیٹوں میں سے ایک جس کا نام یوحنا تھا فوراً یسوع مسیح پر ایمان لے آئے اور اُس کے پیچھے ہو لئے۔ تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اندریاس سیدھا اپنے بھائی شمعون کے پاس گیا اور اُسے کہا: ”ہم کو خرستُسؔ یعنی مسیح مل گیا۔“ اس کے فوراً بعد، شمعون (جو کیفا یا پطرس کے طور پر مشہور ہوا) فلپس اور نتنایل بھی سمجھ گئے کہ یسوع ہی مسیحا ہے۔ نتنایل نے تو یسوع مسیح کو یہ کہنے کی تحریک پائی: ”تُو خدا کا بیٹا ہے۔ تُو اؔسرائیل کا بادشاہ ہے۔“—عمل کی تحریک پانا
۱۰. جب یسوع مسیح کچھ عرصہ بعد دوبارہ اپنے شاگردوں سے ملا تو اُن کا ردِعمل کیسا تھا؟
۱۰ جب اندریاس، پطرس، یوحنا اور دوسرے شاگردوں کو پتا چلا کہ اُنہیں مسیحا مل گیا ہے تو اُن کی خوشی کا موازنہ اُس سوداگر کی خوشی کے ساتھ کِیا جا سکتا ہے جسے ایک بیشقیمت موتی مل گیا تھا۔ اب وہ کیا کریں گے؟ اناجیل سے ہمیں یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ یسوع مسیح کے ساتھ پہلی ملاقات کے بعد اُن کا ردِعمل کیسا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اُن میں سے بیشتر اپنے معمول کے کاموں میں لگ گئے ہوں گے۔ تاہم، تقریباً ایک سال بعد جب یسوع مسیح کی اندریاس، پطرس، یوحنا اور یوحنا کے بھائی یعقوب سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو وہ گلیل کی جھیل پر مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ * اُنہیں دیکھ کر یسوع نے کہا: ”میرے پیچھے چلے آؤ تو مَیں تم کو آدمگیر بناؤں گا۔“ اُن کا ردِعمل کیا تھا؟ پطرس اور اندریاس کی بابت متی کی انجیل بیان کرتی ہے: ”وہ فوراً جال چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔“ جہانتک یعقوب اور یوحنا کا تعلق ہے تو ان کی بابت ہم پڑھتے ہیں: ”وہ فوراً کشتی اور اپنے باپ کو چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔“ لوقا کی انجیل بیان کرتی ہے کہ وہ ”سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔“—متی ۴:۱۸-۲۲؛ لوقا ۵:۱-۱۱۔
۱۱. جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو بلایا تو کیا چیز اُن کے فوری ردِعمل ظاہر کرنے کا باعث بنی تھی؟
۱۱ کیا شاگردوں نے یسوع کے پیچھے ہو لینے کا فیصلہ عجلت میں کِیا تھا؟ ہرگزنہیں! اگرچہ اُنہوں نے یسوع کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے بعد واپس مچھلیاں پکڑنے کا اپنا خاندانی کام شروع کر دیا تھا توبھی اُس وقت اُنہوں نے جوکچھ دیکھا اور سنا اُس نے بِلاشُبہ اُن کے دلودماغ پر گہرا اثر کِیا ہوگا۔ ایک سال کے عرصے نے اُنہیں اس معاملے پر غوروفکر کرنے کے لئے کافی وقت دے دیا ہوگا۔ اب فیصلے کا وقت آ گیا تھا۔ کیا وہ اُس سوداگر کی مانند بنیں گے جو بیشقیمت موتی پاکر اتنا جوش سے بھر گیا تھا کہ یسوع کی تمثیل کے مطابق موتی خریدنے کے لئے اُس نے فوراً جاکر اپنا سب کچھ بیچ ڈالا؟ جیہاں، اُنہوں نے جوکچھ دیکھا اور سنا اُس نے اُن کے دل کو تحریک دی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب کچھ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ لہٰذا جیسے اناجیل بیان کرتی ہیں وہ بغیر ہچکچائے سب کچھ چھوڑ کر یسوع کے پیچھے ہو لئے۔
۱۲، ۱۳. (ا) یسوع مسیح کا کلام سننے والے بیشتر لوگوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟ (ب) یسوع مسیح نے اپنے وفادار شاگردوں کی بابت کیا کہا اور ان الفاظ سے اُس کی کیا مُراد تھی؟
۱۲ یہ وفادار شاگرد اُن لوگوں سے کتنے مختلف تھے جن کا اناجیل میں بعدازاں ذکر آیا ہے! بہتیرے ایسے تھے جنہیں یسوع نے کھانا کھلایا یا شفا بخشی لیکن وہ یسوع کے پیچھے آنے کی بجائے اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو گئے۔ (لوقا ۱۷:۱۷، ۱۸؛ یوحنا ۶:۲۶) جب یسوع نے لوگوں کو اپنے پیچھے آنے کی دعوت دی تو بعض نے عذر پیش کئے۔ (لوقا ۹:۵۹-۶۲) اس کے بالکل برعکس، وفادار شاگردوں کی بابت یسوع نے بعد میں بھی کہا: ”یوؔحنا بپتسمہ دینے والے کے دنوں سے اب تک آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے اور زورآور اُسے چھین لیتے ہیں۔“—متی ۱۱:۱۲۔
۱۳ ”زور“ اور ”زورآور“ کی اصطلاحوں کا کیا مطلب ہے؟ جس یونانی فعل سے یہ اصطلاحیں لی گئی ہیں اُن کی بابت ایک لغت بیان کرتی ہے کہ ”یہ فعل بہت زیادہ کوشش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔“ نیز اس آیت کی بابت بائبل عالم ہنریخ میئر بیان کرتا ہے: ”اس آیت میں مسیحائی بادشاہی کے لئے درکار اشتیاق، انتھک کوشش اور جدوجہد کو بیان کِیا گیا ہے . . . لہٰذا بادشاہی کے سلسلے میں ہمارا اشتیاق انتہائی پُرجوش ہے۔“ اُس سوداگر کی مانند، یہ لوگ جلد ہی سمجھ گئے کہ کیا چیز واقعی بیشقیمت ہے لہٰذا اُنہوں نے خوشی خوشی بادشاہت کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔—متی ۱۹:۲۷، ۲۸؛ فلپیوں ۳:۸۔
دوسرے بھی اس کام میں شریک ہو گئے
۱۴. یسوع مسیح نے رسولوں کو بادشاہی کی منادی کے لئے کیسے تیار کِیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
۱۴ اپنی خدمتگزاری کے دوران یسوع نے دیگر لوگوں کی بھی بادشاہی کو تلاش کرنے اور اس کی بابت تربیت حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ سب سے پہلے اُس نے اپنے شاگردوں میں سے بارہ کو چنا اور اُنہیں رسول مقرر کِیا اور بھیجا۔ یسوع مسیح نے انہیں خدمتگزاری کی بابت مکمل تفصیلات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی آگاہ کِیا کہ اُنہیں آگے چل کر بہت سی آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (متی ۱۰:۱-۴۲؛ لوقا ۶:۱۲-۱۶) اگلے دو سال کے دوران وہ مُلکبھر میں منادی کرنے کے سلسلے میں یسوع کے ساتھ رہے اور اُنہوں نے اُس کے ساتھ قریبی رشتے سے خوب لطف اُٹھایا۔ اُنہوں نے اُس کا کلام سنا، اُس کے معجزانہ کام دیکھے اور اُس کے ذاتی نمونے سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ (متی ۱۳:۱۶، ۱۷) اس سے وہ بِلاشُبہ بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اسی لئے سوداگر کی مانند وہ بھی بادشاہی کی تلاش میں انتہائی پُرجوش اور مخلص تھے۔
۱۵. یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو خوش ہونے کی کونسی اصل وجہ بتائی؟
۱۵ بارہ رسولوں کے علاوہ، یسوع نے ”ستر آدمی اَور مقرر کئے اور جس جس شہر اور جگہ کو خود جانے والا تھا وہاں اُنہیں دو دو کرکے اپنے آگے بھیجا۔“ اس کے علاوہ یسوع نے اُنہیں مستقبل میں آنے والی لوقا ۱۰:۱-۱۲) جب وہ ستر واپس لوٹے تو وہ بہت خوش تھے اور اُنہوں نے یسوع کو یہ رپورٹ دی: ”اَے خداوند تیرے نام سے بدروحیں بھی ہمارے تابع ہیں۔“ لیکن جب یسوع نے اُنہیں بتایا کہ بادشاہی کے لئے اُن کے جوشوجذبے کی بدولت وہ اس سے بھی زیادہ خوشی کا تجربہ کریں گے تو اُنہیں یہ جان کر بڑی حیرانی ہوئی ہوگی۔ اُس نے اُن سے کہا: ”اس سے خوش نہ ہو کہ روحیں تمہارے تابع ہیں بلکہ اس سے خوش ہو کہ تمہارے نام آسمان پر لکھے ہوئے ہیں۔“—لوقا ۱۰:۱۷، ۲۰۔
آزمائشوں اور مشکلات کی بابت بھی بتایا اور اُنہیں لوگوں کو یہ بتانے کی ہدایت کی: ”خدا کی بادشاہی تمہارے نزدیک آ پہنچی ہے۔“ (۱۶، ۱۷. (ا) یسوع مسیح نے اپنی آخری رات اپنے وفادار رسولوں کو کیا بتایا تھا؟ (ب) یسوع مسیح کی باتوں سے رسولوں کو کونسی خوشی اور یقیندہانی حاصل ہوئی؟
۱۶ اپنے رسولوں کے ساتھ اپنی آخری رات یعنی ۱۴ نیسان، ۳۳ س.ع. میں اُس نے ایک تقریب کا آغاز کِیا جسے آخری کھانے کا نام دیا گیا۔ اُس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا کہ اس کی یادگاری میں اِس تقریب کو مناتے رہیں۔ شام کے وقت یسوع نے ۱۱ رسولوں سے کہا: ”تُم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے۔ اور جیسے میرے باپ نے میرے لئے ایک بادشاہی مقرر کی ہے مَیں بھی تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں۔ تاکہ میری بادشاہی میں میری میز پر کھاؤ پیو بلکہ تُم تختوں پر بیٹھ کر اؔسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔“—لوقا ۲۲:۱۹، ۲۰، ۲۸-۳۰۔
۱۷ یسوع کی یہ باتیں سنکر رسولوں کو کتنی خوشی ہوئی ہوگی! اُنہیں ایک ایسا اعلیٰترین شرف بخشا گیا تھا جو شاید ہی کسی انسان کو حاصل ہوا ہو۔ (متی ۷:۱۳، ۱۴؛ ۱-پطرس ۲:۹) اُس سوداگر کی مانند، بادشاہی کی تلاش میں یسوع کی پیروی کرنے کے لئے اُنہوں نے بہت کچھ پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اب اُنہیں یقین ہو گیا تھا کہ اُن کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئی تھیں۔
۱۸. گیارہ رسولوں کے علاوہ اَور کون لوگ بادشاہت سے فائدہ اُٹھائیں گے؟
۱۸ اُس رات یسوع مسیح کیساتھ موجود رسولوں کو ہی بادشاہت سے فائدہ نہیں پہنچنا تھا۔ اُن کے علاوہ اَور لوگوں نے بھی بادشاہت سے فائدہ اُٹھانا تھا۔ یہوواہ کی مرضی میں یہ شامل تھا کہ یسوع مسیح کے ساتھ جلالی آسمانی حکومت میں دیگر لوگوں کو بھی حکمرانی دے۔ بادشاہتی عہد میں یسوع مسیح کے ساتھ ساتھی حکمرانوں کے طور پر میراث پانے والوں کی تعداد ۰۰۰،۴۴،۱ ہے۔ اِس کے علاوہ یوحنا رسول رویا میں دیکھتا ہے کہ ”ایک ایسی بڑی بِھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا . . . تخت اور برّہ *—مکاشفہ ۷:۹، ۱۰؛ ۱۴:۱، ۴۔
کے آگے کھڑی ہے۔ اور . . . کہتی ہے کہ نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے۔“ یہ بادشاہت کی زمینی رعایا ہے۔۱۹، ۲۰. (ا) سب قوموں کے لوگوں کے لئے کونسا موقع کھلا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس سوال پر باتچیت کی جائے گی؟
۱۹ یسوع نے آسمان پر جانے سے تھوڑا پہلے اپنے وفادار شاگردوں کو حکم دیا: ”پس تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوحاُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تُم کو حکم دیا اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) یوں سب قوموں کے لوگوں کو یسوع مسیح کے شاگرد بننا تھا۔ عمدہ موتی کی تلاش کرنے والے سوداگر کی طرح یہ سب لوگ بادشاہت پر دل لگاتے ہیں—خواہ اُن کا انعام آسمانی ہیں یا زمینی!
۲۰ یسوع مسیح کے الفاظ نے ظاہر کِیا کہ شاگرد بنانے کا کام ”دُنیا کے خاتمے“ تک ترقی کرتا رہے گا۔ چنانچہ کیا ہمارے زمانے میں خدا کی بادشاہت کی تلاش میں رہنے والے سوداگر ہیں جو اپنا سب کچھ دے ڈالنے کو تیار ہیں؟ اِس سوال پر اگلے مضمون میں باتچیت کی جائے گی۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 10 زبدی کا بیٹا یوحنا غالباً یسوع مسیح کے ساتھ تھا اور پہلی ملاقات کے بعد یسوع نے جوکچھ کِیا وہ اُس کی بابت گواہی دینے کے قابل تھا۔ اسی لئے یوحنا نے اپنی انجیل میں اس کا بڑی وضاحت سے ذکر کِیا ہے۔ (یوحنا ۲-۵ ابواب) تاہم یسوع مسیح کی دوبارہ ملاقات سے کچھ عرصہ پہلے اُس نے پھر سے مچھلیاں پکڑنے کا اپنا خاندانی کام شروع کر دیا تھا۔
^ پیراگراف 18 مزید تفصیلات کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کے ۱۰ باب کا مطالعہ کریں۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• ہم سوداگر کی تمثیل سے کیا اہم سبق حاصل کرتے ہیں؟
• یسوع مسیح نے بادشاہت کی قدروقیمت کے لئے گہری قدردانی کیسے دکھائی؟
• جب یسوع مسیح نے اندریاس، پطرس، یوحنا اور دیگر لوگوں کو اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا تو اُنہوں نے فوری طور پر کیسا جوابیعمل دکھایا؟
• سب قوموں کے لوگوں کے سامنے کونسا شاندار موقع ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
وہ سب کچھ چھوڑ کر یسوع مسیح کے پیچھے ہو لئے
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
آسمان پر جانے سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو شاگرد بنانے کا حکم دیا